کیا واقعی دنیا گول ہے؟

0
  • سبق : کیا دنیا واقعی گول ہے؟
  • مصنف : ابنِ انشا
  • ماخوذ : دنیا گول ہے

سوال 3 : “کیا دنیا واقعی گول ہے؟” کا خلاصہ لکھیں۔

تعارفِ سبق : سبق ” کیا دنیا واقعی گول ہے؟ “ کے مصنف کا نام ”ابنِ انشا “ ہے۔ یہ سبق کے آپ کی کتاب ”دنیا گول ہے“ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

تعارفِ مصنف

ابنِ انشاء اپنے دور کے مشہور و معروف کالم نگار و مزاح نگار تھے۔ آپ سفر نامے بھی لکھتے تھے اور آپ کے سفر نامے آپ کے نثری اسلوب کے آئینہ دار ہیں۔ آپ کی تحریریں سادہ ، پُرمزاح اور رواں ہوتی ہیں۔ ان کے سفر نامے کے مطالعہ کرتے وقت قاری کو محسوس ہوتا ہے گویا کہ اس نے تمام مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے ہوں۔ ان کے سفر نامے پڑھتے وقت قاری کو اجنبیت یا بوریت کا احساس نہیں ہوتا ہے۔

خلاصہ

اس سبق میں مصنف سفر کرنے کے متعلق اپنی رائے کا اظہار کررہے ہیں۔ وہ اس سبق میں دنیا کے گول ہونے یا نہ ہونے پر بحث کرنے کے علاوہ اپنی ڈاکٹری کے بارے میں بھی اپنی رائے کا اظہار کررہے ہیں۔ مصنف اجنبی شہروں اور ملکوں میں جانے کے بعد پیش آنے والے واقعات اور خطرات سے بھی قارئین کو آگاہ کررہے ہیں۔

مصنف لکھتے ہیں کہ دنیا سے زیادہ تو ہم خود گول ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے تو دنیا کو جہاں سے دیکھا وہاں سے اسے چپٹا ہی پایا۔ مصنف بتاتے ہیں کہ ہم دنیا کے گول ہونے کی تصدیق کرنے بالکل ایسے ہی نکلے تھے حاتم طائی منیر شامی کی محبوبہ کی فرمائش پر انڈے کے برابر موتی اور کوہِ ندا کی تلاش کرنے نکلے تھے۔

مصنف کہتے ہیں کہ مجھے ان لوگوں پر رشک آتا ہے جنہیں ایک جگہ پر ٹہرنا نہیں پڑتا ہے۔ جب کہ اس کے برعکس میں جہاں بھی جاؤں مجھے جلد ہی واپس گھر آنا پڑتا ہے۔مصنف کہتے ہیں کہ یہاں وہاں گھومنے سے بہف سے مسائل پیدا ہوتے ہیں جب کہ اس کے برعکس اگر ایک جگہ پر بیٹھ کر ایک کتاب پڑھی جائے اور لمبی تان کر سوجایا جائے تو یہ بات بہت بہتر ہے سفر کی مشقت اٹھانے سے۔ اس کے بعد مصنف لکھتے ہیں کہ اگر ہمیں کہیں گھومنے اور ایک دو رات رکنے کا موقع مل جائے تو ہم ایسا سفر نامہ لکھ دیں کہ ہمارے حریف ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جائیں۔

آخر میں مصنف کہتے ہیں کہ اب تو ہم ڈاکٹر کہلانے لگے ہیں اور ہمارے ہم وطنوں کو ہمارے ڈاکٹر کہلوانے پر اس لیے اعتراض نہیں کرنا چاہیے کیونکہ دوسرے ملک کے لوگ ہمیں ڈاکٹر کے طور پر قبول کرچکے ہیں۔

سوال 1 : درست جواب کے شروع میں (درست)کا نشان لگائیں۔

۱ : “کیا واقعی دنیا گول ہے”؟ کے مصنف کا نام کیا ہے؟

  • ٭پطرس بخاری
  • ٭ابنِ انشا(✓)
  • ٭مشتاق احمد یوسفی
  • ٭کرنل محمد خان

۲ : مصنف نے کس شہر میں جا کر دم لیا؟

  • ٭پکینگ
  • ٭کوپن ہیگن
  • ٭جاکرتا(✓)
  • ٭کولمبو

۳ : لڑکے کے ہاتھ میں کیا تھا؟

  • ٭پیالہ
  • ٭گلاس
  • ٭پلیٹ
  • ٭کٹورا (✓)

۴ : جب مصنف مضمون لکھ رہا تھا تو وہ کس شہر میں تھا؟

  • ٭بنکاک
  • ٭کولمبو
  • ٭سنگاپور(✓)
  • ٭کراچی

سوال 2 : مختصر جواب دیں۔

۱ : کیا دنیا واقعی گول ہے؟

جواب : مصنف لکھتے ہیں کہ دنیا سے زیادہ تو ہم خود گول ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے تو دنیا کو جہاں سے دیکھا وہاں سے اسے چپٹا ہی پایا۔

۲ : حاتم طائی کیا تلاش کرنے نکلا تھا؟

جواب : حاتم طائی منیر شامی کی محبوبہ کی فرمائش پر انڈے کے برابر موتی اور کوہِ ندا کی تلاش کرنے نکلا تھا۔

۳ : مصنف کے ساتھیوں کا تعلق کس ملک سے ہے؟

جواب : مصنف کے ساتھیوں کا تعلق ترک اور ایران سے تھا۔

۴ : فضل الباری کون تھے؟

جواب : فضل الباری وزیرِ صحت تھے، یعنی ڈاکٹروں کے بھی ڈاکٹر۔

۵ : مصنف کے ہم وطنوں کو اس کے ڈاکٹر کہلوانے پر کیوں اعتراض نہیں کرنا چاہیے؟

جواب : مصنف کے ہم وطنوں کو اس کے ڈاکٹر کہلوانے پر اس لیے اعتراض نہیں کرنا چاہیے کیونکہ دوسرے ملک کے لوگ مصنف کو ڈاکٹر کے طور پر قبول کرچکے ہیں۔

سوال4:مندرجہ ذیل الفاظ و تراکیب کے معنی لکھیں۔

اصرار زور دنیا
پیر تسمہ پا پیچھا نہ چھوڑنے والا
دمِ تحریر تحریر لکھتے وقت
زیر طبع زیرِ آزمائش

سوال 5 : کالم (الف) کا ربط کالم (ب) سے جوڑیں اور درست جواب کو کالم (ج) میں لکھیں۔

کالم (الف) کالم (ب)
دھرتی کا گز بنے۔
بحرِ ظلمات میں گھوڑے دوڑائے۔
کبھی سفر کا ارادہ نہ کرنا۔
اجنبی دیسوں میں جگہ جگہ کے خطرات ہوتے ہیں۔
کون سی وادی میں ہوا کون سی منزل ہو۔
لڑکا دکان پر کٹورا لے کر گیا تھا۔

سوال 6 : مندجہ ذیل الفاظ کے متضاد لکھیں :

الفاظ متضاد
دھرتی آسمان
ماں باپ
قیام سفر
باقاعدہ بےقائدہ

سوال7 : خالی جگہ پر کریں :

  • ۱ : ہمیں ہمیشہ ایک ہی بد یہی خطرہ (نظر) آیا۔
  • ۲ : برخوردار نے (کٹورا) اوندھا کر کے کہا۔
  • ۳ : ہم ڈاکٹر ہو ہی (گئے
  • ۴ : ہم میڈیکل ڈاکٹروں کے سامنے علم و ادب کے (ڈاکٹر) بنتے ہیں۔

سوال 8 : سیاق و سباق کے حوالے سے تشریح کریں :
رشک آتا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔حریفوں کے سفر ناموں کو بھول جائیں۔

حوالہ متن

یہ اقتباس سبق ”کیا دنیا واقعی گول ہے؟“ سے لیا گیا ہے۔ اس سبق کے مصنف کا نام ”ابن انشا“ ہے۔ یہ سبق کتاب ”دنیا گول ہے“ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

سیاق و سباق

اس سبق میں مصنف سفر کرنے کے متعلق اپنی رائے کا اظہار کررہے ہیں۔ وہ اس سبق میں دنیا کے گول ہونے یا نہ ہونے پر بحث کرنے کے علاوہ اپنی ڈاکٹری کے بارے میں بھی اپنی رائے کا اظہار کررہے ہیں۔ مصنف اجنبی شہروں اور ملکوں میں جانے کے بعد پیش آنے والے واقعات اور خطرات سے بھی قارئین کو آگاہ کررہے ہیں۔

تشریح

اس اقتباس میں مصنف کہتے ہیں کہ مجھے ان لوگوں پر رشک آتا ہے جنہیں ایک جگہ پر ٹہرنا نہیں پڑتا ہے۔ جب کہ اس کے برعکس میں جہاں بھی جاؤں مجھے جلد ہی واپس گھر آنا پڑتا ہے۔مصنف کہتے ہیں کہ یہاں وہاں گھومنے سے بہف سے مسائل پیدا ہوتے ہیں جب کہ اس کے برعکس اگر ایک جگہ پر بیٹھ کر ایک کتاب پڑھی جائے اور لمبی تان کر سوجایا جائے تو یہ بات بہت بہتر ہے سفر کی مشقت اٹھانے سے۔ اس کے بعد مصنف لکھتے ہیں کہ اگر ہمیں کہیں گھومنے اور ایک دو رات رکنے کا موقع مل جائے تو ہم ایسا سفر نامہ لکھ دیں کہ ہمارے حریف ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جائیں۔