لوکل بس

0
  • نظم : لوکل بس
  • شاعر : دلاور فگار

تعارفِ نظم :

یہ شعر/بند ہماری درسی کتاب کی نظم ”لوکل بس“ سے لیا گیا ہے۔ اس نظم کے شاعر کا نام دلاور فگار ہے۔

تعارفِ شاعر :

آپ کا نام دلاور حسین تھا۔ آپ نے شعر گوئی کا آغاز 14 سال کی عمر میں کیا۔ دلاور فگار ایک شاعر ، مزاح نگار اور نقاد تھے۔ آپ کی غزلوں کا مجموعہ “حادثے” اور ایک طویل نظم “ابو قلموں کی مصری” بہت مقبول ہوئی۔ آپ کی مزاحیہ شاعری میں قطعوں اور رباعیوں کا مجموعہ”ستم ظریفیاں” بہت دل چسپ ہے۔

بس میں لٹک رہا تھا کوئی ہار کی طرح
کوئی پڑا تھا سایۂ دیوار کی طرح
سہما ہوا تھا کوئی گناہ گار کی طرح
کوئی پھنسا تھا مرغ گرفتار کی طرح
محروم ہو گیا تھا کوئی ایک پاؤں سے
جوتا بدل گیا تھا کسی کا کھڑاؤں سے

تشریح :

اس نظم کے شاعر کا نام دلاور فگار ہے۔ اس بند میں شاعر کہتے ہیں کہ لوکل بسوں کی حالت بہت ابتر ہوتی ہے۔ جب بس میں ایک معقول تعداد لوگوں کی بیٹھ جائے تو ڈرائیور یہ دھیان رکھے بغیر کہ کوئی بس پر سوار ہوا کہ نہیں بس کو روانہ کر دیتا ہے۔ اس دوران کتنے لوگ اس کیفیت میں ہوتے ہیں کہ ان کا ایک پاؤں بس پر اور ایک زمین پر ہوتا ہے اور وہ جلدی سے بس پر لٹک جاتے ہیں۔ ان کو دیکھ کر یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے بس پر کوئی ہار لٹکا ہوا ہو۔ وہ باہر بس سے جھولتے ہوئے سفر کر رہے ہوتے ہیں۔ بس میں لوگوں کی حالت بہت زار ہوتی ہے۔ پاؤں پر پاؤں ، کونہی پر کونہی، سب ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں، ایک دوسری میں پھنسے ہوئے کہ ان کو جدا کرنا وبال جان بن جائے۔ لوگوں کی حالت مختلف ہوتی ہے کچھ لوگ یوں پھنسے بیٹھےہوتے ہیں کہ جیسے ان سے کوئی گناہ سرزدہوا ہو اور یہ اس کی پاداش میں اس بس میں بٹھا دیئے گئے ہوں۔ لوگوں کو ایسی بسوں میں سفر کرنے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ کسی گناہ کا کفارہ دے رہے ہیں۔ ہاتھ پاؤں ایک دوسرے میں پھنسے ہوتے ہیں، آدمی ہلنے کا نہیں ہوتا تو معلوم ہوتاہے کہ جیسے کسی قیدی کو ہتھکڑی لگا کر کوتوالی لے جاتا جارہا ہے۔ ایک قیدی کی بھی یہی حالت ہوتی ہے وہ زنجیروں میں جھکڑا ہوتا ہے اسی طرح بس میں لوگوں کا ہجوم زیادہ ہونے کی وجہ سے لوگ ایسے پھنسے ہوتے ہیں جیسے قیدی ہوں۔ اس کھچا کھچ بھری بس میں لوگ بے حس و حرکت بیٹھے ہوتے ہیں بالکل سایۂ دیوار کی طرح۔ بس میں لوگوں کی بھیڑ سے ایک دوسرے کے پاؤں پر پاؤں آتا ہے جس سے جوتا وغیرہ اتر کر آگے پیچھے کہیں غائب ہو جاتا ہے پھر اس بھیڑ میں وہ ملتا نہیں ہے۔

گاڑی میں ایک شور تھا کنڈکٹر آگے چل
کہہ دے خدا کے واسطے ہاں ٹھیک ہے ڈبل
کب تک کھڑا رہے گا سر جادۂ عمل
لڑنے کی آرزو ہے تو باہر ذرا نکل
تجھ پر خدا کی مار ہو اسٹارٹ کر دے بس
دو پیسے اور لے لے جو دولت کی ہے ہوس

تشریح :

اس نظم کے شاعر کا نام دلاور فگار ہے۔ اس بند میں شاعر کہتے ہیں کہ بس ڈرائیور حضرات عموماً زیادہ پیسے کمانے کے چکر میں زیادہ لوگوں کو بس میں سوار کر لیتے ہیں۔ پھر بس میں ایک حبس اور گرمی کی شدت سے لوگوں کی حالت بگڑتی رہتی ہے۔ ڈرائیور دیر تک بس کو روکا رکھتے ہیں تاکہ مزید لوگ بھی بس میں سوار کر سکیں۔ بس میں پہلے سے زرا جگہ نہیں مگر طمع ایسی چیز ہے کہ انسان سے کیا کچھ نہیں کرواتی۔ اس دوران مسافروں کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے جس سے وہ کنڈکٹر کو جلی کٹی سناتے ہیں۔ وہ کنڈکٹر کو کڑوی کسیلی سنا کر بس کو چلانے کا کہتے ہیں۔ مگر کنڈکٹر اس بات پر غور نہیں کرتا وہ مزید سواریاں سوار کرنے میں مصروف ہوتا ہے۔ شاعر کنڈکٹر کے دوھرے روایہ کو بھی بےنقاب کرتے ہیں کہ بس میں سوار کرتے ہوئے وہ جی حضوری کرتا ہے اور جب لوگ بس میں سوار ہو جائیں تو اس کے تیور یکسر بدل جاتے ہیں، وہ ان کی آواز پر کان نہیں دھرتا۔ مسافر آخر تنگ آکر کنڈکٹر سے کہتے ہیں کہ کب تک کھڑے رہو گے اگر نہیں چلتا تو بتا دو۔ کنڈکٹر ان سے سخت زبان میں بات کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اگر اتنی جلدی تھی تو آٹو یا رکشہ لے کر چلے جاتے بس میں کیوں سوار ہوئے۔ مسافر اس رویےکی توقع نہیں کرتے اور اس سے کہتے ہیں کہ اگر تم لڑنا چاہتے ہو تو بس سے اترو تمہیں تمیز سیکھاؤں۔ مگر وہ ٹالتے ہوئے کہتا ہے کہ تم جیسے روز دیکھتا ہوں اور مہنگائی کو بس کے روکے رکھنے کا بہانا بناتا ہے۔ دوسرا مسافر اس سے کہتا ہے کہ اتنی ہی پیسے کی طلب ہے توہم سے دو پیسے زیادہ لے لو مگر خدارا بس کو چلاؤ۔مگر کنڈکٹر پر ان کی ان باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔

کنڈکٹر اب یہ کہتا تھا وہ بس چلائے کیوں
جو بس میں آ گیا ہے کرے ہائے ہائے کیوں
جس کو ہو جاں عزیز مری بس میں آئے کیوں
ایسے ہی گل بدن تھے تو پیسے بچائے کیوں
ٹھانی ہے دل میں اب نہ دبیں گے کسی سے ہم
تنگ آ گئے ہیں روز کی کنڈکٹری سے ہم

تشریح :

اس نظم کے شاعر کا نام دلاور فگار ہے۔ اس بند میں شاعر کہتے ہیں کہ مسافر جو بس میں بیٹھے بیٹھے پریشان ہو گئے تھے شکوہ کناں ہوئے تو کنڈکٹر نے آگے سے جلی کٹی سنا دی۔ وہ کہتا ہے کہ اگر اتنی ہی گھر جانےکی جلدی تھی تو بس میں کیوں چڑھے، اگر اتنی ہی بری بس تھی تو اس میں سوار کیوں ہوئے۔ آٹو یا رکشہ لے کر چلے جاتے مگر وہاں تو پیسے بچا کر بس میں کم کرایہ کی غرض سے چڑھ گئے ہو۔ اب پیسے بچانے کو بس میں سوار ہو ہی گئے ہو تو اب صبر بھی رکھو۔ بس خالی نہیں چلاؤں گا۔ مہنگائی ہے اور اوپر سے بڑھتے ہوئے خرچے ہیں اب بس کم مسافروں کے ساتھ چلائی تو گھر کیسے چلے گا۔ مسافر پھر بھی اسے کڑوی کسیلی سناتے ہیں جس پر وہ برہم ہو جاتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ کیسی سزا ہے کنڈکٹر کا پیشہ ہی میں روز کوئی نہ کوئی ہمیں دبا جاتا ہے۔ ہمیں دھماکانے لگتا ہے، جس کا بس چلتا ہے تو بس ہم کنڈکٹروں پر ہم لوگ آگے سے بولتے نہیں تو کیا اب مارنے کی دھمکیوں پر اتر آؤ گے۔کنڈکٹر کہتا ہے کہ کسی کی دھمکیوں میں نہیں آنے والا اور وہ اس نوکری سے خاصا تنگ بھی آچکا ہے اس لیے وہ اس پیشہ کو چھوڑ دینے کا کہہ دیتا ہے۔ یہ کنڈکٹرں کے حیلے بہانے ہوتے ہیں وہ بس نہ چلانے اور مسافروں کو بھرنے تک کی تاخیر کے لیے ایسے جذباتی جملے کہتے ہیں۔ تاکہ لوگ بس سے اتر نہ جائیں اور وہ اس کی باتیں سننے میں مصروف رہیں۔

سوال 1 : نظم “لوکل بس” کے متن کو پیشِ نظر رکھ کر ہر درست جواب کے شروع میں (✓) کا نشان لگائیں۔

۱ : بس میں کوئی لٹک رہا تھا۔

  • ٭ہار کی طرح(✓)
  • ٭گرفتار کی طرح
  • ٭بیمار کی طرح
  • ٭گنہگار کی طرح

۲ : لوگ کنڈکٹر کو کتنے پیسے اور دینے کو تیار تھے؟

  • ٭دو (✓)
  • ٭پانچ
  • ٭دس
  • ٭بیس

۳ : کنڈکٹر کس سے تنگ آگیا تھا؟

  • ٭مسافروں سے
  • ٭بس کی حالت سے
  • ٭تنگ دستی سے
  • ٭کنڈکٹری سے(✓)

سوال 2 : اس نظم کے دوسرے اور تیسرے بند میں کنڈکٹر اور مسافروں کے درمیان ہونے والی کھینچا تانی کو مکالمے کے انداز میں لکھیں۔

  • جواب : کنڈکٹر اور مسافر کے درمیان مکالمہ درج ذیل ہے :
  • مسافر : اب چلتے کیوں نہیں ہو۔
  • کنڈکٹر : چلتے ہیں، ذرا صبر رکھو۔
  • مسافر : خدا کے لیے چلو اب سواریوں کی حالت ابتر ہو رہی ہے۔
  • کنڈکٹر : چلتے ہیں بھائی زرا تھم کر رہو، ادھم مت مچاؤ۔
  • مسافر : مزید سواریوں کے لیے کب تک صدا دیتے رہو گے۔
  • کنڈکٹر : میرا دماغ مت کھاؤ، چلنا ہے تو ٹھیک وگرنہ اتر جاؤ۔
  • مسافر : تمہیں زرا آدابِ گفتگو نہیں، زرا باہر اترو تمہاری طبیعت درست کرتا ہوں۔
  • کنڈکٹر : تیرے جیسے روز دیکھتا ہوں، تو کیا مجھے دیکھے گا۔
  • دوسرا مسافر : ان کے منہ نہ لگو اگر تمہیں پیسوں کی طمع ہے تو ہم سے دو پیسے زیادہ لے لو مگر خدا کے لیے چلو۔
  • کنڈکٹر : میں یوں خالی بس نہیں چلا سکتا۔ تم لوگوں کو کیا معلوم کتنے خرچے ہیں۔
  • مسافر : ہمیں کس مصیبت میں پھنسا دیا ہے۔
  • کنڈکٹر : او بھائی! بس میں سوار ہو ہی گئے ہو تو ادھم مت مچاؤ۔
  • مسافر : ہمارا دم دو بھر ہوا ہے تم کہتے ہو شور نہ مچاؤ۔
  • کنڈکٹر : اتنی ہی جان پر بنی ہے تو بس میں کیوں سوار ہوئے؟ رکشہ ٹیکسی سے چلے جاتے۔
  • مسافر : اب تو چلتا ہے یا تیرا دماغ درست کروں۔
  • کنڈکٹر : زیادہ رعب جمانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں نے تہیہ کر لیا ہے اب کسی سے نہیں ڈروں گا۔
  • مسافر : میں اس کنڈکٹر سے تنگ آگیا ہوں۔

سوال 3 : مندرجہ ذیل الفاظ و تراکیب کا مطلب لکھیں۔

سایۂ دیوار : دیوار کا سایہ
مرغِ گرفتار : قیدی پرندہ عموماً سہاہوارہتا ہے۔
سرچارۂ عمل : کام کرنے کے لیے تگ و دو کرنا۔
گل بدن : نازک بدن
کھڑاؤں : لکڑی کا سلیپر جس کی گھنڈی کو انگوٹھے کے ساتھ اٹکاتے ہیں۔

سوال 4 : نظم “لوکل بس” کا خلاصہ لکھیں۔

خلاصہ :

اس نظم میں شاعر کہتے ہیں کہ لوکل بسوں کی حالت بہت ابتر ہوتی ہے۔ جب بس میں ایک معقول تعداد لوگوں کی بیٹھ جائے تو ڈرائیور یہ دھیان رکھے بغیر کہ کوئی بس پر سوار ہوا کہ نہیں بس کو روانہ کر دیتا ہے۔ اس دوران کتنے لوگ اس کیفیت میں ہوتے ہیں کہ ان کا ایک پاؤں بس پر اور ایک زمین پر ہوتا ہے اور وہ جلدی سے بس پر لٹک جاتے ہیں۔ ان کو دیکھ کر یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے بس پر کوئی ہار لٹکا ہوا ہو۔

شاعر بتاتے ہیں کہ بس کی ابتر حالت کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب ہاتھ پاؤں ایک دوسرے میں پھنسے ہوتے ہیں، آدمی ہلنے کا نہیں ہوتا تو معلوم ہوتاہے کہ جیسے کسی قیدی کو ہتھکڑی لگا کر کوتوالی لے جاتا جارہا ہے۔

شاعر کہتے ہیں کہ بس ڈرائیور حضرات عموماً زیادہ پیسے کمانے کے چکر میں زیادہ لوگوں کو بس میں سوار کر لیتے ہیں۔ پھر بس میں ایک حبس اور گرمی کی شدت سے لوگوں کی حالت بگڑتی رہتی ہے۔ ڈرائیور دیر تک بس کو روکا رکھتے ہیں تاکہ مزید لوگ بھی بس میں سوار کر سکیں۔ مسافر آخر تنگ آکر کنڈکٹر سے کہتے ہیں کہ کب تک کھڑے رہو گے اگر نہیں چلتا تو بتا دو۔ کنڈکٹر ان سے سخت زبان میں بات کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اگر اتنی جلدی تھی تو آٹو یا رکشہ لے کر چلے جاتے بس میں کیوں سوار ہوئے۔ مسافر اس رویےکی توقع نہیں کرتے اور اس سے کہتے ہیں کہ اگر تم لڑنا چاہتے ہو تو بس سے اترو تمہیں تمیز سیکھاؤں۔ مگر وہ ٹالتے ہوئے کہتا ہے کہ تم جیسے روز دیکھتا ہوں اور مہنگائی کو بس کے روکے رکھنے کا بہانا بناتا ہے۔

سوال 5 : “بس میں سفر” کی روداد ڈائری میں لکھیں۔

جواب : پچھلے دنوں مجھے ہری پور سے ایبٹ آباد جانا تھا۔ میں لوکل بسوں کے اسٹینڈ پر گیا۔ وہاں سے کچھ بسیں ایبٹ آباد جاتی تھیں۔ میں ایبٹ آباد جانے والی چلی بس میں سوار ہو گیا۔ بھاگم بھاگ میں دروازے کے اوپر لگا اور لوہے کا پائپ میرے ہاتھ میں آگیا اور جیسے تیسے کرکے میں بس کے ساتھ لٹک گیا۔ بس میں حسبِ معمول ضرورت سے زیادہ لوگ بھرے ہوئے تھے۔ بس آگے چلتی تو کچھ مسافر اترتے ، کچھ چڑھتے۔ اس دوران جب بس رکتی تو لوگ شدید غم و غصہ کا اظہار کرتے۔ ہر آتا جاتا شخص مجھ سے ٹکرا کر جاتا۔ میں جو بس کے ساتھ لٹکا ہوا تھا، بس کے رکنے کو عافیت سمجھتا۔ ہاتھ پاؤں جو ٹکنے کی وجہ سے دکھنے لگے تھے بس کے رکنے پر انھیں زرا راحت سی ملتی۔ پھر بس میں کنڈکٹر آواز لگاتا ہوا بڑی پھرتی سے سب سے کرایہ وصول کرنے لگا۔گرمی کے اس موسم میں ہر کوئی بے قرار اور بوکھلایا ہوا تھا۔ سب احتجاجاً ڈائیور اور کنڈکٹر کو برا بھلا کہہ رہے تھے مگر ان کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ اندر کا یہ حال تھا کہ گرمی اور حبس کی وجہ سے سانس لینا بھی دو بھر ہو رہا تھا۔ایبٹ آباد پہنچ کر پہلا خیال مجھے یہی آیا کہ واپس بھی مجھے اسی بس میں جانا ہے۔