حضرت ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ

0

تعارف:☜

٦؁ ہجری میں جب نبی کریمﷺ نے دین اسلام کا دائرہ وسیع کرنے کا عزم کیا تو عرب و عجم کے بادشاہوں کی جانب آٹھ خطوط لکھے۔اور انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔جن سربراہوں کو خطوط لکھے ان میں ثمامہ بن اثالؓ کا نام بھی آتا ہے۔

بلاشبہ ثمامہ بن اثالؓ کا شمار بھی عرب کے بارعب بادشاہوں میں ہوتا ہے۔ اور یہ قبیلہ بنو خیفہ کے قابل رشک سردار تھے۔اور یمامہ کے ایسے ہر دلعزیز  و بارعب سردار تھے۔کہ جسکی کبھی بھی حکم عدولی نہ ہوتی ہو۔

زمانہ جاہلیت میں جب اثامہ بن اثالؓ کو  نبی کریمﷺ کا خط ملا تو اس نے بہت حقارت سے دیکھا۔اور حق بات سننے کے لیے اسکے کان بہرے ہو گئے۔ پھر اس پر یہ جنون طاری ہوا کہ نبی کریمﷺ کو قتل کر دے۔اور آپﷺ کے مشن کو ناکام کر دے ۔ لیکن وہ اس منصوبہ کو انجام دینے کے لیے صحیح موقعہ کی تلاش میں تھا۔

ایک مرتبہ اسے موقعہ ملا کہ وہ نبی کریمﷺ پر پیچھے سے وار کرنے والا ہی تھا۔ لیکن اسکے چچا نے اسکا ہاتھ روک دیا۔اس طرح آپﷺ اللہ رب العزت کے فضل و کرم سے دشمن کے وار سے محفوظ رہیں۔ثمامہ نے نبی کریمﷺ سے تو اپنا ہاتھ روک لیا۔ لیکن آپﷺ کے اصحاب کو نقصان پہچانے کے لیۓ موقعہ کی تلاش میں تھا۔

ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ کہ بہت سے صحابہ اکرام کا محاصرہ کیا اور بے دریغ قتل کر دیا۔یہ وہانک خبر سن کر نبی کریمﷺ نے عام اعلان کر دیا کہ ثماثہ جہاں کہیں بھی ملے اسے فورًا قتل کر دیا جاۓ۔

اس دلخراش واقعہ کو ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ ثمامہ بن اثال کے دل میں آیا کہ بیت اللہ کی زیارت کی جاۓ۔اس لیۓ وہ یمامہ سے سوء مکہ معظمہ روانہ ہوۓ۔اسکی دلی تمنا تھی کہ بیت اللہ کا طواف کرے اور بیت اللہ میں رکھے بتوں کے نام پر جانور ذبح کرے۔

ثمامہ ابھی مدینہ منورہ کے راستہ ہی میں تھے۔ کہ انکے ساتھ ایک عجیب و غریب حادثہ پیش آیا۔جو انکے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔یہ کہ نبی کریمﷺ کی ترتیب دیا ہوا مجاہدین اسلام کا دستہ مدینہ منورہ کی نگرانی پر معمور تھا۔مبادۀ کہ کوئی مدینہ منورہ پر رات کے وقت حملہ نہ کر دے۔مجاہدین کا یہ دستہ گشت کر رہاتھا ۔

انہوں نے ثمامہ بن اثال کو گرفتار کر لیا۔لیکن انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ یہ کون ہیں۔اور مسجد نبوی کی دیوار سے باندھ دیا ۔ اور مجاہدین نے یہ سوچا کہ نبی کریمﷺ قیدی کے متعلق جو فیصلہ فرمائینگے اس پر عمل کیا جائیگا۔

نبی کریمﷺ مسجد نبوی میں تشریف لائے اور دیکھا کہ ثمامہ بن اثال مسجد نبوی کے ستون سے بندھا ہوا ہے۔اسے اس حالت میں دیکھ کر نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کیا گمان کرتے ہو کہ تم نے کسے گرفتار کیا ہے۔

سب بیک وقت کہا کہ ” یارسول اللہ ! ہمیں تو علم نہیں۔ آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یہ تو ثمامہ بن اثال ہیں۔اب انکے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا۔ گھر میں جو کھانا ہو وہ ثمامہ بن اثال کے لیے بھیج دیا جاے۔پھر آپﷺ نے حکم دیا کہ میری اونٹنی کا دودھ صبح شام اسے پلایا جاۓ۔
آپﷺ کے حکم کی فورًا تعمیل کی گئی ۔پھر نبی کریمﷺ  ثمامہ بن اثال کی جانب متوجہ ہوۓ۔تاکہ اسے اسلام کی دعوت دے سکیں۔

آپﷺ نے بڑے ہی مشفقانہ انداز میں دریافت کیا۔ ثمامہ کیا راۓ ہے؟ انہوں نے جواب دیا بہتر ہے۔ اگر آپ ﷺ مجھےقتل کرینگےتو یقینًا آپﷺ ایک ایسے شخص کو قتل کرینگے جس نے آپﷺ کے اصحاب کو قتل کیا ہے۔اگر معاف کر دے تو ایک قدردان پر مہربانی ہوگی۔اور اگر مال چاہے تو اس قدر آپﷺ فرماۓ تو حاضر خدمت  پیش کردیا
جائیگا۔

رسول اللہﷺ تشریف لے گیۓ اور انہیں دو دن تک ایسی حالت میں رہنے دیا۔لیکن کھانا پینا اور دودھ باقاعدگی سے فراہم ہوتا رہا۔ پھر آپﷺ نے دریافت کیا کہ ثمامہ کیا راۓ ہے؟ انہوں نے کہا بات تو وہی ہے جو پہلے عرض کر چکا ہوں۔اگر آپﷺ معاف کر دیں تو ایک قدردان پر مہربانی فرمائینگے ۔ اور اگر قتل کر دے تو ایک ایسے شخص کو قتل کرینگے جس نے آپﷺ کے ساتھیوں کا خون بہایا ہے۔اور اگر مال چاہے تو آپﷺ کی منشاء کے مطابق مال آپﷺ کی خدمت میں پیش کر دیا جائیگا۔

رسول اللہ ﷺ نے اب بھی اسی حالت میں رہنے دیا اور آپﷺ تیسرے دن تشریف لاۓ۔اوردریافت کیا کہ ثمامہ اب تمہاری کیا راۓ ہے؟؟؟

انہوں نے کہا کہ میری راۓ تو وہی ہے جو میں پہلے عرض کر چکا ہوں۔کہ اگر آپ معاف کر دے تو ایک مہربان پر احسان کرینگے اور اگر قتل کر دے تو یقینًا ایک ایسے شخص کو قتل کرینگے جس کے گردن پر خون ہے۔اور اگر مال چاہے تو آپﷺ کی منشاء کے مطابق حاضر خدمت کر دیا جائیگا۔

آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ انکو آزاد کر دیا جائے۔
جب ثمامہ آزاد ہونے کے بعد مسجد نبوی کی جانب چل دیئے تو مدینہ منورہ کی جانب بقیع کے نزدیک ایک نخلستان تھا۔وہاں ایک مقام پر پانی بھی جمع تھا۔اپنی اوٹنی کو وہاں بیٹھا کر خوب اچھی طرح غسل کیا۔
اور واپس مسجد نبوی آ کر سب لوگوں کے سامنے بآوازِ بلند کہا۔۔۔۔”اشھد لا الہ الا اللہ واشھد ان محمدا عبدہ و رسوله” ۔۔۔۔ میں گواہی دیتا اللہ کے سواء کویئ معبود حقیقی نہی اور محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں”۔بعد ازاں محبت بھرے الفاظ میں یوں گویا ہوۓ۔

کہ “میرے پیارے محمدﷺ اللہ کی قسم!   اسلام قبول کرنے سے پہلے روۓ زمین پر مجھے آپﷺ کے چہرے سے برا کوئی چہرا نہ لگتا تھا۔لیکن آج میرے لیے تمام چہروں سے زیادہ محبوب آپﷺ کا چہرا ہے”۔
“اللہ کی قسم  آپﷺ کا یہ شہر تمام شہروں سے برا معلوم ہوتا تھا۔ لیکن اب یہ مجھے تمام شہروں سے زیادہ محبوب دکھائی دیتا ہے۔”

پھر اسکے بعد درد بھرے لہجے میں عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ مجھے بے انتہاء افسوس ہے کہ میں نے آپﷺ کے صحابہ کا بے دریغ خون بہایا ہے۔بھلا میرے اس جرم کا مداوا کیسے ہوگا۔

یہ سن کر نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ثمامہ آپ گھبراۓ نہی اسلام پہلے سب گناہوں کو معاف کر دہتا ہے۔اور آپﷺ انہیں خیر و برکت کی بشارت دی۔ اللہ رب العزت نے اسلام قبول کرنے کی بدولت انکے نصیب میں لکھ دی تھی۔

یہ سن کر حضرت ثمامہ بن اثالؓ کا چہرہ خوشی سے تمطمع اٹھا۔ اور وہ کہنے لگے کہ” اللہ کی قسم! میں نے اپنے زمانہ جاہلیت میں جس قدر مسلمانوں کو قتل کیا ہے۔اس سے دو گنا زیادہ مشرکین تہہ و تیغ کرونگا۔اب میری جان اور میری تلوار جو کچھ بھی میرے پاس ہیں۔سب کچھ آپﷺ کی اور آپﷺ کے دین کی خدمت میں وقف ہیں”

پھر عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ اگر اجازت ہو تو میں عمرہ ادا کر لوں؟نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا عمرہ ضرور ادا کرے لیکن اسلامی تعلیمات کی روشنی میں!اور آپﷺ نے انہیں عمرہ ادا کرنے کا طریقہ بھی سکھایا۔

اجازت ملنے کے بعد حضر ت ثمامہؓ عمرہ کے لیے روانہ ہوۓ اور مکہ معظمہ پہنچ کر باآواز بلند یہ کلمات کہنے شروع کر دیے۔
“لبیک اللھم لبیک لبیک لا شریک لک لبیک ان الحمد ونعمة لک والملک لا شریک لک” حاضر ہوں الہی میں حاضر ہوں۔حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہی میں حاضر ہوں بیشک تمام تعریفیں اور نعمتیں تیرے ہی لیے ہیں۔اور حکومت بھی تیری تیرا کوئی شریک نہی”حضرت ثمامہؓ وہ پہلے شخص ہیں جو مکہ معظمہ بآواز بلند تکبیر کہتے ہوۓ داخل ہوئے۔

قریش نے جب یہ کلمات سنے تو انکے غصہ کی انتہاء نہ رہی۔سب لوگ تلواروں کو لیکر اپنے گھروں سے باہر نکل آۓ۔تاکہ اس شضص کو گرفتار کر لیں۔جس مکہ میں آکر انکے عقائد کے خلاف ببانک دہل کلمات کہنے کی جرٵت کی۔جب قوم ثمامہ بن اثالؓ کے پاس پہنچی تو آپ نے پھر ایک مرتبہ اونچی آواز سے تلبیہ کہا۔

کفار قریش اسلحہ تان کر کھڑے ہوگیے اور قریش میں سے ایک نوجوان نیزہ لیکر آگے بڑھا۔تاکہ آپ پر حملہ آور ہو لیکن دوسروں نے اسے روک لیا۔ اور کہا۔
“ارے تم جانتے نہی کہ یہ کون ہیں؟؟؟
یہ یمامہ کا بادشاہ ثمامہ بن اثال ہیں۔اگر تم نے اسے کوئی تکلیف پہنچائی تواس کی قوم ہماری اقتصادی مدد بند کر دیگی اور ہم بھوکے مر جائینگے۔

قوم نے یہ سن کر اپنی تلوارے نیام میں ڈال دی اور حضرت ثمامہ بن اثالؓ سے محو گفتگو ہوئے۔ اور کہنے لگے کہ ثمامہ تمہیں کیا ہوا ہے؟ کیا تم بے دین ہو گئے ہو؟ تم اپنے آباءواجداد کے دین کو چھوڑ دیا ہے؟آپ نے فرمایا کہ میں بے دین نہی ہوا بلکہ میں نے تو عمدہ دین اختیار کیا ہے۔ اور رب کعبہ کی قسم!
سر زمین نجد سے اب تمہارے لیے گندم کا ایک دانہ بھی نہی آیئگا جب تک کہ تم میرے محبوب محمدﷺ کی اطاعت  اختیار نہ کر لو۔

ثمامہ بن اثالؓ نے قریش کے سامنے بالکل ایسے ہی عمرہ ادا کیا جیسے کہ انہیں نبی کریمﷺ نے تعلیم دی تھی۔عمرہ ادا کرنے کے بعد انہوں نے ایک جانور ذبح کیا اور اپنے ملک کی جانب روانہ ہو گئے۔وہاں پہنچ کر آپ نے سب سے پہلے یہی حکم صادر فرمایا کہ قریش کی اقتصادی امداد روک دی جائے۔

اور آپ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوۓ قوم نے اہل مکہ کی اقتصادی امداد روک دی۔حضرت ثمامہ بن اثالؓ کے اس حکم کی تعمیل کے بعد اہل مکہ کا عرصہ حیات تنگ ہو گیا۔مہنگائی بڑھ گئی۔ بھوک عام ہو گئ۔ مصائب اور مشکلات میں دن بدن اضافہ ہو گیا۔یہاں تکہ انہیں اس بات کا اندیشہ ہو گیا کہ وہ اور انکے بال بچے بھوک کی وجہ ہلاک ہو جائینگے۔

اس نازک ترین موقعہ پر انہوں نے نبی کریمﷺ کی جا نب ایک خط تحریر کرکے بھیجا۔
جسمیں یہ لکھا تھا کہ:
ہمارا تو یہ خیال تھا کہ آپﷺ رحم فرمائینگے ۔اور دوسروں کو بھی رحم ہی کی تلقین کرینگے۔لیکن آپﷺ نے تو قطع رحمی کی ایک مثال ہی قائم کر دی۔ہمارے آباؤاجداد تہہ تیغ کیا۔ اور ہماری اولادوں کو بھوک سے مار دیا۔ آپﷺ کی اطلاع کے لیے عرض ہی کہ ثمامہ بن اثالؓ نے ہماری اقتصادی امداد بند کر دی ہے۔ از راہِ کرم اسے حکم دیجیئے کہ وہ ہماری اقتصادی امداد بحال کر دے۔اور اشیاء خورونی ہمیں بھجنا شروع کرے۔

پھر نبی کریمﷺ نے ثمامہ بن اثالؓ کو خط لکھا کہ وہ انکی قریش کی اقتصادی امداد بحال کر دیں۔تو انہوں نے آپﷺ کے حکم کی تعمیل کی اور انکی اقتصادی امداد بحال کر دی۔حضرت ثمامہ بن اثالؓ زندگی بھر اپنے دین کے وفادار اور نبی کریمﷺ سے کیے گئے عہد و پیمان پر قائم رہیں۔

جب نبی کریمﷺ اس سے رخصت ہوۓ اور عام لوگ دینِ الہی سے انفرادی اوراجتماعی طور پر انحراف کرنے لگے۔ادھر مسلمہ کذاب نے نبوت کا دعوٰی کر دیا۔اور اپنی قوم بنو خیفہ کو اپنے اوپر ایمان لانے کی دعوت دینے لگا۔تو حضرت ثمامہ بن اثالؓ مسلمہ کذاب کے مقابلہ میں اترے اور اپنی قوم سے کہا:

اے بنو خیف! اس اندھیر نگری سے بچ جاؤ جس میں کوئی نور کی کرن نہی ہے۔بخدا جس نے مسلمہ کذاب کی دعوت تسلیم کی یہ اسکی انتہائی بد بختی ہوگی۔اور جس نے اسکی دعوت کو تسلیم نہ کیا وہ یقینًا سعادت مند ہے۔اور فرمایا   :

اے بنوخیف! تم باز آجاؤ اور مسلمہ کذاب کے داؤ سے بچ جاؤ۔اور تم اس بات کو اچھی طرح سمجھ لو! کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔اور آپﷺ کے بعد قیامت تک کوئی نبی نہی آیئگا اور نہ ہی نبوت کا شریک ہے۔پھر انکے سامنے قرآن کریم درج ذیل آیت تلاوت فرمائی۔
(   حم تنزیل الکتاب الخ فی السورة مؤمن 2۔3)

اور ان سے یہ فرمایا کہ بھلا یہ تو بتاؤ اللہ رب العزت کے اس پاکیزہ کلام کے مقابلہ میں مسلمہ کذاب کی اس فضول عبارت کی کیا حیثیت ہے؟اسکے بعد ثمامہ بن اثالؓ نے اپنی قوم کے ان لوگوں کو جمع کیا جو اسلام پر مضبوطی کے ساتھ قائم تھے۔

اور مرتدین کے خلاف جدو جہد اور رؤۓ زمین پر اعلی کلمات اللہ کے لیۓ میدان میں اتر آۓ۔اللہ سبحانه ثمامہ بن اثالؓ کو اسلام اور مسلمانوں کی جانب سے جزاۓ خیر عطاء فرماۓ۔اور انہیں جنت الفردوس میں وہ اعزاز و اکرام عطاء فرماۓ ۔ جنکا  وعدہ اھل تقویٰ سے کیا گیا ہے۔

بحوالا حیات الصحابہ

بقلم   حسنی تبسم