کیا فرق داغ وگل میں، کہ جس گل میں بو نہ ہو تشریح

0

تعارفِ غزل : 

یہ شعر ہماری درسی کتاب کی غزل سے لیا گیا ہے۔ اس غزل کے شاعر کا نام خواجہ میر درد ہے۔ یہ غزل کتاب دیوانِ درد سے ماخوذ کی گئی ہے۔

تعارفِ شاعر : 

خواجہ میر درد ؔ کو اردو میں صوفیانہ شاعری کا امام کہا جاتا ہے۔ دردؔ اور تصوف ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم بن کر رہ گئے ہیں۔ دردؔ کے کلام میں تصوف کے مسائل اور صوفیانہ حسّیت کے حامل اشعار کی کثرت ہے لیکن انہیں محض اک صوفی شاعر کہنا ان کی شاعری کے ساتھ نا انصافی ہے۔ میر تقی میرؔ نے، جو اپنے سوا کم ہی کسی کو خاطر میں لاتے تھے، انہیں ریختہ کا “زور آور” شاعر کہتے ہوئے انہیں “خوش بہار گلستان، سخن” قرار دیا۔

(غزل نمبر ۲)

کیا فرق داغ وگل میں، کہ جس گل میں بو نہ ہو
کس کام کا وہ دل ہے کہ جس دل میں تو نہ ہو

تشریح : یہ غزل خواجہ میر درد نے لکھی ہے۔ اس شعر میں وہ کہتے ہیں کہ وہ بےخوبشو پھول کو فقط رنگوں کا دھبا کہتے ہیں جس کی کوئی وقعت نہیں، ایک پھول کی خوبی اس کی خوشبو میں ہے۔ اگر اس میں خوشبو نہیں تو اس کی کوئی قدرت و قیمت نہیں۔ صوفیہ کے یہاں خدا کو مرکز اور دل کو خدا کا گھر مانا جاتا ہے، میر درد بھی اسی فلسفہ کو مانتے ہیں اور وہ ہر شے میں خدا کی قدرت کو دیکھنے کے قائل ہیں۔ پھول کی قدر و قیمت اس کی خوشبو میں ہے تو انسانی قلب کی قیمت بھی اس وقت ہے جب اس میں خدا تعالیٰ کی وحدانیت ہو۔ اگر کسی دل میں خدا تعالیٰ کی یاد نہیں وہ دل بس گوشت کا ایک لوتھڑا ہے۔

ہووے نہ حول و قوت اگر تیری درمیاں
جو ہم سے ہو سکے ہے، سوہ م سے کبھو نہ ہو

تشریح : یہ غزل خواجہ میر درد نے لکھی ہے۔ اس شعر میں وہ اللہ تعالیٰ کی قدرت بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل نہ ہو تو ہم جو کچھ کررہے ہیں وہ کبھی نہ کر پائیں۔ اللہ تعالیٰ کو اس کائنات اور اس دنیا کی ہر چیز پر قدرت ہے وہ ہر شے پر کامل دسترس رکھتا ہے۔ اسی کی مرضی سے بارشیں ہوتی ہیں طوفان آتے ہیں کھیت اجناس اگاتا ہے۔ کوئی چیز اس کی قدرت سے افضل نہیں وہ ہر چیز سے بالا و برتر ہے۔ درد کے عہد میں لوگ پسماندگی کا شکار تھے انھوں نے لوگوں میں یہ بات واضح کی کہ یہ سب کچھ اللہ کی قدرت سے ہو رہا ہے جس سے لوگوں کو کچھ تقویت ہوتی۔ درد کے یہاں صوفیانہ فکر پائی جاتی ہے۔

جو کچھ کہ ہم نے کی ہے تمنا، ملی مگر
یہ آرزو رہی ہے کہ کچھ آرزو نہ ہو

تشریح : یہ غزل خواجہ میر درد نے لکھی ہے۔ اس شعر میں وہ کہتے ہیں کہ ہم دعاؤں کے ذریعہ جو کچھ اللہ تعالیٰ سے مانگتے ہیں وہ ہمیں عطا کرتا ہے چھوٹی سی چھوٹی ضرورت وہی پوری کرتا ہے۔ وہ ہماری ذات کو پورا کر دیتا ہے۔ مگر ہمیں بدلے میں اللہ تعالیٰ کو اپنے آپ کی سپردگی کرنی ہوگی ہمیں اپنے نفس کو مار کر اس کے راہ پر چلنا ہوگا۔ جب ہم اپنی خواہشات کو اس کے سامنے ڈھیر کر دیں گے تو پھر ہمیں ہماری مرضی اور ہماری چاہت کی نعمت عطا کرتا ہے۔ وہ ہمارا ہم سے زیادہ خیر خواہ ہے ، ہماری شہ رگ سے قریب تر ہے اس لیے ہر حال میں چاہے اچھا حال ہے یا برا رب تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔

جوں شمع جمع ہوویں گر اہلِ زبان ہزار
آپس میں چاہیے کہ کبھی گفتگو نہ ہو

تشریح : یہ غزل خواجہ میر درد نے لکھی ہے۔ اس شعر میں شاعر اپنے آپ کو شمع کی مانند قرار دیتے ہیں وہ شمع جو صبر و تحمل کا نام ہے شمع خود جل کر دوسروں کو روشنی دیتی ہے مگر کبھی شکوہ نہیں کرتی۔ شاعر بھی عشق حقیقی میں مبتلا ہو کر متحمل ہیں۔ وہ اللہ کی یاد میں کھوئے رہتے ہیں وہ شکوہ نہیں کرتے بس اللہ کی یاد میں شمع کی مانند خاموشی سے جلتے ہیں۔ عشق کے قرینوں میں ہے کہ شکوہ نہیں کیا جائے بلکہ خاموشی اور یکسوئی سے عبادت میں مستغرق ہوں۔ یہی خاموشی انسان کو مقصد کے قریب کرتی ہے۔ خاموشی سے ہی انسان کو مقصد میں کامیابی حاصل ہے۔

جوں صبح، چاکِ سینہ مرا، اے رفوگراں
ہاں تو کسو کے ہاتھ سے ہرگز رفو نہ ہو

تشریح : یہ غزل خواجہ میر درد نے لکھی ہے۔ اس شعر میں وہ کہتے ہیں کہ رات کے اندھیرے چھٹنے لگتے ہیں اور صبح چاروں اور سے طلوع ہوتی ہے اس روشنی کو کوئی اندھیرا روک نہیں سکتا۔اسی طرح وہ دیکھتے ہی دیکھتے پھیل جاتی اور سارے عالم پر اس پہنچ جاتی ہے۔ اس کی کوئی حدود طے نہیں ہوتیں۔ اسی طرح ایک سچے عاشق کے سینے کے چاک کو کسی رفو گر سے مرمت نہیں ہو سکتی اس کے سینے سے وہ روشنی صبح کے طلوع کے ایسے نکلتی ہیں۔ محبت میں دکھ اور زخم ملتے رہتے ہیں وہ عاشق کے لیے محبت کی سند ہوتے ہیں وہ انھیں سینا نہیں چاہتا بلکہ دنیا کو دکھانا چاہتا ہے کہ وہ سچا عاشق ہے۔

اے درد زنگ صورت اگر اس میں جا کرے
اہل صفا میں آئینہ دل کو رو نہ ہو

تشریح : یہ غزل خواجہ میر درد نے لکھی ہے اس شعر میں وہ کہتے ہیں صوفیہ یہ سمجھتے ہیں کہ گناہ کی روش سے انسانی دل کو اسی طرح زنگ لگتا ہے جس طرح دھوپ اور بارش میں لوہا پڑا رہے تو زنگ آلود ہو جاتا ہے اور زنگ اسے ڈھانپ لیتا ہے۔ اہل صوفیہ دل کو ایک آئینہ قرار دیتے ہیں کہ جس میں محبوب کا عکس نظر آتا ہے۔ اگر دل کے آئینے کو زنگ ڈھانپ لے تو پھر روئے محبوب اس میں نہیں دیکھا جا سکتا چونکہ محبوب حقیقی کی دید ہی صوفیہ کے ہاں انسان کے تکمیل اور کامیابی ہے اس لیے وہ گناہوں سے نہ صرف بچتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی بچنے کی تاکید کرتے ہیں تاکہ باطن گناہوں سے آلودہ نہ وہ اور محبوب حقیقی کی دید کا سامان میسر رہے۔

سوال 1 : خواجہ میر درد ایک باعمل صوفی اور اخلاقی اقدار کے علم بردار شاعر ہیں۔ بتائیے انھوں نے پہلی غزل کے مطلع سے مرادنہ وار کام کسے قرار دیا ہے؟

جواب : خواجہ میر درد ایک باعمل صوفی اور اخلاقی اقدار کے علم بردار شاعر ہیں۔ انھوں نے پہلی غزل کے مطلع میں مردانہ وار کام عظیم کاموں اور کارناموں کو کہا ہے۔ یہ مردانہ وار کام وہی لوگ کرتے ہیں جو اپنی جان قربان کرنے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔

سوال 2 : میر درد نے پہلی غزل کے دوسرے شعر میں فقیروں کی یہ خصوصیت بیان کی ہے کہ یہ لوگ تو مرنے سے پہلے ہی مر جاتے ہیں۔ اس کا مفہوم کیا ہے؟

جواب : میر درد نے پہلی غزل کے دوسرے شعر میں فقیروں کی یہ خصوصیت بیان کی ہے کہ یہ لوگ مرتے مر جاتے ہیں مگر انھیں دنیا کی دولت اور رنگینیوں سے کوئی دل چسپی نہیں۔ وہ دنیا کی تمام خواہشات کو مار کر ایسے جیتے ہیں انھیں دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ وہ جیتے جی مر چکے ہیں۔

سوال 3 : پہلی غزل کے چوتھے شعر کے حوالے سے بتائیے کہ بے ہنر جی سے کیسے اترجاتے ہیں۔

جواب : دل میں جگہ بنانا اور مقام پیدا کرنا بھی ایک فن ہے جو بے ہنر نہیں جانتے۔ بے ہنر صرف طاقت اور جبر کے زور پر آتے ہیں اس لیے کوئی مقام و مرتبہ حاصل نہیں کر سکتے اور ذہنوں سے اتر جاتے ہیں۔

سوال 4 : خواجہ میر درد نے دوسری غزل کے مطلع میں دل کے لیے لازمی چیز کیا قرار دی ہے؟

جواب : خواجہ میر درد نے دوسری غزل کے مطلع میں دل کے لیے لازمی چیز قرار دی وہ اللہ تعالیٰ کی یاد ہے۔

سوال 5 : شاعر نے دوسری غزل کے دوسرے شعر میں خدا سے مخاطب ہو کر کس بات کو تسلیم کیا ہے؟

جواب : شاعر نے خدا کو مخاطب کرکے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ اللہ کی مرضی و منشا سے ہی ہر کام سر انجام ہوتا ہے۔

سوال 6 : پہلی غزل کے تیسرے اور دوسری غزل کے چوتھے اور پانچویں شعر میں تشبیہ کی نشاندہی کیجیے؟

جواب : ان اشعار میں اہل بصیرت کو چنگاری سے، عاشق کو شمع سے اور چاک سینہ کو صبح سے تشبیہ دی گئی ہے۔

سوال 7 : درج ذیل تراکیب کے معنی لکھیے:

دیدوادید: ایک دوسرے کا دیدار کرنا
دل عالم: دنیا کے دل پر
آئینہ دل: دل کا شیشہ
چاک سینہ اہل صفا: دل کے شگاف
حول ولاقوت: اللہ تعالیٰ برتر و عظیم ہے۔
داغ و گل: پھول اور دھبے
اہلِ نظر: صاحب دانش و بینش

سوال 8 : مندرجہ ذیل محاورات کو اپنے جملوں میں اس طرح استعمال کیجیے کہ ان کا مفہوم واضح ہو جائے:

جان سے گزرجانا : جنگ بدر میں متعدد صحابہ کرام بے جگری سے لڑتے ہوئے جاں سے گزر گئے۔
منہ چڑھنا : کتنے بے ادبے شعراء کرام کے منہ چڑھتے ہیں مگر ناکام ہو کر گم نامی کے اندھیروں میں کھو جاتے ہیں۔
جی سے اترجانا : عزیز دوست کی بے وفائی کی وجہ سے وہ میرے جی سے اتر گیا۔