Advertisement
Advertisement

شاعر : خواجہ حیدر علی آتش

Advertisement

تعارفِ غزل :

یہ شعر ہماری درسی کتاب کی غزل سے لیا گیا ہے۔ اس غزل کے شاعر کا نام خواجہ حیدر علی آتش ہے۔

تعارفِ شاعر :

خواجہ حیدر علی آتش دلی میں پیدا ہوئے۔ شاعری میں آپ مصحفی کے شاگرد بنے تھے۔ بادشاہ آپ کو ازرہِ قدردانی اسی روپے ماہانہ دیتے تھے۔ ان کی شاعری میں زبان کالطف اور الفاظ کی چاشنی ہے۔ آپ کا کلام دیوانِ آتش کے نام سے موجود ہے۔

Advertisement
ہوائے دور مے خوش گوار راہ میں ہے
خزاں چمن سے ہے جاتی بہار راہ میں ہے

تشریح :

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ خوشگوار موسم آنے والا ہے، یعنی ہم اپنے محبوب سے ملنے والے ہیں۔ اور ہمارے دل میں موجود بے چینی جانے والی ہے۔ بہار راہ میں ہیں کیونکہ ہمارا محبوب آرہا ہے اور اب ہم اس سے مل سکیں گے اور اپنے تڑپتے دل کو تسکین پہنچا سکیں گے۔

Advertisement
عدم کے کوچ کی لازم ہے فکر ہستی میں
نہ کوئی شہر نہ کوئی دیار راہ میں ہے

تشریح :

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ اگر ہمارا محبوب نہ آیا تو ہمیں اس دنیا سے جانے کی فکر رہے گی۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ ہمارا اس دنیا میں اپنے محبوب کے علاوہ کوئی نہیں ہے۔ نہ ہی ہمارا کوئی اپنا اس شہر میں موجود ہے اور نہ ہی پردیس میں ہمارا کوئی اپنا موجود ہے جس کے سہارے ہم زندگی گزار سکیں۔

نہ بدرقہ ہے نہ کوئی رفیق ساتھ اپنے
فقط عنایت پروردگار راہ میں ہے

تشریح :

اس شعر میں شاعر اپنی خستہ حالی بیان کر رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم اپنے سفر پر رواں دواں ہیں، لیکن ہمارے ساتھ کوئی موجود نہیں ہے۔ ہمارے پاس اللہ تعالی یعنی ہمارے رب پروردگار کی عنایت و رحمتیں موجود ہیں اور اس کے علاوہ ہمارا کوئی ساتھی نہیں ہے جو سفر میں ہمارا ساتھ دے۔

Advertisement
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزار ہا شجر سایہ دار راہ میں ہے

تشریح :

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ اگر ہمارے ساتھ ہمارے سفر میں کوئی موجود نہیں ہے، تو کیا ہو؟ اس سفر کی یعنی زندگی گزارنے کی شرط یہ نہیں ہے کہ مسافر کے ساتھ کوئی اور انسان بھی موجود ہو بلکہ اللہ تعالی نے ہماری آسانی کے لئے راستے میں ہزاروں سایہ دار درخت بھی موجود رکھے ہیں۔ یعنی ہمیں زندگی میں بہت سے اچھے لوگ ملتے ہیں جو سایہ دار درختوں کی مانند ہوتے ہیں۔ جو ہمارے لئے آسانی پیدا کرتے ہیں۔

مقام تک بھی ہم اپنے پہنچ ہی جائیں گے
خدا تو دوست ہے دشمن ہزار راہ میں ہے

تشریح :

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ ہم نے اپنا سفر جس مقصد کے تحت شروع کیا ہم وہ مقصد حاصل کرلیں گے اور اپنی زندگی میں آنے کا مقصد بھی پورا کر لیں گے کہ خدا تو ہمارا دوست ہے۔ لیکن وہ کہتے ہیں کہ ہمارے بہت سارے دشمن بھی ہیں اور ہمارے ان دشمنوں سے لڑنے کے لیے ہمارا ایک دوست یعنی خدا ہی کافی ہے۔

تھکیں جو پاؤں تو چل سر کے بل نہ ٹھہر آتش
گُلِ مراد ہے منزل میں خار راہ میں ہے

تشریح :

اس شعر میں شاعر اپنے آپ کو مخاطب کرتے ہیں اور نصیحت کرتے ہیں کہ اگر تم سفر طے کرتے کرتے تھک جاؤ، تو سر کے بل چلنا شروع کر دو یعنی آہستہ آہستہ اپنے سفر کو جاری رکھو۔ لیکن کہیں رکو مت، کیونکہ تمہارا مقصد گُل ہے یعنی بہار ہے۔ تمہارا مقصد لوگوں کو محبت فراہم کرنا ہے اور تمہاری منزل بھی یہی ہے۔ جب کہ راستے میں تمہیں سوائے کانٹوں کے سوا کچھ اور نہیں ملے گا، اس لیے اس لیے ان کانٹوں کے ساتھ رُکنے کے بجائے یہ بات زیادہ اچھی ہے کہ تم آہستہ آہستہ اپنے سفر کو جاری رکھو اور اپنی منزل کے قریب پہنچتے رہو۔

Advertisement

Advertisement