حضرت عمر فاروقؓ کے حالات و واقعات

0

نام و نسب اور خاندان :☜

عمر نام ابو حفص کنیت فاروق لقب والد کا نام خطاب نسب نوی پشت پر جا کر نبی کریم ﷺ سے مل جاتا ہے۔نبی کریمﷺ کی نوی پشت میں ایک نام کعب کے دو فرزند تھے مرہ اور عدی مرہ کی اولاد میں آپﷺ اور عدی کی اولاد میں فاروق اعظمؓ ہے۔ آپکا مکمل نسب یہ ہے؛ عمر بن خطاب بن نفیل بن عبد الفری بن رباح بن عبد اللہ بن قرط بن زراح بن عدی بن کعب بن لوی بن فہر بن مسالک۔

آپکا خاندان ایام جاہلیت سے نہایت ہی ممتاز تھا۔آپکے جد اعلی عدی عرب کے باہمی منازعات میں ثالث مقرر ہوا کرتے تھے۔اور قریش کو کسی قبیلہ کے کوئی ملکی معاملہ پیش آیا کرتا تو سفیر بن کر جایا کرتے تھے اور یہ دونوں منسب عدی کے خاندان میں نسلًا بعد نسلًا چلے آ رہے تھے۔

دادھیال کی طرح عمر نانہال کی جانب سے بھی نہایت معزز خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔آپکی والدہ ختمہ ہاشم بن مغیرہ کی بیٹی تھیں۔اور مغیرہ اس درجہ کے آدمی تھے کہ جب قریش کسی قبیلہ سے نبردآزمائی کے لئے جاتے تو فوج کا اہتمام انہی کے متعلق ہوتا تھا۔

ولادت سراپا بشارت آپکی واقعہ فیل کے تیرہ برس بعد ہوئی۔آپکی عمر بھی 63 برس ہوئی۔نبوت کے 6 سال 27 برس کی عمر اسلام لاۓ۔ان سے پہلے چالیس مرد اور گیارہ عورتیں مشرف باسلام ہو چکی تھی۔

حلیہ مبارک:☜

آپکا رنگ مبارک سفید سرخی مائل تھا۔ مگر قحط سالی اور ناموافق غذا کے استعمال سے رنگ میں سیاہی آگئی تھی۔رخساروں پر گوشت بہت کم تھا۔ اور قد مبارک دراز تھا۔جب لوگوں کے درمجان کھڑے ہوتے تو سب سے دراز قامت نظر آتے کہ گویا سواری پر بیٹھے ہوئےئے ہوںں۔
آپ بہت بہادر اور طاقتور تھے۔اسلام سے پہلے جیسی شدت کفر میں تھی اسلام کے بعد ویسی ہی شدت اسلام میں ہوئی۔آپ کے مسلمان ہو جانے کے بعد دین اسلام کو بہت زیادہ قوت حاصل ہوئی۔آپ رسول اللہ ﷺ کے زمانہ منصبِ وزارت پر رہے۔حضرت ابو بکر صدیقؓ نے وزارت کے ساتھ ساتھ مدینہ کا قاضی بھی بنا دیا اور صدیق اکبر کے بعد خلیفہ ہوئے۔اپنی خلافت میں جس قدر خدمت و اشاعت دین اسلام کی اور جیسی عظیم الشان فتوحات حاصل کیں انکی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔

دس سال چھ مہینہ دس دن تخت خلافت کو زینت بخشی۔ فجر کی نماز میں ابو لولو مجوسی غلام کے ہاتھ سے شہید ہوئے اور یکم محرم 24 ھجری کو اس دار فانی سے رحلت فرمائی۔ روضہ نبوی میں حضرت صدیق اکبر کے پہلو میں مدفن پایا۔ مسلمانو ں کا اقبال بھی انکے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔

آپ کے مسلمان ہونے کا مختصر واقعہ:☜

آپکا اسلام بھی نبی کریمﷺ کا ایک معجزہ تھا۔کافی دن سے نبی کریمﷺ دعائیں کر رہے تھے۔اللہ عمر بن خطاب سے دینِ اسلام کو عزت دے۔ آپﷺ کی دعائیں مقبول ہوئی اور مشیت الٰہی نے انکو کوکشاں کشاں دربار نبوی میں پہنچا دیا۔

واقعہ یہ ہے کہ ایک دن یہ ابو جہل کی تحریض و ترغیب سے نبی کریمﷺ کو شہید کرنے کے ارادہ سے چلے۔راستہ میں ایک صحابی ملے انکے تیور دیکھ کر دریافت کیا کہ اے عمر آپ کہاں جا رہے ہیں؟؟؟حضرت عمرؓ نے صاف کہہ دیا کہ تمہارے پیغمبر کو قتل کرنے۔۔۔ان صحابی نے کہا اچھاااا  ۔۔۔۔ پہلے اپنے گھر کی تو خبر لیجیے۔ آپکی بہن فاطمہ اور آپکے بہنوئی سعید ابن زید مسلمان ہو گئے ہیں۔

جب یہ خبر ملی تو اپنی بہن کے گھر گئے اور بہنوئی کو بہت مارا کہ انکے سر سے خون بہنے لگا اور انکو زمین پر گرانا چاہا کہ گلا دبا دیں۔ یہ دیکھ کر انکی بہن سامنے آ گئی اور کہنے لگی کہ “اے بھائی ہم تو مسلمان ہو گئے اور اب جو تمہارا دل چاہے کرو”۔ یہ سن کر انکے دل پر ایک خاص اثر ہوا اور بہنوئی کو چھوڑ دیا اور بہن سے دریافت کیا کہ تم کیوں مسلمان ہو گیئں۔انہوں نے ساری کیفیت بیان کر دی اور قرآن مجید کا ذکر کیا۔

حضرت فاروق اعظم نے قرآن مجید سننے کی خواہش کی۔انکی بہن ایک ورق لیکر آیئں جس میں قرآن مجید کی آیتیں لکھی ہوئی تھیں۔حضرت فاروق اعظم نے  چاہا کہ خود ہاتھ میں لیکر پڑھیں۔لیکن انکی بہن نے فورًا کہا کہ “اے بھائی اس کتاب کو ناپاک لوگ نہیں چھو سکتے”۔ اسکے بعد انکی بہن نے آپ کو قرآن مجید پڑھ کر سنایا۔ “سورۀ طہٓ کی ابتدائی آیتیں تھی۔ ” ان آیتوں کا سننا تھا کہ ایک انقلاب عظیم آپکی طبیعت میں پیدا ہو گیا اور جس سر میں کفر کا سودا تھا اب اس میں اسلام کا سودا سمایا اور اسی وقت نبی کریمﷺ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہو کر مشرف باسلام ہوئے۔

حالات بعد اسلام قبل ہجرت:☜

اس نازک اور پر خطر دور میں مسلمان ہوتے ہی اپنے اسلام کا اعلان کیا۔اور کفار نے آپکو گھیر لیا۔باوجود تنہاء ہونے کے انہوں نے کفار سے مقابلہ کیا قریب تھا کہ کفار آپکو شہید کر دیں کہ عاص بن وائل نے آکر آپ کو چھڑایا۔

انکے مسلمان ہوتے ہی نبی کریمﷺ نے اعلان کے ساتھ کعبہ مشرفہ میں نماز پڑھی اور روز بروز اسلام کی قوت وشوکت بڑھتی گئی۔حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ نے فرمایا کہ حضرت عمر کا مسلمان ہونا فتح اسلام تھا۔ اور انکی ہجرت نصرت الہی تھی۔انکی خلافت اللہ کی رحمت تھی۔ نبی کریمﷺ کے بعد ہجرت کرکے مدینہ طیبہ گئے اور بڑی شان سے ہجرت کی۔جب مکہ سے چلنے لگے تو کعبہ مشرفہ کا طواف کیا اور مجمع کفار کو مخاطب کرکے فرمایا۔” کہ میں اس وقت ہجرت کر رہا ہوں یہ نہ کہنا کہ عمر چھپ کر بھاگ گیا۔جسکو اپنی بیوی کو بیوہ کرنا اور بچوں کو یتیم کرنا منظور ہو اس وادی سے نکل کر مجھے روک لے۔مگر کسی کی ہمت نہ ہوئی کہ کچھ جواب دیتا۔

حالات بعد ہجرت:☜

ہجرت کے بعد سب سے بڑی خدمت مغازی کی تھی۔تو اسمیں حضرت فاروق اعظم سے کون سبقت لے جا سکتا تھا۔آپ نبی کریم ﷺ کے ساتھ تمام غزوات میں شریک رہے اور ہر غزوہ میں پسندیدہ خدمات انجام دی۔مثال کے طور پر ملاحظہ ہو۔۔۔۔

غزوۂ بدر:☜

سب سے بڑا کام اس غزوۀ میں یہ کیا کہ اپنے حقیقی ماموں عاص بن ہشام کو میدان جنگ میں آپ نے اپنے ہاتھوں سے قتل کیا۔نبی کریمﷺ کے چچا حضرت عباسؓ جو کافروں کے ساتھ میدان جنگ میں آۓ تھے اور قیدیان بدر میں وہ بھی تھے۔لوگوں نے ان کے قتل کا ارادہ کیا مگر نبی کریمﷺ  کے مزاج مبارک کے خلاف دیکھ کر حضرت عمر فاروقؓ نے پرزور حمایت کی۔

حضرت عباسؓ کے سوا انہوں نے سب قیدیان بدر کے سلسلہ میں قتل کا مشورہ دیا اور فرمایا کہ ہر مسلمان اپنے عزیز کو اپنے ہاتھ سے قتل کریگا۔اگر چہ عمل انکی رائے پر نہ ہوا۔ مگر خدا کو انکا مشورہ اتنا پسند آیا کہ انکی تایئد میں آیت قرانی نازل کر دی۔

غزوۂ احد:☜

غزوۀ احد میں باوجود انتشار کے جو نبی کریمﷺ کی شہادت کی شہرت سے اور اسلامی فوج کے درمیان میں کافروں کے لشکر کے داخل ہو جانے سے پیدا ہو گیا تھا۔حضرت فاروقؓ میدان جنگ سے نہی ہٹے۔جب نبی کریمﷺ کوہ احد پر تشریف لے گئے تو آپ بھی نبی کریمﷺ کی جانثاری کے لئے ہمراہ تھے۔اور ابو سفیان کی باتوں کا دندان شکن جواب انہی نے دیا تھا۔

غزوۂ خندق:☜

اس غزوۀ میں ایک جانب سے حفاظت آپ کے سپرد  تھی۔اس مقام پر ایک مسجد بطور یادگار انکے نام کی بعد میں بنائی گئی۔

غزوۂ بنی مصطلق:☜

اس غزوۀ میں مقدمہ جیش انہی کے ماتحت میں تھا اور آپ ہی نے کفار کے ایک جاسوس کو گرفتار کرکے دشمن کے تمام تر خفیہ حالات دریافت کر لیے تھے۔پھر اس جاسوس کو قتل کر دیا تھا۔کافروں پر اس واقعہ کا بڑا رعب طاری ہو گیا تھا۔اس غزوۀ میں یہ خدمت بھی اپ ہی کے سپرد تھی کہ عین ہنگامہ جنگ میں اعلان کر دیں کہ جو شخص کلمہ اسلام پڑھ لے گا اسکو امان دی گئی۔

غزوۂ حدیبیہ:☜

اس غزوۀ میں غیرت ایمانی اور حمیت دینی کا ایک ایسا غلبہ طاری تھا کہ مغلوبانہ صلح پر کسی طرح راضی نہ ہوتے تھے۔اور اسی جوش میں نبی کریمﷺ سے جاکر کہا کہ آپ خدا کے سچے نبی ہیں؟ کیا ہم حق اور ہمارا دشمن باطل پر نہیں ہے؟ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا سب صحیح ہے۔تو کہنے لگے کہ پھر ہم کیوں دب کر صلح کریں۔اپنی اس گفتگو میں بعد میں بہت نادم ہوئے اور فرمانے لگے کہ میں نے بہت روزے رکھے، نمازیں پڑھی، خیرات کیں، غلام آزاد کیے تاکہ اس گستاخی کا کفارہ ہو جائے، تاکہ مجھے یقین ہو گیا کہ میں نے اچھی بات کی تھی۔گستاخی نہ تھی۔

حدیبیہ سے لوٹتے وقت جب سورۀ “انا فتحنا” نازل ہوئی جو صحابہ اکرام کے قلوب کے لئے جو اس مغلوبانہ صلح سے زخمی ہوۓ تھے، بہترین مرحم تھی۔پھر نبی کریم ﷺ نے انہی کو سنائی۔کیونکہ اسمیں فضیلت اور خوشخبری انہی کے لیے ہے۔

غزوۂ خیبر:☜

اس غزوۀ میں میمنہ لشکر کے افسر یہی تھے۔اس لڑائی میں ہر شب کو ایک صحابیؓ پہرا دیتے تھے۔جس شب میں آپکی باری تھی آپ نے ایک یہودی کو گرفتار کیا اور نبی کریمﷺ کے پاس لے گئے۔ اس سے تمام حالات خیبر معلوم ہو گئے اور یہی چیز فتح خیبر کا بہترین ذریعہ بنی۔ خیبر میں ایک روز جب بھی قلعہ خیبر فتح کرنے کے لئے بھیجا گیا۔اگرچہ اس روز قلعہ فتح نہیں ہوا مگر اسمیں کیا شک ہے کہ یہودیوں کا زور بہت ٹوٹ گیا۔

غزوۂ حنین:☜

اس غزوہ میں جماعت مہاجرین کا جھنڈا انہی کے سپرد تھا۔جس سے اس امر کا اظہار ہوا کہ جماعت مہاجرین کی سرداری اپ کو عطاء کی گئی۔اسی طرح تمام تر غزوات میں کارہاۓ پسندیدہ انجام دیتے رہے۔7 ہجری میں نبی کریمﷺ نے تیس سواروں کے دستہ کا افسر بنا کر ہوازن کی طرف بھیجا۔

فاروق اعظم کی خلافت:☜

آپکی خلافت  خدا کی قدرت کاملہ کا اور رحمت واسعہ کا ایک عجیب نمونہ تھی۔ جو کمالات رسولﷺ  کی تعلیم و تربیت نے انکی ذاتِ والا میں پیدا کر دیے تھے۔ انکے ظہور کا پورا موقع زمانہ خلافت ہی میں حاصل ہوا تھا۔ جو جو وعدے حق تعالٰی نے اپنے محبوب ﷺ سے کیے تھے۔جو جو پیشن گوئیاں قرآن مجید اور احادیث نبوی میں متمکن دین اور ظہور ہدایت اور فتوحات  مذکور ہیں، وہ باحسن وجوہ آپکی خلافت میں مکمل ہوئی۔ اگر آپکی خلافت کے کارنامے اور آپکے ظاہری باطنی کمالات باجمال بھی بیان کیے جائیں تو ایک دفتر چاہیئے۔۔۔۔

اخلاق و عادات:☜

13 ھ میں حضرت ابو بکر صدیقؓ کے بعد مسند آراۓ خلافت ہوئے اور تھوڑے ہی دنوں میں ایک چھوٹی سی اسلامی ریاست کو ملک عظیم جیسا بنا دیا۔جیسا کہ نبی کریمﷺ کو پہلے ہی بذریعہ وحی اطلاع دی گئی تھی۔آپ کے مزاج مبارک میں سختی زیادہ تھی، غصہ جلد آ جاتا تھا۔ بالکل حضرت موسٰی علیہ السلام کی سی کیفیت تھی۔مگر اسکے ساتھ دو صفتیں عجیب و غریب تھیں۔اول یہ کہ اپنی ذات کے لیے کبھی غصہ نہ آتا تھا۔دوم یہ کہ عین اشتسال کی حالت میں کوئی شخص آپ کے سامنے اللہ تعالٰی کا نام   لیتا یا قرآن مجید کی کوئی آیت پڑھ دیتا تو فورًا غصہ دفع ہو جاتا۔کہ گویا تھا ہی نہ ہو۔۔۔

جب آپ خلیفہ ہوے تو لوگ آپکی سخت گیری سے اس قدر خوف زدہ ہوۓ کہ گھروں سے باہر نکل کر بیٹھنا چھوڑ دیا۔یہ حالت دیکھ کر آپ نے خطبہ پڑھا اور اس میں ارشاد فرمایا کہ اے لوگوں میری سختی اس وقت تھی کہ جب تم نبیﷺ اور حضرت ابو بکرؓ کی نرمی سے فیضیاب تھے۔میری سختی انکی نرمی کے ساتھ مل کر اعتدال کی کیفیت پیدا کر دیتی تھی۔ مگر اب میں تمہارا والی ہوں۔ اب میں تم پر سختی نہ کرونگا۔اور اب میری سختی ظالموں اور بدکاروں پر ہوگی۔

اسی خطبہ میں فرمایا کہ اے لوگوں اگر میں سنت نبوی اور سیرت صدیقی کے خلاف کوئی حکم دوں تو کیا کروگے۔لوگ کچھ نہ بولے آپ نے پھر دوبارہ یہی سوال ارشاد فرمایا۔تو ایک نوجوان تلوار کھینچ کر کھڑا ہو گیا اور کہنے لگا کہ فعلنا ھکذا یعنی اسی طرح تلوار سے سر کاٹ دینگے۔اس پر آپ بہت خوش ہوۓ۔

تواضع کی صفت آپ میں اس قدر تھی کہ اسکا اندازہ کرنے سے انسانی عقل عاجز تھی۔عرب و عجم کا بادشاہ بلکہ بادشاہوں کا فرمانروا اور اسمیں اس قدر تواضع۔۔۔۔خلیفہ ہونے کے بعد منبر پر جب گئے تو اس زینہ پر بیٹھے جس پر حضرت ابو بکر صدیقؓ کے پاؤں رہتے تھے۔لوگوں نے کہا کہ اوپر بیٹھیے تو ارشاد فرمایا کہ میرے لیے یہی کافی ہے کہ مجھے اس مقام پر جگہ مل جائے جہاں ابو بکر صدیقؓ کے پاؤں رہتے ہوں۔

عدل و انصاف:☜

آپکا عدل ضرب المثل ہے۔خود اپنے فرزند ابو شمحہ پر حد جاری کی۔انہوں نے مصر میں شراب پی تھی۔حضرت عمر بن عاص نے انکو اپنے گھر کے اندر بلا کر پوشیدہ طور پر آہستہ آہستہ درے لگاۓ۔جب یہ خبر حضرت عمرؓ کو ملی تو انہوں نے لکھا کہ عمر بن عاص تمہاری جرأت پر ہمیں تعجب ہے۔تم نے میرے حکم کے خلاف کیا اب میں تمہیں معزول کرنے کے سوا کوئی رائے نہیں رکھتا۔تم نے ابو شمحہ کو یہ خیال کرکے کہ امیرالمؤمنین کا لڑکا ہے، گھر کے اندر ہلکی سزاء دی۔حالانکہ تم کو اس کے ساتھ وہی معاملہ کرنا چاہیئے تھا جو سب کے ساتھ کرتے ہو۔ اب اسکو میرے پاس بھیجو تاکہ اسکو اسکی بد اعمالی کی سزا ملے۔چناچہ جب وہ آۓ تو حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے سفارش کی کہ امیرالمؤمنین ایک بار سزا مل چکی ہے۔

آپ نے ایک نہ سنی ابو شمحہ رونے لگے اور عرض کیا کہ اے والد میں بیمار ہوں۔دوبارہ مجھے سزا دیجیگا تو میں مر جاؤنگا۔آپ نے کچھ توجہ نہ دی اور قاعدہ کے مطابق سزا دی۔اس سے ابو شمحہ کی بیماری بڑھ گئی اور ایک مہینہ بعد انکا انتقال ہو گیا۔

فاروق اعظم کے گشت کے چند واقعات:☜

اس دنیا میں کون بادشاہ ایسا ہوا جو خود چوکیداری کا کام انجام دے۔ حضرت فاروق اعظمؓ دن میں تنہاء مدینہ کی گلیوں میں پھرا کرتے تھے۔اور صرف ایک درہ ہاتھ میں ہوتا تھا۔اور راستہ چلتے چلتے کوئی مجرم قابل سزا مل جاتا تو وہیں اسی درے سے سزا دیتے تھے اور راتوں کو تنہا گشت کرتے تھے۔نہ صرف مدینہ بلکہ باہر ملکوں میں بھی سفر کیا کرتے تھے۔وہاں بھی لوگ کہا کرتے تھے کہ انکا درہ لوگوں کی تلوار سے زیادہ خوفناک ہے۔انکے گشت کے واقعات تو بہت ہیں مگر ہم ذیل میں چند واقعات درج کرتے ہیں؛

حضرت انس فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ عمر فاروقؓ  گشت کر رہے تھے۔ ایک اعرابی کی طرف سے آپکا گزر ہوا۔جو اپنے خیمہ کے سامنے بیٹھا ہوا تھا۔آپ اسکے پاس بیٹھ کر باتیں کرنے لگے اور اس سے پوچھنے لگے کہ تم اس طرف کیوں آۓ ہو۔یہی باتیں آپ اس سے کر رہے تھے لیکن یکا یک خیمہ سے رونے کی آواز آئی۔آپ نے دریافت کیا کہ یہ رونے کی آواز کیسی ہے اس نے کہا کہ  یہ بات تم سے تعلق نہیں رکھتی۔ ایک عورت  ہے جسکے درد زہ ہو رہا ہے۔یہ سن کر آپ اپنے گھر تشریف لاۓ اور فرمایا کہ اے ام کلثوم ذرا کپڑے تو تبدیل کرو اور میرے ساتھ چلو!!!

چناچہ آپ انکو لیکر اس اعرابی کے پاس پہنچے اور اس اعرابی سے فرمایا کہ کیا اس عورت کو اندر جانے کی اجازت دیتے ہو؟؟ اس اعرابی نے اجازت دی اور حضرت ام کلثومؓ اندر  تشریف لے گئیں۔ اور تھوڑی دیر بعد حضرت ام کلثومؓ نے پکار کر کہا کہ اے امیر المؤمنین اپنے دوست کو خوشخبری دے دو کہ لڑکا پیدا ہوا ہے۔

اس اعرابی نے جب امیرالمؤمنین کہتے ہوۓ سنا تو کانپ گیا اور جلدی سے مؤدب ہوکر بیٹھ گیا اور معزرت کرنے لگا آپ نے فرمایا کہ کوئی حرج کی بات نہیں صبح کو ہمارے پاس آنا اور آپنے اس بچہ کا وظیفہ مقرر کرکے اس کو کچھ دیا۔

ایک شب کو آپ گشت کرتے ہوۓ ایک گھر کے قریب پہنچے تو سنا  کہ ایک ضعیفہ اپنی لڑکی سے کہہ رہی تھی کہ دودھ میں پانی ملا دو۔ لڑکی نے کہا کہ امیرالمؤمنین کی طرف سے اعلان ہے کہ دودھ میں پانی ملا کر نہ بیچا جائے۔بڑھیا نے کہا کہ نہ اس وقت امیرالمؤمنین یہاں ہیں اور نہ منادی۔ لڑکی نے کہا کہ اللہ کی قسم یہ بات ہمارے لیے مناسب نہیں ہے کہ ظاہر میں تو امیرالمؤمنین کی اطاعت کریں اور باطن میں مخالفت!!!

یہ سن کر آپ بہت خوش ہوۓ اور اپنے غلام اسلم کو جو اس وقت آپکے ساتھ تھا کہا کہ اس مکان کی کوئی نشانی بنا دو۔اوردوسرے دن آپ نے وہاں ایک شخص کو بھیجا اور اسکو اپنے صاحبزادے عاصم کے لئے پیغام دیا۔اور فرمایا کہ اسمیں برکت ہوگی ۔۔۔ چناچہ عمر بن عبدالعزیز اسی لڑکی کے بطن سے تھے۔

حضرت فاروق اعظم کی شہادت:☜

حضرت فاروق اعظم کی شہادت اسلام کے ان مصائب میں سے ہے۔ جنکی تلافی نہ ہوئی اور نہ ہو سکتی ہے۔وہ ایسی ہستی ہیں کہ جس دن وہ مسلمان ہوۓ دینِ اسلام کی عزت و شوکت بڑھ گئی۔اور اپنے عہد خلافت میں تو وہ کام کیے جنکی نظیر چشم فلک نے نہیں دیکھی۔اور جس دن دنیا سے رخصت ہوۓ مسلمانوں کا اقبال بھی رخصت ہو گیا۔

آپکی شہادت کا مختصر حال یہ ہے کہ جب آپ اپنے آخری حج سے واپس ہوئے تو وادئ محصب میں اپنی چادر سر کے نیچے رکھے ہوۓ تھے۔چاند کی طرف جو نظر کی تو اسکی روشنی اور اسکی تنویر آپ کو اچھی معلوم ہوئی۔پھر فرمایا کہ دیکھو ابتدا میں یہ کمزور تھا پھر بڑھتے بڑھتے پورا ہو گیا۔اب یہ گھٹنا شروع ہوگا یہی حال دنیا میں تمام چیزوں کا ہے۔ پھر دعا مانگی کہ اے اللہ میری رعیت بہت بڑھ گئی ہے اور میں اب کمزور ہو چکا ہوں۔خداوند قبل اسکے کہ مجھ سے فرائض خلافت میں کچھ قصور ہو مجھے اس دنیا سے اٹھا لے۔ اسکے بعد مدینہ پہنچ کر آپ نے خواب دیکھا کہ ایک سرخ مرغ نے آپ کے شکم مبارک میں تین چونچیں ماری۔آپ نے یہ خواب لوگوں سے بیان کیا اور فرمایا کہ اب میری موت قریب ہے۔

اسکے بعد یہ ہوا کہ ایک روز معمول کےمطابق نماز کے لئے مسجد میں بہت جلدی تشریف لے گئے۔اس وقت ایک درہ آپ کے ہاتھ میں ہوتا تھا اور سونے والوں کو اس درہ سے جگاتے تھے۔اس کے بعد مسجد پہنچ کر نمازیوں کو صفیں درست کرنے کا حکم دیتے تھے۔ اور نماز شروع کرتے تھے۔اور نماز میں بڑی بڑی سورتیں پڑھتے تھے۔

اس روز بھی آپ نے ایسا ہی کیا تھا۔ نماز ویسے ہی شروع کی تھی۔صرف تکبیر تحریمہ کہہ پاۓ تھے۔تو ایک مجوسی کافر ابو لؤلؤ جو حضرت مغیرہ کا غلام تھا۔ایک زہر آلود خنجر لیے مسجد کی محراب میں چھپا بیٹھا تھا۔اس نے آپ کے شکم مبارک میں تین زخم کاری اس  خنجر کے لگائے۔ آپ بےبہوش ہوکر گر گئے۔حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے آگے بڑھ کر بجاۓ آپ کے امامت کی مختصر نماز پڑھ کر سلام پھیر دیا۔

ابو لولو نے چاہا کہ کسی طرح مسجد سے نکل کر بھاگ جائے۔مگر نمازیوں کی صفیں مثل دیوار حائل تھیں۔ان سے نکل جانا آسان نہیں تھا لہذا اس نے اور صحابیوں کو بھی زخمی کرنا شروع کر دیا۔تیرہ صحابی زخمی ہوئے۔ اتنے میں نماز مکمل ہو گئی۔جب اس نے دیکھا کہ وہ گرفتار ہوگیا تو اس نے اسی خنجر سے اپنے آپ کو ہلاک کر لیا۔

قابل غور بات:☜

اتنا عظیم واقعہ ہو گیا لیکن کسی مسلمان نے نماز نہیں توڑی بلکہ نماز کو پورے اطمنان کے ساتھ  مکمل اداء  کیا گیا۔ نماز کے  بعد حضرت فاروق اعظمؓ کو اٹھا کر لوگ انکے گھر پر لے گئے۔ تھوڑی دیر بعد آپکو ہوش آیا تو آپ نے نماز فجر اسی حالت میں اداء کی۔ سب سے پہلے آپ نے سوال کیا کہ میرا قاتل کون ہے؟؟ حضرت ابن عباسؓ نے کہا کہ ابو لؤلؤ مجوسی۔ یہ سن کر آپ نے تکبیر اتنی بلند آواز سے پڑھی کہ باہر تک آواز آئی اور فرمایا کہ اللہﷻ کا شکر ہے کہ ایک کافر کے ہاتھ سے مجھے شہادت ملی۔