قطعات انور مسعود

0
  • نظم : قطعات انور مسعود
  • شاعر : انور مسعود
  • ماخوذ از : قطعہ کلامی

تعارفِ نظم :

یہ شعر ہماری درسی کتاب کی نظم ”قطعات“ سے لیا گیا ہے۔ اس نظم کے شاعر کا نام انور مسعود ہے۔ یہ نظم کتاب قطعہ کلامی سے ماخوذ کی گئی ہے۔

تعارفِ شاعر :

انور مسعود ۸ نومبر ۱۹۳۵ء کو گجرات میں پیدا ہوۓ۔ انہوں نے ایم اے فارسی کا امتحان ( گولڈ میڈل ) کے ساتھ اورینٹل کالج لاہور سے ۱۹۵۸ء میں پاس کیا۔ مختلف کالجوں میں فارسی اور ادب کے استاد رہے اچھے شاعر ہونے کے ساتھ ایک منجھے ہوئے پختہ نثر نگار بھی ہیں اور تحقیق و تنقید کا ذوق بھی رکھتے ہیں۔ اردو کے ساتھ ، پنجابی اور فارسی میں بھی شعر کہتے ہیں۔ ۱۹۷۸ء میں ان کی پنجابی شاعری کا پہلا مجموعہ میلہ اکھیاں دا کے نام سے چھپا۔ تحقیق وتنقید کے حوالے سے ان کی تصنیف فارسی ادب کے چند گوشے بھی خاصے کی چیز ہے۔ وہ ۱۹۹۵ء میں سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوۓ۔ ملک اور بیرون ملک مشاعروں میں ان کو خاص طور پر دعوت دی جاتی۔ ان کے پڑھنے کا انداز ان کی شاعری کو چار چاند لگا دیتا ہے۔ ان کے بہت سے کلام کو کیسٹوں اور سی ڈیز میں محفوظ کیا جا چکا ہے۔

تشریحات :

شعر : ۱

جو چوٹ بھی لگی ہے، وہ پہلی سے بڑھ کے تھی
ہر ضرب کربناک پہ میں تلملا اٹھا
پانی کا، سوئی گیس کا بجلی کا فون کا
بل اتنے مل گئے ہیں کہ میں بلبلا اٹھا

تشریح : انور مسعود جدید مزاحیہ شاعری میں نمایاں مقام رکھتے ہیں ، ان کی حس مزاح اور ان کا انداز نہایت لطیف ہے۔ ہمارے معاشرتی امراض پر ان کا تبصرہ نہایت شوخ اور تیکھا ہوتا ہے۔ اس قلعے میں انھوں نے ہمارے معاشرے کے عام آدمی کو در پیش مسائل کا نہایت ظافتہ انداز میں نقشہ کھینچا ہے کہ نئے زمانے کی ایجادات نے انسان کو مختلف سہولتیں عطا کر دی ہیں۔ صاف ستھرا پانی ہمیں گھر کی دہلیز پر دستیاب ہے، سوئی گیس نے ہمیں پرانے زمانے کے ایندھن کی صعوبتوں سے نجات دلا دی ہے، بجلی ہمارے گھروں میں بنیادی ترین ضرورتوں میں شمار ہونے لگی ہے اور چھوٹے بڑے ہر گھر میں ایک نوکرانی کی طرح خدمات انجام دیتی ہے۔ ٹیلی فون کی ایجاد نے دنیا کو گلوبل ولیج کی صورت عطا کر دی ہے۔ آپ گھر بیٹھے دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھے شخص سے باتیں کر سکتے ہیں، کوئی پیغام پہنچا سکتے ہیں ، کسی بھی پیارے کو سامنے دیکھ سکتے ہیں ،انٹرنیٹ استعمال کر سکتے ہیں۔

ان تمام اشیا کے فائدے اپنی جگہ لیکن ان کو استعمال کرنے کے عوض ہر ماہ جو بھاری بھاری بل ادا کرنے پڑتے ہیں وه انسان کی کمر توڑنے کے لیے کافی ہیں۔ ان بلوں کا صدمہ ان اشیا سے حاصل ہونے والی مسرتوں سے بھی پوری طرح لطف اندوز نہیں ہونے دیتا۔ ابھی انسان بجلی کا بل ادا کر کے کمر سیدھی بھی نہیں کر پاتا کہ اتنے میں سوئی گیس کا بل آن ٹپکتا ہے۔ اس کو ادا کر کے چین کا سانس لیتا ہی ہے کہ ٹیلی فون کا بل خطرے کی گھنٹی کی طرح نازل ہو جاتا ہے، بچی کچی کسر پانی کا بل نکال دیتا ہے۔ یہ سلسلہ اگر سال میں ایک آدھ بار ہو تو شاید انسان یہ کڑوا گھونٹ حلق سے اتار بھی لے لیکن یہ بل تو ہر مہینے آن دھمکتے ہیں ، جن کی آمد انسان کے لیے کسی دھچکے یا صدمے سے کم نہیں ہوتی۔ اس سلسلے میں لگنے والی ہر چوٹ پہلے سے زیادہ خوف ناک ہوتی ہے ، جن کی شدت محسوس کرنے کے بعد معقول سے معقول آدمی بھی پیچ و تاب کھانے لگتا ہے اور اس مشکل عہدہ سے باہر نکلنے کے منصوبے بنانے لگتا ہے۔

شعر : ۲

تمھاری بھینس کیسے ہے کہ جب لاٹھی ہماری ہے
اب اس لاٹھی کی زد میں جو بھی آئے سو ہمارا ہے
مذمت کاریوں سے تم ہمارا کیا بگاڑو گے؟
تمھارے ووٹ کیا ہوتے ہیں جب ویٹو ہمارا ہے

تشریح : معروف مزاح نگار انور مسعود نے ایک ضرب المثل “جس کی لاٹھی اسکی بھینس” کی آڑ لے کے عالمی طاقتوں پر نہایت گہرا اور شگفتہ طنز کیا ہے۔ عالمی ادارے اقوام متحدہ کا کردار اب کسی بھی فرد سے ڈھکا چھپا نہیں ہے کہ یہ ادارہ بڑی طاقتوں کے ہاتھ میں موم کی ناک کی طرح ہے، وہ اسے جب چاہیں اور جدھر چاہیں موڑ لیتے ہیں۔ شیطانی طاقتوں کا ازل سے یہی رواج رہا ہے کہ چھوٹے اور بڑے لوگوں کے لیے الگ الگ ضابطے بناۓ جاتے ہیں۔ وہاں مائٹ از رائٹ Might is Right کا دستور چلتا ہے جبکہ رحمانی صفات کی حاصل طاقتوں کے ہاں رائٹ از مائٹ کا رواج ہوتا ہے۔

دنیا میں عالمی مساوات اور انسانی حقوق کا نعرے لگانے والی طاقتوں نے اقوام متحدہ میں سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کو ویٹو کا حق عطا کر رکھا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ اقوام متحدہ میں پیش ہونے والی کسی بھی اہم سے اہم قرارداد کو کوئی ایک رکن بھی ہٹ دھرمی ، منافقت کینہ پروری یا ذاتی مفادات کی بنا پر ٹھکرا سکتا ہے۔ اس منافقانہ اختیار کے بل بوتے پر کشمیر کے مسئلے کو مستقل بنیادوں پر لٹکایا جا رہا ہے۔

یہ حق رکھنے والی تمام طاقتیں چونکہ غیر مسلم ہیں ، اس لیے اس میں مسلمان ممالک کے حق میں پیش ہونے والی قرارداد کو کسی نہ کسی رکن ملک کی ہٹ دھرمی کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے جس پر اسلامی ممالک محض ناک بھوں چڑھانے اور مذمتی بیان جاری کرنے پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔ شاعر نے ایسے ہی مذمت کار لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا ہے کہ تم محض مذمت کی قرارداد میں پیش کر کے ہمارا کیا بگاڑ سکو گے۔ تم ہمارے خلاف یا اپنے حق میں جیسی مرضی قرارداد، جتنے مرضی ووٹوں سے پاس کرا کے لے آؤ، ہم گھر بیٹھے چپکے سے اسے ویٹو کر دیں گے۔ کیونکہ ویٹو کی لاٹھی ہمارے ہاتھ میں ہے، اس لیے دنیاوی دساتیر کی بھینس کو ہم اپنی مرضی کے مطابق جدھر چاہیں گے، ہانکیں گے۔

اشعار نمبر ۳ :

اجڑا سا وہ نگر کہ ہڑپا ہے جس کا نام
اس قریہ شکستہ و شہر خراب سے
عبرت کی اک چھٹانک برآمد نہ ہو سکی
کلچر نکل پڑا ہے منوں کے حساب سے

تشریح : یہ جناب انور مسعود کا نہایت خوب صورت قطعہ ہے جس میں اپنی قومی ترجیحات اور معیارات پر زبردست قسم کا طنز کیا گیا ہے۔ انور صاحب فرماتے ہیں کہ ہماری قوم بھی عجیب بے راہ روی کا شکار ہے کہ اس نے اجڑی ہوئی بستیوں کے نشانات و باقیات کو تفریحی مقامات کی صورت دے رکھی ہے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ارشاد ہوتا ہے کہ تاریخ میں مذکور بے شمار بستیوں اور علاقوں کو وہاں کے لوگوں کی نافرمانی ، بے راہ روی اور مشرکانہ رسوم کی بنا پر صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا۔ ہنستے بستے شہر اس عتاب کی بنا پر زمین میں دھنسا دیے گئے یا ان پر کوئی آفت نازل کر دی گئی۔

ان کے آثار یا باقیات اس لیے باقی رہنے دی گئیں کہ آنے والی قومیں ان کی تباہی یا نافرمانی سے کوئی عبرت پکڑ سکیں، کچھ نصیحت حاصل کر سکیں اور خوف زدہ ہو کر اپنے اعمال ٹھیک کر لیں۔ دنیا بھر میں ایسے کھنڈرات کی نشانیاں موجود ہیں۔ وطن عزیز میں ایسے متعدد مقامات ہیں جن میں ایک مقام ہڑپا نامی بستی کا ہے جو ساہیوال کے جنوب مغرب میں چند میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ لوگ وہاں سے ملنے والی مختلف اشیا سے اس زمانے کے لباس ، زبان اور تہذیب و ثقافت کا اندازہ کرنے جاتے ہیں۔اسی شوق میں ہم نے وہاں سے منوں ٹنوں کے حساب سے ہزاروں سال پرانا کلچر تو دریافت کر لیا ہے لیکن عبرت کا معمولی سا احساس بھی ہمارے دلوں میں بسیرا نہیں کر سکا۔ ہم دیگر بے شمار معاملات کی طرح اس معاملے میں بھی قرآنی احکامات کو پس پشت ڈال کر مغربی اقوام کی طرز پر کلچر کلچر کی رٹ لگاۓ ہوۓ ہیں۔ جناب انور مسعود نے ہماری مجموعی بے حسی کی جانب کچھ اس انداز سے بھی اشارہ کیا ہے۔

ملک آدھا گیا ہاتھ سے تو چپ سی لگی ہے
اک لونگ گواچا ہے تو کیا شور مچا ہے یہ

اشعار نمبر ۴ :

كلركوں سے آگے بھی افسر ہیں کتنے
جو بے انتہا صاحب غور بھی ہیں
ابھی چند میزوں سے گزری ہے فائل
مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں

تشریح : یہ جناب انور مسعود کا شامل نصاب چوتھا قطعہ ہے جس میں ہمارے دفتری نظام کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ ہمارے دفتری نظام کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہاں زر پسند اور شر پسند لوگوں کا قبضہ ہے، جو رشوت کو شیر مادر کی طرح حلال سمجھتے ہیں۔ انھوں نے دل کی تسلی کے لیے اس حرام چیز کو تحفہ ،نذرانہ اور چائے پانی کا نام دے رکھا ہے۔ حدیث میں واضح طور ارشاد ہے کہ رشوت لینے والا اور رشوت دینے والا دونوں دوزخی ہیں لیکن اس ارشاد پاک کو نہ صرف ایک طرف رکھ دیا گیا ہے بلکہ دفتروں میں اس کا واضح طور پر مذاق اڑایا جارہا ہے۔ رشوت اب ہمارے دفتری عملے کی گھٹی میں شامل ہو چکی ہے۔ انھوں نے جائز کام کے راستے میں روڑے اٹکانے کے متعدد طریقے سوچ رکھے ہیں۔

ہمارے شاعر اسی دفتری عملے کی بد نیتی اور ہڈحرامی کا تذکرہ کرتے ہوۓ کہہ رہے ہیں کہ پہلی بات تو یہ ہے دفتر کے کلرکوں سے نمٹنا ہی آسان نہیں۔ اس پہ یہ کہ وہاں کے افسروں کے مزاج اور انداز بھی کلرکوں سے مختلف نہیں ہیں ، جو کسی جائز فائل یا کام میں رکاوٹ ڈالنے کے لیے اس پر کئی انداز سے سوچیں گے۔ کیونکہ خیر سے وہ صاحب غور واقع ہوۓ ہیں۔ شاعر اسی نظام کی مزید خامیوں کی نشان دہی کرتے ہوۓ کہہ رہا ہے کہ ہمارے ہاں یہ بھی ضروری نہیں کہ عملے کے کسی رکن کو خوش کر کے کام نکلوالیا جاۓ بلکہ اس میں اپنی فائل کے ساتھ ساتھ چلنا پڑتا ہے، فائل جوں جوں کلرکوں سے افسروں کی میز کی جانب سفر کرتی ہے ، سائل کو ہر مقام کی نزاکتوں اور ضرورتوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ اس قطعے میں شاعر مشرق کے شعر کی تضمین کی گئی ہے۔ اصل شعر کچھ یوں ہے :

اگر کھو گیا اک نشیمن تو کیا غم
مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں

جناب انور مسعود نے اس قطعے میں اسے نہایت مہارت اور چابک دستی کے ساتھ استعمال کر کے اس مفہوم کو کچھ کا کچھ بنا دیا ہے۔ ایک کامیاب مزاح نگار کا یہی کمال ہوتا ہے۔ اس شعر میں ہمارے دفتری نظام پر گہری چوٹ لگائی گئی ہے۔

سوال نمبر ۱ : شاعر نے پہلے قطعے میں کس معاشرتی مسئلے کی نشاندہی کی ہے؟

جواب : شاعر نے پہلے قلعے میں پے در پے آنے والے بلوں کے مسئلے کو نہایت خوب صورتی سے قلمبند کیا ہے۔

سوال نمبر ۲ : دوسرے قطعے میں شاعر نے طنز ومزاح کے انداز میں کس عالمی مسئلے کی طرف توجہ مبذول کرائی ہے؟

جواب : دوسرے قطعے میں شاعر نے عالمی طاقتوں کی ویٹو پاور کے ذریعے کی جانے والی من مانیوں، منافقت اور ناانصافیوں پر طنز کیا ہے۔

سوال نمبر ۳ : دوسرا قطعہ پڑھتے ہی ذہن میں کون سی معروف ضرب المثل آتی ہے اور اس کا مفہوم کیا ہے؟

جواب : دوسرا قطعہ پڑھتے ہی ذہن میں جو ضرب المثل آتی ہے ، وہ یہ ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ دنیا میں سارے مسئلے طاقت سے حل ہوتے ہیں جس کے پاس قوت اور اختیار ہے اس کا ہر عمل درست اور بجا ہے اور جو غریب ہے وہ بے بس کمزور ہے، اس کا ہر کام غلط اور فضول ہے ، شاعر مشرق نے اس لیے فرمایا تھا کہ

تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاسات

سوال نمبر ۴ : اپنے استاد سے معلوم کیجیے کہ ہڑپا کے کھنڈرات پنجاب میں کہاں واقع ہیں اور ان سے عبرت کا کون سا پہلو دکھتا ہے؟

جواب : ہڑپا کے کھنڈرات ساہیوال کے جنوب مغرب میں چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہیں اور ان سے عبرت کا یہ پہلو نکلتا ہے کہ مختلف زمانوں میں دنیا پر کسی نہ کسی نافرمانی کی بنا پر قوموں کی بستیاں الٹ دی گئیں اور وہ بستی اور شہر خدا کے عذاب کا شکار ہو گئے۔ ہمیں خدا کے عذاب سے پناہ مانگتے ہوۓ اپنے اعمال کا جائزہ لے لینا چاہیے۔

سوال نمبر ۵ : شاعر نے چوتھے قطعے میں ہمارے دفتری نظام کا کون سا المیہ بیان کیا ہے؟

جواب : چوتھے قطعے میں شاعر نے ہمارے دفتری نظام میں کینسر کی طرح خون میں سرایت کر جانے والی رشوت کا المیہ بیان کیا ہے۔

سوال نمبر ۶ : مندرجہ ذیل تراکیب کے معنی لکھیے۔

ضرب کرب ناک : اذیت ناک چوٹ ، تڑپا دینے والی ٹھوکر ۔
قری شکستہ: اجڑا دیار، ویران بستی ۔
شہر خراب: اجڑا ہوا شہر، ویران بستی ۔
صاحب غور : سوچنے والے ، غوروفکر کرنے والے۔
مذمت کاری : برا بھلا کہنا، قرارداد مذمت پاس کرنا ۔
مقامات آہو فغاں : رونے دھونے کے مواقع۔

سوال نمبر ۷ : اپنے استاد سے معلوم کیجیے کہ چوتھے قطعے کے آخری مصرعے کو واوین میں کیوں لکھا گیا ہے؟ اصطلاح میں اسے کیا کہتے ہیں؟

جواب : چوتھے قطعے کا آخری مصرع علامہ اقبال کی غزل کا ہے۔ جب کسی دوسرے شاعر کا کوئی مصرع جوں کا توں لے لیا جاۓ تو واوین میں لکھا جاتا ہے۔ ادبی اصطلاح میں اس عمل کو تضمین کہا جاتا ہے۔

سوال نمبر ۸ :قطعه ایسی صنف نظم ہے جس میں کم از کم دو شعر ہوتے ہیں جن میں دوسرا اور چوتھا مصرع ہم قافیہ و ہم ردیف ہوتا ہے اور ہر قطعے میں الگ مفہوم ادا کیا جاتا ہے۔ آپ اپنی لائبریری سے انور مسعود کا کوئی سا مجموعہ کلام حاصل کریں اور اس میں سے اپنی پسند کے مزید چار قطعات اپنی کاپی میں لکھیں۔

جواب : جناب انور مسعود کے چار خوبصورت قطعات ملاحطہ ہوں ، جو انور مسعود صاحب کی قطعہ کلامی کے مطالعے کے بعد مجھے بہت پسند آۓ :
1)

لارنس پور سے بھی وہ پورا نہ ہو سکا
حد سے بڑھا ہوا وہ مرا شوق نمود تھا
عزت مجھے ملی ہے تو لنڈے کے سوٹ سے
میں ورنہ ہر لباس میں تنگ وجود تھا

2)

گارا بنا رہا تھا جو مزدور راہ میں
دیکھو تو بے تکلفی اس مہربان کی
نالی کا آب نجس بھی اس میں ملا گیا
مٹی پلید کر گیا مالک مکان کی

3)

کتاب سے ہے عزیزوں کا رابطہ قائم
وہ اب بھی اس سے بہت فائدہ اٹھاتے ہیں
کبھی کلاس میں آتے تھے ساتھ لے کے اسے
اب امتحان کے کمرے میں لے کے جاتے ہیں

4)

افسوس کہ کچھ اس کو سوا ہم نہیں سمجھے
دیکھے ہیں علاقے کی سیاست کی جو تیور
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
والد کی جگہ لینے کو آ جاتی ہے دختر