حضرت عثمانِ غنیؓ کے حالات و واقعات

0

نام و نسب خاندان:☜

آپ  کا نام عثمان اور لقب ذوالنورین آپ کا نسب پانچویں پشت پر جا کر نبی کریمﷺ سے مل جاتا ہے۔یعنی عبد مناف کے دو فرزندوں میں سے ایک کی اولاد میں نبی کریمﷺ  ہیں اور ایک کی اولاد میں حضرت عثمان ذوالنورینؓ ہیں۔ آپکی والدہ اروٰی نبی کریمﷺ کی پھوپھی ، ام حکیم بنت عبد المطلب کی صاحبزادی تھیں۔یہ ام حکیم وہی ہیں جو نبی کریمﷺ  کے والد حضرت عبد اللہ کے ساتھ توام پیدا ہوئی تھیں۔غرض کہ ماں اور باپ دونوں کی جانب سے بہت قریب کی قرابت رسولﷺ کے ساتھ رکھتے تھے۔

ولادت شریفہ:☜

آپکی ولادت، واقعہ فیل کے چھ برس بعد ہوئی۔حضرت ابو بکر صدیقؓ کی رہنمائی سے مشرف باسلام ہوئے۔حضرت فاروق اعظمؓ سے بہت پہلے اور حضرت ابو عبیدہ بن جرحؓ اور حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ سے ایک دن پہلے دولت ایمان حاصل ہوئی۔

حلیہ مبارک:☜

آپ کا قد مبارک متوسط اور رنگ مبار سفید زردی مائل تھا۔چہرۀ انور پر چیچک کے چند نشانات تھے۔سینہ مبارک کشادہ تھا۔ ڈاڑھی مبارک گھنی، سر میں بال رکھتے تھے۔آخیر عمر میں زرد خصاب بالوں میں لگاتے تھے۔اور دانتوں کو سونے تار سے بندھوایا تھا۔

قبل از اسلام بھی قریش میں بہت عزت تھی۔ اور بڑے صاحب حیاء اور بڑے سخی تھے۔نبی کریمﷺ کے داماد تھے۔دو صاحبزادیاں یکے بعد دیگرے آپ کے نکاح میں آیئں۔پہلے حضرت رقیؓہ سے آپکا نکاح ہوا پھر انکی وفات کے بعد حضرت ام کلثومؓ آپکی زوجیت میں آیئں جنہوں نے ٩؁ ھجری میں وفات پائی۔

حضرت عمر فاروقؓ کے بعد خلافت کے لئے منتخب کیے گئے اور بارہ سال مسند خلافت کو رونق دینے کے بعد ١٨ ذی الحجہ ٢٥ ہجری کو بڑی مظلومیت کے ساتھ باغیوں کے ہاتھ سے شہید ہوئے اور مقام حش کوکب میں مدفن پایا۔

حالات قبل اسلام:☜

خاندانِ قریش کے باعزت لوگوں میں سے تھے۔اپنی ثروت اور سخاوت کی وجہ سے کافی شہرت حاصل تھی۔حیاء کی صفت میں آپ بے مثال تھے۔یہاں تک کہ گھر کے اندر نہانے کے لئے دروازہ بند کرکے کپڑے اتارتے تھے۔تو بھی کھڑے نہ ہوتے تھے۔قبل اسلام بھی بت پرستی نہیں کی اور شراب بھی نہیں پی۔اس صفت میں آپ اور حضرت صدیقؓ دونوں ہم ممتاز تھے۔

حالات بعد از اسلام:☜

جب حضرت ابو بکر صدیقؓ کی رہنمائی سے مشرف باسلام ہوئے اور انکے مسلمان ہونے کا علم کفار قریش کو ہوا تو بڑی ایذایئں دی گئیں۔ایک دن انکے چچا حکم بن عاص ان کو پکڑ کر رسی سے مضبوط باندھا اور کہا کہ تم نے اپنے باپ دادا کا دین ترک کرکے نیا دین اختیار کیا ہے۔اللہ کی قسم میں تم کو نہیں کھولونگا یہاں تک کہ تم اس نئے دین کو ترک کر دو۔حضرت عثمان نے عرض کیا کہ میں دینِ اسلام کو کبھی ترک نہیں کرونگا۔آخر ظالم اپنے ظلم سے عاجز آ گئے اور ان کو رہائی مل گئی۔

مسلمان ہوتے ہی نبی کریمﷺ نے اپنی صاحبزادی حضرت رقیہؓ کا نکاح ان سے کر دیا۔اور جب کفار نے مسلمانوں کو ایذا رسائی پر کمر باندھ لی تو مع حضرت رقیہ کے ہجرت کرکے ملک حبشہ چلے گئے۔نبی کریمﷺ نے حضرت ابو بکر صدیقؓ سے فرمایا کہ عثمان پہلے شخص ہیں جنہوں نے بعد حضرت ابراھیم اور لوط علیہ السلام کے مع اپنے اھلِ بیت کے ہجرت کی۔

جب نبی کریمﷺ ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے تو حضرت عثمانؓ فی الفور حبشہ سے واپس آئے اور غزوۂ بدر آپ ہی کی موجودگی میں پیش آیا۔حضرت جعفر طیار اور انکے ساتھیوں کی واپسی حنمبشہ سے دیر میں ہوئی یہ لوگ غزوۀ خیبر کے بعد واپس آئے۔

نبی کریمﷺ کی مالی خدمات بھی بہت کیں اور بڑی اچھی اچھی دعائیں نبی کریمﷺ سے حاصل کیں۔نبی کریمﷺ اور آپ ﷺ کے اصحاب کے لیے کھانے کا سامان حاضر کیا۔جو کئی اونٹوں پر لدا ہوا تھا۔اس وقت نبی کریمﷺ نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر فرمایا کہ یااللہ !!! میں عثمان سے راضی ہوں تو بھی راضی ہو جا۔اور صحابہ اکرام سے بھی فرمایا کہ حضرت عثمان کے لئے دعا کریں۔ چناچہ رسول خداءﷺ کے ساتھ سب نے مل کر دعا کی۔ اور جب غزوات کا سلسلہ شروس ہوا تو بدر سے لیکر تبوک تک تمام غزوات میں آپﷺ کے ساتھ شریک رہے۔

غزوۀ بدر میں شمولیت:☜

جب غزوۂ بدر پیش آیا تو حضرت رقیہ بیمار تھیں۔آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اے عثمان تم رقیہ کی تیمارداری کرو۔تم کو شریک بدر کا ثواب ملیگا۔چناچہ آپ اس غزوۂ میں نہ گئے اور تیمارداری میں مشغول رہے۔آپﷺ نے حضرت عثمانؓ کو بدریوں میں شمار فرمایا اور مال غنیمت میں بھی حصہ دیا۔

غزوۂ احد میں شمولیت:☜

غزوۂ احد میں جب نبی کریمﷺ کی شہادت کی خبر مشہور ہوئی تو صحابہ اکرام رضی اللہ عنھم اجمعین میں ایک عجیب سی نہایت بے چینی سی پھیل گئی تھی۔اور اس پریشانی اور بدحواسی میں صحابہ اکرامؓ میدان جنگ سے ہٹ گئے تھے۔بعض روایات میں ہٹ جانے والوں میں حضرت عثمانؓ کا نام بھی شمار کیا جاتا ہے۔اگر چہ ان ہٹ جانے والوں کی کوئی ملامت نہیں۔
اوّل:☜ یہ کہ نبی کریمﷺ کی شہادت کی خبر سے سر اسمیہ ہو کر ہٹے تھے۔
دوم:☜ اس لئے کہ ان ہٹ جانے والوں کے متعلق صاف طور پر قرآن کریم میں وارد ہوا ہے۔”ولقد عفا اللہ عنھم” ۔۔۔۔ معنی: تحقیق کہ اللہ رب العزت نے ان سب کو معاف کر دیا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ حضرت عثمانؓ جیسے جلیل الشان المناقب صحابی کے متعلق کسی قابل اعتراض کا ثبوت کسی معمولی روایت جو اخبار حدیث کی حیثیت رکھتی ہو ہر گز نہیں ہو سکتا۔لہذا حضرت عثمانؓ کا میدان احد سے ہٹ جانا قابل تسلیم نہیں۔

حدیبیہ میں شمولیت:☜

حدیبیہ میں نبیﷺ نے انکو اپنی جانب سے منصب سفارت پر مقرر کرکے مکہ بھیجا۔کفار مکہ نے انکو قید کر لیا لیکن نبی کریمﷺ کو یہ خبر پہنچی کہ انکو شہید کر دیا گیا۔آپﷺ کو بڑا صدمہ ہوا اور انتقام کے لیے آپﷺ نے صحابہ اکرام سے موت کی بیعت لی۔ اثناء بیعت میں خبر ملی کہ حضرت عثمانؓ زندہ ہیں۔یہ خبر سن کر آپﷺ نے اپنے ایک ہاتھ حضرت عثمانؓ کا ہاتھ قرار دیا اور دوسرے ہاتھ پر رکھ کر فرمایا کہ یہ بیعت حضرت عثمانؓ کی جانب سے ہے۔اسی بیعت کا نام بیعت رضوان ہے اللہ رب العزت نے اس بیعت کے کرنے والوں کو حق پر فرمایا۔اور فرمایا کہ ہم ان سے راضی ہو گئے اور اس بیعت میں حضرت عثمانؓ کا حصہ سب سے زیادہ رہا۔کیونکہ انہوں نے رسول کے ہاتھ سے رسول کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔

غزوۂ تبوک میں شمولیت:☜

غزوۂ تبوک میں حضرت عثمانؓ نے سب بڑا کام یہ کیا کہ اس غزوۀ تبوک کے زمانے میں مسلمانوں پر افلاس طاری تھا۔اس وجہ سے اس غزوۀ کا نام جیش العسرہ رکھا گیا۔تو نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اس لشکر کا سامان درست کر دے اسکو جنت ملیگی۔حضرت عثمانؓ نے عرض کیا کہ یارسول اللہﷺ میں سو اونٹ دونگا۔پھر آپﷺ نے ترغیب دی تو حضرت عثمانؓ پھر کھڑے ہوۓ اور عرض کیا کہ یارسول اللہﷺ میں دو سو اونٹ دونگا۔اور جب تیسری مرتبہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا تو یہ اپنے گھر گئے اور ایک ہزار اشرفیاں لاکر آپﷺ کے دامن میں ڈال دیں۔ نبی کریمﷺ ممبر پر کھڑے تھے بیٹھ گئے اور ان اشرفیوں کو ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں ڈالتے تھے۔ اور فرمانے لگے “مضی عثمان ماعمل بعد الیوم” یعنی آج کے بعد عثمان جو چاہے کرے کوئی کام انکو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔

عدل و انصاف اور خوف خدا کا یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ تنبیہاً آپ نے کسی غلام کا کان مروڑ دیا تھا۔ اس نے اس سے فرمایا کہ تم مجھ سے قصاص لے لو۔تم بھی میرا کان مروڑ دو ۔۔۔اس نے حکم کی تعمیل کے لئے آپکا کان اپنے ہاتھ میں لے لیا۔آپ نے فرمایا زور سے مروڑو میں نے بھی زور سے مروڑا تھا۔دنیا میں قصاص کا ہو جانا آخرت کے قصاص سے بہتر ہے۔

حضرت ذوالنورینؓ کی خلافت:☜

جب حضرت عمر فاروقؓ جب اس دنیا سے رخصت ہونے لگے۔تو لوگوں نے ان سے درخواست کی کہ آپ کسی کو اپنی جانشنی کے لئے منتخب کیجیے۔آپ نے فرمایا کہ چھ شخص ہیں۔*عثمانؓ علی طلحہ زبیر عبد الرحمٰن سعد بن ابی وقاص* ان سے زیادہ کوئی مستحق خلافت نہیں۔ان میں سے کسی کو منتخب کر لینا مگر تین دن سے زیادہ انتخاب میں دیر نہ کرنا۔

چناچہ حضرت عمر فاروقؓ کی تدفین کے بعد یہ چھ حضرات جمع ہوۓ۔حضرت عبد الرحمٰن بن عوفؓ نے فرمایا کہ چھ میں سے تین کو سب اختیار دے دیئے جائیں۔حضرت زبیرؓ نے اپنا اختیار حضرت علی کو دیا اور اور حضرت طلحہؓ نے اپنا اختیار حضرت عثمانؓ کو دیا ۔ حضرت سعد نے کہا کہ میں اپنا اختیار حضرت عبدالرحمٰنؓ کو دیتا ہوں۔حضرت عبد الرحمٰن نے کہا کہ اچھا اب حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ میں جو اپنی خلافت نہ چاہتا ہو انتخاب کا اختیار اسکو دیا جائے۔یہ سن کر حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ دونوں خاموش رہے۔

حضرت عبدالرحمٰنؓ نے عرض کیا کہ میں اپنے لیے خلافت نہیں چاہتا میرے سپرد کیجیے۔میں آپ دونوں میں جو افضل ہوگا اسکو منتخب کرونگا۔چناچہ عبدالرحمٰنؓ کو انتخاب دیا گیا۔اور تین دن کی مہلت دی گئی۔اور حج کا موسم تھا۔لوگ حج سے فارغ ہو کر مدینہ منورہ آۓ ہوۓ تھے۔لہذا علاوہ مدینہ کے دوسرے علاقوں کے لوگوں کا اجتماع بھی اس وقت بہت زیادہ تھا۔

حضرت عبدالرحمٰنؓ نے خفیہ طور پر ہر مسلمان کی رائے لی۔وہ فرماتے ہیں کہ مجھے دو شخص بھی ایسے نہ ملے جو حضرت علی کو حضرت عثمان پر ترجیح دیتے ہوں۔ لہٰذا بنا کسی نزع و اختلاف کے حضرت عثمانؓ کا انتخاب ہو گیا۔اور سب نے انکے دست مبارک پر بیعت لی۔بارہ سال بارہ دن آپ نے خلافت کے فرائض انجام دیے۔اسلامی فتوحات کا سلسلہ بھی آپ کے عہد مبارک  میں قائم رہا۔ اور مسلمانوں کی دین دنیوی ترقیات یوماً فیوماً بڑھتی گئیں۔

حضرت عثمانؓ کی شہادت:☜

آپکی شہادت بلحاظ اپنی مظاومیت ومصیبت کے بلحاظ ان نتائج اور فتن جو اس شہادت سے پیش آۓ۔اس امت میں سب سے پہلی اور بے نظیر شہادت ہے۔مسلمان باہم متفق و متحد تھے اور سب کی متفرق قوت کفر اور شعائر کفر کے فنا کرنے میں صرف ہو رہی تھی۔اور برکات نبوت ان میں موجود تھی۔مگر حضرت عثمانؓ کا شہید ہونا تھا۔اور برکات لے لی گئں۔اور باہم اختلاف پیدا ہو گیا۔اور وہ تلوار جو کافروں کے قتل کے لئے تھی آپس میں چلنے لگی۔بلکہ روز بروز اختلاف کا دائرہ وسیع ہوتا گیا۔

حضرت عثمانؓ کی وفات کے نتائج نبی کریمﷺ نے پہلے ہی بیان فرما دیئے تھے۔جن احادیث میں یہ پیشن گوئیاں ہیں وہ تواتر معنوی کی حد کو پہنچ گئ ہیں۔جنمیں چند روایات حسب ذیل ہیں۔

  • 1۔عشرۀ مبشرہ والی حدیث جو بخاری اور مسلم اور حدیث کی دوسری کتابوں میں بھی ہے کہ جب حضرت عثمانؓ کی باری آئی تو آپﷺ نے فرمایا کہ انکو خوشخبری جنت سناؤ اس تکلیف پر جو انکو پہنچیگی۔
  • 2۔حضرت عمرؓ، سے ایک مرتبہ نبی کریمﷺ نے ایک فتنہ کا ذکر کیااور حضرت عثمانؓ کی طرف اشارہ کر کے ارشاد فرمایا کہ اس فتنہ میں ظمًا قتل کیا جائیگا۔۔۔(ترمذی شریف)
  • 3۔حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اے عثمانؓ اللہ تم کو ایک قمیص پہنائیگا اگر لوگ اسکو اتارنا چاہیں تو تم نہ اتارنا۔۔۔۔(ترمذی شریف)
  • 4۔حضرت کعب بن عجزہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ایک فتنہ کا ذکر کرکے ایک نقاب پوش آدمی کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ یہ اس دن ہدایت پر ہوگا۔میں نے دیکھا تو وہ حضرت عثمانؓ تھے۔میں انکو رسولﷺ کے سامنے لے گیا کہ آپﷺ نے انہی کے متعلق فرمایا ہے؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا ہاں۔۔۔۔(ابن ماجہ شریف)
  • 5۔حضرت حذیفہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میری جان ہے کہ تم اپنے امام کو قتل کر دوگے اور آپس میں خونریزی کروگے۔اور دنیا کے وارث بدترین لوگ رہ جائیگے۔۔۔(ترمذی شریف)