حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا

0

نام ونسب:☜

مشہور روایت کے مطابق آپﷺ کی دوسری صاحبزادی ہیں۔33 ہجری قبل نبوت پیدا ہوئیں۔آپکی والدہ طیبہ طاہرہ ام المؤمنین حضرت خدیجہ الکبریٰؓ تھیں۔ آپؓ والد کی جانب سے بھی اعلی نسب تھیں۔جو کہ اس طرح ہے: سیدہ رقیہؓ بنت محمدﷺ بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم۔والدہ کی جانب سے آپؓ کا نسب یہ ہے: سیدہ رقیہؓ بنت خدیجہ الکبریٰؓ بنت خویلد بن اسد بن عبد العزیٰ بن قصی۔

ولادت:☜

سیدہ رقیہؓ بعثت نبوت سات سال پہلے مکہ معظمہ میں پیدا ہوئیں۔اس وقت رسولﷺ کی عمر شریف 33 برس تھی۔حضرت رقیہؓ حضرت زینبؓ سے تین برس چھوٹی ہیں۔

آپ سیدہ رقیہؓ کا نکاح ابو لہب کے بیٹے سے کس طرح ہوا :☜

آپؓ کا پہلا نکاح ابو لہب کے بیٹے عتبہ سے ہوا۔یہ نبوت سے پہلے کا واقعہ ہے جو حضورﷺ کے چچا کا بیٹا تھا۔ابو العاصؓ بنو بن عبدالعزیٰ بن عبد شمس بن عبد مناف میں سے تھے۔سیدہ رقیہ کی بڑی بہن سیدہ زینبؓ کی ان سے ہو گئی تھی۔بنو ہاشم کو خیال آیا کہ حضورﷺ کی دوسری بیٹیوں کا نکاح سیدہ رقیہؓ اور سیدہ ام کلثومؓ کا نکاح بھی کہی دوسرے قبیلہ میں نہ ہو جائے۔اس لئے سیدہ زینبؓ کے نکاح کے کچھ عرصہ بعد ہی بنو مطلب کے کچھ لوگ حضرت ابو طالب کو لیکر حضورﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔

حضرت ابو طالب نے بات شروع کی”اے بھتیجے آپ نے حضرت زینبؓ کا نکاح ابوالعاصؓ سے کر دیا۔بے شک جو اچھا انسان اور شریف داماد ہے لیکن آپکے عم زاد کہتے ہیں کہ جس طرح آپ پر خدیجہ کی بہن ہالہ کے بیٹے کا حق ہے۔اسی طرح آپ پر ہمارا بھی حق ہے۔اور حسب نسب و شرافت میں بھی ہم اس سے کم نہیں۔

آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اے چچا قرابت داری اور رشتہ داری سے تو انکار نہیں لیکن آپ مجھے سوچنے کا موقعہ دیجیے۔آخر حضرت خدیجہؓ کے مشورے اور بیٹیوں کی رضامندی سے یہ نکاح ہو گیا۔

طلاق:☜

ابو لہب کی بیوی ام جمیل بہت چرپ زبان اور بدمزاج و بد اخلاق سنگدل قسم کی عورت تھی۔نبی کریمﷺ نے جب اپنی نبوت کا اعلان کیا تو مشرکین نے نہ صرف انکار کیا بلکہ آپﷺ اور دیگر مسلمانوں پر ظلم وستم بھی شروع کر دیے۔ابو لہب اور اسکی بیوی ام جمیل بھی آپﷺ کو ایذا پہچانے میں پیش پیش رہتی تھی۔ابو لہب کی مذمت میں جب سورہ لہب نازل ہوئی تو ابو لہب نے اپنے دونوں بیٹوں سے کہا کہ جب تک محمدﷺ کی بیٹیوں سے علیحدگی اختیار  نہیں کرو گے  میرا تمہارے ساتھ اٹھنا بیٹھنا حرام ہے۔

چنانچہ دونوں بیٹوں عتبہ اور عتیبہ نے نبی کریمﷺ کی دونوں صاحبزادیوں کو رخصتی سے پہلے ہی طلاق دے دی۔اگر چہ بعض روایات میں ہے کہ رخصتی ہو چکی تھی۔ تاہم معتبر روایات یہی ہیں کہ رخصتی نہیں ہوئی تھی۔ کیونکہ لڑکیاں ابھی بالغ نہیں تھیں۔

حضرت قاضی عیاضؒ لکھتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے عتبہ بن ابو لہب کے لئے ان الفاظ میں بدعا کی۔۔۔” اے اللہ تو اس پر اپنے کتوں میں سے ایک کتا مسلط کر دے”۔ چناچہ نبی کریمﷺ کی دعا مقبول ہوئی اور اسے ایک شیر نے پھاڑ کر کھایا۔ لیکن محقیقین اور مؤرخین کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ شیر نے عتبہ کو پھاڑا یا عتیبہ کو۔

نبی کریمﷺ نے سیدہ حضرت رقیہؓ کا دوسرا نکاح حضرت عثمان بن عفانؓ سے کرا دیا۔آپ حضرت عثمانؓ خاندان قریش کے عالی نسب باعزت و باحیاء انسان تھے۔اللہ رب العزت نے زمانہ جاہلیت میں بھی عزت عطاء فرمائی۔ اور انکا نسب نبیﷺ سے جا ملتا ہے۔آپ خوبصورت و خوب سیرت نوجوان تھے۔آپکا شمار مکہ کے امیر ترین لوگوں میں ہوتا تھا۔حضرت عثمانؓ نے اسلام قبول کیا وہ نہایت ہی صالح نوجوان تھے۔نبی کریمﷺ نے انہیں اپنی دامادی کے لیے منتخب فرمایا۔حضرت عثمانؓ کی اپنی دلی خواہش یہی تھی۔ چناچہ نبی کریمﷺ نے مکہ میں ہی حضرت عثمانؓ کی شادی حضرے رقیہؓ سے کرا دی تھی۔

عام حالات:☜

ہجرت کے پانچويں سال حضرت عثمانؓ نے مکہ سے حبشہ کی جانب ہجرت کی تو سیدہ بھی آپکے ساتھ تھیں۔ سیدہ رقیہؓ وہ پہلی خاتون تھیں جنہوں نے اللہ کی راہ میں سب سے پہلے حبشہ کی جانب ہجرت کی۔نبی کریمﷺ سیدہ رقیہؓ کی ہجرت پر فرمایا تھا کہ “ابراھیم اور لوط علیھما السلام کے بعد حضرت عثمانؓ وہ پہلے شخص ہیں جنہوں خدا کی راہ میں اپنی بیوی کے ساتھ ہجرت کی ہے”۔ جب واپس آئی تو مکہ کی سرزمیں پہلے سے زیادہ خونخار ہو چکی تھی۔ چناچہ پھر ملک حبشہ کی جانب ہجرت کی۔

چناچہ دوبارہ ہجرت تک انکا کچھ حال معلوم نہ ہوا۔تو حضورﷺ بہت پریشان تھے اور مکہ سے باہر تشریف لےجاکر ہر مسافر سے معلوم کرتے تھے۔ایک روز ایک عورت نے کہا کہ میں نے انکو حبشہ میں دیکھا ہے۔انکا جواب سن کر نبیﷺ نے ارشاد فرمایا کہ خدا انکا ساتھی ہے۔ حبشہ میں ایک عرصہ تک قیام کرنے کے بعد حضرت عثمانؓ کو خبر ملی کہ نبی کریمﷺ مدینہ منورہ کی جانب ہجرت کرنے والے ہیں۔ تو آپ سیدہ رقیہؓ بعض دوسرے مسلمانوں کے ساتھ مکہ واپس آ گئیں۔

ہجرت مدینہ:☜

آپ ﷺ نے مسلمانوں کو مدینہ منورہ کی جانب ہجرت کرنے کا حکم دیا۔تو آپ سیدہ بھی حضرت عثمانؓ کے ساتھ مدینہ ہجرت کر گیئں۔ بنت رسولﷺ اور حضرت عثمانؓ مدینہ میں اوس بن ثابتؓ کے گھر ٹھہرے کچھ عرصہ بعد نبیﷺ بھی مدینہ شریف تشریف لے آئے۔حضرت اوس بن ثابتؓ حضرت حسان بن ثابتؓ کے بھائی تھے۔

وفات:☜

٢؁    ہجری میں  سیدہ رقیہؓ کو چیچک نکل آئی۔یہ دانے نکلنے سے انہیں شدید تکلیف تھی۔اس دوران نبی کریمﷺ غزوۀ بدر کی تیاریوں میں مشغول تھے۔آپ ﷺ غزوۀ کے لئے لشکر کو روانہ کر رہے تھے۔ تو آپﷺ کی صاحبزادی شدید بیمار تھیں۔آپﷺ نے اس وجہ حضرت عثمان کو غزوۀ سے روک دیا اور سیدہ کی تیمار داری کرنے کا حکم فرمایا۔اور آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ رب العزت آپکو اس پر ہی غزوۀ میں شریک ہونے کا اجر دیگا ۔۔۔اور مال غنیمت میں آپکو حصہ دیا گیا۔عین اسی دن جس دن حضرت زید بن حاثہؓ نے آکر فتح کا ثمرہ سنایا اسی دن حضرت رقیہؓ نے اکیس سال کی عمر میں وفات پائی۔

آپﷺ لختِ جگر کی وفات کی خبر پاکر بے حد غمگین ہوئے آپکیﷺ آنکھوں سے آنسوں جاری ہو گئے۔مدینہ منورہ واپس آکر حضرت رقیہؓ کی قبر اطہر پر تشریف لے گئے۔اور فرمایا “کہ حضرت عثمان بن مظعونؓ جا چکے اب تم بھی ان سے جا ملو”۔حضرت عثمان بن مظعونؓ پہلے صحابی ہیں جنہوں نے مدینہ میں وفات پائی۔حضرت سیدہ النساء فاطمہ زہراؓ بھی آپکے ﷺ کی خدمت اقدس اور بہن کی قبر پر تشریف لائیں۔اور روتی جاتیں اور آپﷺ اپنی چادر سے آنسوں پھونچتے جاتے‌۔

اولاد :☜

حبشہ کے زمانے میں ایک لڑکا پیداء ہوا تھا۔ جسکا نام عبد اللہ تھا۔ حضرت عثمانؓ کی کنیت ابو عبد اللہ اسی کے نام پر تھی۔چھ سال تک زندہ رہا ایک مرتبہ مرغ نے اسکے چہرے پر چونچ ماری جس سے تمام چہرا متورم ہوگیا۔اور اسی تکلیف کی وجہ سےجاں بحقِ تسلیم ہو گیا۔یہ جمادی اولی 4 ہجری کا واقعہ ہے۔عبد اللہ کے بعد حضرت رقیہؓ کی کوئی اولاد نہیں ہوئی۔آپﷺ نے نماز جنازہ پڑھائی اور حضرت عثمان غنیؓ نے قبر میں اتارا۔