حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ

0

تعارف:☜

باسمہ تعالی بھلا امت محمدی کا کویئ فرد ایسا نہی جو فلک اصحابِ رسولﷺ کے اس روشن ستارے کے تعارف سے بخبر ہو۔ فلک اصحابِ رسولﷺ کے اس  روشن ستارے سے آج ہم آپکا تعرف کراتے ہیں۔آپؓ  زمانہ جاہلیت میں عبد الشمس  نام سے جانےجاتے تھے۔جب اللہ رب العزت نے آپؓ کو شرف اسلام سے مشرف کیا۔تو آپؓ کو نبی کریمﷺ کی زیارت کا شرف حاصل ہوا۔

آپ رضی اللہ عنہ کا نام مبارک:

آپﷺ نے دریافت کیا کہ تمہارا نام کیا ہے؟؟؟
آپؓ نے عرض کیا: کہ عبد شمس”آپﷺ نے ارشاد فرمایا :☜ نہی!  بلکہ آج سے تمہارا نام عبد الرحمان ہے”آپ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یارسول اللہﷺ میرے ماں باپ آپ پر قربان آپﷺ کا تجویز کردہ نام مجھے بہت پسند ہے۔
آپؓ کے نام کے بارے میں شدید اختلاف ہے۔کسی دوسرے صحابئ رسول کے نام کی تعین میں اتنا اختلاف نہی ہے۔آپؓ کے نام کے متعلق تین قول زیادہ مشہور ہیں:☜
1۔ عبد الشمس بن صخر:☜ آپؓ کا زمانہ جاہلیت یعنی قبل اسلام کا نام۔
2۔ عبد اللہ بن صخر  :☜ زمانہ اسلام کا نام ۔
3۔ عبد اللہ بن عمرو:  ☜  امام بخاریؒ اور امام ترمذیؒ کے نزدیک۔

آپ رضی اللہ عنہ کی کنیت:☜

اپؓ کی کنیت ابو ھریرہ تھی۔آپؓ کی کنیت کے متعلق بھی مختلف اقوال ہیں۔آپؓ کی یہ کنیت کس نے تجویز فرمایی؟اولاً لوگوں نے تجویز فرمایی۔دوم نبی کریم ﷺ نے تجویز فرمایی۔
بہر حال اصح قول ہیکہ آپؓ کی یہ کنیت آپﷺ نے تجویز فرمایئ۔

ملاحظہ:☜

“قال کانت لی ھریرة صغیرة فکنت اڐا کانت اللیل فی شجرة فاذا اصبحت اخذتھا فلعبت بھا فکنونی ابا ھریرةؓ”

معنی:☜ فرماتے ہیں کہ میرے پاس ایک چھوٹی بلی تھی۔رات کو وہ پیڑ پر چلی جاتی تھی۔جب صبح ہوتی تو میں اسکو پکڑ لیتا تھا اسکے ساتھ کھیلتا تھا۔تو میرے ہم عمر مجھے ابو ھریرة کہہ کر پکارتے تھے۔
“قالت کنت احمل یوم ھرة فی کمی فراٰنی رسول اللہﷺ  فقال ماھذا فقلت ھرة فقال ابا ھریرة رضی اللہ تعالی عنه”

معنی:☜ ایک مرتبہ میں اپنے ہاتھ پر بلی کو اٹھاے ہوۓ تھا۔ مجھکو نبی کریمﷺ نے دیکھا تو ارشاد فرمایا  یہ کیا ہے  ؟؟؟ تو عرض کیا بلی ہے  یا رسول اللہﷺ ! تو آپﷺ نے فرمایا اے ابو ھریرة یعنی بلی والے”

نبی کریمﷺ کی خدمت اقدس میں:☜

ابو ھریرةؓ نے طفیل بن عمرو الدوسیؓ کی وساطت (وسیلہ) سے اسلام قبول کیا۔ اور اسلام لانے کے بعد ہجرت سے 6 قبل تک اپنی قوم دوس ہی میں رہیں۔اسکے بعد اپنی قوم کے ایک وفد کے ذریعہ نبی کریمﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوۓ۔ہر وقت مسجد نبوی میں رہتے۔ آپﷺ کی قیادت میں علم حاصل کرتے ۔آپﷺ کی امامت میں نمازیں پڑھتے۔آپﷺ کی حیاتِ طیبہ میں آپؓ نے شادی نہی کی۔

اپنی والدہ کو دعوت اسلام دینا:☜

انکی بوڑھی والدہ انہیں مسلسل شرک کی جانب لوٹانے پر آمداہ رہیں ۔ لیکن آپؓ بھی انہیں اسلام کی جانب لانے میں کوشاں رہیں۔ ایک مرتبہ آپؓ نے اپنی والدہ کو دعوت اسلام پیش کی تو آپؓ کی والدہ نے آپؓ کو ایسی جلی کٹی سنایئ اور آپﷺ کی شان میں ناگوار باتیں کی ۔ جس سے آپؓ کا دل بہت افسردہ ہوا۔
آپؓ زارو قطار روتے ہوۓ نبی کریمﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوے۔آپﷺ نے دریافت کیا کہ ابو ھریرہ کیا ہوا کیون روتے ہو؟عرض کیا۔یارسول اللہﷺ میں اپنی والدہ کو اسلام کی دعوت دیتا ہوں ۔اور وہ انکار کرتی ہین۔آج جب میں نے انکے روبرو اسلام کی دعوت پیش کی تو انہونے آپﷺ کے متعلق ایسی جلی کٹی باتیں سنایی جو مجھے بہت ناگوار گزری۔
یارسول اللہﷺ دعا کیجیۓ ! اللہ میری ماں کا دل اسلام کی جانب مائل کر دے۔نبی کریمﷺ نے دعا کی۔۔حضرت ابو ھریرةؓ فرماتے ہین کہ جب میں گھر پینچا تو وہاں حالات بدلے ہوۓ تھے۔ میں نے پانی گرنے کی آواز سنی ۔۔۔ میری والدہ نہا رہیں تھی۔۔۔جب میں گھر میں داخل ہونے لگا۔تو میری والدہ نے فرمایا کہ ابو ھریرةؓ ذرا ٹھرو۔۔والدہ نہا کر فارغ ہویی کپڑے زیبِ تن فرماے۔اور کہا کہ اندر آ جاؤ۔جب مین گھر میں داخل ہوا تو میری والدہ دیکھتے ہی ہکار اٹھی۔۔۔۔ “اشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان محمدا عبدہ و رسولہ” اور میں الٹے پیر نبی کریمﷺ خدمت اقدس میں روتا ہوا داخل ہوا۔ جیسے پہلے غم اندوہ حزن ملال کی حالت میں  داخل ہوا تھا۔لیکن اس مرتبہ میں بے پناہ خوش تھا۔میں نے عرض کیا یا رسول اللہﷺ مبارک ہو آپکی دعا قبول ہویئ اور میری ماں ایمان لے آیئ۔

آپؓ کے عام حالات:☜

آپؓ کے رگ رگ میں نبی کریمﷺ کی محبت سرایت کر گئ تھی۔ فرماتے ہیں کہ دیدارِ رسول ﷺ سے کبھی میری نگاہیں سیر نہی ہوتی۔اکثر فرمایا کرتے تھے کہ میں نے نبی کریمﷺ کے چہرۀ انور سے بڑھکر کویئ چہرا نہی دیکھا۔
ہمیشہ اللہ رب العزت کی حمد و ثناء کرتے رہتے تھے۔اس لیۓ اس ذاتِ اقدس نے انہین اپنے محبوبﷺ اور دین اسلام کی محبت کا شرف بخشاء۔آپؓ فرمایا کرتے تھے کہ سب تعریفیں اللہ رب العزت کے لیۓ ہیں جس نے ابو ھریرةؓ کو اسلام قبول کرنے کی توفیق عطاء کی۔فرمایا کرتے تھے کہ سب تعریفات اللہ رب العزت کے لیۓ ہیں جس نے اس ادنی ابو ھریرة کو نبی کریم ﷺ کا صحابی ہونےکا شرف عطاء کیا ہے۔

علمِ دین کے حصول کا شوق:☜

جس ابو ھریرةؓ کو نبی کریمﷺ سے والہانہ محبت تھی اسی طرح آپؓ کو علم دین کے حصول کا بھی بے حد شوق تھا۔حضرت زید بن ثابتؓ فرماتے ہیں کہ میں ؛ ابو ھریرة اور ہمارا ایک ساتھی تھا۔ ہم اللہ رب العزت کی بارگاہ مین دعا مانگ رہیں تھے۔اچانک نبی کریمﷺ ہمارے پاس آۓ اور بیٹھ گیۓ ۔ہم سہم گیے اور بالکل خاموش ہو گئے۔آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اپنا کام جاری رکھو”۔حضرت ابو ھریرة سے پہلی میں اور میرے ساتھی نے دعا کی اور نبی کریمﷺ نے آمین کہا۔پھر حضرت ابو ھریرةؓ نے دعا کی اور کہا:☜ “یا اللہ میں تجھ سے وہی مانگتا ہوں جو میرے ان دو ساتھیوں نے مانگا ہے۔اور مزید مجھے وہ علم عطاء کر جو بھولے نہیں۔رسول اللہ ﷺ نے آمین کہا”۔فرماتے ہین کہ ہم نے عرض کیا کہ ہم بھی اللہ سے وہی علم مانگے جو بھلایا نہ جائے۔۔۔۔ ہماری یہ بات سن کر نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ دوسرے نوجوان تم سے سبقت لے گیا۔ جس طرح حضرت ابو ھریرةؓ کو علم سے والہانہ محبت تھی۔اسی طرع وہ اپنے ساتھیوں کے دل میں بھی وہی علم کی شمع روشن کرنا چاہتے تھے۔حصولِ علم اور نبی کریمﷺ کی مجالس کے لیۓ اپنے آپ کو وقف کرنے کے واسطہ حضرت ابو ھریرةؓ کو جو بھوک پیاس فقر و فاقہ کی تکالیف برداشت کرنی  پڑی ۔ عہدِ اصحابِ رسول اللہﷺ میں اسکی نظر نہی ملتی۔
حضرت ابو ھریرةؓ اپنے متعلق فرماتے ہیں کہ جب بھوک سے میرے پیٹ میں بل پڑنے لگتے تو میں بعض صحابہ اکرام سے آیتِ قرآنی سلسلہ میں گفتگو کرتا اسکا مفہوم دریافت کرتا حالانکہ مجھے اسکا علم ہوتا تھا۔

آپؓ کا ورع و تقوٰی :☜

حضرت ابو ھریرةؓ ایک جید عالم ہونے کے ساتھ ساتھ تقوٰی و طہارت کے اعلی و ارفع مقام پر فائز تھے۔دن کو روزہ رکھتے تھے۔اور رات کو ایک تہائی حصہ عبادت میں صرف کرتے ۔پھر اپنی بیوی کو بیدار کرتے وہ رات کے دوسرے تہائی حصہ میں مصروفِ عبادت ہوتی۔پھر وہ اپنی کو بیدار کرتی وہ رات کے تیسرے تہائی حصہ میں مصروفِ عبادت رہتی۔اس طرح پوری رات انکے گھر میں عبادت ہوتی تھی۔

ماں کے فرمانبردار :☜

حضرت ابو ھریرةؓ زندگی بھر اپنی ماں کے فرمانبردار رہے گھر سے باہر جاتے تو پہلے اپنی ماں کے دروازے پر کھڑے ہوتے اور کہتے
اماں جان:☜ ” السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاته”اماں جان جواب میں کہتی کہ اے میرے بیٹے:☜ “وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته” پھر فرماتے اماں جان اللہ رب العزت آپ پر اسی طرح اپنی نوازشات کی برکھا برسائے جس طرح آپنے پچپن سے مجھ پر اپنی محبت کی برکھا برسائی”۔تو اماں جان فرماتیں کہ بیٹا اللہ رب العزت تم پر اپنی رحمت کی برکھا برساۓ”تو بڑھاپے میں میرے ساتھ حسنِ  سلوک سے پیش آ”۔ جب حضرت ابو ھریرةؓ گھر لوٹتے تب بھی یہی اندز اختیار کرتے۔

آپؓ کی نصائح :☜

آپؓ لوگوں کو والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کی ترغیب دیا کرتے تھے۔آپؓ نے ایک روز دیکھا  دو لوگ ایک ساتھ چلے جا رہےہیں۔ انمیں سے ایک عمر رسیدہ اور ایک چھوٹا ہے۔آپؓ انمیں سے چھوٹے سے پوچھا کہ یہ تمہارا کیا لگتا ہے؟؟؟
اس نے کہا کہ یہ میرے ابا جان ہیں!  آپؓ نے اسے تلقین کی ۔۔۔۔ کہ کبھی انکے نام سے مخاطب نہ ہونا۔ کبھی ان سے پہلے نہ بیٹھنا۔ کبھی ان سے آگے نہ بڑھنا۔

وفات:☜

جب حضرت ابو ھریرةؓ مرض الموت میں مبتلاء ہوئے تو راز و قطار رونے لگے۔ آپ سے پوچا گیا۔۔۔۔ابو ھریرةؓ !!!! آپؓ روتے کیوں ہو؟؟؟ آپؓ نے فرمایا کہ میں تمہاری اس دنیا پر افسوس کر رہا ہوں۔اور امیں اس لیۓ روتا ہوں کہ سفر بڑا لمبا اور ذادِ راہ بہت کم ہے۔اور میں راستہ پر کھڑا ہوں کہ مجھے جنت میں لے جایا جائگا یا جہنم میں؟؟؟۔۔۔۔۔ میں نہیں جانتا کہ میرا کیا انجام ہوگا۔خلیفہ وقت مروان بن حکم نے عیادت کی اور دلاسہ دیتے ہوۓ عرض کیا کہ ابو ھریرةؓ اللہ رب العزت آپکو شفاء عطاء فرمائے۔ آپؓ نے یہ دعا کی کہ :☜ الہی میں تیری ملاقات کو محبوب جانتا ہوں ۔تو بھی میری ملاقات کو محبوب گردان اور مجھے جلد ہی اپنی زیارت نصیب فرما۔ مروان بن حکم نے ابھی گھر سے باہر قدم ہی رکھا تھا کہ آپؓ اللہ کو پیارے ہو گیۓ۔۔۔۔۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔