کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں کب ہات میں تیرا ہات نہیں تشریح

0

تعارفِ غزل :

یہ شعر ہماری درسی کتاب کی غزل سے لیا گیا ہے۔ اس غزل کے شاعر کا نام فیض احمد فیض ہے۔

تعارفِ شاعر :

فیض کی شاعرانہ قدر و قیمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کا نام غالب اور اقبال جیسے عظیم شاعروں کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ ان کی شاعری نے ان کی زندگی میں ہی سرحدوں، زبانوں، نظریوں اور عقیدوں کی حدیں توڑتے ہوئے عالمگیر شہرت حاصل کر لی تھی۔ جدید اردو شاعری کی بین الاقوامی شناخت انہی کی مرہون منت ہے۔ ان کا عشق درد مندی میں ڈھل کر انسان دوستی کی شکل اختیار کرتا ہے اور پھر یہ انسان دوستی اک بہتر دنیا کا خواب بن کر ابھرتی ہے۔ان کے الفاظ اور استعاروں میں اچھوتی دلکشی،سرشاری اور پہلوداری ہے۔یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ فیض نے شاعری کا اک نیا دبستاں قائم کیا۔

کب یاد میں تیرا ساتھ نہیں کب ہات میں تیرا ہات نہیں
صد شکر کہ اپنی راتوں میں اب ہجر کی کوئی رات نہیں

تشریح :

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ جب عاشق محبت میں مبتلا ہوجاتا ہے تو اسے کسی اور کا خیال نہیں آتا۔ وہ ہر وقت کسی اور دنیا میں کھویا ہوتا ہے۔ عاشق اپنی محبت کےلئے محبوب کے دیدار کو جاتا ہے مگر اسے ٹھکرادیا جاتا ہے۔ عاشق اس سے سخت رنجیدہ تو ہوتا ہے مگر وہ راہ محبت سے کنارا نہیں کرتا۔ وہ محبوب کو یاد کرتا ہے پھر اس کی گلی میں جاتا ہے اور پھر ناکام لوٹ آتا ہے۔عاشق کی محبت سچی ہے وہ ہر وقت محبوب کےخیالوں میں کھویا ہوتا ہے وہ ہمیشہ اسی کا نام لیتا ہے اسی کا ذکر کرتا ہے۔ اس کے پاس بات کرنے کو کوئی اور موضوع نہیں۔ عاشق کی راتیں بھی اب فراق میں نہیں کٹتی وہ خیالات میں محبوب کو اپنے سامنے پاتا ہے۔ وہ اب خود کو اکیلا محسوس نہیں کرتا بلکہ محبوب کی باتیں اس کے ساتھ ہوتی ہیں۔

مشکل ہیں اگر حالات وہاں دل بیچ آئیں جاں دے آئیں
دل والو کوچۂ جاناں میں کیا ایسے بھی حالات نہیں

تشریح :

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ عاشق محبوب کو اپنی محبت کا پیغام پہنچانا چاہتا ہے۔ وہ اسے بتانا چاہتا ہے کہ میرے دن و راتیں اس کے خیالات سے خالی نہیں۔ وہی ہے جس سے عاشق دن رات باتیں کرتا رہتا ہے۔ اس کی تنہائیاں بھی اب تنہا نہیں رہتی۔ لوگوں نے بھی عاشق کو دیوانا دیکھ کر سنگ اٹھا لیے ہیں۔ لوگ اب کوچہ یار جانے پر گریباں چاک کر دیتے ہیں اورطعن و تشنیع کرتے ہیں جس پر عاشق کہتا ہے کہ اب ہمت نہیں ہارنی۔ کوچہ یار بار بار جا کر اپنا سب کچھ وہیں لٹانا ہے۔بھلے اس دیوانگی میں میری جان ہی کیوں نہ چلی جائے مگر میں پھر بھی اس سے گھبراؤں گا نہیں۔میں اپنی جان محبوب کے لئے قربان کر دیتا ہوں۔

جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جاں کی تو کوئی بات نہیں

تشریح :

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ عاشق بہت دلیر اور نڈر ہوتے ہیں۔ جب وہ کسی کے عشق میں مبتلا ہو کر پختہ ارادہ کر لے پھر اسے کوئی طوفان کوئی رستے کی دیوار نہیں روک سکتی۔ اس کی دیوانگی کسی کے ڈر یا خوف کے زیر اثر نہیں آتی۔عاشق محبت کی راہوں میں بار بار آتا ہےاور ناکام ہو جاتا ہے۔ وہ محبوب کو اپنے دل کا حال سنانے کے لئے تگ و دو کرتا ہے۔ اس مقصدمیں اسے اپنی بار بار کی ناکامی بھی معمولی لگتی ہے۔ عاشق راہ محبت میں جان دینے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔عاشق کہتا ہے کہ ایک دن سبھی کو مر جانا ہے تو پھر کوچہ یار میں ہی یہ موت آجائے اس سے زیادہ شرف کی موت کیا ہوگی۔

میدان وفا دربار نہیں یاں نام و نسب کی پوچھ کہاں
عاشق تو کسی کا نام نہیں کچھ عشق کسی کی ذات نہیں

تشریح :

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ عشق کسی کو بھی ہو سکتا ہے۔ یہ محبت ہے جو کسی پر بھی اپنا سایہ ڈال دے پھر وہ اس سے بچ نہیں سکتا۔ کسی ملک کے شہزادے کو محبت اپنے جال میں پھنسا دے اور وہ فقیر ہو جائے یا کسی فقیر کو محبت بادشاہ بنا دے۔محبت کسی کی ذات نہیں دیکھتی یہ کسی کمین کو بھی ہو سکتی ہے۔یہ محبت سب سے ایک جیسا سلوک کرتی ہے۔عشق میں کسی کی ذات کو خاطر میں نہیں لایا جاتا جس پر یہ رنگ چڑھ جاتاہے وہ دیوانہ ہو جاتا ہے۔ عشق کے معیار ہی الگ ہے عشق میں نصب و خاندان نہیں دیکھا جاتا یہ حقیر ذاتوں سے چنا جاسکتا ہے اور اعلیٰ محلوں سے بھی۔

گر بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا دو ڈر کیسا
گر جیت گئے تو کیا کہنا ہارے بھی تو بازی مات نہیں

تشریح :

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ جب انسان کسی کھیل میں شامل ہو تو اس کے دو نتائج ہوتے ہیں ہار یا جیت۔ اسی طرح محبت کو بھی وہ کھیل سے تشبیہ دیتے ہیں کہ یہ محبت ہار جیت کا کھیل ہے۔ محبت میں عاشق اپنے محبوب کے لئے سب کر جائے۔ وہ اس کی خوشنودی کے لئے ہر حد پار کر دے۔ وہ اپنے سارے جذبے اس کے سپرد کر دے پھر وہ اس کا نتیجہ دیکھ لے۔اگر محبوب اس سے راضی ہو کر اسے ملنے آتا ہے تو یہ اس کی جیت ہوتی ہے مگر اگر محبوب نہیں آتا تو بھی اس کا عاشق ہونے کا رتبہ برقرار دہتا ہے۔ اس سے اس کی محبت کوئی نہیں چھین سکتا بلکہ وہ مثال بن جائے گا اور اس معاملہ میں ہار ہے ہی نہیں۔

سوال 1 : درست جواب کے شروع میں (✓) نشان لگائیں۔

۱ : غزل نمبر ایک میں ردیف ہے۔

٭دیا(✓)
٭گنوا
٭گنوادیا
٭گنوا، لٹا

۲ : فیض احمد فیض کی وجۂ شہرت ہے؟

٭تنقید
٭مضمون نگاری
٭شاعری(✓)
٭افسانہ نگاری

سوال 2 : مندرجہ ذیل الفاظ وتراکیب کی وضاحت کریں۔

نادکِ نیم کش : آدھ کھینچا تیر
چارہ گر : ہمدرد
غرورِ عشق کا بانکپن : عشق کا غرور
کوہ گراں : بہت مشکل اور دشوار گزار پہاڑ
مقتل : قتل گاہ

سوال 3 : قافیہ اور ردیف کی تعریف لکھیں اور فیض احمد فیض کی غزلوں سے ایک ایک مثال لکھیں۔

قافیہ :
شعر میں ہم وزن الفاظ کو قافیہ کہتے ہیں۔
مثلاً : لٹا، ذات، مات۔

ردیف :
شعر میں قافیہ کے بعد جوں کے توں آنے والے الفاظ کو ردیف کہتے ہیں۔
فیض کی غزل نمبر (1) میں لفظ “دیا” ردیف ہے۔

سوال 4 : مطلع اور مقطع کا فرق واضح کریں اور مثال بھی دیں۔

مطلع : غزل کا پہلا شعر جس میں دونوں مصرعے ہم قافیہ اور ہم ردیف ہوں مطلع کہلاتا ہے۔
مثلاً :

نہ گنواؤ ناوک نیم کش دل ریزہ ریزہ گنوا دیا
جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو تن داغ داغ لٹا دیا

مقطع : غزل کا وہ آخری شعر جس میں شاعر اپنا تخلص استعمال کرتا ہے اسے مقطع کہلاتا ہے۔
مثلاً :

کیوں سنے عرض مضطرب مومنؔ
صنم آخر خدا نہیں ہوتا