حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے حالات و واقعات

0

نام ونسب و خاندان :☜

آپ کا نام مبارک علی ہے اور لقب اسد اللہ و حیدر مرتضی کنیت ابو الحسن اور ابو تراب۔ آپ کا نسب رسولﷺ سے بہت قریب ہے۔آپ کے والد ابو طالب جن کا نام عبد مناف تھا اور رسول خدا ﷺ کے والد ماجد عبد اللہ بھائی بھائی تھے۔آپکی والدہ فاطمہ بنت اسد بن ہاشم تھیں۔ماں باپ دونوں کی جانب سے آپ ہاشمی ہیں۔آپ کے والد تو مسلمان نہیں ہوئے لیکن آپ کی والدہ مسلمان بھی ہوئیں اور ہجرت بھی کی۔

بچپن ہی سے نبی کریمﷺ کے ساتھ رہے۔ بلکہ آپﷺ کی آغوش رحمت ہی میں پرورش پائی۔اور آپﷺ نے انکے ساتھ بالکل فرزند ہی کا معاملہ کیا۔اور اپنی دامادی کا شرف بھی عطاء کیا۔چناچہ حضرت فاطمہ زہراؓ جو نبی کریمﷺ کی سب سے چہیتی صاحبزادی تھیں آپ کے نکاح میں آئیں اور ان سے آپ کی اولاد ہوئی۔

خلافت :☜

صحابہ اکرام میں سب سے اعلیٰ درجہ کے فصیح و بلیغ خطیب سمجھے جاتے تھے۔شجاعت و بہادری میں آپ سب سے زیادہ فائق مانے جاتے تھے۔آپ کا مرتبہ بہت نمایاں تھا۔ ٢٥ ہجری میں حضرت عثمان بن عفانؓ کے بعد مسند خلافت کو زینت بخشی اور تین دن کم پانچ سال مسند خلافت پر متمکن رہے۔ حضرت عثمانؓ کی شہادت کے دوسرے دن آپ کے ہاتھ پر بیعت ہوئی۔مدینہ منورہ میں جتنے مہاجر و انصار تھے سب نے آپ کے ہاتھ پر بر رضا و رغبت بیعت کیں۔ملک شام نے آپکی خلافت تسلیم نہیں کی۔انکا خیال تھا کہ جتنے مہاجر و انصار نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی سب نے بیوائیوں کے جبر سے بیعت کی۔

آپکے عہد خلافت میں کفار سے جہاد بالکل موقوف رہا۔اور اسلامی فتوحات میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔آپ کا تمام زمانہ خلافت آپس کی لڑائیوں میں صرف ہوا۔صرف تین لڑائیاں آپکو پیش آئیں۔

  • 1۔ اول جنگ جمل:☜ جس میں اول حضرت عائشہؓ صدیقہؒ اور حضرت طلحہ و زبیر سے لڑنا پڑا۔
  • 2۔ دوم :☜ جنگ صفین میں جس میں حضرت امیر معاویہؒ اور اھلِ شام سے  مقابلہ کرنا پڑا۔
  • 3۔ سوم :☜ جنگ نہروان میں جس میں خوارج سے مقابلہ ہوا۔ یہ آپکی آخری جنگ تھی اور تمام صحابہ کے نزدیک پسندیدہ تھیں۔اور بعض احادیث میں اسکے متعلق پیشن گوئی اور پسندیدگی کے کلمات بھی وارد ہوۓ ہیں۔

مگر جنگ جمل اور جنگ صفین صحابہ اکرام کو ناپسند رہیں۔اور بہت سے محتاط لوگ ان لڑائیوں سے کنارہ کش رہے۔حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ کو جب اپنی رفاقت کے لئے بلایا اور انکے والد سے جب اپنے تعلقات کا ذکر کیا تو انہوں نے جواب لکھا کہ………………………… اے ابوالحسن اللہ کی قسم اگر آپ اژدھا کے منھ میں ہاتھ ڈالنے کو کہیں تو میں تیار ہوں لیکن آپ یہ چاہیں کہ میں کسی *لاالہ اللہ*  کہنے والے پر تلوار اٹھاؤں تو یہ مجھ سے نہ ہوگا۔۔۔۔یہی دیگر صحابہ اکرامؓ نے بھی کہا، نہ ادھر تھے نہ ادھر اسی جماعت کو قاعدین کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ جنگ صفین کے بعد حضرت علیؓ کے قبضہ سے تمام ملک نکل گیا۔حتٰی کہ آخر میں آپ کے پاس کوفہ اور مضافات کوفہ کے سوا کچھ نہ رہ گیا۔

شہادت:☜

آپ کی شہادت کی خبر نبی کریمﷺ نے پہلے ہی دے دی تھی۔چناچہ ایک مرتبہ آپﷺ نے  خود حضرت علیؓ سے فرمایا کہ اے علیؓ اگلوں میں سب سے زیادہ شقی وہ تھا جسنے حضرت صالح علیہ السلام کے اوٹنی کے پیر کاٹے تھے۔اور اگلوں میں سب سے زیادہ شقی وہ ہوگا جو تمہاری ڈاڑھی کو ضون سے رنگیگا۔

واقعہ آپکی شہادت کا یوں ہوا کہ تین خوارجی جنگ نہروان کے بعد مکہ معظمہ میں جمع ہوئے۔ عبد الرحمٰن بن ملجم، برک بن عبد اللہ، عمر بن بکیر ان تینوں میں یہ معاہدہ ہوا کہ ان تین شخصیتوں کو قتل کر دینا چاہئیے۔۔۔۔۔علی بن ابی طالب کو۔۔۔معاف بن سفیان کو۔۔۔۔اور عمر بن عاص کو تاکہ خدا کے بندوں کو ان سے نجات مل جاۓ۔
ابن بلجم نے کہا کہ میں علیؓ کا کام اپنے ذمے لیتا ہوں۔برک نے حضرت معاویہؒ کے قتل کا ذمہ لیا۔اور عمر بن بکیر نے حضرت عمر بن عاص کا۔اور سب نے یہ بھی طے کیا کہ سب اپنا کام ایک ہی تاریخ میں کرینگے۔یعنی گیارہویں رمضان المبارک کو یا سترہویں رمضان المبارک کو۔اس معاہدے کے بعد ابن بلجم تو کوفہ پہنچا اور اور وہ دونوں ملک شام گئے۔وہ دونوں اپنے مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے۔مگر ابن بلجم اپنی مراد شفاجت میں کامیاب ہوا۔

حضرت علیؓ مرتضی کی عادت تھی کہ فجر کی نماز کے لیے بہت سویرے ہی مسجد تشریف لے جاتے تھے اور راستہ میں الصلوة الصلوة کہتے ہوۓ جاتے تھے۔اس دن ابن بلجم راستہ میں چھپ کر بیٹھ گیا۔بس جیسے ہی آپ پہنچے اس نے آپکی پیشانی مبارک پر تلوار مار دی جو دماغ تک پہنچ گئی۔آپ خون سے نہا گئے۔آپکی ڈاڑھی مبارک خون سے تر ہو گئی۔

حضرت امام حسنؓ فرماتے ہیں کہ میں پیچھے پیچھے چلا آرہا تھا۔یکا یک مجھے تلوار کی چمک محسوس ہوئی اور امیرالمؤمنین کو زمین پر گرتے ہوۓ دیکھا اور یہ فرماتے ہوۓ کہ قسم ہے رب کعبہ میری آرزو پوری ہو گئی۔

جس صبح کو یہ واقعہ ہوا اس شب کو آپ نے ایک خواب دیکھا تھا اور حضرت امام حسنؓ سے بیان فرمایا تھا کہ آج میں نے نبی کریمﷺ کو خواب میں دیکھا ہے اور عرض کی  ہے کہ اے اللہ کے رسول آپکی امت سے مجھے بہت تکلیف پہنچی ہے۔ آپﷺ نے فرمایا کہ تم ان کے لیے بدعا کرو۔ میں نے کہا کہ یا اللہ انکے بدلے مجھے اچھے لوگ عطاء کر اور میرے بدلے انکو برا شخص دے۔

اس واقعہ کے بعد چاروں جانب سے لوگ جمع ہو گئے اور ابن بلجم پکڑا گیا۔حضرت علیؓ نے اسکو اپنے سامنے قتل ہونے نہیں دیا اور فرمایا کہ میں اچھا ہو جاؤں گا تو مجھے اختیار ہوگا کہ سزا دوں یا معاف کروں۔اگر میں اچھا نہ ہوا تو یہ کرنا کہ اس نے ایک ضرب ماری تھی تم بھی اک ضرب مارنا۔

یہ واقعہ جمعہ کے دن ہوا تھا اور یک شنبہ میں آپ نے وفات پائی۔آپ کے بعد ابن بلجم بہت بری طرح قتل کیا گیا۔اسکے ہاتھ پاؤں کاٹے گئے۔ زبان کاٹی گئی اور آنکھوں میں گرم سلائیاں ڈالی گئیں۔اسکے بعد وہ آگ میں جلا دیا گیا۔

١٨ رمضان المبارک ٤٠ ہجری کو عبد الرحمٰن بلحم خارجی کے ہاتھ سے مقام کوفہ میں شربت شہادت نوش فرمایا۔اور خلافت راشدہ کو دنیا  سے رخصت کرگئے۔کوفہ کے قریب ایک مقام نجف ہے وہاں مدفن پایا۔

حالات قبل از اسلام:☜

آپ قبل بلوغ پچپن میں ایمان لائے۔ بعض مؤرخین کا قول ہے کہ اس وقت آپکی عمر دس برس تھی اور بعض کا قول ہے کہ نو برس اور ایک قول آٹھ سال کا بھی ہے۔ بعض لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ حضرت خدیجہؓ کے بعد سب سے پہلے آپ ہی ایمان لائے۔

ایک دن آپکے والد ابو طالب نے آپکو نبی کریمﷺ کے ساتھ نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اور پوچھا کہ یہ کیا کر رہے ہو؟؟؟ نبی کریمﷺ نے انکو جواب اور انکو دین اسلام کی طرف بلایا تو ابو طالب کہنے لگے کہ اس کام میں کوئی برائی نہیں ہے لیکن مجھ سے سرین اوپر نہ کیے جا سکیں گے۔ حضرت علیؓ اپنے والد کے اس مقولے کا ذکر کرکے اکثر ہنسا کرتے تھے۔

حلیہ مبارک :☜

آپ کا قد مبارک پست تھا۔ جسم اطہر فربہ تھا۔پیٹ بڑا تھا اور ڈاڑھی بہت بڑی کہ پورا سینہ اسکے نیچے بند تھا اور بالکل سفید رنگ گندمی تھا۔حضرت فاطمہ زہراؓ کی زندگی میں میں آپ نے دوسرا نکاح نہیں کیا۔ انکے بعد پھر اور نکاح کیے۔

ازواج و اولاد:☜

حضرت فاطمہ زہراؓ سے دو صاحبزادے اور دو صاحبزادیاں آپکی تھیں۔ حضرت حسن اور حضرت حسین: زینب کبریٰ، ام کلثوم کبریٰ …اور دوسری ازواج سے حسنمب ذیل اولاد تھیں۔حضرت عباسؓ حضرت جعفرؓ حضرت عبد اللہؓ عثمانؓ عبید اللہؓ ابو بکرؓ محمد الاصغرؓ یحیٰیؓ عمرؓ رقیہؓ محمد الاوسطؓ محمد الاکبرؓ وغیرہ۔۔۔۔ان تمام اولاد کا آپ کا نسب صرف حسنینؓ سے چلا اور کسی سے نہیں چلا۔ نہایت ہی زاہدانہ زندگی بسر فرماتے تھے۔ہر امر میں نبی کریمﷺ کی اتباع کے حریص تھے۔مزاج مبارک میں خوش طبعی بہت تھی۔

حضرت علی مرتضیٰؓ کے فضائل و مناقب:☜

امام احمد حنبلؒ فرماتے ہیں کہ آپکے فضائل و مناقب اس کثرت کے ساتھ روایات ہیں کہ کسی صحابیؓ کے متعلق یہ کثرت نہیں ہے۔اس کثرت کی وجہ یہ ہے کہ آپ کے مخالفین بہت تھے۔ان مخالفین میں بعض تو آپکو خطا پر سمجھتے تھے اور بعض آپکے فضائل و سوابق و اسلامیہ کے منکر نہ تھے۔اور لوگ آپکے فضائل ہی کا کیا بلکہ آپکے اسلام ہی کا انکار کرتے تھے جیسے خوارج وغیرہ۔

ان مخالفین کی وجہ سے آپکے فضائل کی روایات کا چرچہ زیادہ ہوا اور بار بار بیان کرنے کی وجہ سے روایات کی کثرت ہو گئی۔مگر اس کثرت کے ساتھ ایک چیز قابل افسوس بھی ہے کہ روافض نے اکاذب و خرافات بھی اسمیں طرح شامل کر دیئے کہ بوقت تنقید اس کثرت میں بہت ہی کم روایات پایئہ صحت کو پہنچتی ہیں۔

آپؓ کے چند فضائل ذیل میں بیان کئے جاتے ہیں۔:☜

  • 1۔ بوقت ہجرت نبی کریمﷺ نے انکو اپنی چادر اڑھ  کر اپنے بستر پر لٹا دیا اور کچھ لوگوں کی امانتیں آپﷺ کے پاس تھیں، وہ بھی انکے حوالے کر دیں کہ واپس کر دینا۔ آپؓ نے ایسا ہی کیا اور پھر آپ بہت جلد ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لے گئے۔
  • 2۔ غزوۂ بدر میں بہت کارہائے نمایاں انجام دیے اور بہت سے کافر آپکی تلوار سے جہنم واصل ہوئے۔
  • 3۔ غزوۂ احد میں بھی بڑی جلیلہ خدمات انجام دیں۔اس غزوۂ میں جب نبی کریمﷺ کی شہادت کی شہرت ہوئی اور آپ ﷺ پتہ میدان جنگ میں نہ ملا اور بعد میں معلوم ہوا کہ آپﷺ فلاں مقام پر ہیں۔تو صحابہ اکرامؓ سبقت کرکے آپﷺ کے پاس پہنچے ان میں حضرت علی مرتضیؓ بھی تھے۔
  • 4۔ غزوۀ خیبر میں بھی آپ سے بہت سی پسندیدہ خدمات ظہور میں آئیں اور اسی طرح تمام غزوات میں اور صرف غزوۂ تبوک میں نبی کریمﷺ انکو مدینہ منورہ میں چھوڑ گئے تھے۔باقی تمام غزوات میں آپ نبی کریمﷺ کے ہمراہ رہے۔
  • 5۔ ٩؁ ھجیری میں نبیﷺ نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کو امیر حج بنا کر بھیجا۔ انکی روانگی کے بعد سورہ برأت نازل ہوئی اسکی تبلیغ پر حضرے علیؓ کو مامور کیا۔
  • 6۔  جب نبی کریمﷺ کی وفات ہوئی تو آپﷺ کو غسل دینے کا شرف حضرت علیؓ کو حاصل ہوا۔
  • 7۔حضرت ابو بکر صدیقؓ کی خلافت پر آپ نے اپنی دلی رضا مندی کا اظہار فرمایا کہ رسولﷺ انکو امام نماز بنا گئے۔تو جس کو آپ نے ہمارے دین کا امام بنا دیا تو ہماری کیا اوقات ہے کہ عام معاملات میں اسکو امام نہ سمجھے۔
  • 8۔ حضرت عمرؓ، کی خلافت میں انکی وزارت آپ کے سپرد رہی۔آپ نے انکے ساتھ اپنی دلی محبت اور عقیدت کا اظہار اس اہتمام سے کیا کہ روافض انکی باتوں کی کوئی تاویل نہیں کر سکتے۔