چراغ کی لو

0

سوال 3 : افسانہ “چراغ کی لو” کا خلاصہ لکھیں۔

تعارفِ سبق

سبق ”چراغ کی لو“ کی مصنفہ کا نام ”ہاجرہ مسرور“ ہے۔ یہ سبق کتاب ”سب افسانے میرے“ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

تعارفِ مصنف

ہاجرہ مسرور کا آبائی تعلق ہندوستان کے مرکزِ علم و ادب لکھنئو سے تھا۔ جہاں وہ 17جنوری 1929ء کو پیدا ہوئی تھیں۔ ہاجرہ مسرور کی پیدائش کے کچھ برس بعد دل کے دورے سے ان کے والد انتقال کرگئے اور خاندان کی ذمہ داری ان کی والدہ کے کاندھوں پر آگئی۔ ہاجرہ مسرور کی بہنیں خدیجہ مستور اور اختر جمال بھی اْردو کی معروف ادیب تھیں۔ ان کے ایک بھائی توصیف احمد صحافت سے وابستہ رہے جبکہ ایک اور بھائی خالد احمد کا شمار اپنی نسل کے ممتاز شاعروں میں ہوتا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد ہاجرہ مسرور اپنے اہل خانہ کے ساتھ پاکستان آگئیں اور لاہور میں سکونت اختیار کرلی۔

خلاصہ

اس افسانے میں مصنفہ کی جانب سے غریب آدمی کے ساتھ ہونے والے رویے پر تنقید کی ہے۔ اس افسانے میں مصنفہ بیان کرتی ہیں کہ انسان کسی کی مدد اس کی زندگی میں نہیں کرتا، نہ کسی کی بیماری کا علاج کرواتا ہے اور نہ ہی مالی مدد کرتا ہے۔ مگر غریب کے مرنے کے بعد نیک عمل اور ثواب کی نیت سے اس کے کفن دفن کا انتظام ضرور کردیتا ہے۔

اس افسانے کے آغاز میں اچھن اپنے ابا کا انتظار کررہی ہوتی ہے جو دکان سے آنے کے بعد ناجانے کہاں چلا جاتا ہے۔ اچھن کو اپنی ماں کے مرنے کے بعد سے وہم کی بیماری ہوچکی ہوتی ہے اور رات کے علاوہ دوپہر کے وقت بھی اسے سفید کپڑوں والی لاشیں اپنی طرف آتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔

اچھن کا باپ دس روپے کے عوض ایک دکان پر بطورِ منشی کام کرتا ہے اور اپنی بیوی کے مرنے پر اس کے کفن دفن کے لیے اپنی مالک سے مدد مانگتا ہے۔ جس مالک نے ساری زندگی اس کی بیوی کے علاج میں اس کی مدد نہیں کی تھی وہ کفن دفن کے لیے اسے پچیس روپے دے دیتا ہے اور واپسی کا تقاضا بھی نہیں کرتا ہے کہ یہ تو نیکی کا کام ہے۔
اب کہ اچھن کی حالت بھی اپنی ماں جیسی ہوتی جاتی ہے لیکن منشی سب جاننے کے باوجود اس قدر مہنگائی کے دور میں جب کھانے کے لالے پڑے ہوں تو اپنی بیٹی کے لیے ڈاکٹر نہیں لاسکتا۔

اچھن کا باپ گھر آکر اپنی بیٹی کو دیا سلائی دیتا ہے اور اچھن چراغ روشن کر کے روز کی طرح اس کی لو بڑھانے کی ضد کرتی ہے جس پر اچھن کا باپ اسے ڈانٹتا ہے کہ تیل اتنا ہی ہے کہ چراغ کی لو جل سکے۔ تم ہر روز اس لو کو بڑھانے کی ضد نہ کیا کرو جب کہ تمھیں مہنگائی کا علم بھی ہے۔ اچھن اپنے والد کے اس رویے پر افسردہ ہوجاتی ہے اور اپنے بستر پر جا کر بیٹھ جاتی ہے۔ اسے اپنے والد کی قناعت پسندی پر غصہ آتا ہے لیکن وہ یہ نہیں سوچتی کہ امیر لوگ غریبوں کے مرنے پر ان کے کفن دفن کا انتظام تو کرسکتے ہیں لیکن ان کے جیتے جی ان کی کوئی مدد نہیں کرسکتے۔

سوال 1 : افسانہ “چراغ کی لو” کا متن مدِنظر رکھتے ہوئے درج ذیل سوالات کے مختصر جواب لکھیں۔

۱ : اچھن کس بیماری میں مبتلا تھی؟

جواب : اچھن ماں کے گزرنے کے بعد وہم کے مرض میں مبتلا تھی۔

۲ : اچھن کا باپ کیا کام کرتا تھا؟

جواب : اچھن کا باپ ایک دکان پر دس روپے کے عوض حساب کتاب لکھتا تھا۔

۳ : دکان کے مالک نے منشی جی کو روپے کیوں دے دیے؟

جواب : دکان کے مالک نے منشی جی کو روپے اس لیے دیئے کہ کفن دفن کا انتظام کرنا نیکی کا کام ہے۔

۴ : اچھن کے لہجے میں کس بات کی آرزو اور خوشامد تھی؟

جواب : اچھن کے لہجے میں چراغ کی لو بڑھانے کی آرزو اور خوشامد تھی۔

۵ : اچھن کے ابا نے یہ کیوں کہا کہ میں بیڑی نہیں پیوں گا؟

جواب : اچھن کے ابا نے جب اچھن کو رنجیدہ دیکھا تو خیال آیا کہ شاید وہ ان کے بیڑی پینے کی وجہ سے رنجیدہ ہے۔ اس لیے انہوں نے اچھن س کہا کہ میں بیڑی نہیں پیوں گا۔

٦ : اس افسانے میں ہمارے کس معاشرتی رویے پر تنقید کی گئی ہے؟

جواب : مصنف نے اس افسانے میں غریب آدمی کے ساتھ ہونے والے رویے پر تنقید کی ہے کہ انسان کسی کی مدد اس کی زندگی میں نہیں کرتا، نہ کسی کی بیماری کا علاج کرواتا ہے اور نہ ہی مالی مدد کرتا ہے۔ مگر غریب کے مرنے کے بعد نیک عمل اور ثواب کی نیت سے اس کے کفن دفن کا انتظام ضرور کردیتا ہے۔

سوال 2 : افسانہ “چراغ کی لو” کا مرکزی خیال تحریر کریں۔

جواب : اس افسانے میں مصنفہ کی جانب سے غریب آدمی کے ساتھ ہونے والے رویے پر تنقید کی ہے۔ افسانہ ”چراغ کی لو“ کا مرکزی خیال یہ ہے کہ کہ انسان کسی کی مدد اس کی زندگی میں نہیں کرتا، نہ کسی کی بیماری کا علاج کرواتا ہے اور نہ ہی مالی مدد کرتا ہے۔ مگر غریب کے مرنے کے بعد نیک عمل اور ثواب کی نیت سے اس کے کفن دفن کا انتظام ضرور کردیتا ہے۔