اور آنا گھر میں مرغیوں کا

0
  • سبق : اور آنا گھر میں مرغیوں کا خلاصہ
  • مصنف : مشتاق احمد یوسفی
  • ماخوذ از : چراغ تلے

تعارفِ سبق

سبق ”اور آنا گھر میں مرغیوں کا“ کے مصنف کا نام ”مشتاق احمد یوسفی“ ہے۔ یہ سبق کتاب ”چراغ تلے“ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

تعارفِ مصنف

اردو ادب کے ممتاز و معروف ادیب و مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی جنھوں نے مزاح کی دنیا کو جدیدیت اور اپنے منفرد انداز بیان سے چار چاند لگا دیئے۔ مشتاق احمد یوسفی ۴ ستمبر ۱۹۲۳ کو جے پور برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔

یوسفی صاحب کا ادبی سفر ارتقائی رہا۔ تاہم اول اول تو ان کی تحریروں میں ان کی انفرادیت نمایاں ہوگئی تھی۔ مگر ان کی تحریروں میں دھیرے دھیرے مزاح اور فلسفے کی آمیزش سے پرکاری کی گئی۔

خلاصہ

اس سبق میں مصنف ایک واقعہ بیان کر رہے ہیں جب ان کے دوست نے انہیں اپنی مرغیاں دیں۔ مصنف کے دوست اپنی مرغیاں مصنف کو اس لیے دینا چاہتےتھے کہ ان کا اپنا گھر چھوٹا اور قلیل تھا۔ مصنف کے دوست کے گھر مہمان آرہے تھے جس وجہ سے وہ اپنی مرغیاں مصنف کو دینا چاہتے تھے۔

مصنف بتاتے ہیں کہ اس کے بعد میرے گھر میں ہروقت مرغیاں ہی نظر آنے لگیں اور اکثر تو ایسا بھی ہوا کہ میں نے اپنی بیوی سے کہا اب اس گھر میں میں رہوں گا یا مرغیاں تو بیوی مرغیوں کی وجہ سے مجھے گھر سے نکالنے پر راضی ہو گئی۔

مصنف کہتے ہیں کہ مرغیاں بالکل بھی وفادار جانور نہیں ہوتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ چاہے ہم مرغیوں کو اپنے ہاتھ پر دانہ رکھ کر چگواٸیں یا ان کی جتنی بھی دیکھ بھال کر لیں لیکن وہ کبھی بھی وفادار نہیں ہو سکتی ہیں۔ مصنف کہتے ہیں کہ میرا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ جیسے ہی میں گھر میں داخل ہوں تو چوزے میرے پیر سے لپٹ جائے یا مرغیاں مجھے سلامی پیش کریں لیکن اگر مرغیاں شرعی طور پر حلال ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ہر چمکتی ہوئی چیز کو چھری سمجھ کر بدکنے لگیں۔ مصنف کہتے ہیں کہ مرغیوں کو ہر مسلمان کو اپنا خون کا پیاسا نہیں سمجھنا چاہیے۔

مصنف کہتے ہیں کہ بزرگ کہتے ہیں کہ مرغ صبح ہی صبح اذان دیتا ہے۔ مصنف کہتے ہیں میں نے اٹھارا مہینے اپنی عادات و خصائل پر غور کر کے یہ نتیجہ حاصل کیا ہے کہ یا تو میری عین اسی وقت آنکھ لگ جاتی ہے جب مرغ کے اذان دینے کا وقت ہوتا ہے یا تو مرغ جان بوجھ کر اس وقت اذان دیتے ہیں جب ہم سب خوابِ غفلت میں پڑے ہوں۔ یعنی مصنف کہتے ہیں کہ اٹھاراہ مہینے کی کوشش کے باوجود میں مرغ کی دی گئی اذان سننے میں کامیاب نہیں ہوا ہوں۔ مصنف کہتے ہیں کہ کفایت شعار لوگ ٹائم پیس خریدنے سے گریز کرتے ہیں جس کے متبادل وہ مرغ پال لیتے ہیں تاکہ ہمسایوں کو سحر خیزی کی عادت رہے۔

مصنف کے دوست نے مصنف کو بتایا کہ مرغیوں کی پسندیدہ خوراک میں دانا دنکا، کیڑے مکوڑے، حشرات، کنکر پتھر شامل ہیں۔

سوال 1 : درست جواب کے گرد دائرہ لگائیں۔

۱ : مصنف کے خیال میں مرغی کا صحیح مقام کیا ہے۔

  • ٭ کھیت
  • ٭ دڑبہ
  • ٭ پلیٹ (✓)
  • ۲ : میزبان کے اخلاص وایثال کا اندازہ کن باتوں سے ہوتا ہے؟
  • ٭ تحفے سے
  • ٭ طویل قیام سے
  • ٭ دسترخواں پر مرغیوں کی تعداد سے (✓)

۳ : گندے انڈوں کا موزوں محل استعمال کیا ہے؟

  • ٭ جلسہ(✓)
  • ٭ ٹوکری
  • ٭ کرکٹ میچ

۴ : مرغی کی آواز اور جسامت میں بھی تناسب ہے؟

  • ٭ ایک اور دو کا
  • ٭ ایک اور چالیس کا
  • ٭ ایک اور سو کا (✓)

سوال 2 : سبق کے حوالے سے مختصر جوابات لکھیں۔ جواب تین سطور سے زیادہ طویل نہ ہو۔

۱ : مصنف کے دوست اپنی مرغیاں ، مصنف کو کیوں دینا چاہتے تھے؟

جواب : مصنف کے دوست اپنی مرغیاں مصنف کو اس لیے دینا چاہتےتھے کہ ان کا اپنا گھر چھوٹا اور قلیل تھا۔ مصنف کے دوست کے گھر مہمان آرہے تھے جس وجہ سے وہ اپنی مرغیاں مصنف کو دینا چاہتے تھے۔

۲ : کفایت شعار لوگ مرغ کیوں پالتے ہیں؟

جواب : کفایت شعار لوگ ٹائم پیس خریدنے سے گریز کرتے ہیں جس کے متبادل وہ مرغ پال لیتے ہیں تاکہ ہمسایوں کو سحر خیزی کی عادت رہے۔

۳ : “اس گھر میں اب یا تو یہ رہیں گے یا میں!” یہ جملہ مصنف نے کس موقع پر کسے کہا اور نتیجہ کیا نکلا؟

جواب : مصنف ایک دن موسلادھار بارش میں گھر آئے تو اپنی پلنگ پر تین مرغوں کو دیکھا اور سیخ پا ہو کر اپنی بیوی سے کہا کہ : “اب یا تو یہ گھر پر رہیں گے یا میں۔” اس کے جواب میں بیوی نے کہا کہ “آپ اتنی بارش میں کہاں جائیں گے؟” بیوی کا جواب سن کر مصنف کو اپنی بات واپس لینی پڑی۔

۴ : مرغیوں کی پسندیدہ خوراک کیا ہے؟

جواب : مرغیوں کی پسندیدہ خوراک میں دانا دنکا، کیڑے مکوڑے، حشرات، کنکر پتھر شامل ہیں۔

۵ : “سوری! رانگ نمبر “سے مصنف کا جو تجربہ وابستہ ہے، بیان کیجیے۔

جواب : ایک دن مصنف کو فون کال آئی جیسے ہی مصنف نے رسیور اٹھا کر ہیلو کہا۔ ایک مرغ نے ان کی ٹانگوں سے نکل کر ازان دے ڈالی ۔جس کے جواب میں فون کال کرنے والے نے “سوری رانگ نمبر” کہہ کر بند کر دیا۔

سوال 3 : مندرجہ ذیل عبارات کی تشریح حوالہ متن اور سیاق و سباق کے ساتھ کریں۔

  • ۱ : مہینوں ان کی ۔۔۔۔۔ پیاسا تصور کرے۔

حوالہ متن

یہ اقتباس سبق ”اور آنا گھر میں مرغیوں کا“ سے لیا گیا ہے۔ اس سبق کے مصنف کا نام ”مشتاق احمد یوسفی“ ہے۔ یہ سبق کتاب چراغ تلے“ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

سیاق و سباق

اس سبق میں مصنف ایک واقعہ بیان کر رہے ہیں جب ان کے دوست نے انہیں اپنی مرغیاں دیں۔ مصنف بتاتے ہیں کہ اس کے بعد میرے گھر میں ہروقت مرغیاں ہی نظر آنے لگیں اور اکثر تو ایسا بھی ہوا کہ میں نے اپنی بیوی سے کہا اب اس گھر میں میں رہوں گا یا مرغیاں تو بیوی مرغیوں کی وجہ سے مجھے گھر سے نکالنے پر راضی ہو گئی۔

تشریح

اسے اقتباس میں مصنف کہتے ہیں کہ مرغیاں بالکل بھی وفادار جانور نہیں ہوتی ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ چاہے ہم مرغیوں کو اپنے ہاتھ پر دانہ رکھ کر چگواٸیں یا ان کی جتنی بھی دیکھ بھال کر لیں لیکن وہ کبھی بھی وفادار نہیں ہو سکتی ہیں۔ مصنف کہتے ہیں کہ میرا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ جیسے ہی میں گھر میں داخل ہوں تو چوزے میرے پیر سے لپٹ جائے یا مرغیاں مجھے سلامی پیش کریں لیکن اگر مرغیاں شرعی طور پر حلال ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ہر چمکتی ہوئی چیز کو چھری سمجھ کر بدکنے لگیں۔ مصنف کہتے ہیں کہ مرغیوں کو ہر مسلمان کو اپنا خون کا پیاسا نہیں سمجھنا چاہیے۔

  • ۲ : ایک عام خوش فہمی ۔۔۔۔۔ غفلت میں پڑے ہوں۔

حوالہ متن

یہ اقتباس سبق ”اور آنا گھر میں مرغیوں کا“ سے لیا گیا ہے۔ اس سبق کے مصنف کا نام ”مشتاق احمد یوسفی“ ہے۔ یہ سبق کتاب چراغ تلے“ سے ماخوذ کیا گیا ہے۔

سیاق و سباق

اس سبق میں مصنف ایک واقعہ بیان کر رہے ہیں جب ان کے دوست نے انہیں اپنی مرغیاں دیں۔ مصنف بتاتے ہیں کہ اس کے بعد میرے گھر میں ہروقت مرغیاں ہی نظر آنے لگیں اور اکثر تو ایسا بھی ہوا کہ میں نے اپنی بیوی سے کہا اب اس گھر میں میں رہوں گا یا مرغیاں تو بیوی مرغیوں کی وجہ سے مجھے گھر سے نکالنے پر راضی ہو گئی۔

تشریح

اس اقتباس میں مصنف کہتے ہیں کہ بزرگ کہتے ہیں کہ مرغ صبح ہی صبح اذان دیتا ہے۔ مصنف کہتے ہیں میں نے اٹھارا مہینے اپنی عادات و خصائل پر غور کر کے یہ نتیجہ حاصل کیا ہے کہ یا تو میری عین اسی وقت آنکھ لگ جاتی ہے جب مرغ کے اذان دینے کا وقت ہوتا ہے یا تو مرغ جان بوجھ کر اس وقت اذان دیتے ہیں جب ہم سب خوابِ غفلت میں پڑے ہوں۔ یعنی مصنف کہتے ہیں کہ اٹھاراہ مہینے کی کوشش کے باوجود میں مرغ کی دی گئی اذان سننے میں کامیاب نہیں ہوا ہوں۔

سوال 4 : مندرجہ ذیل الفاظ و تراکیب کو اپنے جملوں میں استعمال کریں :

پردہ غیب ہر پردہ غیب سے آئی آزمائش و امتحان منجانب خدا ہوتا ہے۔
راسخ عقیدہ آج کل کے سیاسی کارکنان راسخ عقیدہ ہونے کا ثبوت دوسروں کو برا کہ کر دیتے ہیں۔
عمرِ طبیعی پاکستان کی عمر طبیعی 65 برس ہے۔
گنجائش وبا کے دنوں میں ہر شخص کو اپنی حیثیت اور گنجائش کے مطابق غرباء کی مدد کرنی چاہیے۔
خوش فہمی پاکستان کے ابتر حالات ایک طرف مگر ہم پھر بھی بہتری کی خوش فہمی رکھتے ہیں۔

سوال 5 : مناسب الفاظ لگا کر خالی جگہ پر کریں :

  • ۱ : میں گھر میں (مرغیاں) پالنے کا روادار نہیں۔
  • ۲ : انسان صرف روٹی پر ہی (زندہ) نہیں رہتا۔
  • ۳ : اختلاف کی (گنجائش) نظر نہ آئی۔
  • ۴ : انسان محبت کا (بھوکا) ہے۔
  • ۵ : مرغ صرف صبح (اذان) دیتے ہیں۔