ٹھانی تھی دل میں اب نہ ملیں گے کسی سے ہم تشریح

0

تعارفِ غزل :

یہ شعر ہماری درسی کتاب کی غزل سے لیا گیا ہے۔ اس غزل کے شاعر کا نام مومن خان مومن ہے۔

تعارفِ شاعر :

مومن اردو کے ان چند باکمال شاعروں میں سے ایک ہیں جن کی بدولت اردو غزل کی شہرت اور مقبولیت کو چار چاند لگے۔ مومن نے اس صفن کو ایسا عروج بخشا اور ایسے استادانہ جوہر دکھائے کہ غالب جیسا خود نگر شاعر ان کے ایک شعر پر اپنا دیوان قربان کرنے کو تیار ہو گیا۔ مومن صنف غزل کے صف اوّل کے شاعر ہیں۔ انہوں نے اردو شاعری کی دوسری اصناف،قصیدے اور مثنوی میں بھی طبع آزمائی کی لیکن ان کا اصل میدان غزل ہے جس میں وہ اپنی طرز کے واحد غزل گو ہیں۔

ٹھانی تھی دل میں اب نہ ملیں گے کسی سے ہم
پر کیا کریں کہ ہو گئے ناچار جی سے ہم

تشریح :

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ میرے دوست مجھ سے دور دور رہنے لگتے ہیں۔ وہ میری موجودگی میں بھی مجھے نظر انداز کر دیتے ہیں۔ مجھ سے اجتناب کرتے ہیں اور بےنیازی کا رویہ اپناتے ہیں تو میں بھی نے اب سوچ لیا ہے کہ ان سے دامن چھاڑ لیا جائے۔ اب میں ان کی محفلوں میں نہیں جاؤں گا وہ میری قدر نہیں کرتے۔ میں نے اب پختہ ارادہ کر لیا ہےکہ اب بےقدرے لوگوں کےساتھ میل جول نہ رکھوں گا۔ مگر میرا دل میرے اس ارادے میں میرا ساتھ چھوڑ گیا۔ میں اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہوں کہ مجھے ان سے روابط برقرار رکھنا پڑ رہا ہے۔

ہنستے جو دیکھتے ہیں کسی کو کسی سے ہم
منہ دیکھ دیکھ روتے ہیں کس بے کسی سے ہم

تشریح :

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ میرے دوست مجھ سے دور دور رہتے ہیں۔ وہ میرا خیال نہیں کرتے میری موجودگی کو خاطر میں نہیں لاتے۔ بلکہ مجھ سے ناگواری کا رویہ استوار رکھتے ہیں۔میرے دوست تو میری قدر نہیں کرتے مگر جب میں کسی اور کو اپنے دوستوں سےہنس ہنس کر باتیں کرتا دیکھتا ہوں تو میرا دل دکھتا ہے۔ مجھے میرےدوستوں کا ناروا سلوک ستاتا ہے۔شاعر لوگوں کو آپس میں ہسنی مذاق کرتا دیکھ کر اپنے دل کو جلتا محسوس کرتا ہے۔ شاعر انتہائی بے بسی کا شکار ہے اور ناراض دوستوں کی بے رخی سے خفگان لیے ہوئے ہے۔

ہم سے نہ بولو تم اسے کیا کہتے ہیں بھلا
انصاف کیجے پوچھتے ہیں آپ ہی سے ہم

تشریح :

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ میرا محبوب مجھ سے ناراض ہے۔ وہ میری بری حالت کو خاطر میں نہیں لاتا وہ مجھ سے اجتناب برتا ہے۔اسے میرا زرا خیال نہیں۔ وہ مجھ سے روٹھ کر دوسروں کی محفلوں کی رونق بنا ہوا ہے۔ محبوب شاعر سے اس قدر ناراض ہے کہ اس سے بات تک کرنا گوارا نہیں کرتا۔یہی بات شاعر کا دل دکھاتی ہے۔ وہ محبوب سے اس کے نامناسب رویے پر سوال کرتا ہے کہ محبت کرنے والوں سے اس طرح کا سلوک کس لیے۔ وہ محبوب کو اپنے ساتھ ناروا سلوک پر منصف بنانا چاہتا ہے کہ وہ خود ہی اپنے رویے پر نظر ثانی کرے کہ آیا وہ اپنے عاشق کے ساتھ درست کررہا ہے۔

بیزار جان سے جو نہ ہوتے تو مانگتے
شاہد شکایتوں پہ تری مدعی سے ہم

تشریح :

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ میرے محبوب کی بدگمانیاں اور بے وفائیاں تو اپنی جگہ مگر وہ عاشق کے سچے جذبوں کو بھی تنازعہ بناتا ہے۔رقیب کو محبوب کا قرب حاصل ہے اس لیےوہ عاشق پر الزام لگاتا ہے۔ تاکہ محبوب کی نظر میں اس کی وقعت کم ہو جائے۔ محبوب اس میں زرا دلچسپی نہ لے۔ شاعر محبوب کی ناراضیوں کی وجہ رقیب کی الزام تراشیوں کو دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میرا محبوب مجھ سے رقیب کی وجہ سے ناراض ہےوہ میرے خلاف محبوب کی ذہن سازی کر رہا ہے۔ اب جبکہ میرا محبوب مجھ سے بے نیاز ہو گیا ہے تو میرے جینے کا کیا فائدہ۔ میری محبت کو مجھ سے دور کرلیا گیا ہے اب میرے پاس کچھ بھی باقی نہیں رہا۔ وہ محبوب کو کہتے ہیں کہ تم نے غیروں کی باتوں پر یقین کر لیا اور افسوس تم نے لوگوں کی جھوٹی باتوں کی وجہ سے میری سچی محبت کو ٹھکرا دیا۔

بے روئے مثل ابر نہ نکلا غبار دل
کہتے تھے ان کو برق تبسم ہنسی سے ہم

تشریح :

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ میں اپنے محبوب کے حسن و جمال کا اسیر ہو گیا ہوں۔ میں نے جب سے محبوب کو دیکھا ہے میرا دل بےقرار ہو گیا ہے۔ میں اس کی محبت میں مبتلا ہوا اس کی خوبصورت مسکراہٹ نے میرا دل موہ لیا ہے۔ اسکی مسکراہٹ میرے لئے عزیز تر ہے۔ محبوب کی مسکراہٹ سے جو کیفیت مجھ پر تاری ہوتی ہے وہ بالکل ایسی ہے جیسے بادلوں میں کڑکتی بجلی ہو تو بادل بارش برسا کر ہلکے ہو جاتے ہیں۔ ایسے ہی عاشق بھی آنسو بہا کر دل کو ہلکا کر دیتا ہے۔

کیا گل کھلے گا دیکھیے ہے فصل گل تو دور
اور سوئے دشت بھاگتے ہیں کچھ ابھی سے ہم

تشریح :

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ جب بہار کا موسم آتا ہے جب بادل برستے ہیں۔ پرندے اپنے اپنے ہمسفر کے ساتھ آسمانوں میں اڑتے ہیں۔ سبز درختوں نیا پیراہن اوڑھ لیتے ہیں۔ تب مجھے محبوب کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ اس برسات میں وہ میرے ساتھ ہوتا تو کیا ہی اچھا ہوتا۔ وہ برسات کے موسم میں اکیلا اس کی یادوں میں تڑپتا ہے۔ جب یہ بے چینی اس کی برداشت سے باہر ہو جاتی ہے تو عاشق دیوانہ وار جنگلوں کی طرف بھاگ جاتا ہے۔ اسے پھر بیابانوں میں جو اس کی طرح اجڑے ہوں میں سکون ملتا ہے۔

لے نام آرزو کا تو دل کو نکال لیں
مومنؔ نہ ہوں جو ربط رکھیں بدعتی سے ہم

تشریح :

اس شعر میں شاعر لکھتے ہیں کہ شاعر ایک عبادت گزار اور مذہبی پس منظر سے وابستہ انسان ہیں۔ وہ نیک و پرہیزگار ہیں مگر وہ یہ اعتراف کرتے ہیں کہ میرے دل میں محبوب کی محبت کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ میرے دل میں ایک ہی حسرت ہے اور وہ محبوب کی دید ہے اس کا قرب حاصل کرنا ہے۔ دنیاکی کسی دوسری خواہش کی مجھے تمنا نہیں۔ یہ ایک ایسی بدعت ہے جو صالحین کے یہاں بری مانی جاتی ہے مگر وہ کہتے ہیں کہ اگر کسی دوسری خواہش کی بدعت نے میرے دل میں جگہ لینےکی کوشش کی تو وہ اس بدعت کو سینے سے نکال پھینکیں گے۔ شاعر کے دل میں محبوب ہے اور اس کے علاوہ کسی دوسری خواہش کی بدعت نہیں۔

سوال 1 : خالی جگہ پر کر کے مندرجہ ذیل اشعار مکمل کریں :

1 : چارہ دل سوائے صبر نہیں
سو تمھارے ۔۔۔۔ نہیں ہوتا (سوا)

2 : اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا
۔۔۔ راحت فزا نہیں ہوتا (رنج)
3 : ٹھانی تھی دل میں اب نہ ملیں گے کسی سے ہم
پر کیا کریں کہ ہو گئے۔۔۔۔۔جی سے ہم (ناچار)

سوال 2 : مختصر جواب دیں۔

1 : مومن کی پہلی غزل کی ردیف کیا ہے؟

جواب : مومن کی پہلی غزل میں “نہیں ہوتا” ردیف ہے۔

2 : مومن کی دوسری غزل کے قوافی لکھیں۔

جواب : مومن کی دوسری غزل میں ”کسی، جی ، بےکسی، ہی ، مدعی، ہنسی، ابھی ، بدعتی“ قافیہ ہیں۔

3 : مومن کی پہلی غزل کا مطلع لکھیں۔

جواب : اثر اس کو ذرا نہیں ہوتا
رنج راحت فزا نہیں ہوتا

4 : مومن کی دوسری غزل کا مقطع لکھیں۔

جواب : لے نام آرزو کا تو دل کو نکال لیں
مومنؔ نہ ہوں جو ربط رکھیں بدعتی سے ہم

سوال 3 : تشریح کیجیے۔

تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

تشریح :

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ دنیا میں کوئی کام مشکل نہیں، دنیا میں ہر چیز ممکن ہے۔ اسی دنیا میں معجزات رونما ہوتے ہیں۔ اور اسی دنیا میں ایسے ایسوں کے دن پھر گئے جن کی مفلسی کے چرچے عام تھے۔ اسی دنیا میں کینسر اور دیگر ناقابل علاج بیماریوں سے لوگ صحت یاب ہوئے ہیں۔ اسی دنیا میں ہارتے کو جیتتے اور جیتتے کو ہارتا دیکھا ہے۔ جب اس دنیا میں یہ سب ممکن ہے تو پھرشاعر اور اس کے محبوب کا ملنا کیوں نہیں۔ شاعر کہتے ہیں میں نے محبوب کو پانے کے لئے ہر کوشش کی، اس کے لئے دنیا کے خلاف کھڑاہو گیا اس کی خاطر ہر دکھ جھیلا ہر مصیبت سے دوچارہوا مگر وہ پھر بھی مجھے نہیں مل سکتا۔شاعر کہتا ہے اس دنیا میں ہر چیز ممکن ہے تو پھر میرا میرے محبوب سے نہ ملنا کیوں کر ناممکن ہے۔

کیا گل کھلے گا دیکھیے ہے فصل گل تو دور
اور سوئے دشت بھاگتے ہیں کچھ ابھی سے ہم

تشریح :

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ جب بہار کا موسم آتا ہے جب بادل برستے ہیں۔ پرندے اپنے اپنے ہمسفر کے ساتھ آسمانوں میں اڑتے ہیں۔ سبز درختوں نیا پیراہن اوڑھ لیتے ہیں۔ تب مجھے محبوب کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ اس برسات میں وہ میرے ساتھ ہوتا تو کیا ہی اچھا ہوتا۔ وہ برسات کے موسم میں اکیلا اس کی یادوں میں تڑپتا ہے۔ جب یہ بے چینی اس کی برداشت سے باہر ہو جاتی ہے تو عاشق دیوانہ وار جنگلوں کی طرف بھاگ جاتا ہے۔ اسے پھر بیابانوں میں جو اس کی طرح اجڑے ہوں میں سکون ملتا ہے۔

سوال 4 : مندجہ ذیل الفاظ و تراکیب کا مفہوم لکھیں۔

سوئے دشت : جنگل کی جانب
ناچار : بے بس
ربط : تعلق
راحت فزا : راحت کا سبب بننے والا
صنم : مورتی