دوستی کا پھل

0
  • سبق : دوستی کا پھل
  • مصنف : شفیع عقیل
  • ماخوذ : پنجابی لوک داستانیں

سوال 2 : “دوستی کا پھل” کا خلاصہ لکھیے۔

تعارفِ سبق : سبق ” دوستی کا پھل “ کے مصنف کا نام ”شفیع عقیل“ ہے۔ یہ سبق کے آپ کی کتاب ”پنجابی لوک داستانیں“ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

خلاصہ

اس سبق میں مصنف کبوتر ، گدھ اور سانپ کے مابین بنے دوستی کے رشتے کی داستان اور اس کی اہمیت بیان کررہے ہیں۔ کہانی کا آغاز یوں ہوتا ہے کہ ایک جنگل میں ایک درخت پر کبوتر اور کبوتری سکھ و چین کی زندگی بسر کررہے ہوتے ہیں۔ کبوتری گھونسلے میں انڈے دیتی ہے اور اب اسے فکر ہونے لگتی ہے کہ کہیں اس کے انڈے کوئی اور جانور یا پرندہ اٹھا کر نہ لے جائے۔ اس پریشانی کا ذکر وہ کبوتر سے کرتی ہے اور کہتی ہے کہ ہمارا یہاں پر کوئی دوست ہونا چاہیے جو مشکل وقت میں ہمارے کام آسکے۔ کبوتر اسے سمجھاتا ہے کہ ہمارا تو کوئی دشمن نہیں ہے جو ہمارے انڈوں کو نقصان پہنچائے گا اور پھر یہاں ہماری برادری کا کوئی پرندہ بھی نہیں ہے جس سے دوستی کی جائے۔ کبوتری اسے کہتی ہے کہ مصیبت بتا کر تو نہیں آتی اور اپنی برادری نہ سہی کسی اور برادری کے جانور یا پرندے سے بھی تو دوستی کی جاسکتی ہے۔ کبوتر سوچتا ہے اور پھر کچھ درخت چھوڑ کر ایک درخت پر رہنے والے گدھ کے جوڑے کے پاس جاتا ہے۔

کبوتر وہاں جا کر اس جوڑے کو دوستی کا پیغام دیتا ہے تو گدھ اس سے دوستی کرنے پر رضا مند ہوجاتا ہے اور کہتا ہے کہ آگے ہی یہاں ایک سانپ بھی رہتا ہے۔ کیوں نہ ہم اس سے بھی دوستی کرلیں تاکہ مکمل طور پر ہر خطرے سے محفوظ ہوجائیں۔ یہ تجویز کبوتر کو بھی پسند آتی ہے اور وہ دونوں سانپ سے ملنے چلے جاتے ہیں۔ وہاں جا کر وہ لوگ سانپ کو تمام باتیں بتاتے ہیں اور دوستی کا پیغام دیتے ہیں جسے کچھ سوچ بچار کرنے کے بعد سانپ قبول کرلیتا ہے۔

کبوتر اپنے گھونسلے میں واپس آجاتا ہے اور کافی وقت گزر جاتا ہے۔ کبوتر کے انڈوں میں سے بچے نکل آتے ہیں کہ ایک دن وہاں ایک شکاری آتا ہے۔ چونکہ اسے کافی محنت کے باوجود کوئی شکار نہیں ملتا ہے تو وہ سوچتا ہے کہ کیوں نہ کسی پرندے کے بچوں کو ہی اٹھا کر لے جاؤں۔ اسی نیت سے وہ درختوں پر نظریں دوڑاتا ہے تو اسے کبوتر کا گھونسلا نظر آتا ہے۔ شام اپنے پر پھیلانے لگتی ہے اس لیے شکاری پہلے درخت کے نیچے آگ لگادیتا ہے تاکہ اندھیرے کا توڑ ہوسکے۔ کبوتر اور کبوتری یہ ماجرہ دیکھتے ہیں تو کبوتر کہتا ہے کہ میں اپنے دوستوں کو بلا کر لاتا ہوں جب کہ کبوتری اسے اپنی مدد آپ کرنے کا کہتی ہے اور وہ دونوں قریب ہی موجود دریا کے پانی سے آگ بجھا دیتے ہیں۔ شکاری درخت پر چڑھتے چڑھتے نیچے اترتا ہے اور دوبارہ آگ لگاتا ہے۔ کبوتر پھر آگ بجھا دیتے ہیں اور دو تین مرتبہ ایسا ہی ہوتا ہے کہ شکاری اب موٹی لکڑیاں جمع کرکے آگ لگادیتا ہے۔ اس مرتبہ کبوتری کو بھی لگتا ہے کہ اب آگ بجھانا ان کے بس کی بات نہیں تو وہ کبوتر کو کہتی ہے کہ اپنے دوستوں کو بلا لو۔

کبوتر گدھ کو بلا کر لاتا ہے تو گدھ کا جوڑا اور کبوتر کا جوڑا مل کر اس آگ کو دوبارہ بجھا دیتے ہیں۔ اب شکاری بھی تھک جاتا ہے اور سوچتا ہے کہ آج رات اسی درخت کے نیچے گزار کر صبح کی روشنی میں پرندے کے بچے اٹھا کر میں چلا جاؤں گا۔ اس سوچ کے تحت وہ درخت کے نیچے سوجاتا ہے۔ کبوتر اور گدھ یہ معاملہ دیکھ کر سانپ کے پاس جاتے ہیں اور اسے تمام مسئلے سے آگاہ کرتے ہیں۔ سانپ کہتا ہے کہ تم جاؤ میں صبح اس شکاری کا بندوبست کردوں گا۔

شکاری صبح اٹھ کر جیسے ہی درخت کی جانب بڑھتا ہے وہ دیکھتا ہے کہ درخت کی لکڑی پر ایک بڑا سا سانپ لپٹا ہوا ہے اور اسے دیکھ کر پھنکار رہا ہے۔ یہ دیکھ کر شکاری اپنی جان بچانے کے چکر میں اپنا سامان وہیں چھوڑ کر وہاں سے بھاگ جاتا ہے۔ اس دن کے بعد وہ شکاری وہاں کبھی واپس نہیں آتا ہے اور اس زمانے سے لوگ کبوتر کو دوستی کی علامت کہتے ہیں۔

سوال 1 : مختصر جواب دیں۔

۱ : کبوتر، گدھ اور سانپ میں قدر مشترک کیا تھی؟

جواب : کبوتر ، گدھ اور سانپ الگ الگ برادری کے پرندے اور جانور تھے اور وہاں اکیلے رہتے تھے۔ اپنی برادری کے دوسرے پرندے اور جانور وہاں موجود نہ ہونے کی وجہ سے وہ تینوں ہی ایک دوسرے سے دوستی کرنے پر رضامند ہوگئے۔

۲ : کبوتر، گدھ اور سانپ دوستی اور باہمی تعاون پر کیوں آمادہ ہوئے؟

جواب : کبوتر ، گدھ اور سانپ الگ الگ برادری کے پرندے اور جانور تھے اور وہاں اکیلے رہتے تھے۔ اپنی برادری کے دوسرے پرندے اور جانور وہاں موجود نہ ہونے کی وجہ سے وہ تینوں ہی ایک دوسرے سے دوستی کرنے پر رضامند ہوگئے۔

۳ : شکاری کا کردار، کس بات کی علامت ہے؟

جواب : شکاری کا کردار اس بات کی علامت ہے کہ ہم کسی بھی وقت پریشانی میں مبتلا ہوسکتے ہیں اور ضروری نہیں ہے کہ ہمارا دشمن ہی ہمیں نقصان پہنچائے۔ کوئی اپنے فائدے کے لیے بھی ہمیں نقصان پہنچا سکتا ہے۔

۴ : کسی بیرونی خطرے کی صورت میں ہمیں کیا طرز عمل اختیار کرنا چاہئے؟

جواب : کسی بیرونی خطرے کی صورت میں ہمیں یہ طرز عمل اختیار کرنا چاہئے کہ پہلے اپنی مدد آپ کے تحت اس خطرے سے بچنے کی کوشش کریں اور جب اس خطرے سے بچنا ناممکن لگے تو اپنے دوستوں کی مدد لیں۔

۵ : پڑوسیوں سے تعلقات کی نوعیت کیا ہونی چاہئے؟

جواب : پڑوسیوں سے تعلقات کی نوعیت یہ ہونی چاہیے کہ جب وہ مصیبت میں ہوں تو ہم ان کی مدد کریں تاکہ وہ بھی وقت آنے پر ہمارے کام آسکیں۔

٦ : معاشرے کی بقا کے لیے امداد باہمی کی کیا اہمیت ہے؟

جواب : معاشرے کی بقا کے لیے امداد باہمی کی بہت زیادہ اہمیت ہے کیونکہ اس دنیا کا نظام ایک دوسرے کی مدد کیے بغیر چلانا ناممکن ہے۔

۷ : کبوتر کو کس بات کی علامت قرار دیا جاتا ہے؟

جواب : کبوتر کو دوستی کی علامت قرار دیا جاتا ہے۔

۸ : اپنی مدد آپ کے اصول کی اہمیت کہانی کی مدد سے بیان کیجیے۔

جواب : اپنی مدد آپ کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ اگر اس کہانی میں کبوتر پہلے ہی گدھ کے پاس مدد مانگنے چلا جاتا اور گدھ تھوڑی سی آگ بجھانے میں اس کی مدد کردیتا تو جب شکاری نے موٹی لکڑیوں سے آگ لگائی اس وقت کبوتر مشکل میں پڑجاتے اور گدھ بھی ان کی مدد کرنے نہ آتے کیونکہ انھیں لگتا کہ اب بھی شکاری نے درخت کے نیچے معمولی سی آگ جلائی ہوگی۔

سوال 3 : مندرجہ ذیل الفاظ کا مفہوم لکھیے :

قدرے کافی
سنجیدگی دھیان
برادری ذات
حائل آگیا
فکر پریشانی