اولاد کے حقوق و فرائض، سوالات و جوابات

0
  • سبق نمبر 16

سوال۱: اولاد کے حقوق و فرائض قرآن و سنت کی روشنی میں واضح کریں۔ (اولاد کے فرائض میں والدین کے حقوق والی ہیڈنگ آجانی)

جواب:اولاد کے حقوق:

حضور صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ ایک زمانے میں انسان کی سنگ دلی اس درجے کو پہنچ گئی تھی کہ وہ اپنی اولاد کو قتل کر ڈالتا تھا اسلام نے انسان کے دل میں سوئے ہوئے جذبہ رحم والفت کو جگایا اور دنیا سے قتل اولاد کی سنگدلانہ رسم کا خاتمہ کیا۔ اور اولاد کو اپنے والدین سے محبت و شفقت کی نعمت ایک بار پھر ملی۔ قرآن حکیم میں معاشرے کی دیگر برائیوں کے ساتھ قتل اولاد سے بھی ان الفاظ میں منع فرمایا
ترجمہ: اور نہ مار ڈالو اپنی اولا د کو مفلسی کے خوف سے۔ ہم روزی دیتے ہیں ان کو اور تم کو بےشک ان کا مار نا بڑی خطا ہے۔(سورۃ الاسراء : ۳۱)

ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم) اسب سے بڑا گناہ کون سا ہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ “شرک ” انھوں نے دریافت کیا۔ ” اس کے بعد ” آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم نے فرمایا۔ ” والدین کی نافرمانی” عرض کیا ” اس کے بعد ” ارشاد ہوا ” تم اپنی اولاد کو اس خوف سے مار ڈالو کہ وہ تمھارے کھانے میں حصہ بٹائے گی ۔ ” تعلیمات اسلامی کے تحت والدین پر اولاد کے متعدد حقوق عائد ہوتے ہیں۔ مثلاً

  • ا۔ زندگی کا حق۔
  • ۲۔ بنیادی ضروریات کی فراہمی یعنی کھا نے پینے ، رہائش اور علاج کا حق۔
  • ۳۔ حسب مقدور تعلیم و تربیت کا حق۔

والدین کے حقوق:

معاشرے میں انسان کو جن ہستیوں سے سب سے زیادہ مدد ملتی ہے وہ والدین ہیں۔ جو محض اس کے وجود میں لانے کا ذریعہ ہی نہیں ہوتے ، بلکہ اس کی پروش اور تربیت کا بھی سامان ہوتے ہیں۔ دنیا میں صرف والدین ہی کی ذات ہے جو اپنی راحت اولاد کی راحت پر قربان کر دیتی ہے۔ ان کی شفقت، اولاد کے لیے رحمت باری کا وہ سائبان ثابت ہوتی ہے، جو انھیں مشکلات زمانہ کی دھوپ سے بچا کر پروان چڑھاتی ہے۔ انسانیت کا وجود اللہ تعالی کے بعد والدین ہی کا مرہون منت ہے۔ اس لیے اللہ تعالٰی نے قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اپنے بعد انہی کا حق ادا کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے۔

ترجمہ: اور حکم کر چکا تیرارب کہ نہ پوجو اس کے سوائے اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو۔ اگر پہنچ جائیں تیرے سامنے بڑھاپے کو ایک ان میں سے، یا دونوں، تو نہ کہہ ان کو ” ہوں!” اور نہ جھڑک ان کو۔ اور کہہ ان سے بات ادب کی۔ اور جھکا دے ان کے آگے کندھے عاجزی کر کے نیاز مندی سے ، اور کہہ اے رب، ان پر رحم کر، جیسا پالا انھوں نے مجھ کو چھوٹا سا “۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ والدین کا نافرمان شخص جنت کی خوشبو سے بھی محروم رہے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم نے بوڑھے والدین کی خدمت پر بہت زور دیا ہے، کیونکہ وہ اپنی زندگی کی صلاحیتیں اور توانائیاں اولاد پر صرف کر چکے ہوتے ہیں، اس لیے اولاد کا فرض ہے کہ ان کے بڑھاپے کا سہارا بن کر احسان شناسی کا ثبوت دے۔ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کی محفل میں ارشاد فرمایا۔ ” ذلیل و خوار ہوا۔ ذلیل و خوار ہوا ذلیل و خوار ہوا۔ ” صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے دریافت کیا۔ کون ؟ یار سول اللہ (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم) ارشاد فرمایا۔ “وہ جس نے اپنے ماں باپ کو یا ان میں سے کسی ایک کو بڑھاپے کی حالت میں پایا، پھر ان کی خدمت کر کے جنت حاصل نہ کی ۔ (مسند احمد بن حنبل)

سوال۲:اسلام نے عورت کو معاشرے میں کیا مقام دیا ہے؟ اس کے حقوق اور ذمہ داریاں بیان کریں۔ (میاں بیوی کے حقوق والی ہیڈنگ)

جواب: میاں بیوی کے باہمی حقوق

معاشرے کی بنیادی اکائی گھر ہے، اور گھر کے سکون اور خوشحالی کا انحصار میاں بیوی کے خوشگوار تعلقات پر ہے۔ اس کی عمدگی محض دو افراد ہی کی نہیں، بلکہ دو خاندانوں اور اس کے نتیجے میں پورے معاشرے کی شادمانیوں کا سبب بنتی ہے۔ اگر ان کے تعلقات میں بگاڑ پیدا ہو جائے تو یہ صورت حال بہت سے رشتوں کو کمزور کر دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زوجین کے حقوق کا تعین فرماتے ہوئے ایک مقام پر ارشاد فرمایا ہے:

ترجمہ :۔ اور عورتوں کا بھی حق ہے۔ جیسا کہ مردوں کا ان پر حق ہے۔ دستور کے موافق، اورمردوں کو عورتوں پر ایک درجہ فضلیت ہے۔(سورة البقره: ۲۲۸)
لیکن یہ درجہ محض گھر کا انتظام ایک زیادہ با ہمت، حوصلہ مند اور قومی شخصیت کے سپرد کرنے کے لیے ہے، عورتوں پر ظلم روا ر کھنے کے لیے نہیں۔ اسلام وہ واحد مذہب ہے جس نے خواتین کا شرف بحال کیا اور مردوں کو ان پر حکومت کا اختیار دینے کی بجائے ان کی حفاظت کی ذمہ داری سپرد کی اور تلقین کی کہ بیویوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم نے بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کو خیر اور اچھائی کا معیار بتایا۔ ارشادفرمایا:
ترجمہ: تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ اچھا ہے۔

ایک بار ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم سے دریافت کیا۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم! بیوی کا اپنے شوہر پر کیا حق ہے ؟” آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ “جو خود کھائے ، اسے کھلائے۔جیسا خود پہنے ، ویسااسے پہنائے۔ نہ اس کے منہ پر تھپڑ مارے، نہ اسے برا بھلا کہے۔ (مشکوۃشریف)
” آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم کو بیویوں کے حقوق کا اتنا خیال تھا کہ خطبہ حجتہ الوداع میں ان سے حُسنِ سلوک کی تلقین فرمائی۔ دوسری جانب اللہ تعالی نے نیک بیویوں کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا:

ترجمہ: پس جو عورتیں نیک ہیں، فرمانبردار ہیں، نگہبانی کرتی ہیں پیٹھ پیچھے۔(سورة النساء : ۳۴)
جہاں مرد کو منتظم اعلی کی حیثیت سے بیوی بچوں کی کفالت اور حفاظت کی ذمہ داری سونپی گئی۔ وہاں عورتوں کو پابند کیا گیا کہ وہ مردوں کی وفادار اور اطاعت گزار بن کر رہیں۔ ایک مسلمان بیوی کے لیے شوہر کی جو حیثیت ہوتی ہے، اس کا اندازہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم کے اس ارشاد گرامی سے ہوتا ہے۔ “اگر میں خدا کے علاوہ کسی اور کو سجدے کا حکم دیتا تو بیوی سے کہتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے ” (ترمذی)

شوہر کو بھی نصیحت کی گئی ہے کہ اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے بیوی پر سختی نہ کرے، بلکہ اگر اس میں کچھ خامیاں بھی پائی جاتی ہوں تو درگزر کرے اور اس کی خوبیوں کی قدر کرے۔ اس بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: اور گزران کرد عورتوں کے ساتھ اچھی طرح پھر اگر وہ تم کو نہ بھاویں۔ تو شاید تم کو پسند نہ آوے ایک چیز اور اللہ نے رکھی ہو اس میں بہت خوبی۔ (سورة النساء: ۱۹)

اس بات کی تشریح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم کی ایک حدیث مبارک سے ہوتی ہے، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم نے فرمایا ” اپنی بیویوں میں کوئی برائی دیکھ کر ان سے نفرت نہ کرنے لگ جاؤ۔ اگر تم غور کرو گے تو تمھیں ان میں کوئی اچھائی بھی ضرور نظر آجائے گی۔
ترجمہ: اور عورتوں کو اُن کے مہر خوشی سے دیا کرو اور اگر وہ اپنی خوشی سے اس سے کچھ تمہیں چھوڑ دیں تو اسے ذوق و شوق سے کھا لو۔ (سورۃ النساء : ۴)

سوال۳:رشتہ داروں کے حقوق و فرائض پر نوٹ تحریر کریں۔

جواب: رشتہ داروں کے حقوق:

والدین اور اولاد اور شریک حیات (بیوی) کے حقوق کے بعد اسلام رشتہ داروں کے حقوق پر زور دیتا ہے۔ کیونکہ معاشرتی زندگی میں انسان کا واسطہ اہل خانہ کے بعد سب سے زیادہ انہی سے پڑتا ہے۔ اگر خاندان کے افراد ایک دوسرے کے حقوق اچھے طریقے سے ادا کرتے رہیں تو پورے خاندان میں محبت اور اپنائیت کی فضا قائم ہو گی، اور اگر معمول اس کے بر عکس ہو تو نفرت اور دوری پیدا ہو جائے گی، اور آئے دن کے جھگڑوں سے خاندان کا سکون برباد ہو کر رہ جائے گا۔ اور پورا معاشرہ امن سے محروم ہو جائے گا۔ قرآن اور حدیث دونوں میں صلہ رحمی یعنی رشتہ داروں سے حسن سلوک کی بار بار تلقین کی گئی۔ ارشاد باری تعالی ہے:
ترجمہ : رشتہ دار کو اس کا حق دو۔( سورة الاسراء: ۲۶)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ و سلم نے ارشاد فرمایا:
ترجمہ : رشتہ داروں سے تعلق توڑنے والا جنت میں داخل نہیں ہو گا۔( بخاری )

مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ اپنے ضرورت مند رشتہ داروں کی ضروریات کا خیال رکھیں، تاکہ انھیں غیروں کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے۔ تلقین کی گئی ہے کہ جو کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کرو، اس میں ترجیح اپنے رشتہ داروں کو دو اور پھر ان کے ساتھ جو سلوک کرو اس پر انھیں طعنے دے کر اپنے اجر و ثواب کو برباد نہ کرو۔ انھیں احساس تنہائی اور احساس کمتری کا شکار نہ ہونے دو۔ ان کی شادی، غمی میں شریک ہو۔ رشتے داروں کے ذریعے امداد کا ایک اہم فائدہ یہ ہےکہ اس سے انسان کی عزت نفس مجروح نہیں ہوتی اور مقصد پورا ہو جاتا ہے۔ جب کہ غیروں سے مدد طلب کرنے میں اپنی ہی نہیں، خاندان کی عزت بھی گھٹتی ہے۔ اگر ہم میں سے ہر شخص اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ واصحابہ و سلم کی ہدایات کے مطابق اپنے رشتہ داروں کے حقوق کا خیال رکھے تو معاشرہ بہت سی خرابیوں سے محفوظ رہے گا۔

سوال۴:ہمسائیوں کے حقوق و فرائض پر نوٹ تحریر کریں۔

جواب: ہمسایوں کے حقوق:

انسان کو روز مرہ زندگی میں اپنے ہمسایوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ کسی تکلیف یا بیماری کے وقت پڑوسی ہی وہ شخص ہوتا ہے جس کی مددسب سے پہلے اور بآسانی دستیاب ہوتی ہے۔ جب کہ عزیز واقارب تو اطلاع ملنے پر بہت دیر سے پہنچتے ہیں۔ مسجد میں نماز کی ادائیگی کے وقت بھی پڑوسی سے روزانہ ملاقات ہوتی ہے۔ پڑوسی اور اس کے اہل وعیال کے اخلاق و کردار سے خود ہمارے گھر والے بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے اور اگر پڑوسی بُرا ہو تو اس سے انسان کا ناک میں دم آجاتا ہے۔ اسلام نے پڑوسی کے حقوق پر بڑا زور دیا ہے اور پڑوسیوں کی تین قسمیں الگ الگ بیان کر کے ان سب سے حسن سلوک کا حکم دیا گیا ہے:

وہ پڑوسی جو رشتے دار بھی ہو۔ وہ پڑوسی جو ہم مذہب یا رشتے دار نہ ہو۔ عارضی پڑوسی مثلا ہم پیشہ ، ہم جماعت، شریک سفر یا ایک ہی جگہ ملازمت یا کاروبار کرنے والے۔ ہمسایوں سے حُسن سلوک کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم نے بہت تاکید فرمائی ہے۔(سورة النساء: ۳۶)
چندار شادات درج ذیل ہیں:

(الف) وہ شخص مومن نہیں جو اپنے ہمسائے کی بھوک سے بے نیاز ہو کر شکم سیر ہو۔
(ب) تم میں سے افضل وہ ہے جو اپنے ہمسائے کے حق میں بہتر ہے۔ (معجم کبیر)
(ج) اگر پڑوسی کو مدد کی ضرورت پڑے تو اس کی مدد کرو۔ قرض مانگے تو اسے قرض دو۔ محتاج ہو جائے تو اس کی مالی امداد کرو۔ بیمار پڑ جائے تو علاج کرواؤ۔ اور مر جائے تو جنازے کے ساتھ قبرستان جاؤ اور اس کے بچوں کی دیکھ بھال کرو۔ اگر اسے کوئی اعزاز حاصل ہو تو اسے مبارکباد و۔ اگر مصیبت میں مبتلا ہو جائے، تو اس سے ہمدردی کرو۔ بغیر اجازت اپنی دیوار اتنی اونچی نہ کروکہ اس کے لیے روشنی اور ہوا رک جائے۔ کوئی میوہ یا سوغات وغیرہ لاؤ تو اسے بھی بھیجو۔

سوال۵:اساتذہ کے حقوق و فرائض پر نوٹ تحریر کریں۔

جواب: اساتذہ کرام کے حقوق:

اسلام نے جہاں مسلمانوں پر حصول علم کو فرض قرار دیا، وہاں اُستاد کو بھی ایک باعزت مقام عطا کیا۔ تاکہ اس کی وجاہت سے علم کا وقار بڑھے اور علم سے انسانیت کا۔ استاد کا یہ اعزاز کیا کم ہے کہ اسے اس پیشے کی وجہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و علی آلہ واصحابہ وسلم سے ایک خصوصی نسبت حاصل ہے۔ جیسا کہ ارشاد رسول صلی اللہ علیہ و علی آلہ واصحابہ وسلم ہے:
ترجمہ : مجھے تو معلم ہی بنا کر بھیجا گیا ہے۔ (ابن ماجه)

استاد علم دے کر نئی نسل کی صحیح نشو و نما اور اس کے فکر و نظر کی اصلاح کرتے ہیں۔ نئی نسل انہی کے فراہم کردہ سانچوں میں ڈھلتی ہے۔ استاد کے اعزاز واحترام کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ و سلم نے فرمایا۔ ” تیرے تین باپ ہیں، ایک وہ جو تجھے عدم سے وجود میں لایا، دوسرا وہ جس نے تجھے اپنی بیٹی دی، تیسر اوہ جس نے تجھے علم کی دولت سے مالا مال کیا۔” معلم کی حیثیت علم کی بارش کی سی ہوتی ہے اور طلبہ کی حیثیت زمین کی۔ جو زمین بارش کو جذب کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، وہ بارش کے فیض سے سرسبز و شاداب ہو جاتی ہے اسی طرح جو شاگرد اپنے استادوں کی تعلیمات پر علم پیرا ہوتا ہے، وہ علم کے ثمرات سے مستفید ہوتا ہے۔ یہ حوصلہ اور ظرف بھی، والدین کے علاوہ صرف استاد ہی کا ہوتا ہے، کہ وہ اپنے شاگرد کو خود سے آگے بڑھتے دیکھ کر حمد کرنے کی بجائے خوش ہوتا ہے، کیونکہ حقیقت میں وہ اپنے طلبہ کی کامیابیوں کو اپنی ہی کامیابیاں سمجھتا ہے۔ مسلمانوں میں استاد کی احسان شناسی اور احترام کا اندازہ کچھ اس رواج سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ شاگر د استاد کے نام کو اپنے نام کا حصہ بنا لیتے تھے۔
اور اس طرح لائق شاگردوں کے ذریعے استاد کا نام زندہ رہتا تھا۔

سوال۶:غیر مسلموں کے حقوق و فرائض پر نوٹ تحریر کریں۔

جواب:غیر مسلموں کے حقوق:

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس بات کی صراحت فرمادی ہے کہ کافر اور مشرک ہرگز ہرگز مسلمانوں کے دوست نہیں ہو سکتے۔ لیکن اس کے باوجود غیر مسلموں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کی ہدایت کی ہے۔ یہ صرف ! سلام کی خصوصیت ہے کہ وہ غیر مسلموں کو مسلمانوں کے سے شہری حقوق عطا کرتا ہے اور مسلمانوں کو تلقین کرتا ہے کہ وہ ان سے شفقت آمیر برتاؤ کریں۔ ارشاد باری تعالی ہے:

ترجمہ: اور کسی قوم کی دشمنی کے باعث انصاف کو ہر گزنہ نہ چھوڑو۔ عدل کرو۔ یہی بات زیادہ نزدیک ہے تقویٰ ہے۔ (سورة المائدہ : ۸)
اسلام چاہتا ہے کہ اس کے پیروکار غیر مسلموں سے ویساہی برتاؤ کریں جیسا ایک ڈاکٹر مریض سے کرتا ہے۔ اس حسن سلوک سے مسلمانوں نے ہمیشہ غیر مسلم اقوام کے دل جیتے۔