عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنه

0

تعارف:☜

آپ رضی اللہ تعالی عنه ایک جلیل القدر صحابی رسولﷺ ہیں۔علم و فضل کے بحرِ بیکراں تقوٰی طہارت کے پیکر دن کو روزےدار اور رات کو عبادت گزار ، بوقت سحر مغفرت کے طلب گار، خشیت الٰہی سے زار و قطار اشک بار ہونے والے کہ جب خشیت الٰہی کا غلبہ ہوتا تو آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی۔

کتاب الہی کے رموز و اسرار کا سب سے زیادہ علم رکھنے والےامتِ محمدی کے تنہاء فرد اور جنکو مفسر قرآن کریم ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ آپﷺ کے چچا زاد بھائی حضرت عباسؓ کے فرزند جناب حضرت عبد اللہ بن عباسؓ ہیں۔

ولادت:☜

آپؓ ہجرت سے تین سال قبل پیدا ہوۓ۔نبی کریمﷺ کے وصال کے وقت آپؓ کی عمر تیرہ برس تھی۔آپؓ کو کمسنی ہی سے 1660 احادیث شریف زبانی یاد تھیں۔جنہیں امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ نے اپنی کتابوں میں درج کیا ہے۔

جب آپؓ کی ولادت ہوئی تو آپؓ کی والدہ آپؓ کو گود میں لیکر نبی کریمﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہویئں۔اور آپﷺ نے تحنیک فرمائی ۔اس طرح انکے پیٹ میں جو سب سے پہلے چیز اتری وہ نبی کریمﷺ کا لعابِ دہن تھا۔آپؓ کو نبی کریمﷺ کی خدمت میں وقف کر دیا گیا۔

ابھی اس ہاشمی نوجوان نے ہوش سنبھالا ہی تھا کہ اسے نبی کریمﷺ کی خدمتِ اقدس میں وقف کر دیا۔سفر نین حضر میں ہر وقت آپﷺ کے ساتھ رہتے اور جب بھی آپﷺ وضو کا ارادہ فرماتے فورًا وضو کا پانی حاضر کر دیتے۔جب آپﷺ نماز شروع کرتے تو یہ بھی آپﷺ کے پہلو میں کھڑے ہو کر نماز شروع کر دے۔

سفر کے دوران کئی مرتبہ انکو نبی کریمﷺ کے پیچھے سواری پر بیٹھنے کا شرف حاصل ہوا۔غرض یہ کہ ہر لمحہ آپﷺ کی خدمتِ اقدس میں کمر بستہ رہتے۔حضرت عبد اللہ بن عباسؓ اپنے متعلق فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریمﷺ نے وضو کا ارادہ کیا تو میں نے فوراً آپﷺ کی خدمتِ اقدس میں پانی پیش کر دیا۔

آپﷺ میری خدمت گزاری سے بہت خوش ہوۓ۔جب آپﷺ نے نماز پڑھنے کا ارادہ کیا تو مجھے بھی اپنے ساتھ نماز پڑھنے کا اشارہ کیا۔میں آپﷺ کے پہلو کے بجاۓ پیچھے کھڑا ہو گیا۔جب آپﷺ نماز سے فارغ ہوۓ تو ارشاد فرمایا : کہ عبد اللہ ! تم میرے ساتھ کیوں نہی کھڑے ہوۓ۔

میں نے عرض کیا۔۔۔ یا رسول اللہﷺ آپﷺ کی عظمت و احترام عزت و جلال کی بنا پر آپﷺ کے پہلو میں کھڑا ہونے کی تاب نہ لا سکا۔آپﷺ نے میری یہ بات سن کر آسمان کی جانب ہاتھ بلند کیۓ اور دعا کی۔۔۔۔۔الہی عبد اللہ کو حکمت و دانائی عطاء فرما”

اللہ رب العزت نے اپنے محبوبﷺ کی دعا کو شرفِ قبولیت بخشاءاور اس ہاشمی نوجوان کو ایسی حکمت و دانشمندی عطاء فرمائی کہ جسکی بناء پر بڑے بڑے حکماء اور دانشوروںء پر فوقیت حاصل کر گئے۔

آپؓ کی دانشمندی کا ایک دلچسپ واقعہ:☜

حضرت علیؓ اور حضرت امیر معاویہؓ کے باہمی اختلاف میں جب بہت سے لوگ حضرت علیؓ کا ساتھ چھوڑ گئے تو حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے حضرت علیؓ سے کہا۔”کہ امیرالمؤمنین مجھے ان لوگوں سے بات کرنے دیں۔جنہوں نے آپؓ سے بغاوت کا ارتکاب کیا ہے”۔آپؓ نے فرمایا کہ مجھے خطرہ ہے کہ کہیں یہ لوگ آپکوؓ کوئ نقصان نہ پہنچا دے۔

میں نے کہا آپ مطمئن رہیں ان شاء اللہ یہ لوگ ایسی کوئ حرکت نہی کرینگے۔پھر میں انکے پاس گیا وہ لوگ عبادت میں مصروف تھے۔ان لوگوں نے مجھے دیکھتے ہی اشتیاق بھرے انداز میں خوش آمدید  کہا اور میری آمد کا مقصد دریافت کیا۔میں نے کہا:

آج میں آپ سے ضروری بات کرنے آیا ہوں۔ان میں سے چند ایک نے کوئی دلچسپی نہ لی لیکن اکثریت نے پوری توجہ سے میری بات سننے کا  اشتیاق ظاہر کیا۔میں نے ان سے کہا کہ مجھے یہ بتاؤ کہ حضور کے چچا زاد بھائی جگر گوشہ رسولﷺ حضرت فاطمہؓ کے شوہر اسلام میں سبقت کرنے والے حضرت علیؓ سے آپکا کی  شکوہ ہے؟

انہوں نے جواب دیا : ہمیں انکے خلاف تین بنیادی اعتراضات ہیں”۔
پوچھا کون کون سے؟جواب دیا۔۔۔۔
“ہمارا پہلا اعتراض یہ کہ حضرت علیؓ نے اللہ کے دین میں انسانوں کو حاکم بنا دیا ہے”۔

“ہمارا دوسرا اعتراض یہ کہ انہوں نے حضرت امیر معاویہؓ اور حضرت عائشہؓ سے جنگ کی لیکن نہ تو مالِ غنیمت لوٹا اور نہ انہیں قیدی بنایا”۔
“ہمارا تیسرا اعتراض یہ کہ حضرت علیؓ نے اپنے نام سے امیرالمؤمنین کا  لقب ہٹا دیا حالانکہ مسلمانوں نے انکے ہاتھ پر بیعت کی اور انہیں اپنا امیر بنایا

“حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے فرمایا کہ میں نے ان اعتراضات کے سننے کے بعد ان سے کہا: اگر میں قرآن و سنت کی روشنی میں ان اعتراضات ک  حل پیش کر دوں تو کیا آپ تسلیم کرینگے؟

سب لوگوں نے بیک وقت کہا کہ بالکل ہم تسلیم کرینگے!!!حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ تمہارا پہلا اعتراض یہ کہ حضرت علیؓ نے اللہ کے دین میں لوگوں کو حاکم بنایا ہے”۔ کیا آپ لوگوں کی نظر میں قرآن مجید کی یہ آیت گزری ہے؟جسمیں فرمایا؛

“یٵیھا الذین اٰمنوا لا تقتلوا الصید وٵنتم حرمومن قتله منکم متعمدا فجزاء مثل ما قتل من النعم یحکم به ذواعدل منکم”

“اے لوگوں جو ایمان لاۓ ہو احرام کی حالت میں شکار نہ مارو اور اگر تم مجھ میں کوئی جان بوجھ کر ایسا کر گزرے تو جو جانور اس نے مارا ہو اس کے ہم پلہ ایک جانور اسے مویشیوں میں سے نظر دینا ہوگا۔جس کا فیصلہ تم میں سے دو عادل آدمی کرینگے۔

“میں تم سے اللہ کو گواہ بنا کر یہ پوچھتا ہوں کہ انسان کی جان و مال کی حفاظت کے لیے انسان کو حاکم بنانا زیادہ بہتر ہے۔یا ایک خرگوش کی جان بچانے کے لیے انسان کو حاکم بنانا زیادہ بہتر ہے”۔یہ دلیل سن کرسب نے کہا: کہ بے شک بنی نوع انسان کی اصلاح اور جان و مال کی حفاظت کے لیے کسی انسان کو حاکم بنانا مقرر کرنا از حد ضروری ہے”۔

“حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے لوگوں سے پوچھا کہ کیا آپ لوگ اس دلیل کے تناظر میں اپنے پہلے اعتراض سے دستبردار ہونے کے لیے تیار ہیں؟
“سب لوگوں نے بیک وقت کہا کہ بالکل اب ہمارا پہلا اعتراض ختم اور اب ہم اجتماعی طور پر اس سے دستبردار ہونے کا اعلان کرتے ہیں”۔

“حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے ارشاد فرمایا کہ آپ لوگوں کا دوسرا اعتراض یہ کہ حضرت علیؓ نے حضرت امیر معاویہؓ اور حضرت عائشہؓ سے جنگ کی لیکن نہ مالِ غنیمت لوٹا اور نہ انہیں قیدی بنایا”۔

“مجھے یہ بتاؤ کہ کیا تم اپنی ماں عائشہؓ کو قیدی بنانا پسند گروگے؟اگر تم ہاں میں جواب دوگے تو کفر کے مرتکب ہوگے۔اور اگر حضرت عائشہؓ کے ماں ہونے کا انکار کروگے تو بھی کفر ہی کا ارتکاب کروگے۔کیونکہ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے؛ “النبی اولی بالمؤمنین من انفسھم وازوجه امھاتھم”  بلا شبہ نبی تو اھل ایمان کے لیے اپنی ذات پر مقدم ہیں۔اور نبی کی بیویاں انکی مایئں ہیں”اب آپ لوگ اپنے لیے جو چاھو پسند کر لو یہ سن کر انہونے اپنی نگاہیں جھکا لیں۔
“حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے فرمایا کہ کیا تم اپنے دوسرے اعتراض سے دلی طور پر دستبردار ہونے کے لیے آمادہ ہو”؟”سب لوگوں نے بیک زبان ہوکر کہا جی ہاں ہم اپنے دوسرے اعتراض سے بھی دستبرداری کا اعلان کرتے ہیں”۔حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ آپ لوگوں کا تیسرا اعتراض یہ کہ حضرت علیؓ نے اپنے نام سے پہلے امیرالمؤمنین کا لقب ہٹا دیا ہے”۔

“آپ لوگوں کو یاد ہوگا کہ جب صلح حدیبیہ میں صلح نامہ تیار ہو گیا تھا۔تو آپﷺ نے یہ ارشاد فرمایا تھا کہ نیچے یہ لکھ دیا جاۓ کہ “اس دستاویز پر محمد رسول اللہ ﷺ نے اتفاق اظہار کیا ہے”۔

مشرکین نے کہا کہ اگر ہم آپکو اللہ کا رسول تسلیم کر لیتے تو بیت اللہ میں داخل ہونے سے نہ روکتے۔ یہی تو آپﷺ سے ہمارا بنیادی اختلاف ہے کہ آپﷺ اپنا نام محمد بن عبد اللہ لکھیں”! آپﷺ نے مشرکین کا مطالبہ مانتے ہوۓ یہ ارشاد فرمایا “کہ بخدا میں اللہ کا رسول ہوں تمہارے ماننے یا نہ ماننے سے کوئی فرق نہی پڑتا۔اور آپﷺنے اپنے ہاتھ سے محمد رسول اللہ کے الفاظ مٹا دیے”۔

“حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ یہ واقعہ عرض کرنے کے بعد میں نے حاضرین سے پوچھا : کہ آپ مجھے یہ بتاۓ جب صلح حدیبیہ کے موقعہ پر  رسول اللہ ﷺ نے خود اپنے دستِ مبارک سے رسول اللہ کے الفاظ مٹا دیۓ ۔ تو اگر حضرت علیؓ نے اپنے نام سے امیرالمؤمنین کے لقب ہٹا دیا تو شرعاً کیا مضائقہ ہے؟”

یہ دلیل سن کر حاضرینِ مجلس نے تسلیم و رضاء سے اپنے سر جھکا لیے۔”حضرت عبد اللہ بن عباسؓ نے منظر دیکھ کر حاضرین سے معلوم کیا کہ آپ لوگ اس اعتراض سے بھی دستبردار معلوم ہوتے ہیں”۔

“سب لوگوں نے بیک زبان کہا کہ “جی ہاں” ہم اس اعتراض سے بھی دستبرداری کا اعلان کرتے ہیں”۔حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کی یہ ملاقات حضرت علیؓ کے حق میں نہایت ہی مفید ثانمبت ہوئی ۔ حضرت عبد اللہ بن عباسؓ کی مدلل گفتگو سے متٵثر ہو کر بیس ہزار افراد پھر حضرت علیؓ کی فوج میں داخل ہو گئے۔

حصولِ علم:

حضرت عبد اللہ عباسؓ  نے حصولِ علم کے واسطہ بہت مشقت کی۔آپؓ نبی کریمﷺ کے چشمہ علم سے جی بھر کر سیراب ہوۓ۔آپﷺ کے وصال کے بعد صحابہ اکرامؓ کی جانب رجوع کیا۔حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کی مجھ جب یہ اطلاع ملتی کہ فلاں صحابی کے پاس نبی کریمﷺ کی کوئی حدیث ہے تو میں بلا تاخیر انکے پاس پہنچ جاتا۔

دہلیز پر چادر بچھا کر بیٹھ جاتا زمین سے مٹی اڑ اڑ کر مجھ پر آتی ۔لیکن صاحبِ علم کے احترام کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوۓ ان کے آرام میں مخل ہونا مناسب نہی سمجھتا۔جب وہ از خود اپنے گھر سے باہر آتے اور مجھے اپنی دہلیز پر بیٹھا دیکھتے تو بے ساختہ ہکارتے کہ عبد اللہ آج آپ یہاں کیسے؟؟؟

آپ نے مجھے پیغام بھیج دیا ہوتا میں خود آپکی خدمت میں آ جاتا۔میں جواب میں کہتا کہ میں آپکے پاس اس لیے آتا ہوں کہ پیاسا چشمہ کے پاس آتا ہے۔نہ کہ چشمہ پیاسے کے پاس۔حضرت عبد اللہ بن عباسؓ اپنے اساتذہ کی بہت عزت کیا  کرتے تھے۔کبارِ علماء بھی آپؓ کے ساتھ بہت محبت و شفقت سے پیش آتے تھے۔

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ حصولِ علم کے بعد لوگوں کو تولیم دینے میں ہمہ تن مصروف ہوگئے ۔آپ کا گھرانہ عوام کے لیے ایک بہت بڑی جامعہ کا درجہ اختیار کر گیا تھا۔

آپؓ کی خصوصیتیں :☜

حضرت عبداللہ بن عباسؓ کو اپنی عالمانہ بحیثیت اوع بے شمار خوبیوں کی بناء پر خلفاء راشدین کا مشیر ہونے کا شرف حاصل تھا۔حضرت عمر فاروقؓ کو جب کوئی مسلہ در پیش آتا تو جہاں آپؓ کبار صحابہ کو مدعو کرتے وہی آپ عبد اللہ بن عباسؓ کو بھی مدعو کرتے۔

جب آپؓ تشریف لاتے تو امیرالمؤمنین انکو اپنے پاس بیٹھاتے اور پیار بھرے الفاظ میں اظہار خیال کرتے کہ آج ہمیں ایک مشکل مسلہ پیش آیا ہے۔میرے خیال میں آپ ہی اس مسلہ کو حل کر سکتے ہیں۔ایک مرتبہ حضرت عمرؓ کے اس رویہ پر اعتراض بھی کیا گیا کہ کبار صحابہ کی موجودگی میں  اس کم سن صحابی کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے”۔

آپؓ نے اس اعتراض کے جواب میں صراحتا فرمایا : یہ ایک منجھا ہوا فصیح البیان اور صاحبِ عقل اور دانشور نوجوان ہے۔بلا شبہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ علم و تقوٰی کے اعلی و ارفع مقام پر فائز تھے۔

وصال:

حضرت عبد اللہ بن عباسؓ تا عمر لوگوں کو علم و دانش و تقوٰی کا سبق دیتے رہیں ۔یہاں تکہ آپؓ اللہ کو پیارے ہو گئے۔وصال کے وقت آپؓ کی عمر 71 برس تھی۔حضرت محمد بن حنفیہ نے آپؓ کی نمازِ جنازہ پڑھائی ۔جس میں جلیل القدر صحابہ اکرامؓ اور تابعین عظام نے شرکت کی۔

جب آپؓ کو لحد میں اتارا جا رہا تھا تو غیب سے آواز آ رہی تھی۔”یآیھا النفس المطمئنة۞ارجعی الی ربك راضیة مرضیة۞فادخلی فی عبادی۞وادخلی جنتی۞

بحوالا حیات صحابہ ؛ تاریخ الاسلام

بقلم حسنی تبسم انصاری