زکوۃ کے معنی و مفہوم، سوالات و جوابات

0
  • سبق نمبر 12

سوال۱:اسلام کے معاشی نظام میں زکوۃ کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اس موضوع پر مفصل اظہار خیال کریں۔

جواب: اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ معاشی نظام میں زکوۃ کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ جس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ قرآن میں اکثر مقامات پر ادائیگی نماز کے ساتھ ادائیگی زکوۃ کا بھی حکم دیا گیا ہے۔ نماز اگر بدنی عبادت ہے تو زکوۃ مالی عبادت ہے۔ نظام زکوۃ کی حیثیت کے پیش نظر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نےزکوۃ کی ادائیگی کا انکار کرنے والوں سےجہاد کیا۔ باوجودیکہ وہ کلمہ گوتھے اور فرمایا کہ میں زندگی میں ان دونوں فرائض کی تعمیل میں کوئی فرق نہیں ہونے دوں گا۔

زکوۃ کےلغوی معنی پاک کرنے کے ہیں۔ جو انسان زکوۃ ادا کرتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق نہ صرف اپنے مال کو پاک کر لیتا ہے، بلکہ اس کے ذریعے اپنے دل کو بھی دولت کی ہوس سے پاک کرتا ہے اور دولت کے مقابلے میں اللہ کی محبت کو اپنے دل میں جگہ دیتا ہے اور اسی کے حکم پر اپنی دولت کو قربان کرتا ہے۔ادائیگی زکوۃ اسے یہ بھی یاددلائی ہے، کہ جو دولت وہ کماتا ہے وہ حقیقت میں اس کی ملکیت نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی امانت ہے۔ یہ احساس اسے معاشی بے راہ روی سے بچاتا اور اس کے تمام معاشی اعمال کو احکام الہیٰ کا تابع کرتا ہے۔

نبی اکرمﷺ کے ارشاد کے مطابق معاشی معاملات دین کا اہم حصہ ہیں۔ جب انسان دولت جیسی نعمت اللہ تعالیٰ کے حکم پر قرآن کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کے ایثار کی قدر کرتے ہوئے اس قربان شدہ مال کو اپنے ذمے قرض قرار دیتا ہے اور وعدہ فرماتا ہے کہ بندے کا یہ قرض وہ کئی گنا بڑھ کر واپس کرے گا۔ ارشاد ربانی ہے:

ترجمہ: اگر قرض دو اللہ کو اچھی طرح پر قرض دینا وہ دو گنا کرے اس کو تمہارے لیے اور تم کو بخشے اور اللہ قدر دان ہے اور تحمل والا۔ (سورۃ التغابن: ۱۷)
اس کے مقابلے میں جو لوگ زکوۃ ادا نہیں کرتے ان کے لیے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
ترجمہ: اور جو لوگ سونا اور چاندی گاڑھ کر رکھتے ہیں اور اس کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے سو ان کو عذاب درد ناک کی خبر دیجئے۔ (سورۃ التوبہ: ۳۲)
ان آیات کی رو سے زکوۃ کی ادائیگی انسان کے لیے آخرت کی نعمتوں کے حصول اور عذاب جہنم سے نجات کا ذریعہ ہے جس سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں ہو سکتی۔

سوال۲: زکوۃ کے معنی و مفہوم بیان کریں۔

جواب: زکوۃ کےلغوی معنی پاک کرنے کے ہیں۔ جو انسان زکوۃ ادا کرتا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق نہ صرف اپنے مال کو پاک کر لیتا ہے، بلکہ اس کے ذریعے اپنے دل کو بھی دولت کی ہوس سے پاک کرتا ہے اور دولت کے مقابلے میں اللہ کی محبت کو اپنے دل میں جگہ دیتا ہے اور اسی کے حکم پر اپنی دولت کو قربان کرتا ہے۔

سوال۳:زکوۃ کے مصارف بیان کریں۔

جواب: تقسیم زکوۃ کی مدات(مصارف) بھی اللہ تعالیٰ نے خود متعین فرمادی ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
ترجمہ: زکوۃ جو ہے سووہ حق ہے مفلسوں کا اور محتاجوں کا اور زکوۃ کے کام پر جانے والوں کا اور جن کادل پر چانا منظور ہے اور گرد نوں کے چھڑانے میں اور و تاوان بھریں اور اللہ کے رستہ میں اور راہ کے مسافر کو۔ٹھہرایا ہوا ہے اللہ کا اور اللہ سب کچھ جاننے والا حکمت والا ہے۔
اس آیت میں مندرجہ ذیل مصارف زکوۃ معلوم ہوئے۔

  • ان تنگ دست لوگوں کی اعانت جن کے پاس کچھ نہ ہو۔
  • ان لوگوں کی اعانت جو زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے محروم ہوں۔
  • زکوۃ کی وصولی پر متعین عملے کی تنخواہیں۔
  • ان لوگوں کی اعانت جو نو مسلم ہوں، تاکہ ان کی تالیف قلب ہو سکے۔
  • غلاموں اور ان لوگوں کو آزاد کرنے کے مصارف جو قید و بند میں ہوں۔
  • ایسے لوگوں کے قرضوں کی ادائیگی جو نادار ہوں۔
  • جہاد فی سبیل اللہ اور تبلیغ دین میں جانے والوں کی اعانت میں۔
  • مسافر جو حالت سفر میں مالک نصاف نہ ہو، گومکان پر دولت رکھتا ہو۔

جب اسلامی نظام حکومت قائم ہو تو زکوۃ حکومت کے سپرد کر دینا لازم ہوگا تاکہ وہ اپنے طور پر بہتر طریقے سے مقررہ مدات میں زکوۃ تقسیم کرسکے۔ البتہ اگر کسی خطہ زمین پر مسلمان غیر اسلامی حکومت کے زیر فرمان آجائیں، تو اس صورت میں ہر فرد اپنے طور پر ان مذکورہ مدات پر خرچ کر سکتا ہے۔

سوال۴:مسائل زکوۃ بیان کریں۔

جواب: زکوۃ ان لوگوں پر فرض ہے جن کے پاس ایک خاص مقدار میں سونا، چاندی، روپیہ یا سامان تجارت ہو۔ اس خاص مقدار کو نصاب کہتے ہیں۔ مختلف اشیاء کا نصاب یہ ہے:
۱۔ سونا = ساڑھے سات تولے
۲۔ چاندی= ساڑھے باون تولے
۳۔ روپیہ، پیسہ اور سامان تجارت، سونے چاندی دونوں میں سےکسی ایک کی قیمت کے برابر۔
زکوۃ مال پر اس وقت واجب ہوتی ہے جب اسے جمع کیے ہوئے پورا ایک سال گذرچکا ہے۔

سوال۵: ادائیگی زکوۃ کے متعلق لکھیں۔

جواب:زکوۃ صرف مسلمانوں ہی سے لی جاتی ہے۔
وہ عزیز و اقارب جن کی کفالت شرعاً فرض ہے۔ (مثلاً ماں، باپ، بیٹا، بیٹی، شوہر، بیوی وغیرہ) انھیں زکوۃ نہیں دی جا سکتی۔ البتہ دور کے عزیز غیروں کے مقابلے میں قابل ترجیح ہیں۔
عام حالات میں ایک بستی کی زکوۃ خؤد اسی بستی میں تقسیم ہونی چاہئے۔ البتہ اس بستی میں مستحقین زکوۃ کے نہ ہونے، یا کسی دوسری بستی میں ہنگامی صورتحال، مثلاسیلاب، زلزلہ، قحط وغیرہ کے مواقع پر دوسری بستی میں تقسیم کی جاسکتی ہے۔

زکوۃ دینے والوں کو چاہیے کہ وہ ممکن حد تک یہ اطمینان کرلیں کہ زکوۃ لینے والا اس کا مستحق ہے۔
زکوۃ کی رقم سے ضرورت کی اشیاء خرید کر بھی مستحقین کو دی سکتی ہیں۔ مستحقین زکوۃ کو بتانا ضروری نہیں کہ پیسہ یا مال زکوۃ کا ہے۔

الحمداللہ! ہمارے ملک میں نظام زکوۃ کا آغاز ہو چکا ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ اس کی کامیابی کے لیے ہر ممکن تعاون کریں تاکہ اس کی برکت سے ہمارا معاشرہ دنیا کے لیے مشعل راہ بن سکے۔
زکوۃ کے جملہ فوائد و ثمرات تب ہی ظاہر ہو سکتے ہیں، جب ہر صاحب مال اللہ جل شانہ کی خوشنودی کو اپنا لائحہ عمل بنانے اور اسلام کے فیض رسانی اور نفع بخشی کے جذبہ کو ملحوظ خاطر رکھے، خصوصاًزکوۃ وصولی اور تقسیم کا نظام اجتماعی طور پر قائم و دائم ہو۔