خاطر سے یا لحاظ سے میں مان تو گیا تشریح

0

تعارفِ غزل :

یہ شعر ہماری درسی کتاب کی غزل سے لیا گیا ہے۔ اس غزل کے شاعر کا نام مرزا خان داغ ہے۔

تعارفِ شاعر :

یہ غزل داغ دہلوی کی لکھی ہوئی ہے، داغ دہلوی استاد شعراء میں شمار ہوتے ہیں۔ داغؔ کا اصل نام ابراہیم تھا لیکن وہ نواب مرزا خان کے نام سے جانے گئے۔ وہ 1831 میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ داغؔ کی شاعری ایک محور پر گھومتی ہے اور وہ ہے عشق! جنسی محبت کے باوجود انھوں نے عاشقانہ جذبات کا بھرم رکھا ہے اور نفسیاتی بصیرت کا اظہار ان کے یہاں جا بجا ملتا ہے۔داغؔ آخری عمر تک حیدرآباد میں ہی رہے۔ یہیں 1905 میں ان کا انتقال ہوا۔داغؔ نے پانچ دیوان چھوڑے جن میں 1028 غزلیں ہیں۔

خاطر سے یا لحاظ سے میں مان تو گیا
جھوٹی قسم سے آپ کا ایمان تو گیا

تشریح :

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ جب محبوب ملنے کا وعدہ کرے اور ہمیں یہ نوید مسرت سنا جائے۔ تو میں اس کے انتظار میں بیٹھا ہوتا ہوں۔ اس کا منتظر دروازے کو ٹکٹکی باندھ کر تکتا رہتا ہوں۔ مگر عین موقع پر وہ بہانا بنا کر ملاقات ترک کر دیتا ہے تو مجھے دکھ ہوتا ہے۔ اس پر یہ کہ جب وہ غیروں سے رابطہ رکھتا ہے تو میرا دل دکھتا ہے۔ محبوب جب عاشق کے دل کو چھلنی کرکے اس سے ملنے آجاتا ہےتو عاشق کی حالت زار کو دیکھ کر وہ اس سے رقیب سے رابطہ منقطع کرنے کا وعدہ کرتا ہے۔ عاشق کو چاروں نا چار اس بات کا پاس رکھنے کو اس کی بات ماننی پڑتی ہے۔ مگر وہ رقیب سے پھر بھی ملتا ہے اور اپنے وعدے اور قسمیں سب بھول جاتا ہے۔

دل لے کے مفت کہتے ہیں کچھ کام کا نہیں
الٹی شکایتیں ہوئیں احسان تو گیا

تشریح :

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ میں نے اپنے محبوب سے بہت محبت کی۔ محبوب کی خاطر ہر دکھ جھیلے، اس کی خاطر ہر ایک سے منہ ماری کی۔ میری حالت دیوانوں جیسی ہو گئی ہے۔ میں نے محبوب پر اپنے سارے سچے جذبے صرف کر دیئے مگر وہ میری اس بات میں دلچسپی نہیں لے رہا۔ میں نےاسے بے لوث محبت کی مگر وہ میری محبتوں کا پاس نہیں رکھتا ، وہ مجھ سے محبت کے بدلے محبت سے پیش نہیں آتا۔ عاشق محبوب سے کہتا ہے کہ میری محبت تمہیں کسی تردد کے بغیر مل گئی اس لئے تم میری بےقدرتی کرتے ہو ، جو چیز بغیر محنت کے میسر ہو اس کی قدردانی کرنی چاہئے نہ کہ ناشکری۔

ڈرتا ہوں دیکھ کر دل بے آرزو کو میں
سنسان گھر یہ کیوں نہ ہو مہمان تو گیا

تشریح :

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ میرا دل اب بے آرزو ہو گیا ہے مجھے خوف ہے کہ یہ بےجان نہ ہو جائے۔ جیسے کسی گھر کی رونق اس کے مکینوں سے ہوتی ہے۔ گھر میں چراغاں لوگوں سے ہوتا ہے۔مہمانوں کے آنے جانے سے ایک گھر آباد ہوتا ہے۔ مگر کسی گھر پر اگر تالہ لٹکا دیا جائے اور اس میں کسی کا آنا جانا نہ ہو بلکہ وہ مکمل بند کر دیا جائے تو وہ سنسان ہو جاتا ہے۔ اسی طرح شاعر اپنے دل کو خواہشات سے عاری سمجھ کر اسے سنسان و ویران گھر سے تشبیہ دے رہے ہیں۔ شاعر محبوب کی بے وفائیوں اور وعدہ خلافیوں سے تنگ آگیا ہے وہ اب کہتا ہے کہ کہیں میرا دل اب خواہشات سے خالی ہو گیا ہے اور شاید مجھے اسی وجہ سے موت آجائے گی۔

افشائے راز عشق میں گو ذلتیں ہوئیں
لیکن اسے جتا تو دیا جان تو گیا

تشریح :

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ میں اپنے محبوب سے بے حد محبت کرتا ہوں۔ میں نے اسی بات کا اظہار اس سے کیا۔ محبوب پر جان چھڑکنے والا عاشق اسے اپنے جذبوں سے آگاہ کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ وہ راز محبت کسی طور نہیں چھپا سکتا۔ وہ اپنی کیفیت سے محبوب کو آگاہ کرنا چاہتے ہیں۔ عاشق نے اپنا راز محبت حتی المقدور چھپایا کہ کہیں محبوب کی رسوائی اور اس کی جگ ہنسائی نہ ہو مگر یہ بات عطر کی مانند ہے چاروں اور پھیل جاتی ہے۔ مگر جب محبوب کو اس کی محبت کا علم ہوا تو وہ اب مطمئن ہیں کہ بے شک لوگ مجھےلعن طعن کریں میرا مقصد پورا ہو گیا۔محبوب میری محبت سے آگاہ ہو گیا اب مجھے زمانے کی فکر نہیں۔

گو نامہ بر سے خوش نہ ہوا پر ہزار شکر
مجھ کو وہ میرے نام سے پہچان تو گیا

تشریح :

اس شعر میں وہ کہتے ہیں کہ میرے دل میں کچھ ہے تو میرے محبوب کی محبت ہے۔ میرا دل محبوب کی محبت سے بھرا ہوا ہے۔ شاعر اپنے دل کا اب محبوب کو بھی بتانا چاہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کے دل کی کیفیت اب محبوب پر بھی کھل جائے۔ عاشق نے قاصد کو محبوب کے پاس بھیجا کہ اسے میرے دل کے احوال کا یہ خط دے آو۔ مگر محبوب نے جب عاشق کے دل کا احوال پڑھا تو قاصد کو برا برا کہا۔ عاشق کو قاصد نے معاملہ بتایا تو وہ پریشان ہو گیا کہ یہ بری بات نہیں تھی بلکہ خوشی کی بات تھی۔ عاشق اپنے حال دل محبوب تک پہنچ جانے پر خوش ہے اور اسے امید ہے کہ یہ زرا دیر کا غصہ جلدی کافور ہو جائے گا۔

بزم عدو میں صورت پروانہ دل مرا
گو رشک سے جلا ترے قربان تو گیا

تشریح :

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ میرا محبوب میری محبتوں کو نظر انداز کرکے اغیار کی محفلوں میں جاتا ہے۔ وہ دونوں پر یوں دل نواز ہے یہ مجھے تکلیف دیتا ہے۔ عاشق کہتا ہے کہ میرے سامنے تو محبوب بات نہیں کرتا، مجھے وہ دھتکارتا ہے مگر غیروں سے وہ باتیں کرتا ہے۔ شاعر ایک طرف تو اغیار کی محبوب کی قربت کو سخت ناپسند کرتا ہے مگر دوسری طرف ان کی قسمت پر رشک بھی کرتا ہے کہ یہ وہ خوش قسم لوگ ہیں جن کی محفلوں کو اس کے محبوب نے آباد کر رکھا ہے۔ شاعر محبوب سے کہتے ہیں کہ میں نے تو یہ دل تجھی پر نثا کرنا تھا چلو آج رشک سے ہوا ہے، پر قربان تجھی پر ہوا ہے۔

ہوش و حواس و تاب و تواں داغؔ جا چکے
اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا

تشریح :

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ میں محبوب کی محبت میں اس طرح مبتلا ہوں کہ مجھے دن رات کے آنے جانے کی کوئی خبر نہیں ہوتی۔ وہ کہتے ہیں کہ قریب المرگ انسان اپنے جسم میں طاقت و قوت باقی نہیں پاتا۔ اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ وقت سفر اب قریب ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے جہاں بینی میں زندگی گزار دی اب بس ایک ہی چیز کا انتظار ہے جس کی تیاری مکمل ہے ، وہ جس وقت آکر لے جائے۔ بڑھاپے کے باعث جسم میں توانائی ختم ہو چکی ہے۔ بس اب ہم اس دنیا سے چلے جائیں گے۔

سوالات و جوابات

سوال نمبر 1 : مرزا داغ کی غزلوں کو ذہن میں لائیں اور درج ذیل مصرعے درسے لفظ/الفاظ سے مکمل کریں۔

۱ : پھرے راہ سے ۔۔۔۔ آتے آتے۔

  • ٭درمیاں
  • ٭وہ یہاں (✓)
  • ٭ہم عناں

۲ : اب ہم بھی جانے والے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ تو گیا۔

  • ٭میزبان
  • ٭مہمان
  • ٭سامان (✓)

۳ : سنسان گھر یہ کیوں نہ ہو ۔۔۔۔۔ تو گیا۔

  • ٭انسان
  • ٭سلطان
  • ٭مہمان (✓)

سوال نمبر 2 : “اب ہم بھی جانے والے ہیں سامان تو گیا” میں سامان کا مفہوم زیادہ سے زیادہ تین سطروں میں لکھیں۔

جواب : بڑھاپے میں انسان کی ہمت تقریباً ختم ہو جاتی ہیں۔ وہ حواس اور وہ طاقت جو جوانی میں میسر ہوتی ہے نہیں رہتی۔ یہاں سامان سے مراد ہوش وحواس ، قوت و طاقت اور قویٰ کی مضبوطی ہے۔

سوال نمبر 3 : مندرجہ ذیل اشعار کی تشریح کریں۔

نہ جانا کہ دنیا سے جاتا ہے کوئی
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے

تشریح :

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ میں فراق میں تڑپ رہا ہوں۔ میرا محبوب میری حالت زار دیکھنے کو آئے۔ میرا محبوب ہی میرا چارہ ساز ہے، وہ میری خبرگیری کو تو آئے، دو گھڑی مجھ سے بات کرے میں اس کی یادوں میں تڑپ رہا ہوں۔ محبوب عاشق کی بری حالت کو دیکھ کر ملنے کی حامی بھر دیتا ہے مگر یہ وقتی جھوٹے دلاستے ہوتے ہیں۔ محبوب وعدہ کرکے وعدہ شکنی کرتا ہے اور ملنے کے وقت کوئی بہانا بنا کر وعدہ توڑ دیتا ہے۔محبوب کے وعدہ شکنی کی خبر جب تڑپتے ہوئے عاشق کو ملتی ہے تو اس کی حالت اور ابتر ہو جاتی ہے۔ یہ خبر اس کے لئے نفیر کے جیسے معلوم ہوتی ہے۔ شاعر کی حالت زار کو محبوب دیکھنے نہ آیا تو اس کی حالت اب اتنی بگڑ گئی ہے کہ وہ موت کے منہ میں ہے اس پر وہ اپنے محبوب سے شکوہ کرتا ہے کہ میری خبر گیری کرنے آجاتے تو میری یہ حالت نہ ہوتی۔

نہیں کھیل اے داغؔ یاروں سے کہہ دو
کہ آتی ہے اردو زباں آتے آتے

تشریح :

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ اردو زبان مسلمانوں کی آمد کے ساتھ ہی ہندوستان میں آگئی تھی۔ اس کا رسم الخط عربی سے ملتا جلتا ہے۔ اس زبان میں سنسکرت و فارسی جو مقامی ہندوستانی زبانیں تھیں اور عربی سمیت باقی زبانوں کے الفاظ شامل ہوتے گئے اور یہ زمان زد عام ہونے لگی۔ شاعر کہ رہے ہیں کہ اردو زبان کوئی عام باقی زبانوں کی طرح نہیں ، اس پر عبور حاصل کرنے کے لئے وقت لگتا ہے۔ اس کو سیکھنے کے لیے بڑی محبت درکار ہے۔ اہل زبان کی صحبت سے، انداز سخن کو بہتر کرنے سے یہ زبان وقت کے ساتھ ساتھ ازبر ہوتی ہے اور انسان کو اس پر بھرپور قدرت حاصل ہوتی ہے۔

ڈرتا ہوں دیکھ کر دل بے آرزو کو میں
سنسان گھر یہ کیوں نہ ہو مہمان تو گیا

تشریح :

اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ میرا دل اب بے آرزو ہو گیا ہے مجھے خوف ہے کہ یہ بےجان نہ ہو جائے۔ جیسے کسی گھر کی رونق اس کے مکینوں سے ہوتی ہے۔ گھر میں چراغاں لوگوں سے ہوتا ہے۔مہمانوں کے آنے جانے سے ایک گھر آباد ہوتا ہے۔ مگر کسی گھر پر اگر تالہ لٹکا دیا جائے اور اس میں کسی کا آنا جانا نہ ہو بلکہ وہ مکمل بند کر دیا جائے تو وہ سنسان ہو جاتا ہے۔ اسی طرح شاعر اپنے دل کو خواہشات سے عاری سمجھ کر اسے سنسان و ویران گھر سے تشبیہ دے رہے ہیں۔ شاعر محبوب کی بے وفائیوں اور وعدہ خلافیوں سے تنگ آگیا ہے وہ اب کہتا ہے کہ کہیں میرا دل اب خواہشات سے خالی ہو گیا ہے اور شاید مجھے اسی وجہ سے موت آجائے گی۔

سوال نمبر 4 : مندرجہ ذیل الفاظ و تراکیب کی وضاحت کریں۔

دل بے آرزو : ایسا دل جس میں کوئی تمنا نہ ہو
سنسان گھر : ویران گھر
افشائے راز : کسی راز کا ظاہر ہونا
نامہ بر : قاصد
ہم عناں : ساتھی
اجل : موت جسے آنا ہی ہے۔

سوال نمبر 5 : دونوں غزلوں کے قوافی بالترتیب لکھیں۔

  • پہلی غزل کے قوافی :
  • یہاں۔ کہاں۔ مہرباں۔ درمیاں۔ آندھیاں۔ زباں۔
  • دوسری غزل کے قوافی :
  • مان ۔ ایمان۔ احسان۔ مہمان۔ جان۔ پہچان۔ قربان۔ سامان۔