سرسید کے اخلاق و خصائل

0
  • سبق : سر سید کے اخلاق و خصائل
  • مصنف : مولانا الطاف حسین حالی
  • ماخوذ : حیاتِ جاوید

سوال 4 : “سرسید اخلاق و خصائل” کا خلاصہ اپنے الفاظ میں لکھیں۔

تعارفِ سبق : سبق ”سر سید کے اخلاق و خصائل“ کے مصنف کا نام ”مولانا الطاف حسین حالی“ ہے۔ یہ سبق کتاب ”حیاتِ جاوید“ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

تعارفِ مصنف

الطاف حسین ۱۸۷۳ء میں پانی پت میں پیدا ہوئے۔ آپ کا نام الطاف حسین، حالی تخلص، اور شمس العلماء خطاب تھا۔ آپ کے والد کا نام خواجہ ایزد بخش انصاری تھا۔ آپ نے پہلے قرآن پاک حفظ کیا پھر عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ آپ کی شادی سترہ برس کی عمر میں کردی گئی۔ آپ دہلی بھی گئے جہاں آپ کو مزرا غالب اور نواب مصطفی خان شیفتہ کی صحبت میسر آئی۔ اس کے بعد آپ لاہور آگئے اور پنجاب بک ڈپو میں ملازمت اختیار کرلی۔ وہاں انھوں نے کتب کے اردو تراجم پر نظر ثانی اور درستی کا کام کیا۔ اس کام سے حالی کو انگریزی زبان اور اس کے ادب سے آگاہی حاصل ہوئی۔ یہیں انھوں نے مولانا محمد حسین آزاد کے ساتھ مل کر موضوعاتی مشاعروں کی بنیاد ڈالی ، جن میں شاعر مختلف موضوعات پر نظمیں لکھر کر لایا کرتے تھے۔ انھی مشاعروں میں حالی نے ” برکھا رُت ، رحم و انصاف ، حُبِ وطن اور امید“ کے عنوان سے نظمیں پڑھیں۔ حالی نے سرسید کی مشہور تحریک پر اپنا مشہور مسدس ”مدّ و جزرِ اسلام“ بھی لکھا جو مسدسِ حالی کے نام سے مشہور ہوا۔ ”حیاتِ سعدی، مقدمہ شعر و شاعری ، یادگارِ غالب اور حیاتِ جاوید“ حالی کی اہم نثری تصانیف میں سے قابلِ ذکر ہیں۔

خلاصہ

اس سبق میں مصنف سر سید احمد خان کی عادات کے بارے میں ہمیں آگاہ کررہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ آج کا مسلمان یہ جانے کہ ہمارے رہنما کیسے تھے اور ہم ان کی زندگی جیسی سادہ زندگی گزارنے کی کوشش کریں۔ ان کی طرح ہی مخلص رہیں۔

مصنف سر سید احمد خان کی خوراک کے متعلق آگاہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سر سید احمد خان کے گھر ہر وقت ہی دوست احباب اور مہمان پائے جاتے تھے۔ جس دن کھانے کے وقت آپ کے گھر مہمان نہ ہوں آپ کو اس دن کھانا کھانے میں لطف نہیں آتا تھا اور جس دن آپ کے یہاں زیادہ مہمان ہوں اس دن گویا آپ کے گھر عید کا سماں ہوتا تھا۔ مصنف لکھتے ہیں کہ آپ کے یہاں زیادہ تیل والا کھانا نہیں بنتا تھا لیکن ہمیشہ عمدہ کھانا ہی بنتا تھا۔ البتہ اگر کبھی آپ کو عمدہ کھانا میسر نہ ہوتا تو جو بھی ملتا آپ خامشی سے کھالیتے۔ مصنف بتاتے ہیں کہ پہلے تو آپ کی خوراک بہت زیادہ تھی لیکن زندگی کے آخری حصے میں اس خوراک میں قدرے کمی آگئی البتہ کھانا کھانے کے آپ بلاناغہ دودھ پیا کرتے تھے۔

مصنف لکھتے ہیں کہ سید خطوط کے جواب دینے میں بہت فیاض تھے۔ جو بھی خط آتا وہ جواب ضرور دیتے تھے۔ سر سید کو مہمانوں کی آمد سے بہت خوشی ملتی تھی۔ دوستوں اور مہمانوں کے لیے ان کا خوان بھرا رہتا تھا۔ جس دن کوئی مہمان نہ ہوتا وہ کھانا کھاتے ہوئے بشاش نہ ہوتےتھے۔ سرسید کی شخصت کا نمایاں ترین پہلو وطن پرستی تھا۔ سرسید راست بازی کو اپنا دین ایمان سمجھتے تھے۔ سر سید کا دوستوں کے ساتھ برتاو نرالا تھا۔ ان کی خوشی کے دو ہی مدار تھے ایک کام اور دوسرا ان کے دوستوں سے ملاقات۔ وہ فی الواقع دنیا میں دوستوں کو زندگی کا ایک عنصر سمجھتے تھے۔ سر سید کو پھلوں میں آم اور خربوزے مرعوب تھے۔

مصنف بتاتے ہیں کہ مطالعہ کی عادت ابتدا سے ہی ان کی رفیق کار رہی۔ ان کا مطالعہ دل بہلانے کو نہیں بلکہ عبارت کا لطف اٹھانے کے لیے تھا۔ سرسید نے خطباتِ احمدیہ ڈیڑھ برس میں لکھی۔سرسید کو اپنے کنے سے حد سے زیادہ لگاؤ تھا۔سرسید فطرتاً عالی ظرف اور عالی حوصلہ پیدا ہوئے تھے۔ سرسید اپنی باتوں سے بڑوں بلکہ بچوں کو بھی تسخیر کر لیتے تھے۔

سوال 1 : درست جواب کے شروع میں (درست) کا نشان لگائیں۔

۱ : “سرسید کے اخلاق و خصائل” کے مصنف کا نام کیا ہے؟

٭مولانا حالی(✓)
٭مولانا شبلی نعمانی
٭خواجہ حسن نظامی
٭سید عبداللہ

۲ : یہ مضمون کس کتاب سے ماخود ہے؟

٭ “تاریخ ادب اردو” سے
٭”مقالات سرسید” سے
٭ “یادگار غالب” سے
٭ “حیات جاوید” سے (✓)

۳ : سر سید کو کون سا پھل مرغوب تھا؟

٭سیب
٭انگور
٭آم(✓)
٭انار

۴ : سر سید کی مرغوب غذا کیا تھی؟

٭کھیر
٭دال
٭گوشت
٭جو مل جائے(✓)

۵ : سرسید کھانے کے بعد کیا پیتے تھے؟

٭چائے
٭کافی
٭دودھ(✓)
٭کچھ بھی نہیں

سوال 2 : مختصر جواب دیں۔

سوال : کیا سرسید خطوط کے جواب باقاعدہ دیتے تھے؟

جواب : سر سید خطوط کے جواب دینے میں بہت فیاض تھے۔ جو بھی خط آتا وہ جواب ضرور دیتے تھے۔

سوال: کیا سر سید کو مہمانوں کی آمد ناگوار گزرتی تھی؟

جواب : سر سید کو مہمانوں کی آمد سے بہت خوشی ملتی تھی۔ دوستوں اور مہمانوں کے لیے ان کا خوان بھرا رہتا تھا۔ جس دن کوئی مہمان نہ ہوتا وہ کھانا کھاتے ہوئے بشاش نہ ہوتےتھے۔

سوال : سرسید کی شخصت کا نمایاں ترین پہلو کیا تھا؟

جواب : سرسید کی شخصت کا نمایاں ترین پہلو وطن پرستی تھا۔

سوال : سر سید راست بازی کو کیا سمجھتے تھے؟

جواب : سرسید راست بازی کو اپنا دین ایمان سمجھتے تھے۔

سوال: سر سید کا دوستوں سے برتاؤ کیسا تھا؟

جواب : سر سید کا دوستوں کے ساتھ برتاو ہی نرالا تھا۔ ان کی خوشی کے دو ہی مدار تھے ایک کام اور دوسرا ان کے دوستوں سے ملاقات۔ وہ فی الواقع دنیا میں دوستوں کو زندگی کا ایک عنصر سمجھتے تھے۔

سوال: سرسید کو کون سا پھل پسند تھا؟

جوب : سر سید کو پھلوں میں آم اور خربوزے مرعوب تھے۔

سوال: سرسید کھانے کے بعد عموماً کیا پیتے تھے؟

جواب : سرسید کھانے کے بعد عموماً پاؤ پاؤ سیر دودھ پیتے تھے۔

سوال : سرسید نے مطالعے کی عادت کب سے اپنائی؟

جواب : مطالعہ کی عادت ابتدا سے ہی ان کی رفیق کار رہی۔ ان کا مطالعہ دل بہلانے کو نہیں بلکہ عبارت کا لطف اٹھانے کے لیے تھا۔

سوال : سرسید نے خطباتِ احمدیہ کتنی مدت میں لکھی؟

جواب : سرسید نے خطباتِ احمدیہ ڈیڑھ برس میں لکھی۔

سوال 3 : متن کو پیش نظر رکھ کر خالی جگہ پُر کریں۔

۱ : سرسید کو اپنے کنبے سے حد سے زیادہ (لگاؤ) تھا۔
۲ : سرسید فطرتاً عالی ظرف اور (عالی حوصلہ پیدا ہوئے) تھے۔
۳ : سرسید اپنی باتوں سے بڑوں بلکہ بچوں کو بھی (تسخیر ) کر لیتے تھے۔
۴ : سچ بات کہنے میں کسی کی (لعن ملامت ) سے نہ ڈریں۔

سوال 6 : مندرجہ ذیل الفاظ و تراکیب کی وضاحت کریں۔

بشاش خوش ، مسرور
خوش طبعی خوش مزاج
شرم و حجاب حیا، لاج، پردہ
فیاض سخی ، دریا دل
رنج و غم دکھ درد

سوال 7 : مندرجہ ذیل الفاظ پر اعراب لگا کر ان کا درست تلفظ واضح کریں :

خَصائِل
جِبِلَّت
ضَبْطِ
فَیّاض

سوال 8 : مندرجہ ذیل الفاظ کی جمع لکھیں۔

واحد جمع
خصلت خصائل
لطیفہ لطائف
عادت عادات
ورق اوراق
تصنیف تصانیف

سوال 9 : مندرجہ ذیل الفاظ کے متضاد لکھیں۔

کم زیادہ
مہمان میزبان
ابتدا انتہا
جواب سوال
دائمی ابدی

سوال 5 : مندرجہ ذیل اقتباس کی سیاق و سباق کے حوالے سے تشریح کریں۔

دوستوں اور مہمانوں سے ان کا دسترخوان ۔۔۔۔۔بلاناغہ پی لیتے تھے۔

حوالہ متن

یہ اقتباس سبق ”سر سید کے اخلاق و خصائل“ سے لیا گیا ہے۔ اس سبق کے مصنف کا نام ”مولانا الطاف حسین حالی“ ہے۔ یہ سبق کتاب ”حیاتِ جاوید“ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

سیاق و سباق

اس سبق میں مصنف سر سید احمد خان کی عادات کے بارے میں ہمیں آگاہ کررہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ آج کا مسلمان یہ جانے کہ ہمارے رہنما کیسے تھے اور ہم ان کی زندگی جیسی سادہ زندگی گزارنے کی کوشش کریں۔ ان کی طرح ہی مخلص رہیں۔

تشریح

اس اقتباس میں مصنف سر سید احمد خان کی خوراک کے متعلق آگاہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سر سید احمد خان کے گھر ہر وقت ہی دوست احباب اور مہمان پائے جاتے تھے۔ جس دن کھانے کے وقت آپ کے گھر مہمان نہ ہوں آپ کو اس دن کھانا کھانے میں لطف نہیں آتا تھا اور جس دن آپ کے یہاں زیادہ مہمان ہوں اس دن گویا آپ کے گھر عید کا سماں ہوتا تھا۔ مصنف لکھتے ہیں کہ آپ کے یہاں زیادہ تیل والا کھانا نہیں بنتا تھا لیکن ہمیشہ عمدہ کھانا ہی بنتا تھا۔ البتہ اگر کبھی آپ کو عمدہ کھانا میسر نہ ہوتا تو جو بھی ملتا آپ خامشی سے کھالیتے۔ مصنف بتاتے ہیں کہ پہلے تو آپ کی خوراک بہت زیادہ تھی لیکن زندگی کے آخری حصے میں اس خوراک میں قدرے کمی آگئی البتہ کھانا کھانے کے آپ بلاناغہ دودھ پیا کرتے تھے۔