سیدہ حضرت زینب بنت علیؓ

0

تعارف:☜

آپ سیدہ زینبؓ نبی کریمﷺ کی وہ نواسی ہیں جو دکھ آلام و مصبتوں کی وجہ سے ام المصائب کے نام سے مشہور ہوئیں۔ اکثر مؤرخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سیدہ زینب بنت علیؓ ٥ جمادی الاولی ٦؁ کو مدینہ منورہ میں پیداء ہوئیں۔ جب سیدہ کی ولادت ہوئی تو نبی کریمﷺ مدینہ منورہ سے باہر تھے۔ تین دن بعد تشریف لائے اور سب سے پہلے حضرت فاطمہؓ کے گھر تشریف لے گئے اور بچی کو گود میں لیا اور دہن مبارک میں  کھجور چبائی اور لعاب مبارک بچی کے منھ میں ڈالا۔اور انکا نام آپﷺ نے زینب رکھا۔اور فرمایا کہ یہ” ہم شبہ اپنی نانی کے ہیں یعنی سیدہ خدیجہ الکبریٰؓ سے مشابہ ہیں۔

کنیت اور القاب:☜

آپ سیدہ کی کنیت ام الحسن یا ام کلثوم تھی۔ واقعہ کربلا کے بعد ام المصائب مشہور ہوئیں۔
آپ سیدہ کے چند القاب ہیں۔

  • نائمہ الزہرہ
  • راضیہ بالقدر و قضاء
  • فصیحہ
  • بلیغہ
  • زاہدہ
  • فاضلہ
  • عابدہ
  • عاقلہ کاملہ شریک الحسین
  • ناموس الکبریٰ
  • صدیقہ الصغریٰ
  • شجاعہ
  • محبوة المصطفٰی
  • موثقہ
  • ولیة اللہ
  • قرة عین المرتضٰی
  • امنیة اللہ
  • خاتون کربلاء۔

سلسلہ نسب:☜

سیدہ زینبؓ رسول اللہ ﷺ کی لخت جگر خاتون جنت سیدہ فاطمہ زہرہؓ  اور شیر خداء حضرت علی مرتضٰیؓ کی صاحبزادی تھیں۔ آپ سیدہ کا نسب والد کی جانب سے سیدہ زینب بنت علی مرتضٰیؓ بن ابو طالب بن عبد المطلب بن ہاشم بن قصی ہے۔ اور والدہ مطہرہ کی جانب سے آپ سیدہ کا سلسلہ نسب زینب بنت  خاتون جنت سیدة النساء سیدہ فاطمہ زہراؓ بنت محمد مصطفٰی رسول اللہﷺ بن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن قصی ہے۔

سیدہ کا نکاح:☜

سیدہ زینب بنت علیؓ کے لیے سب سے پہلے کندہ کے ریئس اشعس بن قیس نے نکاح کا پیغام بھیجا۔حضرت علیؓ نے کسی وجہ سے انکار کر دیا۔ پھر سیدہ زینب بنت علیؓ کا نکاح حضرت عمر فاروقؓ کے دور خلافت میں ہوا۔ خاندان کے چند بزرگ حضرت عبد اللہ بن جعفرؓ کو لیکر مسجد میں آگئے اور سیدنا علیؓ نے سیدہ زینبؓ سے نکاح پڑھا دیا۔ 480 درہم مہر مقرر ہوا۔ پھر خاندان کی عورتیں خود سیدہ زینبؓ کو حضرت جعفرؓ کے گھر پہنچا کر آیئں۔

سیدہ کے خصائل و فضائل :☜

آپ سیدہ علم و فضل میں نہ صرف بنو ہاشم بلکہ پورے قریش میں ممتاز تھیں۔زہد و تقوٰی فہم و فراست و ریاضت میں بلند مقام رکھتی تھیں۔ فصاحت  و بلاغت و زود بیاں حضرت علیؓ سے ورثہ میں ملا تھا۔ نہایت خوبصورت خاتون تھیں۔ناناﷺ کی طرح جلال چہرے سے جھلکتا تھا۔ اور چال ڈھال میں وقار حیدری تھا۔جود و سخاوت نرمی و شفقت آپ سیدہ کی طبیعت کے خاص وصف تھے۔ صبر و قناعت سادگی محنت و مشقت کی عادت تھی۔37 ہجری کوفہ میں آپ سیدہ نے درس و تدریس وعظ و نصیحت کے فعل کا آغاز کیا۔

واقعہ کربلا:☜

واقعہ کربلا ١٠ محرم الحرام      ٦١ ہجری کو پیش آیا۔سیدہ زینبؓ کے بھائی سیدنا حسینؓ کے علاوہ انکے بھتیجے اور بیٹے اور بہت سے دوسرے ساتھی شہید ہو گیۓ۔ ٩اور ١٠محرم الحرام کی رات سیدنا امام حسینؓ نے چند عبرت انگیز اشعار پڑھے تو سیدہ زینبؓ پر رقت طاری ہو گئی اور فرمایا۔” اے کاش آج کا دن دیکھنے کے لیے میں زندہ نہ ہوتی۔ہائے میرے ناناﷺ میری ماںؓ میرے باپؓ اور میرے بھائی حسنؓ سب مجھے چھوڑ کر چلے گیۓ۔اے بھائی اللہ کے بعد آپ ہی ہمارا سہارا ہیں۔ہم آپکے بغیر کیسے زندہ رہینگے۔

سیدنا حضرت حسینؓ نے اپنی بہن کی دلدوز باتیں سن کر سیدہ زینب بنت علیؓ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا۔” اے بہن صبر کرو۔ خدا سے تسکین حاصل کرو ۔سوائے خدا کی ذات کے ساری کائنات فانی ہے۔ہمارے لئے ہمارے نانا خیر الخلائق کی ذات اقدس بہترین نمونہ ہیں۔تم انہیں ﷺ کے اسوۀ حسنہ کی پیروی کرنا۔ “اے بہن تمہیں خدا کی قسم ہے کہ اگر میں خدا کی راہ میں راہِ حق میں کام آ جاؤں تو میرے ماتم میں گریباں نہ پھاڑنا۔چہرے کو نہ نوچنا اور بین نہ کرنا۔”

سیدہ کی وفات:☜

سیدہ نے ١٥ رجب   ٢٦؁ کو مدینہ منورہ میں وفات پائی۔اور جنت البقیع میں دفن ہویئں۔ ایک روایت کے مطابق واقعہ کربلا کے بعد اپنے شوہر عبد اللہ بن جعفرؓ کے ساتھ ملک شام چلی گیئں اور وہیں انتقال فرمایا۔