حضرت فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا

0

نام و نسب:☜

سید الانبیاءﷺ کی سب سے چھوٹی صاحبزادی خاتون جنت سیدہ فاطمہ الزہرا رضی اللہ عنہا تھیں۔آپ سرکار دوعالم ﷺ کی چوتھی صاحبزادی تھیں۔ آپ کا نام نامی فاطمہ اور لقب زہرا تھا۔آپ نبی کریمﷺ کی صاحبزادیوں میں سب سے کمسن تھیں۔آپکا تعلق قریش کے اعلی ترین خاندان سے تھا۔آپکا پدری نسب یہ ہے کہ حضرت فاطمہ زہراؓ بنت محمدﷺ بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن قصی بن کلاب۔ ماں کی جانب سے خاتون جنت کا سلسلہ نسب کچھ اس طرح ہے۔ حضرت فاطمہ زہراؓ بنت خدیجہ الکبریٰ بنت خویلد بن اسد بن عبد العزیٰ بن قصی۔

ولادت:☜

سیدہ فاطمہ زہراؓ کی ولادت کے بارے میں مختلف روایات ہیں۔ایک روایت کے مطابق آپؓ کی ولادت بعثت نبوی سے 5 سال قبل ہوئی جب نبی کریمﷺ کی عمر شریف 35 سال تھی۔ ایک روایت کے مطابق بعثت سے ایک سال پہلے ہوئی۔ بعض روایات میں آتا ہے کہ آپؓ بعثت نبوی ﷺ  میں  پیداء ہوئیں۔ ایک روایت میں ہے کہ آپؓ کی ولادت حضور ﷺ کی ولادت کے اکتالیسویں سال ہوئی۔یعنی جب آپﷺ کی عمر شریف اکتالیس برس تھی۔ ابن اسحاقؒ  کے مطابق سیدہ خانہ کعبہ کی تعمیر نو کے وقت پیداء ہوئی۔اور یہ واقعہ بعثت نبوی سے ساڑھے سات سال پہلے کا ہے۔ بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ بعثت نبوی ﷺ کے وقت ولادت ہوئی۔ اور اس پر سب کا اتفاق ہے کہ آپ سیدہ کی ولادت بعثت نبویﷺ سے پانچ سال قبل 30 جمادی الآخر کو مکہ مکرمہ میں ہوئی۔

آپ سیدہؓ کا نام نامی:☜

آپﷺ نے سیدہؓ کا نام خدا تعالیﷻ کے حکم سے فاطمہ زہراؓ رکھا۔اس لیے کہ اللہ رب العزت نے آپ سیدہؓ کو نارِ جہنم سے بچا رکھا ہے۔فاطمہ لفظ فطم سے مشتق ہے جسکا مطلب ہے قطع کرنا۔اسی سے لفظ ماخوذ ہے۔۔۔۔” فاطمہ”۔ سیدہ الانبیاءﷺ کی لاڈلی بیٹی سیدہ فاطمہؓ کے نو نام ہیں۔۔۔۔۔

  • فاطمہ
  • مبارک
  • زکیہ
  • صدیقہ
  • راضیہ
  • مرضیہ
  • محدثہ
  • طاہرا
  • زہرا

اور آپؓ کے لیے ام النبی اور ام ابیھا کا لفظ بھی بولا جاتا ہے۔ حضرت فاطمہؓ کا نام زہرا اس لیے مشہور ہے کیونکہ آپ زہرة المصطفیﷺ یعنی حضور ﷺ کا پھول تھیں۔اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ نام آپکو آپکی سفید رنگت اور روشن چہرے کی بناء پر دیا گیا تھا۔ آپﷺ کی چھوٹی صاحبزادی سیدہ فاطمہؓ کا لقب بتول بھی تھا۔لفظ بتول کی اصل بتلا بتلہ ہے۔یعنی اسکو قطع کیا۔ بتول باء کے فتح اور تاء کے ضمہ کے ساتھ ہے۔آپ بتول کے لقب سے اس لیے مشہور ہوئی کیونکہ  مردوں کے لیے ان میں کوئی خواہش نہیں تھی۔

دوسرا مفہوم یہ لیا گیا ہے کہ اللہﷻ نے آپکو دوسری خواتین سے حسن و فضل اور شرف و مقام میں جداء کر دیا ہے۔ تیسری وجہ یہ بتائی گئی کہ آپ سیدہؓ اللہﷻ کی عبادت کے لیے ہر شے سے یکسوں تھیں۔ نبی کریمﷺ اپنی بیٹی سیدہ فاطمہؓ سے اس قدر محبت کرتے تھے کہ انہیں ام ابیھا کی کنیت سے پکارتے تھے۔حضورﷺ کے والد عبد اللہ آپ سیدہؓ کی ولادت سے پہلے ہی وفات پا چکے تھے۔کچھ عرصہ بعد آپﷺ کی والدہ بھی انتقال کر گئیں۔

آپﷺ حضرت علیؓ کی والدہ فاطمہؓ بنت اسد کو اماں کہہ کر پکارتے تھے۔ انکے انتقال پر آپﷺ بے حد غمگین ہوئے اور فرمایا کہ میری ماں کا انتقال ہو گیا ہے۔ پھر اللہ رب العزت نے آپﷺ کو لخت جگر فاطمہؓ دی تو انکو دیکھتے ہی آپﷺ کو اماں فاطمہؓ بنت اسد یاد آ جایا کرتیں تھی۔

آپ ﷺ سیدہ فاطمہؓ سے بے حد محبت کیا کرتے تھے۔ حضرت خدیجہ الکبریٰؓ کی وفات کےبعد سیدہؓ کی نگہداشت و تربیت کے لیے آپﷺ حضرت سودہؓ سے دوسرا نکاح کر لیا۔ آپﷺ دعوت تبلیغ حق سے فارغ ہو کر سیدہؓ کے پاس تشریف لاتے اور انہیں دلاسہ دیتے اور نصیحتیں فرماتے۔تنہائی کے اوقات میں حضرت حفصہؓ بنت فاروقؓ ؛حضرت عائشہؓ بنت ابو بکر صدیقؓ ؛ حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ اور حضرت فاطمہؓ بنت زیبر سیدہؓ کے پاس آتیں اور انکی دلجوئی کرتیں تھیں۔

اس وقت عرب کا رواج تھا کہ بچوں کو کھلی اور صحت مند ماحول کے لئے دایئہ کے سپرد کر دیا جاتا تھا۔اور انکو دودھ پلاتی اور تربیت بھی کرتی تھیں۔ سیدہ خدیجہ الکبریٰؓ کو سیدہ فاطمہؓ سے اس قدر محبت تھی کہ انہوں نے سیدہؓ کا کسی دایئہ کے سپرد نہیں کیا۔بلکہ پورے عرصہ میں خود دودھ پلایا اور خود تربیت کی۔آپ انکی تربیت پر پوری توجہ دیتی تھیں۔

کفار مکہ نبی کریمﷺ کو طرح طرح کی اذیتیں دیتے تھے کبھی سر مبارک پر خاک ڈال دیتے تھے۔ اور کبھی راستہ میں کانٹے ڈال دیتے تھے۔اور کبھی پتھر مارتے تھے۔ جب آپﷺ گھر تشریف لاتے تو سیدہ فاطمہؓ انہیں تسلی دیتی تھیں۔اور کبھی وہ خود بھی اس حالت پر رونے لگ جاتیں۔ فاطمہؓ جب حضورﷺ کی تکلیف پر پریشان ہوتیں تو حضورﷺ ارشاد فرماتے میری بچی پریشان نہ ہو خدا ہمارے باپ کا ساتھ کبھی نہ چھوڑیگا۔

ایک مرتبہ ایک مشرک نے نبی کریمﷺ کی گردن مبارک پر سجدے کی حالت میں اونٹ کی اوجھڑی ڈال دی تھی۔سیدہ نے دیکھا تو دوڑی ہوئی کعبہ میں پہنچی اور حضورﷺ کی گردن سے اونٹ کی اوجھڑی ہٹا دی۔شریر لوگ ہستے اور تالیاں بجاتے رہیں۔ سیدہؓ نے فرمایا شریروں!!! “احکم الحاکمین تمہیں اسکی سزاء ضرور دیگا” کچھ عرصہ بعد یہ سب مشرک غزوۀ بدر میں ذلت کی موت مارے گئے۔

کس بدبخت نے سیدہؓ کو طمانچہ مارا تھا:☜

ایک مرتبہ حضرت فاطمہؓ ابو جہل بن ہشام کے پاس سے گزری تو اس بد بخت سیدہؓ کو زوردار طمانچہ مارا ۔ آپ سیدہؓ نے قریش کے سردار ابو سفیان سے ابو جہل کی شکایت کی؟؟؟ وہ غصہ میں اٹھا اور سیدہؓ کو ساتھ میں لیا اور حضرت فاطمہؓ نے ایک زوردار طمانچہ اسکے منھ پر مارا۔ اور پھر اس واقعہ کی اطلاع نبیﷺ کو ہوئی تو نبی کریمﷺ ابو سفیان کے اس رویے سے خوش ہوئے اور اسکے لیے ھدایت کی داع کی۔ فتح مکہ میں ابو سفیان کو مسلمان ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔

جب نبی کریمﷺ طائف سے زخمی حالت میں مکہ واپس آۓ تو لاڈلی بیٹیاں رونے لگیں۔ تو آپﷺ نے اپنے مبارک ہاتھوں سے آنسوں صاف کیے اور ارشاد فرمایا کہ ” بیٹا گھبراؤ نہیں اللہ رب العزت اپنے دین کی مدد کریگا اور اپنے نبی کو غالب کریگا۔ بے تنگی کے بعد آسانی کے دن آنے والے  ہیں۔

آپ سیدہؓ کے القابات:☜

آپ سیدہؓ کے القابات یہ ہیں۔۔۔

  • سیدة النساء العالمین
  • عزرا
  • خاتون جنت
  • بضعت الرسول
  • سیدہ
  • زاہدہ
  • طیبہ
  • راکعہ
  • ساجدہ
  • صالحہ
  • عاصمہ
  • جیدہ
  • کاملہ
  • حامدہ
  • شاکرہ

آپ سیدہ فاطمہ زہراؓ کے لیے نکاح کا پیغام:☜

حضرت سیدہ فاطمہؓ مشہور راایت کے مطابق جب 18 سال کی ہوگئ۔اگر 1 بعثت نبوی کو سال ولادت تسلیم کیا جاۓ تو 15 سال ساڑھے پانچ مہینے کی ہوئی۔

حضرت اسد کی روایت ہے کہ سب سے پہلے حضرت ابو بکر صدیقؓ نے نبی کریمﷺ درخواست کی۔آپﷺ نے فرمایا کہبجو خدا کا حکم ہوگا۔ ۔۔۔۔۔ پھر یہ جرٵت حضرت عمر فاروقؓ نے کی آپﷺ نے وہی جواب دیا کہ جو خدا کا حکم ہوگا۔۔۔۔

بہر حال جب حضرت علیؓ نے درخواست کی تو اللہ رسول ﷺ نے حضرت فاطمہؓ کی مرضی دریافت کی۔وہ چپ رہی یہ بظاہر ایک طرح سے اظہارِ رضاء تھا۔ تو ذوالحجہ 2 ہجری میں نبی کریمﷺ نے انکا نکاح حضرت علیؓ سے کرا دیا۔

جب حضرت سیدہؓ کا نکاح پڑھایا تو اس موقعہ پر نبی کریمﷺ نے کیا فرمایا:☜

حضورﷺ نے حضرت انسؓ کو حکم دیا کہ جاؤ ابو بکرؓ عمرؓ عبد الرحمٰن بن عوفؓ اور دیگر انصار و مہاجرین کو بلاؤ ۔ سب جمع ہو گیۓ تو آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ “اے گروہ مہاجرین و انصار رضی اللہ عنھم اجمعین ابھی جبریئل علیہ السلام میرے پاس اطلاع لےکر آۓ تھے کہ اللہ تعالی نے بیعت معمور میں فاطمہؓ بنت محمد کا نکاح اپنے بندۀ خاص حضرت علیؓ بن ابی طالب سے کر دیا ہے۔اور مجھے حکم ہوا ہے کہ عقد کی تجدید کرکے گواہان کے روبرو ایجاب و قبول کراؤں۔

حضرت فاطمہؓ کا مہر:☜

حضورﷺ نے خطبہ نکاح پڑھنے کے بعد حضرت علیؓ سے ارشاد فرمایا کہ میں نے چار سو مثقال  اٹھارہ سو ماشہ چاندی یعنی (ایک کلو پچھتر گرام چاندی) مہر پر فاطمہؓ کو تیرے نکاح میں دیا۔کیا تجھے منظور ہے۔؟؟ حضرت علیؓ نے بسرو چشم منظور کیا! !!! پھر آپﷺ نے دعا فرمائی خدا تم دونوں کو منور رکھے اور تمہاری سعی مشکور ہو۔۔۔اللہ تم پر برکت نازل کرے اور تم پاک اولاد پیداء ہو۔ سب نے دعا مانگی۔اور حضور نے ایک طبق چھوارے سب میں تقسیم کیے۔

آپ سیدہ فاطمہؓ کا جہیز:☜

سید عالم ﷺ نے حضرت فاطمہؓ کو جو جہیز دیا اسمیں بان کی چارپائی؛ چمڑے کا گدا جسمیں کھجور کے پتے بھرے ہوۓ تھے۔؛ ایک مشکیزہ مٹی کے دو گھڑے؛ ایک مشک اور دو چکیاں تھیں۔نہانے کے لیۓ ایک برتن بھی بتایا گیا ہے اور دو چادریں؛ دو بازوں بند نقریئ؛اور ایک جائنماز بھی روایت میں آتی ہے۔
(بحوالاتذکار  صحابیاتؓ ؛ طبرانی)

حضرت علیؓ سے رویت ہے کہ نبی کریمﷺ نے اپنی صاحبزادی فاطمہؓ کو جہیز کے طور پر ایک پلو دار چادر؛ ایک مشکیزہ ؛ ایک تکیہ جسمیں اذخر گھاس بھری ہویئ تھی۔ (رواہ نسیئ)

تشریح حدیث:☜

جہیز کے معنی ضروریات کا انتظام اور بندوبست کرنا حضورﷺ نے حضرت فاطمہؓ کے لیۓ ان چیزوں کا انتظام حضرت علیؓ کے سرپرست ہونے کی حیثیت سے انہی کے پیسوں سے کیا تھا۔کیونکہ یہ ضروری چیزیں انکے گھر میں موجود نہی تھیں۔حضرت علیؓ کی ذرع کو بکوانا اور اس سے ضرورت کا سامان خریدوانا۔

دوسری روایات سے ثابت ہے۔ملک کے اکثر اھل علم اس حدیث کا مطلب یہی سمجھتے ہیں۔ کہ حضورﷺ نے یہ چیزیں چادر ؛ تکیہ ؛ مشکیزہ فاطمہؓ کے جہیز میں دی تھیں۔لیکن تحقیق یہی ہے کہ جو اوپر بیان کی گئ۔ کیونکہ عرب میں شادیوں کے موقعہ پر لڑکی کو جہیز کے طور پر سامان دینے کا رواج تو کیا بلکہ اسکا تصور بھی نہ تھا۔اور جہیز کا لفظ بھی استعمال نہی ہوتا تھا۔اس زمانے کی شادیوں کے سلسلے میں کہیں جہیز کا ڐکر نہی۔اور آپﷺ کی دیگر صاحبزادیوں کے نکاح میں بھی کسی قسم کے جہیز ذکر نہی آیا۔
(بحوالہ معارف الحدیث ٣٠/٤)

حضرت علیؓ نے ولیمہ کے انتظام کیسے کیا:☜

شادی کے بعد حضرت علیؓ نے مہر اداء کرنے کے بعد جو رقم بچ گئ اس سے ولیمہ کا انتظام کیا۔آپ حضرت علیؓ کے دسترخوان پر پنیر ؛ کھجور ؛ نان  ؛ جو اور گوشت تھا۔حضرت اسمہؓ سے روایت ہیکہ یہ اس زمانے کا بہترین ولیمہ تھا۔یہ دوایت بھی ہیکہ حضرت حمزہ بن عبد المطلب نے اپنے بھتیجے علیؓ کی شادی کی خوشی میں ولیمہ کا اہتمام کیا اور ایک اونٹ ذبح کیا۔
(بحوالہ مواہب دینیہ و صحابیات و مبشرات)

آپ سیدہؓ کا نکاح:☜

جب حضرت علیؓ نے درخواست کی تو نبی کریمﷺ نے حضرت سیدہ فاطمہؓ کی مرضی دریافت کی۔وہ چپ رہیں۔۔۔اور یہ ایک طرح کا اظہارِ رضاء تھا۔ آپﷺ نے حضرت علیؓ سے پوچھا کہ تمہارے پاس مہر کے لیۓ کیا ہے؟؟؟ حضرت علیؓ نے عرض کیا کہ کچھ نہیں!!! نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ وہ حطمیہ زرہ کا کیا ہوا؟؟؟(جو جنگ بدر میں ہاتھ آیئ تھی) حضرت علیؓ نے عرض کیا کہ وہ تو ہے!!! آپﷺ نے ارشاد فرمایا بس وہی کافی ہے۔۔۔

پھر حضرت عمرؓ نے اسکو حضرت عثمانؓ کے ہاتھ 480 درہم میں فروخت کیا۔اور قیمت لاکر حضورﷺ کے سامنے لاکر حاضر کر دی۔اور نبی کریمﷺ نے حضرت بلالؓ کو حکم دیا  کہ بازار سے خوشبو لے آئے۔

زرہ کے علاوہ جو کچھ حضرت علیؓ کا سرمایہ تھا۔وہ ایک بھیڑ کی خال اور ایک بوسیدہ یمنی چادر تھی۔حضرت علیؓ نے یہ سب سرمایا حضرت فاطمہؓ کے نظر کیا۔حضرت علیؓ اب تک نبی کریمﷺ کے پاس ہی رہتے تھے۔

شادی کے بعد حضرت فاطمہؓ زہراؓ کس گھر میں رہائش پذیر ہویئ:☜

شادی کے بعد ضرودت ہویئ کہ الگ گھر لیں۔شادی کے بعد آپکو جو گھر ملا وہ مسجد نبوی اور کاشانہ نبوی سے دور تھا۔آنے جانے میں تکلیف ہوتی تھی۔حضورﷺ کی خواہش تھی کہ قریب گھر ہو۔ایک دن سیدہ فاطمہؓ نے نبی کریمﷺ سے عرض کیا کہ حضور ﷺ کے قریب۔ حضرت حارثہ بن نعمان انصاریؓ کے پاس متعدد مکانات ہیں۔

حضرت حارثہ متولی انصار تھے۔جنمیں سے وہ کئ مکان آنحضرتﷺ کو نذر کر چکے تھے۔حضرت فاطمہؓ نے عرض کیا کہ انہی سے کویئ مکان دلوا دیجیئے ۔آپﷺ نے فرمایا کہ اے میری لخت جگر !!! کہاں تک اب ان سے کہتے ہوۓ شرم آتی ہے؟؟؟کیونکہ وہ پہلے ہی اللہ اور اسکے رسول کہ خوشنودی کے لیۓ کئ مکان دے چکے ہیں!!!حضرت فاطمہؓ خاموش ہو گئیں!!!

حضرت حاثہ بن نعمان انصاریؓ نے جب یہ بات سنی تو دوڑے ہوۓ آۓ  اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ میرے پاس جو کچھ بھی ہے سب آپکا ہی ہیں۔خدا کی قسم میرا جو مکان آپﷺ لے لیتے ہیں مجھے اس سے زیادہ خوشی ہوتی ہیں جو میرے پاس رہ جاۓ۔ اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ آپ فاطمہؓ کو کسی قریبی مکان میں لانا چاہتے ہیں۔یہ جو مکان آپکے ہجرے سے متصل ہے میں اسے خالی کیۓ دیتا ہوں۔ آپ ﷺ حضرت فاطمہؓ کو بلا لیجیئے ۔انہوں نے وہ  مکان خالی کر دیا ۔ حضرت فاطمہؓ اور حضرت علیؓ انکے اس مکان میں منتقل ہو گیۓ۔

شادی کے بعد نیۓ گھر میں منتقل ہوئی تو حضورﷺ کی تشریف آوری:☜

شادی کے بعد جب آپؓ نئے گھر میں منتقل ہوئے تو حضورﷺ ملاقات کے لیۓ تشریف لے گیۓ۔اول حضورﷺ نے دروازے پر کھڑے ہوکر اڐن چاہی پھر اندر تزریف لاۓ اور ایک برتن میں پانی منگوایا۔دونوں ہاتھ اسمیں ڈالیں اور حضرت علیؓ کے سینہ اور بازوؤں پر ڈالا پھر سیدہ فاطمہؓ کو بلایا ان پر بھی پانی چھڑکا اور فرمایا کہ میں نے اپنے خاندان کے بہتر شخص سے تمہارا نکاح کیا ہے۔

شادی کے بعد آپ سیدہؓ گھر کے تمام کام خود کرتی تھی۔جھاڑو لگاتی تھی۔ کپڑے دھلتی تھیں۔ کھانا پکاتی تھیں۔ چکی پیستی تھیں حتٰی کہ چکی پیستے پیستے ہاتھوں میں چھالے پڑ جاتے تھے۔مشک میں پانی بھر کر لاتیں تھیں۔گھر تمام کاموں کے ساتھ ساتھ عبادت میں بھی کثرت سے مشغول رہا کرتیں تھیں۔

ایک مرتبہ حضرت فاطمہؓ نے نبی کریم ﷺ سے گھر کے کام کاج کے لیۓ ایک لونڈی طلب کی۔ تو نبی کریمﷺ نے ارشادر فرمایا کہ اے جان پدر بدر کے یتیم تم سے زیادہ اس کے مستحق ہیں۔

اور یہ بھی روایت ہیکہ آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں تم کو قیدی خدمت کے لیۓ نہی دے سکتا۔ابھی اصحاب صفہ کی خودنوش کا تسلی بخش انتظام مجھے کرنا ہے۔اور میں ان لوگوں کو کیسے بھول جاؤں جنہوں نے اللہ اور اسکے رسول کی خوشنودی کے لیۓ اپنے گھر بار چھوڑ کر فقر و فاقہ اختیار کیا۔

مستدرک حاکم اور صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ حضرت فاطمہؓ کے لونڈی مانگنے پر آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں تمہیں اس سے بہتر چیز عطاء کرتا ہوں۔وہ یہکہ رات کو سونے سے پہلے 33 مرتبہ سبحان اللہ اور 33 مرتبہ الحمد اللہ اور 34 مرتبہ اللہ اکبر کہہ لیا کرو اس سے دن بھر کی تھکان دور ہو جائیگی ۔

سیدہؓ کی غزوات میں خدمات:☜

آپ سیدہؓ نے غزوۀ احد میں دیگر صحابیاتؓ کے ساتھ مل کر زخمیوں کی مرہم پٹی اور زخمی مجاہدین کو پانی پلانے کی خدمات انجام دیں۔اس جنگ میں حضورﷺ بھی زخمی ہوۓ۔آپﷺ کے زخموں کو سیدہؓ نے صاف کیا اور کپڑا جلا کر راکھ سے پٹی کی۔جس سے خون نکلنا بند ہو گیا۔آپ سیدہؓ نے غزوۀ خندق غزوۀ خیبر اور فتح مکہ میں بھی خدمات انجام دیں۔
                                (رواہ صحیح بخاری)

داغِ بے پدری:☜

حضرت فاطمہؓ کی عمر مشہور روایت کے مطابق 29 سال تھی۔جب آپ رسالت مآب ﷺ نے رحلت فرمائی۔ حضرت فاطمہؓ آپﷺ کی محبوب ترین اولاد تھیں اور صرف وہی باقی رہ گئ تھیں۔ اسلئے انکو صدمہ بھی اوروں سے زیادہ ہوا۔

وفات سے ایک دن پہلے آپﷺ نے حضرت فاطمہؓ کو بلا بھیجا ۔ تشریف تو انکے کان میں کچھ باتیں کیں تو وہ رونے لگیں۔پھر بلا کر کان میں کچھ کہا تو وہ ہنس پڑی۔

جب حضرت عائشہؓ سے اسکی وجہ تسمیہ دریافت کی گیئ تو فرمانے لگی کہ پہلی مرتبہ جو آپﷺ نے میرے کان میں کہ میں اسی بیماری میں انتقال کروگا۔تو میں رونے لگی۔تو فرمایا کہ میرے خاندان میں تم ہی سب سے پہلے آکر مجھ سے ملوگی۔تو میں ہنسنے لگی۔

وفات سے پہلے جب آپﷺ پر بار بار غشی طاری ہونے لگی تو یہ دیکھ کر حضرت فاطمہؓ نے فرمایا “اکرب اباہ!!! ہاۓ میرے باپ کی بے چینی”!!! آپﷺ نے فرمایا کہ تنہارا باپ آج کے بعد بے چین نہیں ہوگا”!!!

نبی کریمﷺ کی وفات کے بعد سیدہؓ پر مصبتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ اسد الغابہ میں لکھا ہے کہ آپﷺ کی وفات کے بعد جب تک آپؓ زندہ رہیں کبھی تبسم نہیں فرمایا۔ بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے کہ جب صحابہ اکرامؓ نبی کریمﷺ کی تدفین سے واپس آۓ تو سیدہ فاطمہؓ نے حضرت انسؓ سے فرمایا کہ کیا تمہیں نبی کریمﷺ پر خاک ڈالتے ہوۓ اچھا معلوم ہوا؟؟؟

میراث:☜

آپﷺ کے انتقال کے بعد میراث کا مسلہ درپیش ہوا۔حضرت عباسؓ اور حضرت علیؓ اور ازواج مطہرات یہ سب حضرات میراث کے مدعی تھے۔حضرت فاطمہؓ کا بھی ایک قائم مقام موجود تھا۔ چناچہ نبی کریمﷺ  کی جائیداد خالصتًا جائیداد تھی۔اور اسمیں قانون وراثت جاری نہی ہو سکتا تھا۔اس لیۓ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے فرمایا کہ میں نبی کریمﷺ کے اعزّء کو اپنے اعزّء سے زیادہ محبوب سمجھتا ہوں۔ لیکن دقت یہکہ خود نبج کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ انبیاء علیھم السلام جو متروکہ چھوڑتے ہیں وہ کل کا کل صدقہ ہوتا ہے۔اور اسمیں وراثت جاری نہی ہو سکتی۔ اس بناء پر اس جائیداد کو کیونکر تقسیم کر سکتا ہوں۔؟؟؟ البتہ نبی کریمﷺ کی زندگی میں اھل بیعت اس سے جس قدر فائدہ اٹھاتے تھے اب بھی اٹھا سکتے ہیں۔

وفاتِ سیدہ فاطمہؓ :☜

آنحضرتﷺ کی وفات کو ابھی دو ماہ ہی گزرے تھے کہ رمضان 11 ہجری میں حضرت فاطمہؓ نے وفات پایئ۔اور نبی کریمﷺ کی پیشن گویئ کہ “میرے خاندان میں تم ہی مجھ سے سب سے پہلے آکر ملوگی” پوری ہویئ۔

تجہیز و تکفین:☜

حضرت فاطمہؓ کی تجہیز و تکفین میں سخت جدت کی گئ۔عورتوں کے جنازے پر جو آجکل پردہ لگانے کا دستور ہے اسکی ابتداء انہی سے ہویئ۔ اس سے پیشتر عورت و مرد کا جنازہ کھلا ہوا جاتا تھا۔ چونکہ حضرت فاطمؓہ کے مزاج میں انتہائی شرم و حیاء تھی۔اس لیۓ انہوں نے اسماء بنت عمیسؓ سے کہا کہ جنازے میں عورتوں کی بے پرسگی ہوتی ہے جسکو میں ناپسند کرتی ہوں۔ اسماء بنت عمیسؓ نے عرض کیا کہ اے گوشہ رسولﷺ !!!میں نے حبشہ میں ایک طریقہ دیکھا ہے اگر آپکی اجازت ہو تو اسکو پیش کروں۔۔۔۔ یہ کہہ کر خرمے کی چند شاخیں منگوایئ اور ان پر کپڑا تانا۔ جس سے پردے کی صورت پیداء ہویئ۔یہ دیکھ کر حضرت فاطمہؓ بے حد مسرور ہوئی اور فرمایا کہ یہ بہترین طریقہ ہے۔

حضرت فاطمہؓ کے بعد حضرت زینبؓ کا جنازہ بھی اسی طرح اٹھایا گیا۔حضرت فاطمہؓ کی قبر کے متسلق بھی شدید اختلاف ہے۔ بعضوں کا کہنا ہے کہ وہ بقیع میں حضرت امام حسنؓ کے مزار کے برابر میں مدفون ہیں۔ ایک روایت ہے کہ وہ خاص اپنے مکان میں دفن کی گئں۔اس پر ابن شیبہ نے یہ اعتراض کیا کہ پھر پردے دار جنازے کی کیا ضرورت تھی؟؟؟ طبقات کی ایک روایت سے اسکا یہ جواب دیا گیا کہ آپ سیدہؓ حضرت ام سلمہؓ کے گھر بیمار ہویئں تھی۔وہیں انتقال کیا اور وہی انکو غسل دیا گیا اور حضرت نے جنازہ اٹھا کر باہر لاۓ اور دفن کیا۔ آج سیدہ فاطمہؓ کی قبر متفقہ طور پر دارِ عقیل ہی میں سمجھی جاتی ہے۔

اولاد:☜

حضرت فاطمہؓ کی پانچ اولادیں ہوئیں۔حسنؓ حسینؓ  محسنؓ ام کلثومؓ  زینبؓ !!!
محسنؓ نے بچپن ہی میں انتقال کیا۔ حضرت زینبؓ حضرت حسنؓ حضرت حسینؓ ام کلثومؓ اہم واقعات کے لحاظ سے تاریخ میں مشہور ہیں۔ نبی کریمﷺ کو ان سب سے نہایت محبت تھی۔ حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ  بھی انکو بہت محبوب رکھتے تھے۔ آنحضرتﷺ کی صاحبزادیوں میں صرف حضرت فاطمہؓ کو یہ شرف حاصل ہے کہ ان سے آپکی نسل باقی رہیں۔