خطاب بہ جوانان اسلام

0
  • نظم : خطاب بہ جوانان اسلام
  • شاعر : علامہ اقبال

تعارفِ نظم :

یہ شعر ہماری درسی کتاب کی نظم ”خطاب بہ جوانان اسلام “ سے لیا گیا ہے۔ اس نظم کے شاعر کا نام علامہ اقبال ہے۔

تعارفِ شاعر :

شیخ محمد اقبال سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ بانگِ درا ، ضربِ کلیم ، بالِ جبریل اور ارمغان حجاز ان کے اردو کلام پر مشتمل کتابیں ہیں۔ پہلے وطن دوستی پھر ملت دوستی اور پھر انسان دوستی ان کی شاعری کے اہم موضوعات ہیں۔ آپ نے مسلمانوں کے سیاسی شعور کو صحیح سمت عطا کی۔

کبھی اے نوجواں مسلم! تدبّر بھی کِیا تُو نے
وہ کیا گردُوں تھا تُو جس کا ہے اک ٹُوٹا ہوا تارا؟

تشریح :

“خطاب بہ جوانانِ اسلام” شاعر علامہ محمد اقبال کی لکھی ہوئی ہوئی نظم ہے جس میں وہ نوجوان مسلمانوں کو ولولہ انگیز ہوکر مخاطب کرتے ہیں کہ نوجوانوں تمہارے ہاتھوں میں ملت کی سربلندی ہے۔ اقبال نے اسلاف کی عظیم جنگیں اور فتوحات انھیں بتائیں۔ راستے سے بھٹکے ہوئے نوجوانوں کو اسلام کا غیور چہرہ دکھایا جب مسلمانوں نے شمشیریں اٹھا کر توحید کا پیغام دنیا کے کونے کونے تک پھیلایا۔ مسلمانوں نے ظلم و جبر کو روکا اور ظالم کو سزا دے کر اللہ تعالیٰ کا نام بلند کیا۔ مسلمانوں کے اسلاف نے دنیا کو جینے کا ڈھنگ سکھایا۔ اقبال نوجوانوں کو ان کے ماضی کو دکھا کر سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ یہ شاندار ماضی تمہاری اسی قوم کا ہے جو آج پس پا ہے۔ کیا تمہیں نہیں معلوم تم کس سے نسبت رکھتے ہو۔ تم ایک عظیم تاریخ کے مالک ہو اپنی حیثیت کو پہچانو اور ترقی کی جانب چلو۔

تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبّت میں
کُچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاجِ سرِ دارا

تشریح :

“خطاب بہ جوانانِ اسلام” شاعر علامہ محمد اقبال کی لکھی ہوئی ہوئی نظم ہے جس میں وہ بتاتے ہیں کہ تم اس عظیم قوم کے فرد ہو جس نے سلطنت ایران کے بادشاہ کا تاج اپنے پیروں میں روند دیا۔ تم اس قوم سے ہو جو تھوڑے تھے مگر انھوں نے سلطنت فارس و روم کو شکست دی۔مسلمان تو جذبہ جہاد سے فتح یاب ہوتا ہے پھر بھلے وہ تلوار بردار ہو یا نہ ہو وہ تعداد میں بہت ہوں یا نہ ہوں۔ اس شعر میں اقبال کا اشارہ سعد ابن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی جانب ہے جنھوں نے مٹھی بھر ایمان والے لوگوں کے ساتھ شہر ایران فتح کیا۔ مگر وہ افسوس کے ساتھ کہتے ہیں کہ آج کا مسلمان اس دلیر نہیں بلکہ وہ اپنی جان بچانے کی خاطر بزدل ہو کر بیٹھ گیا ہے اور اس کے ہیرو بھی مسلمان کمانڈر نہیں بلکہ بزدل رستم ہیں حالانکہ ہمارے پاس مسلمانوں میں ایسے بہت سے بہادر ہیں جنھیں مسلمان اپنا خضر راہ بنا کر پھر سے اپنا کھویا مقام پا سکتے ہیں۔

تمدّن آفریں، خلاّقِ آئینِ جہاں داری
وہ صحرائے عرب یعنی شتربانوں کا گہوارا

تشریح :

“خطاب بہ جوانانِ اسلام” شاعر علامہ محمد اقبال کی لکھی ہوئی ہوئی نظم ہے جس میں وہ بتاتے ہیں کہ دنیا میں قتل و غارت اور چوری چکاری کا اندھے قانون کی حکمرانی تھی مگر پھر دین اسلام نے ایک انقلاب برپا کیا۔ اس انقلاب سے عرب کے لوگوں کی زندگی بدل کر رکھ دی تھی۔ اقبال یہاں اوائل کا ذکر کرتے ہیں کہ کیسے وہ لوگ صحرا کے رہنے والے بے آب و گیاں ریگستان میں مشکل زندگی گزارنے والے لوگ مگر ایک دین اسلام کے آنے سے وہ اتنی مہذب ہو گئے کہ انھیں اٹھنے بیٹھنے بات کرنے کا سلیقہ آگیا۔ ان میں زندگی گزارنے کے اصول آگئے ان بے راہ لوگوں کو ایک راہ مل گئی انھیں زندگی کا مقصد سمجھ اگیا پھر انھوں نے کیسے دنیا کی تقدیر بدل دی۔ اسلام سے پہلے وہاں لوگوں میں جہالت تھی اور وہ لوگ ہر برا فعل کرتے تھے۔ مگر پیغمبرِ اسلامﷺ نے ان کی ایسی تعلیم فرمائی ان کو منعظم زندگی گزارنے کے اصول بتائے پھر انہیں لوگوں نے دنیا پر حکمرانی کی۔

سماں ’الفُقْرَ و فَخرْی‘ کا رہا شانِ امارت میں
“بآب و رنگ و خال و خط چہ حاجت رُوے زیبا را”

تشریح :

“خطاب بہ جوانانِ اسلام” شاعر علامہ محمد اقبال کی لکھی ہوئی ہوئی نظم ہے جس میں وہ بتاتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے مسلمانوں کی شروع سے ہی ایسی تربیت فرمائی کہ مسلمان ہر حال میں اللہ کی رضا میں راضی رہتے تھے۔ مسلمان اگر فقر و فاقہ میں ہیں تو بھی اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں اگر وہ خوش حال ہیں تو بھی اللہ کی حمد و ثنا بیان کرتے ہیں۔ آپﷺ نے مسلمانوں کو اپنے راہ پر چلنے کی ہدایت فرمائی اس کے بعد مسلمان عقلی دلیل بعد میں رکھتے اور اللہ رسولﷺ کے فیصلے پر پہلے لبیک کرتے۔ مسلمانوں کو نبی کریمﷺ نے جو امیری میں فقیری کا درس دیا وہ ہمیں خلفہ راشدین کے دور میں بھی نظر آتا ہے کہ خلیفہ مسلمین اپنے کرتے میں 22 پیوند لگا کر، کچے مکان میں رہتے تھے۔ دوسرا مصرع حافظ شیرازی سے مستعار ہے جس کے معنی ہیں کہ مسلمانوں کو ظاہری بناوٹ کی ضرورت نہیں وہ فطری طور پر خوب صورت ہیں۔ اس سے مراف ہے کہ مسلمانوں کے اصل اوصاف ان کا فقر ،انصاف،تقویٰ اور صبر و تحمل ہے انھیں پرشکوہ عمارت میں رہنے سے یا خوش لباس ہونے سے خوبصورت کہنے کے بجائے ان کے حقیقی اوصاف پر خوبصورت کہنا چاہیے۔

گدائی میں بھی وہ اللہ والے تھے غیور اتنے
کہ مُنعم کو گدا کے ڈر سے بخشش کا نہ تھا یارا

تشریح :

“خطاب بہ جوانانِ اسلام” شاعر علامہ محمد اقبال کی لکھی ہوئی ہوئی نظم ہے جس میں وہ بتاتے ہیں کہ اے نوجوانو! تم اس قوم سے تعلق رکھتے ہو جو فقر میں زندگی گزارنا کسی سے سوال کرنے سے بہتر سمجھتا تھا۔ مسلمان کے پاس ایک غیرت ہی ہوتی ہے جس پر وہ کبھی سمجھاتہ نہیں کرتا وہ بھلے مفلسی و غریبی میں زندگی بسر کرے گا مگر اس کی غیرت یہ گوارا نہیں کرے گی کہ وہ کسی سے کچھ طلب کرے۔ مسلمان بھلے ہی خستہ حال تھے مگر کوئی ان کی غیرت پر دو حرف نہ کہہ سکتا تھا۔ اس زمانے کے دولت مند بھی انھیں کچھ رقم دینے سے کتراتے تھے کہ کہیں مسلمان اس کو اپنی توہین سمجھ کر برہم نہ ہو جائے۔ وہ اللہ کی رحمانی سے خوب واقف تھے، وہ غریبی کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش سمجھ کر شکر ادا کرتے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں اس آزمائش کے لیے چنا ہے۔ اقبال نوجوانوں کو ان اوصاف کو اپنانے کی تلقین کرتے ہیں کہ اپنے آپ کو اسلاف کو اس غیرت مندی کی عادت سے عاری نہ رکھو بلکہ تم بھی ان کے جیسے غیر مند بنو تاکہ دنیا اور آخرت کی کامیابیاں تم پر کھول دی جائیں۔

اگر چاہوں تو نقشہ کھینچ کر الفاظ میں رکھ دوں
مگر تیرے تخیّل سے فزوں تر ہے وہ نظّارا

تشریح :

“خطاب بہ جوانانِ اسلام” شاعر علامہ محمد اقبال کی لکھی ہوئی ہوئی نظم ہے جس میں وہ بتاتے ہیں کہ ملت پستی کے اندھیروں میں کہیں ڈوب گئی ہے۔ اس ملت کو اب نوجوانوں کے مضبوط سہارے کی ضرورت ہے۔ وہ نوجوانوں کو اپنے اصلاف کی یاد دلا کر ولولہ انگیز کرنا چاہتے ہیں کہ ان میں بھی وہ اوصاف پیدا ہوں جن سے قرون اولیٰ کے مسلمانوں نے دنیا میں اپنا نام پیدا کیا۔وہ امت محمدیہﷺ کو پھر سے عروج دینے کے لیے مسلمان نوجوانوں کو وہ اسباق بتاتے ہیں جن سے پہلے مسلمانوں نے دنیا کی حکمرانی اپنے ہاتھ میں لی تھی۔ آج کا نوجوان مغرب سے بہت متاثر ہو گیا ہے اسی وجہ سے اس میں سے جہاد کا تصور ختم ہوتا جا رہا ہے وہ مادیت اور دنیا پرستی میں مشغول ہو گیا ہے جس پر اقبال سخت نالاں ہو کر انھیں اسلاف کی غیرت و حریت کی داستان سناتے ہوئے جگاتے ہیں۔

تجھے آبا سے اپنے کوئی نسبت ہو نہیں سکتی
کہ تُو گُفتار وہ کردار، تُو ثابت وہ سیّارا

تشریح :

“خطاب بہ جوانانِ اسلام” شاعر علامہ محمد اقبال کی لکھی ہوئی ہوئی نظم ہے جس میں وہ بتاتے ہیں کہ آج کے مسلمان نوجوانوں میں اسلام کی وہ لگن ہی نہیں۔ نوجوان مغرب طور طریقہ و تہذیب و تمدن سے متاثر ہو کر اپنے اقدار کھو بیٹھا ہے۔ آج کل کے مسلمانوں میں غلامی پائی جاتی ہے وہ انگریزوں اور سامراج کی جی حضوری میں لگے ہوئے ہیں۔ حالانکہ مسلمانوں کا یہ شیوہ نہیں اسلام کے اوائل میں بھی مسلمانوں کو یہی خدشات لاحق تھے کہ دنیا کی مضبوط ترین قوموں میں اسلام کیسے ابھرے گا اس وقت مسلمانوں نے غیرت وحریت سے دنیا میں اپنا نام و مقام پیدا کیا۔ مسلمانوں نے اطاعت رسولﷺ اور راضی با رضا اللہ ہو کر صبر اور شکر میں زندگی گزاری انھیں دنیا و آخرت کی کامیابیاں بھی ملیں۔ مسلمانوں نے فقر و فاقہ اختیار کیا مگر انھوں نے کسی سے بھیک نہیں مانگی جس وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان پر دنیا کے خزانے کھول دیئے مگر ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی وہ پھر بھی سادگی پسند تھے عام لباس زیب تن کرتے تھوڑا کھاتے باقی سب اللہ کی ہی راہ میں دے دیتے۔ مگر آج کا نواجوان مسلمان دنیا کے مال و زر میں کھو گیا ہے اس کے کردار و گفتار میں اسلاف کی زرا بھی جھلک نہیں نظر آتی۔ مسلمان اب سستی کا شکار ہو گئے ہیں جو کہ مسلمان امت کے لیے پستی اور زوال کا سبب بنا ہے۔

گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثُریّا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا

تشریح :

“خطاب بہ جوانانِ اسلام” شاعر علامہ محمد اقبال کی لکھی ہوئی ہوئی نظم ہے جس میں وہ بتاتے ہیں کہ آج کل کے مسلمانوں نے جب اسلامی طور طریقہ کو پس پشت ڈال کر مغربی طور طریقہ اپنائے ہیں اسی دن سے ہمارا زوال شروع ہو گیا ہے۔مسلمانوں نے کفر و شرک سے لڑنے کے بجائے ان کی غلامی قبول کر لی۔ مسلمانوں نے اپنی تلواروں کو زنگ آلود کر دیا اور جہاد کا درس بھول گئے۔مسلمانوں نے تعلیمات رسولﷺ کو بھلا دیا اور وہ اب مغربی فکر کو اپنائے ہوئے ہیں ۔مسلمانوں کے پاس دو ہی چیزیں ایسی تھیں جس سے وہ ہر معرکہ فتح کرتے تھے ایک کلام اللہ اور ایک رسول اللہﷺ کی تعلیمات مسلمانوں نے ان دونوں کو ہی ترک کر دیا جس سے اب پستی ان کا مقدر بن گی ہے۔جب مسلمانوں نے اسلام کی راہ راست سے ہٹ کر زندگی گزارنا شروع کی اللہ تعالیٰ نے انھیں اس بلندی سے زمین پر اتار دیا ایک وقت تھا جب مسلمانوں کی حکومت تین براعظموں پر صدیوں تک پھیلی ہوتی تھی پھر مسلمانوں نے اللہ اور اس کےرسول کو چھوڑ دیا اور اب وہ اپنے گھروں میں قید غلاموں کی زندگی گزار رہے ہیں۔

حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی
نہیں دنیا کے آئینِ مسلَّم سے کوئی چارا

تشریح :

“خطاب بہ جوانانِ اسلام” شاعر علامہ محمد اقبال کی لکھی ہوئی ہوئی نظم ہے جس میں وہ بتاتے ہیں کہ آج مسلمان بدترین حال میں ہیں۔ مسلمان اب غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں کبھی ان مسلمانوں نے ایک ہزار برس تک یہیں پوری شان وشوکت سے حکومت کی تھی۔ مگر اب اسی سرزمین پر غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ مسلمان آج حکومتوں کا رونا روتے ہیں کہ ان سے ان کا تخت چھین لیا گیا ہے اب وہ کوئی قوت طاقت نہیں رکھتے تو یہ سراسر غلط ہے۔ مسلمانوں کے پاس جب یہ حکومتیں اور یہ اتنی تعداد نہ تھی تب بھی مسلمان خودی میں ایک طاقت تھا۔ جب بدر کے محاذ پر تین سو تیرہ کے مقابلہ پر ایک ہزار کا لشکر آیا تو تب مسلمانوں کے پاس سوائے اللہ پر ایمان کے کیا تھا؟ مگر مسلمانوں نے جوانمردی سے اس جنگ کو جیتا اور اپنی اہمیت کفار پر واضح کی۔ آج بھی مسلمان اللہ پر توکل کریں اور رسولﷺ کی تعلیمات پر عمل کریں انھیں پھر عروج نصیب ہو سکتا ہے۔

مگر وہ عِلم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا

تشریح :

“خطاب بہ جوانانِ اسلام” شاعر علامہ محمد اقبال کی لکھی ہوئی ہوئی نظم ہے جس میں وہ بتاتے ہیں کہ مسلمان اپنے اقدار کھونے پر غم منا رہے ہیں۔ مگر مسلمانوں کو اپنے اسلاف کی ان تعلیمات اور ان کتابوں کے کھو جانے کا کوئی ملال نہیں۔ مسلمانوں کو جو نصحیتیں اسلاف نے کی تھیں، جو علم انھوں نے کتابی شکل میں ہم تک پہنچایا تھا وہ مسلمانوں کی غفلت تھی کہ ہم نے اسے مستفید استعمال نہیں کیا مگر اب مغرب نے ان پر غور فکر کرکے ترقی کر لی ہے۔ یورپ کی یہ ترقی اور عظیم کارنامے دراصل ہمارے اسلاف کی تحقیقات اور علم سے ہی ممکن ہو سکا ہے۔ جابر بن حیان نے علم کیما میں، امام غزالی نے فلسفہ میں اور ابوالقاسم زھراوی نے سرجری میں جو خدمات انجام دیں ہیں وہ یورپ نے اپنے لیے استعمال کیں اور ترقی حاصل کر لی۔ ہم نے اپنے سرمائے کی قدر نہ کی جو آج مغرب کی لائبریریوں میں رکھی ہیں جنھیں دیکھ کر اب مسلمان صرف پچھتا ہی سکتا ہے۔

“غنیؔ! روزِ سیاہِ پیرِ کنعاں را تماشا کُن
کہ نُورِ دیدہ اش روشن کُند چشمِ زلیخا را”

تشریح :

“خطاب بہ جوانانِ اسلام” شاعر علامہ محمد اقبال کی لکھی ہوئی ہوئی نظم ہے جس کے آخری شعر میں مشہور فارسی کے شاعر غنی کشمیری کا شعر تضمین کیا ہے۔ یہ شعر اس حقیقت کی طرف اشارہ کررہا ہے کہ ہم نے اپنے بزرگوں کے اثاثے کو محفوظ نہ کیا۔ جو ہمارے مستقبل کی بلندی کے لیے سیڑھی کا کردار ادا کرتی۔ مگر یہ ہماری بد نصیبی ہے کہ ہم نے اپنے اثاثے کا خیال نہ رکھا۔ شاعر نے یعقوب علیہ اسلام کی تلمیح کو بڑے شاندار طریقے سے استعمال کیا ہے۔ حضرت یعقوب علیہ اسلام کے فرزن اور منظور نظر حضرت یوسف تھے۔جن کو بھائیوں نے حسد کی بنا پر اندھے کنویں میں پھینک دیا تھا۔ پھر ایک قافلے نے انھیں نکالا اور مصر کے بازار میں ان کی فروخت ہوئی۔ وہاں ان پر زلیخا نے فریفتہ ہو گئی۔ ایک جانب یعقوب علیہ اسلام کی آنکھوں کی بینائی بیٹے کی جدائی میں چلی گئی اور دوسری طرف زلیخا کی آنکھیں یوسف کو دیکھ دیکھ کر ٹھنڈی ہوتی۔ یہاں مسلمانوں کی بھی یہی کیفیت ہے جن کتابوں سے تعلیمات سے ہمیں استفادہ اٹھانا تھا وہ مغرب نے اٹھایا ہے اور مسلمان پچھتاوے میں ہی زندگی بسر کرتے رہ گئے۔

سوال 1 : علامہ اقبال کی نظم کے متن کو مدِنظر رکھتے ہوئے درست جواب کے شروع میں (✓) کا نشان لگائیں :

۱ : علامہ محمد اقبالؒ نے “خطاب بہ جوانان اسلام” کے پہلے شعر میں مسلم نوجوان سے کیا کہا ہے؟

  • ٭تدبر بھی کیا تو نے؟ (✓)
  • ٭تصور بھی کیا تو نے؟
  • ٭ارادہ بھی کیا تو نے؟
  • ٭تحیر بھی کیا تو نے؟

۲ : مسلم نوجوان کو کس قوم نے آغوش محبت میں پالا ہے؟

  • ٭جس نے شہنشاہ روم کو شکت دی
  • ٭جس نے قیصر و کسریٰ پر فتح پائی
  • ٭جس نے آدھی دنیا پر حکومت کی
  • ٭جس نے تاج سردارا کچل ڈالا (✓)

۳ : “منعم” کے لغوی معنی ہیں۔

  • ٭دولت مند سخی (✓)
  • ٭انعام واکرام
  • ٭انعام پانے والا
  • ٭سخی بادشاہ

سوال 2 : “خطاب بہ جوانان اسلام” میں آنے والی تلمیحات کی مختصر تشریح کریں جو تین تین سطروں سے زیادہ نہ ہو۔

جواب : 1) زلیخا : زلیخا مصر کے فرعون کے محافظ اعلیٰ کی بیوی تھی، یہ حضرت یوسف پر فریفتہ ہو گئی تھی اور ان کے عشق میں مبتلا ہو گئی تھی۔ اس نے حضرت یوسف کو اپنے جال میں پھنسانے کی کوشش کی مگر حضرت یوسف اللہ کی راہ سے نہ ہٹے۔

2) تاج سردارا : قدیم زمانے میں ایران کا ایک عظیم بادشاہ تھا۔ مورخ کہتے ہیں کہ اس کا سکندر اعظم سے ٹکراؤ ہوا تھا۔ تاج دارا سلطنت ایران کو کہتے ہیں جسے سیدنا عمر فاروق کے عہد خلافت میں مسلمانوں نے فتح کیا تھا۔

3) الفقر فخری : حضور اطہر ﷺ کی حدیث مبارکہ ہے کہ “فقر” میرا فخر ہے۔ اسلام میں فقر کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ فقر انسان کو خود دار اور باوقار بنا دیتا ہے۔

سوال 3 : “خطاب بہ جوانان اسلام” کا مرکزی خیال لکھیں۔

نظم ”خطاب بہ جوانان اسلام“ کا مرکزی خیال :

اس نظم میں علامہ محمد اقبال نے نوجوان مسلمانوں کو ولولہ انگیز ہوکر مخاطب کریا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ نوجوانوں تمہارے ہاتھوں میں ملت کی سربلندی ہے۔ اقبال نے اسلاف کی عظیم جنگیں اور فتوحات انھیں بتائیں۔ اس نظم میں شاعر مے راستے سے بھٹکے ہوئے نوجوانوں کو اسلام کا غیور چہرہ دکھایا جب مسلمانوں نے شمشیریں اٹھا کر توحید کا پیغام دنیا کے کونے کونے تک پھیلایا۔

سوال 4 : “خطاب بہ جوانان اسلام” کا خلاصہ بیان کریں۔

نظم ”خطاب بہ جوانان اسلام“ کا خلاصہ :

اس نظم میں علامہ محمد اقبال نے نوجوان مسلمانوں کو ولولہ انگیز ہوکر مخاطب کریا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ نوجوانوں تمہارے ہاتھوں میں ملت کی سربلندی ہے۔ اقبال نے اسلاف کی عظیم جنگیں اور فتوحات انھیں بتائیں۔ اس نظم میں شاعر مے راستے سے بھٹکے ہوئے نوجوانوں کو اسلام کا غیور چہرہ دکھایا جب مسلمانوں نے شمشیریں اٹھا کر توحید کا پیغام دنیا کے کونے کونے تک پھیلایا۔ اس نظم میں وہ بتاتے ہیں کہ تم اس عظیم قوم کے فرد ہو جس نے سلطنت ایران کے بادشاہ کا تاج اپنے پیروں میں روند دیا۔ تم اس قوم سے ہو جو تھوڑے تھے مگر انھوں نے سلطنت فارس و روم کو شکست دی۔مسلمان تو جذبہ جہاد سے فتح یاب ہوتا ہے پھر بھلے وہ تلوار بردار ہو یا نہ ہو وہ تعداد میں بہت ہوں یا نہ ہوں۔

اس نظم میں وہ بتاتے ہیں کہ دنیا میں قتل و غارت اور چوری چکاری کا اندھے قانون کی حکمرانی تھی مگر پھر دین اسلام نے ایک انقلاب برپا کیا۔ اس انقلاب سے عرب کے لوگوں کی زندگی بدل کر رکھ دی تھی۔ اقبال یہاں اوائل کا ذکر کرتے ہیں کہ کیسے وہ لوگ صحرا کے رہنے والے بے آب و گیاں ریگستان میں مشکل زندگی گزارنے والے لوگ مگر ایک دین اسلام کے آنے سے وہ اتنی مہذب ہو گئے کہ انھیں اٹھنے بیٹھنے بات کرنے کا سلیقہ آگیا۔ ان میں زندگی گزارنے کے اصول آگئے ان بے راہ لوگوں کو ایک راہ مل گئی انھیں زندگی کا مقصد سمجھ اگیا پھر انھوں نے کیسے دنیا کی تقدیر بدل دی۔