ایک سفر نامہ جو کہیں کا بھی نہیں ہے

0
  • سبق : ایک سفر نامہ جو کہیں کا بھی نہیں ہے
  • مصنف : ابن انشا
  • ماخوذ : دنیا گول ہے

تعارفِ سبق : سبق ”ایک سفر نامہ جو کہیں کا بھی نہیں ہے“ کے مصنف کا نام ”ابن انشا“ ہے۔ یہ سبق آپ کی کتاب ”دنیا گول ہے“ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

تعارفِ مصنف :

ابنِ انشاء اپنے دور کے مشہور و معروف کالم نگار و مزاح نگار تھے۔ آپ سفر نامے بھی لکھتے تھے اور آپ کے سفر نامے آپ کے نثری اسلوب کے آئینہ دار ہیں۔ آپ کی تحریریں سادہ ، پُرمزاح اور رواں ہوتی ہیں۔ ان کے سفر نامے کے مطالعہ کرتے وقت قاری کو محسوس ہوتا ہے گویا کہ اس نے تمام مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے ہوں۔ ان کے سفر نامے پڑھتے وقت قاری کو اجنبیت یا بوریت کا احساس نہیں ہوتا ہے۔

خلاصہ :

اس سبق میں مصنف اپنے سفر کی تفصیل بیان کررہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ وہ ابتدا میں کابل کے بجائے پشاور کے ہوائی اڈے پر اترے کیونکہ کابل اس وقت گھنگور گھٹاؤں میں چھپا ہوا تھا اور وہاں جہاز کا اترنا ناممکن تھا۔ مصنف نے پشاور میں ڈین ہوٹل کے کمرہ نمبر ۴۷ میں قیام کیا۔ ہوٹل میں ہر چیز کشادہ تھی ،سواۓ مالکوں کے دل کے، ہوٹل کا ماضی بہت شاندار جبکہ حال نا گفتہ بہ تھا۔ مصنف اہلِ پشاور کی راہنمائی کے غیر محتاط انداز سے خائف ہوکر مزید سیر سے خائف ہو گئے۔
ڈاکٹر گلبرگ اپنی کتاب کے سلسلے میں برسوں گرین لینڈ میں اسکیمووں کے ساتھ مقیم رہے اور ان کی معاشرت اختیار کی ، انھی کے لیے بے نمک کھانے کھاۓ، جھونپڑوں میں قیام کیا ، پھر یہ کتاب لکھی۔ ڈاکٹر گلبرگ اور ان کی بیوی کو بطور سیاح ہندوستان میں اپنا قیام مختصر کرنا پڑا کیوں کہ وہاں سادھوؤں اور غیر سادھوؤں کی طرف سے گئوکشی کے معاملے پر خوف ناک مظاہرہ ہوا، جس میں مغربی سیاحوں کو بھی نشانہ بنایا گیا کہ وہ بھی گاۓ کا گوشت کھاتے ہیں۔ ان حالات میں ڈاکٹر گلبرگ نے وہاں اپنا قیام ترک کر کے نیپال کی راہ لی۔

مصنف بتاتے ہیں کہ افغستان میں کتابیں نہایت محدود تعداد میں موجود ہوتی ہیں۔ اس لیے کہ افغانستان میں کتابیں نہایت محدود پیمانے پر سرکاری مطبعوں میں چھپتی ہیں۔ قارئین بہت کم ہیں۔ بکتی ہی نہیں مطبوعہ کتابوں کا ایک حصہ دکان دار لے جاتے ہیں اور ان میں کشمش اور چلغوزے ڈال کے بیچتے ہیں۔

مصنف لکھتے ہیں کہ دریاۓ کابل جو شہر کے بیچوں بیچ بہتا ہے ، اس کا موازنہ دریائے ستلج ،سندھ ،گنگا ، جمنا کی بجاۓ کراچی وومن کالج کے پاس سے گزرنے والے گندے نالے سے کیا جاسکتا ہے۔ اس نام نہاد دریا کا پانی گندا، بدبو دار اور نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کے کنارے کہیں کوئی بڑھیا کپڑے دھورہی ہے ، کہیں بچے نہا رہے ہیں ، کہیں اس میں کوڑا پھینکا جارہا ہے۔ اس سب کے باوجود لوگ اس کا پانی پینے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں کیونکہ شہر کے پرانے علاقوں میں پائپ کا پانی دستیاب نہیں۔

۱- مختصر جواب دیجئے :

الف۔ مصنف ابتدا میں کابل کے بجائے پشاور کے ہوائی اڈے پر کیوں اترے؟

جواب : کیونکہ کابل اس وقت گھنگور گھٹاؤں میں چھپا ہوا تھا اور وہاں جہاز کا اترنا ناممکن تھا۔

ب۔ مصنف نے پشاور کے عرصہ قیام کے دوران میں کس ہوٹل میں قیام کیا اور یہ ہوٹل ان کو کیسا لگا ؟

جواب : مصنف نے پشاور میں ڈین ہوٹل کے کمرہ نمبر ۴۷ میں قیام کیا۔ ہوٹل میں ہر چیز کشادہ تھی ،سواۓ مالکوں کے دل کے، ہوٹل کا ماضی بہت شاندار جبکہ حال نا گفتہ بہ تھا۔

ج۔ ڈاکٹر گلبرگ پشاور کی سیر سے کیوں خائف ہوگئے؟

جواب : مصنف اہلِ پشاور کی راہنمائی کے غیر محتاط انداز سے خائف ہوکر مزید سیر سے خائف ہو گئے۔

د۔ ڈاکٹر گلبرگ نے اپنی کتاب اسکیمو ڈاکٹر لکھنے کے لیے کیا کیا جتن کیے؟

جواب : ڈاکٹر گلبرگ اس سلسلے میں برسوں گرین لینڈ میں اسکیمووں کے ساتھ مقیم رہے اور ان کی معاشرت اختیار کی ، انھی کے لیے بے نمک کھانے کھاۓ، جھونپڑوں میں قیام کیا ، پھر یہ کتاب لکھی۔

ہ۔ ڈاکٹر گلبرگ اور ان کی بیوی کو بطور سیاح ہندوستان میں اپنا قیام کیوں مختصر کرنا پڑا؟

جواب : اس لیے کہ وہاں سادھوؤں اور غیر سادھوؤں کی طرف سے گئوکشی کے معاملے پر خوف ناک مظاہرہ ہوا، جس میں مغربی سیاحوں کو بھی نشانہ بنایا گیا کہ وہ بھی گاۓ کا گوشت کھاتے ہیں۔ ان حالات میں ڈاکٹر گلبرگ نے وہاں اپنا قیام ترک کر کے نیپال کی راہ لی۔

و۔ ڈاکٹر گلبرگ کی بیوی نے کابل میں سنگترے کیسے خریدے؟

جواب : مصنف نے گدھے والے کو متوجہ کر کے ایک باٹ کی طرف اشارہ کیا جس کے مطابق اس نے سنگترے تول دیے۔ اسے دس افغانی کا نوٹ دیا گیا جس میں سے مطلوبہ رقم کاٹ کے اس نے بقایا دے دیا۔

ز۔ مصنف نے کابل جانے سے پہلے افغانستان کے بارے میں کیا پڑھا تھا؟

جواب : مصنف نے پڑھا تھا کہ : ادھر آپ نے درہ خیبر کے پار افغانستان کی نئی سرزمین میں قدم رکھا ، ادھر ایک صدی پیچھے پہنچ گئے۔

ح۔ افغانستان میں پبلشرز اور بک سیلرز کیوں نہیں ہوتے؟

جواب : اس لیے کہ افغانستان میں کتابیں نہایت محدود پیمانے پر سرکاری مطبعوں میں چھپتی ہیں۔ قارئین بہت کم ہیں۔ بکتی ہی نہیں مطبوعہ کتابوں کا ایک حصہ دکان دار لے جاتے ہیں اور ان میں کشمش اور چلغوزے ڈال کے بیچتے ہیں۔

ط۔افغانستان میں ریلوے لائن کیوں نہیں ہے؟

جواب : اس لیے کہ شاہ امان اللہ خاں نے جو تھوڑی بہت لائن بچھائی تھی ، اسے بچہ سقہ نے فرنگیوں کی بدعت قرار دے کر اکھاڑ پھینکا۔

2 : مصنف نے دریائے کابل کا جو نقشہ کھینچا ہے اسے اپنے الفاظ میں بیان کیجیے :

جواب : دریائے کابل جو شہر کے بیچوں بیچ بہتا ہے ، اس کا موازنہ دریائے ستلج ،سندھ ،گنگا ، جمنا کی بجاۓ کراچی وومن کالج کے پاس سے گزرنے والے گندے نالے سے کیا جاسکتا ہے۔ اس نام نہاد دریا کا پانی گندا، بدبو دار اور نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کے کنارے کہیں کوئی بڑھیا کپڑے دھورہی ہے ، کہیں بچے نہا رہے ہیں ، کہیں اس میں کوڑا پھینکا جارہا ہے۔ اس سب کے باوجود لوگ اس کا پانی پینے کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں کیونکہ شہر کے پرانے علاقوں میں پائپ کا پانی دستیاب نہیں۔

۳- درج ذیل الفاظ کا تلفظ اعراب کی مدد سے واضح کیجئے :

تُورَان ،
تَعُوِیقُ ،
کُلَہ،
کَمَا حَقّہ،
کَسَرِنَفسِی،
بِدُعَّت ،
آثَارِ صَنَادِید ،
خَشُمَگِین۔

۴- درج ذیل محاورات کو اپنے جملوں میں اس طرح استعمال کیجئے کہ ان کا مہفوم واضح ہو جائے :

کچا پڑنا : جب جھوٹ سچ کا نتارا ہو گیا تو ایوب پوری محفل کے سامنے کچا پڑا کہ کاٹو تو بدن میں لہو نہیں۔
نظر لگنا پتا نہیں اس ملک کو کس کی نظر لگ گئی ہے کہ حالات سدھرنے ہی نہیں پاتے۔
مچل جانا دکان پر ڈھیر سارے کھلونے دیکھ کر بچہ مچل گیا۔
پلے پڑنا تمھاری یہ کہانی کم از کم میرے تو پلے نہیں پڑتی۔
سر منڈھنا : میرا یہ قلم خریدنے کا ارادہ تو نہ تھا، دکان دار نے خواہ مخواہ میرے سر منڈھ دیا۔
جان چھوٹنا : چلو اچھا ہوا مسئلہ حل ہو گیا اور اس طرح روز روز کی کل کل سے جان چھوٹی۔
بے مزہ ہونا : سب لوگ خصوصاً بچے، بڑے اہتمام سے تیار ہوۓ مگر چڑیا گھر پہنچے تواسے بند پاکر بے حد بے مزہ ہوئے۔

۵- سبق کے متعن کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے خالی جگہ کو پر کیجئے :

الف۔ایسے لوگوں کا ہم ذکر نہیں کرتے جو ہم سے جل کر ۔۔۔۔۔۔۔ پر اتر آئیں
( مار کٹائی، توتکار، طعنے تشنے✓)

ب- آتش دان میں آتش کی ۔۔۔۔۔۔ رہی ہے۔
(جل، دہک ✓ ، سلگ)

ج۔ ان کی واضح قطع ۔۔۔۔ سب سے الگ تھی۔
(سج دھج ✓، شکل وصورت، تراش خراش)

د۔ افغانستان میں ریلوے نام کی کوئی چیز نہیں یہ ۔۔۔۔۔۔۔ تمھی کو مبارک ہو۔
(بدعت، ایجاد ، شیطانی چرخہ✓)

ہ۔ پورے ملک میں مطبعوں کی تعداد ۔۔۔۔۔۔ ہے۔
( پانچ ✓، پچاس ،انگنت)

و۔ شاہ امان اللہ خان نے اپنے زمانے میں ۔۔۔۔۔۔۔۔ نام کی تازہ بستی بسائی تھی۔
( دارالعلوم، دارالامان ✓ ، دارالسلام )

۶- مندرجہ ذیل جملوں کو مطابقت کے اصول کے پیش نظر درست کر کے لکھیے :

الف۔ مکاتبت غالب جب گئے ہیں۔
مکاتبت غالب چھپ گئی ہیں۔

ب۔ جلسے میں عورتیں بھی آئیں ہوئیں ہیں۔
جلسے میں عورتیں بھی آئی ہوئی ہیں۔

ج۔ میاں بیوی ہنسی خوشی رہتی ہے۔
میاں بیوی ہنسی خوشی رہتے ہیں۔

د۔ گھر عورت کی سلطنت ہوتی ہے۔
گھر عورت کی سلطنت ہوتا ہے۔

و۔ نیکی کا راہ بہت کٹھن ہے۔
نیکی کی راہ بہت کٹھن ہے۔