حضرت سیدہ زینب رضی اللہ تعالی عنھا

0

نام و نسب:☜

آپ نبی کریمﷺ کی سب سے بڑی صاحبزادی ہیں۔آپﷺ کی بعثت سے پہلے جب آپﷺ کی عمر شریف 30 سال تھی، پیداء ہوئیں۔آپ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کا پورا نام سیدہ زینب بنت محمد ﷺ  بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم ہے۔اور آپ رضی اللہ عنہا کی والدہ کا نام سیدہ حضرت خدیجہ الکبریٰ بنت خویلد بن اسد بن عبد العزیٰ بن قصی ہے۔

آپ سیدہ زینب الکبری رضی اللہ عنہا کا نکاح:☜

آپؓ کا نکاح ابو العاص لقیط بن ربیع سے ہوا۔جو حضرت زینبؓ کے خالا ذاد بھائی تھے۔ حضرت زینب رضی اللہ عنھا کا نکاح بعثت سے پہلے کم سنی میں ہی ہو گیا تھا۔کہا جاتا ہے کہ جب آپکی شادی ہوئی تو آپکی عمر دس سال تھی۔آپ رضی اللہ عنھا کے شوہر آپ کی والدہ حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنھا کی حقیقی بہن ہالہ بنت خویلد کے بیٹے تھے۔

حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ عنھا اپنے بھانجے کو اپنے بیٹے کی جیسے عزیز رکھتی تھیں۔ سب سے پہلے حضرت زینبؓ کا رشتہ ابوالعاص نے طلب کیا۔انہوں نے اپنی خالہ سے اس خواہش کا اظہار کیا۔حضرت خدیجہ الکبریٰؓ نے یہ بات آپﷺ کو بتائی۔اور پھر ابوالعاص نے خود آ کر بھی سید عالمﷺ سے گزارش کی۔۔۔آپﷺ نے فرمایا کہ یہ بہترین رشتہ اور جوڑ ہے۔لیکن “میری بیٹی زینبؓ کی مرضی بھی معلوم ہونی چاہئے۔چناچہ سیدہ زینبؓ کی مرضی کے مطابق آپﷺ نے ابو العاص کو دامادی کا شرف عطاء کیا۔

حضرت زینبؓ کا مشرف بااسلام ہونا:☜

جب سید عالمﷺ نے نبوت کا اعلان کیا اور اسلام کی دعوت دی تو سیدہ زینبؓ فورًا مسلمان ہو گئیں۔اس وقت انکے شوہر ابو العاص تجارت کی غرض سے مکہ سے باہر گئے ہوئے تھے۔ انہوں نے دورانِ سفر ہی نبی کریمﷺ کی بعثت کی خبر سنی۔مکہ آکر تصدیق ہو گئی۔سیدہ زینبؓ نے کہا کہ میں نے بھی اسلام قبول کر لیا  ہے۔تو وہ شش و پنج میں پڑ گئے۔

پھر انہوں نے کہا کہ اے زینبؓ کیا تم نے یہ بھی نہیں سوچا کہ میں اگر آپﷺ پر ایمان نہ لایا تو پھر کیا ہوگا؟ سیدہ زینبؓ نے جواب دیا  کہ میں اپنے صادق اور امین باپ کو کیسے جھٹلا سکتی ہوں؟؟؟ خدا کی قسم وہ سچے ہیں اور میری ماں بہنیں اور حضرت علیؓ بن ابی طالب اور ابوبکر صدیقؓ اور تمہاری قوم میں حضرت عثمان بن عفانؓ اور تمہارے ماموں ذاد بھائی زبیر بن عوامؓ بھی ایمان لا چکے ہیں۔ اور میرا خیال نہیں کہ تم میرے باپ کو جھٹلاؤگے۔اور انکی نبوت پر ایمان نہیں لاؤگے۔ابو العاص نے کہا کہ مجھے تمہارے والد پر کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔اور نہ میں انکو جھٹلاؤنگا بلکہ مجھے تو اس سے زیادہ کوئی چیز عزیز نہیں کہ میں تمہارے ساتھ تمہارے طریقے پر چلوں۔لیکن میں صرف اس بات سے ڈرتا ہوں کہ قوم مجھ پر الزام لگائیگی اور کہے گی کہ بیوی کی خاطر اپنے آباؤاجداد کا مذہب چھوڑ دیا ہے۔چناچہ انہوں نے اسلام قبول نہیں کیا۔

ابو العاص کا وقار مکہ میں:☜

آپ شریف النفس اور امانت دار ہونے کے ساتھ ساتھ مکہ کے ایک معزز و خوشحال تاجر بھی تھے۔لوگ انکو بھی امین کہتے تھے۔آپ اچھی خصلتوں کے ساتھ ساتھ بلند نسب کے بھی حامل تھے۔مکہ میں انکی پوزیشین مالداری اور امانتداری اور تجارت کے لحاظ سے بہت بڑی ہوئی تھی۔بعثت سے پہلے ہی سے نبی کریمﷺ کو ان سے گہرا لگاؤ تھا۔مکہ کے لوگ انہیں اپنا مالِ تجارت دیکر دوسرے ملکوں میں فروخت کے لئے بھیجتے تھے۔

کفار کے مسلمانوں پر مظالم:☜

کفار نے مسلمانوں پر مظالم ڈھانہ شروع کر دیئے۔اور حضورﷺ کی صاحبزادیاں حضرت رقیہؓ اور حضرت ام کلثومؓ ابو لہب کے دونوں بیٹوں  سے بیاہی ہوئیں تھیں لیکن ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی۔دونوں بیٹوں نے ابو لہب کے کہنے پر دونوں آپﷺ کی صاحبزادیوں کو طلاق دے دی تھی۔کفار نے ابو العاص کو بھی بہت اکسایا لیکن ابو العاص نے صاف انکار دیا۔اور ہمیشہ حضرت زینبؓ سے اچھا سلوک کرتے تھے۔آپ سیدہ زینبؓ بھی ہمیشہ ابوالعاص کی تعریف کیا  کرتی تھیں۔اور فرماتی تھیں کہ ابو العاص نے بہترین دامادی کا ثبوت دیا۔

قریش نے ابو العاص کو لالچ دیا:☜

قریش نے ابو العاصؓ سے کہا کہ تم نبی کریمﷺ کی صاحبزادی کو طلاق دے دو اور بدلے میں تمہیں جو لڑکی پسند آئیگی اس سے تمہاری شادی کر دی جائیگی۔لیکن ابو العاص نے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ خدا کی قسم مجھے حضرت زینبؓ کے عوض کوئی عورت نہیں چاہیئے۔۔۔۔اور نہ ہی میں زینبؓ کو اپنے سے جدا کر سکتا ہوں۔

ابو العاص نے اپنا آبائی مذہب ترک نہ کیا

نبوّت کے تیرہوے سال جب نبی کریمﷺ نے مکہ معظمہ سے ہجرت فرمائی تو اہل و عیال مکہ میں ہی رہ گیا۔حضرت زینبؓ بھی اپنے سسرال میں ہی تھیں۔ قریش نے مسلمانوں پر ظلم و ستم اس قدر ڈھانا شروع کر دیے جس میں بنو ہاشم  کا مکمل بائیکاٹ بھی تھا۔ اس طرح سیدہ زینبؓ کو اپنے والدﷺ  و  والدہ اور خاندان کے دوسرے افراد کے ساتھ شعب ابو طالب میں آزمائیش کے مکمل تین سال گزارنا پڑے۔

ام المؤمنین حضرت خدیجہ الکبریٰؓ شعب ابی طالب کے واقعہ کے بعد انتقال فرما گئیں۔ سیدہ حضرت زینبؓ کی بہنیں حضرت رقیہؓ ؛ام کلثومؓ؛ اور فاطمہؓ اپنے والدﷺ کے حکم سے مدینہ منورہ ہجرت کر گئیں۔ اور آپ سیدہ زینبؓ اسی طرح اپنے شوہر کے گھر مکہ میں ہی رہ گئیں۔

٢؁ میں اسلام اور کفر کا پہلا معرکہ مقام بدر میں پیش آیا جس میں اللہﷻ نے مسلمانوں کو فتح یابی نصیب کی اور بہت سے کفار گرفتار ہوئے۔ غزوۀ بدر میں ابو العاص کفار کی جانب سے شریک ہوئے۔عبد اللہ بن جبیر انصاریؓ نے انکو گرفتار کیا۔ ابو العاص اس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے۔ انہوں نے اپنے عزیزوں کی رہائی کے لیے نبی کریمﷺ کی خدمت میں زرِ فدیہ بھیجا تاکہ اسکے بدلے میں قیدی چھوڑ دیئے جائیں۔

سیدہ حضرت زینبؓ نے  اپنے دیور عمر بن ربیع کے ہاتھ  یمنی عقیق کا ایک ہار اپنے شوہر کی رہائی کے لیے بھیجا۔اس وقت انکے خیال میں اس سے قیمتی کوئی اور چیز نہیں تھی۔یہ ہار حضرت زینبؓ کو انکی والدہ حضرت خدیجہ الکبریٰؓ نے انکے نکاح کے وقت بطور تحفہ دیا تھا۔

سردار انبیاء ﷺ کی خدمت میں جب وہ ہار پیش کیا گیا تو آپکوﷺ سیدہ حضرت خدیجہ الکبریٰؓ یاد آگیئں۔اور آپ ﷺ  آب دیدہ ہو گئے۔آپﷺ نے صحابہ اکرام رضی اللہ عنھم اجمعین سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ اگر مناسب ہو تو یہ ہار زینبؓ کو واپس کر دو۔یہ اسکی ماں کی نشانی ہے۔۔۔۔اور “ابو العاص کا فدیہ یہ ہےکہ وہ مکہ جاکر حضرت زینبؓ کو فورًا مدینہ منورہ بھیج دے”۔ تمام صحابہ اکرام رضی اللہ عنھم اجمعین نے فرمانِ نبوی میں سر خم تسلیم کر دیا اور ابو العاص کو رہا کیا گیا۔اور وہ مکہ روانہ  ہوئے۔

آپﷺ نے حضرت زید بن حارثہؓ کو ابو العاص کے ساتھ بھیجا اور حکم دیا کہ وہ بطن یاجج مقام پر ٹھہر کر انتظار کرے۔اور جب حضرت زینبؓ وہاں پہنچے تو انہیں لیکر مدینہ واپس آجائے۔

ابوالعاص نے وعدہ کے مطابق مکہ جاکر حضرت زینبؓ کو اپنے چھوٹے بھائی کنانہ کے ساتھ روانہ کیا۔ تاکہ وہ حضرت زید بن حارثہؓ کے ساتھ مدینہ منورہ تشریف لے جا سکیں۔ اور خود تجارت کی غرض سے ملک شام روانہ ہو گئے۔

مشرکین مکہ کو جب اس بات کی خبر ملی کہ نبی کریمﷺ کی بیٹی مکہ جا رہی ہے۔تو انہوں نے کنانہ بن ربیع اور حضرت زینبؓ کا تعاقب کیا۔ اور مقام ذی طویٰ میں جا کر گھیر لیا۔ حضرت زینبؓ اونٹ پر سوار تھیں۔ ہبار بن اسود نے  اپنے نیزے سے حضرت زینبؓ کو زمین پر گرا دیا۔ یا اونٹ کا رخ موڑنے کے لیے جب نیزہ گھمایا تو وہ زمین پر گر پڑیں۔انہیں سخت چوٹ آئی۔۔۔ وہ حاملہ تھیں۔۔۔گرنے سے حمل ساقط ہو گیا۔

کنانہ نے غصہ سے اپنے ترکش سے تیر نکالے اور للکار کر کہا کہ “خبردار اگر اب کوئی آیا تو ان تیروں سے چھلنی کر دونگا “۔ کفار رک گئے۔ ان مشرکین میں  ابو سفیان سردارانِ قریش کے ساتھ موجود تھے۔۔۔ اور کہا ” بھتیجے اپنے تیر روک لو ہم کو کچھ گفتگو کرنی ہے۔انہوں نے تیر ترکش میں ڈال لیے۔۔۔”

ابو سفیان نے کہا کہ محمدﷺ کے ہاتھ سے جو مصیبتیں ہمیں  پہنچی ہیں۔تم ان سے بخوبی آگاہ ہو۔اب اگر تم اعلانیہ انکی لڑکی کو ہمارے قبضہ سے نکال کر لے گئے تو لوگ کہیں گے کہ ہماری کمزوری ہے۔ہم کو زینبؓ کو روکنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن جب شور اور ہنگامہ کم ہو جائے اس وقت چوری چھپے لے جانا۔

کنانہ نے یہ رائے تسلیم کی اور حضرت زینبؓ کو لیکر مکہ واپس آۓ اور چند روز بعد انکو رات کے وقت لیکر روانہ ہوئے۔ زید بن حارثہؓ کو نبیﷺ نے پہلے ہی بھیج دیا تھا۔وہ بطنِ یاجج میں تھے اور ابھی تک سیدہ حضرت زینبؓ کے منتظر تھے۔کنانہ نے زینبؓ کو  انکے حوالے کیا اور وہ سیدہ زینبؓ کو  لیکر مدینہ منورہ روانہ ہوئے۔ حضرت زینبؓ مدینہ منورہ تشریف لائی اور اپنے شوہر کو حالت شرک میں چھوڑا۔

ابو العاص کے سیدہ حضرت زینبؓ سے جدائی کے بعد حالات:☜

ابو العاص کو اپنی زوجہ سیدہ حضرت زینبؓ سے بے پناہ محبت تھی۔کفار کے کہنے پر بھی انہیں طلاق نہیں دی۔اور حضورﷺ کے وعدہ کے مطابق انہیں مدینہ روانہ کر دیا۔لیکن ان کے جانے کے بعد اداس اور بے چین رہنے لگے۔ ایک مرتبہ جب ملک شام کی جانب سفر کر رہے تھے۔پر درد شعر کہہ رہے تھے۔جسکا ترجمہ یہ ہے :☜  کہ “جب میں ارم کے مقام سے گزرا تو زینب کو یاد کیا۔اور کہا کہ خدا ہر اس شخص کو شاد و آباد رکھ جو حرم میں مقیم ہے۔امین کی لڑکی کو خدا جزاۓ خیر دے۔اور ہر خاوند اسی بات کی تعریف کرتا ہے جسکو وہ خوب جانتاہے”۔

تقریباً 2 سال میاں بیوی کو جدائی کے صدمات سہنے پڑے۔ جمادی اولی ٦؁ میں ابو العاص قریش کے ایک قافلہ کے ساتھ شام کی طرف روانہ ہوۓ۔آنحضرتﷺ نے حضرت زید بن حارثہ کو 170 سواروں کے ساتھ بھیجا۔مقام عمیص میں قافلہ ملا کچھ لوگ گرفتار کیے گئے۔مال و اسباب لوٹ میں آیا۔ ابو العاص بھاگ کر مدینہ چلے گئے تو حضرت زینبؓ نے انکو پناہ دی۔

ابو العاص نے فجر سے پہلے ہی مدینہ پہنچ کر حضرت زینبؓ  کے یہاں پناہ لی تھی۔طلوع صبح سے پہلے ہی مسلمانوں نے سیدہ زینبؓ کی آواز سنی ” کہ اے لوگوں میں نے ابو العاص کو پناہ دی ہے”۔ سیدہ زینبؓ کی آواز نبی کریمﷺ اور صحابہ اکرام رضی اللہ عنھم اجمعین نے سنی۔نماز مکمل ہوئی۔اور نبی کریمﷺ بہت جلد حضرت زینبؓ کے یہاں پہنچے اور صورتِ حال معلوم کی۔

سیدہ زینبؓ نے روتے روتے کہا ” یارسول اللہﷺ ابوالعاص اگر پاس ہیں تو چچا کے بیٹے ہیں۔اور اگر دور ہیں تو میرے بچوں کے باپ ہیں۔اس لیے میں نے انہیں پناہ دی ہے”۔ سیدہ زینبؓ کی بات سن کر نبی کریمﷺ اور تمام مسلمانوں نے بھی ابو العاص کو پناہ دی۔صحابہ اکرام رضی اللہ عنھم اجمین نے قافلہ کا مال بھی واپس کر دیا۔ابو العاص نے اپنے بچوں کو پیار کیا اور انکی ماں کو الودع کہہ کر مکہ روانہ ہو گئے۔

ابوالعاص کا ایمان لانا:☜

ابوالعاص نے مکہ پہنچ کر تمام لوگوں کے واجبات اور حقوق واپس کر دیے اور کہا کہ اب مجھ پر کسی کا کوئی حق تو نہیں ہے؟؟؟؟ سب نے بیک وقت کہا کہ نہیں ہم نے تجھے حق اداء کرنے والا معزز پایا۔ یہ سن کر حضرت ابو العاص رضی اللہ عنہ  نے بلند آواز سے کلمہ توحید پڑھا۔۔۔۔۔”میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہﷻ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمدﷺ اللہﷻ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔”

اسکے بعد آپؓ نے کفارِ مکہ سے کہا کہ “خدا کی قسم اسلام لانے سے کوئی چیز مانع نہ تھی سوائے اس خوف کے کہ تم لوگ یہ کہو کہ میں تمہاری مال و دولت ہڑپنا چاہتا ہوں”۔ ۔۔۔۔۔۔اب جبکہ اللہﷻ نے وہ سب اداء کرا دیئے اور میں فارغ ہو گیا ہوں۔اس لیے اسلام کا اعلان کرتا ہوں”۔

ابوالعاصؓ کی مکہ سے مدینہ ہجرت:☜

محرم الحرام ٧؁ میں حضرت ابوالعاصؓ ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لے گئے۔چونکہ میاں بیوی میں شرک کی وجہ سے تفریق ہو گئی تھی۔اس لیے اب حضورﷺ نے ابو العاصؓ کے مسلمان ہونے پر پہلے ہی حق مہر پر دوبارہ نکاح کرکے حضرت ابو العاصؓ کے گھر بھیج دیا۔ نکاح کے بعد سیدہ زینبؓ بہت کم زندہ رہیں۔اور میاں بیوی کی یہ رفاقت زیادہ عرصہ تک قائم نہ رہی۔حضرت ابوالعاصؓ کی ہجرت کے ایک سال بعد٨؁ میں سیدہ زینبؓ وفات پا گئیں۔ سیدہ کی ہجرت کے وقت جو سانحہ ہوا تھا اسکی تکلیف میں ابوالعاص مسلسل گرفت رہے۔

تجہیز و تکفین :☜

حضرت ام یمنؓ؛ حضرت سودہؓ ؛ حضرت ام سلمہؓ ؛ حضرت ام عطیہ نے ؓ آپ سیدہ زینبؓ کو غسل دیا۔جسکا طریقہ خود نبی کریمﷺ نے آپ صحابیاتؓ کو بتایا تھا۔ نبی کریمﷺ نے نماز جنازہ پڑھائی اور خود  آپﷺ قبر میں اترے اور اپنے نورِ دیدۀ کو جنت البقیع میں  سپرد خاک کیا۔اس وقت آپکےﷺ چہرۀ انور پر آثارِ حزن نمایاں تھے۔

آپ سیدہؓ کی اولاد:☜

حضرت زینبؓ نے دو اولادیں چھوڑیں ۔۔۔۔علیؓ اور امامہؓ علی کی نسبت ایک روایت ہے کہ بچپن ہی میں وفات پائی۔ لیکن عام روایت میں ہے کہ سنِ رشد کو پہنچے۔ ابنِ عساکر نے لکھا ہے۔کہ یرموک کے معرکہ میں شہادت پائی۔اور فتح مکہ میں یہی نبی کریمﷺ  کے ردیف تھے۔

حضرت امامہؓ عرصہ تک زندہ رہیں۔حضرت ابوالعاصؓ نے اپنی وفات سے پہلے ہی حضرت امامہؓ کو حضرت زبیر بن عوامؓ کی سرپرستی میں دے دیا تھا۔حضرت فاطمہؓ کی وفات کے بعد حضرت علیؓ کے نکاح میں آئی۔