اسلامی معاشرے کے بنیادی اوصاف ، سوالات و جوابات

0
  • سبق نمبر 17

سوال۱: اسلامی معاشرے کی تکمیل کے لیے کن امور کی پابندی ضروری ہے؟

جواب: اسلامی معاشرے کی تکمیل کے لئے جن امور کی پابندی ضروری ہے وہ درج ذیل ہیں ۔
١) دیانت داری (٢) ایفائے عہد (3) سچائی (٤) عدل و انصاف (٥) احترام قانون (٦) کسب حلال (٧) ایثار

۱)دیانت داری :

معاشی اور معاشرتی تعلقات کی استواری کے لیے دیانت ایک بنیادی شرف ہے جس معاشرے سے دیانت داری ختم ہو جائے وہاں کاروباری معاملات سے لے کر گھریلو تعلقات تک، ہر جگہ نا قابل اصلاح بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے، اور ایک دوسرے سے اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ اسلام اپنے نام لیواؤں کو ان تمام نقصانات سے بچانے کے لیے دیانت داری کی تلقین کرتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:۔
ترجمہ: بے شک اللہ تمھیں حکم دیتا ہے کہ پہنچا دو امانتیں امانت والوں کو۔

۲)ایفائے عہد :

انسانوں کے باہمی تعلقات میں ایفائے عہد یعنی وعدہ پورا کرنے کو جو اہمیت حاصل ہے۔ وہ محتاج بیان نہیں۔ ہمارے اکثر معاملات کی بنیاد وعدوں پر ہوتی ہے وہ پورے ہوتے رہیں تو معاملات ٹھیک رہتے ہیں۔ اگر ان کی خلاف ورزی شروع ہو جائے تو سارے معاملات بگڑ جاتے ہیں۔ اس بگاڑ سے مسلمانوں کو محفوظ رکھنے کے لیے اسلام ایفائے عہد کی تلقین کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:۔
ترجمہ :۔ اور پورا کرو عہد کو بے شک عہد کی پوچھ ہو گی۔( سورة الاسراء: ۳۴)
انسان کے تمام وعدوں میں اہم ترین عہد وہ ہے ، جو اس نے یوم ازل بندگی کے معامے میں اپنے خالق سے کیا تھا۔ قرآن عظیم نے اس کی یاد دہانی اس انداز سے کرائی ہے:
ترجمہ: اور اللہ کا عہد پورا کرو تم کو یہ حکم کر دیا ہے تا کہ تم نصیحت پکڑو۔ (سورۃ الانعام: ۱۵۲)

۳)سچائی :

سچائی ایک ایسی عالمگیر حقیقت ہے جسے تسلیم کیے بغیر انسان سکھ چین کا سانس نہیں لے سکتا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو نہایت جامعیت کے ساتھ یوں ارشاد فرمایا:
ترجمہ: سچائی انسان کو ہر آفت سے محفوظ رکھتی ہے اور جھوٹ اسے ہلاک کر ڈالتا ہے۔
سچائی کا سر چشمہ اللہ تعالی کی ذات ہے۔ تمام انبیاء کرام علیہم السّلام نے وہیں سے سچائی حاصل کی اور دنیا میں پھیلائی۔ اس سچائی سے انکار کرنے والا زندگی کے ہر معاملے میں جھوٹ اور باطل کی پیروی کرتا ہے ، اور ہلاک ہو کر رہتا ہے۔ اُردو میں ہم سچ کا لفظ محض گفتگو کے تعلق سے استعمال کرتے ہیں، لیکن قرآن مجید کے مفہوم میں قول کے ساتھ عمل اور خیال تک کی سچائی شامل ہے۔ یعنی صادق وہ ہے جو نہ صرف زبان ہی سے سچ بولے بلکہ اس کے فکر و عمل میں بھی سچائی رچی بسی ہو۔

۴) عدل و انصاف :

عدل وانصاف کا تقاضا یہ ہے کہ ہر شخص کو اس کا جائز حق یہ آسانی مل جائے۔ نظام عدل کی موجودگی میں معاشرے کے امور بخیر و خوبی سر انجام پاتے ہیں اور بے انصافی کی وجہ سے معاشرے کا ہر شعبہ مفلوج ہو کر رہ جاتا ہے۔اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے عدل و انصاف کے معاملے میں بلا امتیاز تمام نسل انسانی کے درمیان مساوات قائم کرنے کا حکم دیا۔ قرآن حکیم میں ارشاد باری تعالی ہے:
ترجمہ :۔ اے ایمان والو! کھڑے ہو جایا کرو اللہ کے واسطے گواہی دینے کو انصاف کی اور کسی قوم کی دشمنی کے باعث انصاف کو ہر گز نہ چھوڑو۔ عدل کرو۔ یہی بات زیادہ نزدیک ہے تقویٰ ہے۔ (سورة المائده : ۸)

۵) احترامِ قانون :

جس طرح قدرت کا نظام چند فطری قوانین کا پابند ہے، اسی طرح معاشرے کا قیام و دوام، معاشرتی، اخلاقی اور دینی احکام و قوانین پر موقوف ہے۔ یوں تو دنیا کا کم عقل انسان بھی قانون کی ضرورت، اس کی پابندی اور اہمیت کا اعتراف کرے گا، لیکن کم لوگ ایسے ہیں جو عملاً قانون کے تقاضے پورے کرتے ہیں۔ عصر حاضر میں دو افراد کے باہمی معاملات سے لے کر بین الا قوامی تعلقات تک لوگ ضابطے اور قانون کی پابندی سے گریزاں ہیں، اور لاقانونیت کے اس رجحان نے دنیا کا امن و سکون غارت کر دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ انسان قانون کی افادیت کا قائل ہونے کے باوجود اس کی خلاف ورزی کیوں کرتا ہے ؟ اس کی دو اہم وجوہ ہیں:۔ ایک خود غرضی اور مفاد پرستی۔ دوسرے اپنے آپ کو قانون سے بالا تر سمجھنا۔ اسلام ان دونوں وجوہ کا خوبی سے تدارک کر کے مسلمانوں کو قانون کا پابند بناتا ہے۔ ایک طرف وہ انھیں خدا پرستی اور ایثار و سخاوت کا درس دیتا ہے دوسری طرف ان میں آخرت کی جواب دہی کا احساس و شعور پیدا کرتا ہے۔

۶) کسبِ حلال :

کسب حلال کے بارے میں قرآن مجید میں اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے:۔
ترجمہ:۔ “اے رسولو! کھاؤ ستھری چیزیں اور کام کرو بھلا۔”(سورة المومنون: ۵۱)
اسلام میں عبادات اور معاملات کے ضمن میں کسب حلال کو بے حد اہمیت حاصل ہے۔ اس لیے عبادات کی مقبولیت کے لیے کسب حلال کو لازمی شرف قرار دیا گیا ہے۔

۷)ایثار :

دنیا پرستی اگر انسان کو خود غرضی اور مفاد پرستی سکھاتی ہے تو دین داری اس میں جذبہ ایثار پیدا کرتی ہے۔ وہ خود تکلیف اٹھا کر مخلوق الہی کو راحت و آرام پہنچاتا ہے۔ اس کا عمل اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں شرف قبولیت پائے گا اور اخروی نعمتوں کے حصول کا سبب بنے گا۔اللّه تعالی ارشاد فرماتا ہے۔
ترجمہ : اور وہ دوسروں کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے ہیں اگر چہ خود فاقے ہی سے کیوں نہ ہوں۔ (سورة الحشر : ٩)