حج کا مفہوم اور اہمیت ، سوالات و جوابات

0
  • سبق نمبر 13

سوال۱:حج کا فلسفہ کیا ہے؟

جواب: ارکان اسلام میں حج کی اہمیت کا اندازہ قرآن مجیدکی اس آیت کریمہ سے بخوبی ہوتا ہے۔
ترجمہ: اور اللہ کے حق ہے لوگوں پر، حج کرنا اس گھر کا، جو شخص قدرت رکھتا ہو اس کی طرف راہ چلنے کی، اور جو نہ مانے توپھر اللہ پروانہیں رکھتا جہان کے لوگوں کی۔ (سورۃ آل عمران: ۹۷)

حج کے غرض و غایت چند خاص مقامات کی صرف زیارت ہی نہیں، بلکہ اس کی پشت پر ایثار، قربانی، محبت اور خلوص کی ایک درخشاں تاریخ موجود ہے۔ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت ہاجرہ جیسی عظیم ہستیوں کے خلوص و عزیمت کی بےمثال داستان ہے۔ اللہ نے ۸۶ سال کی عمر میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ایک بیٹا دیا۔ اس کا نام اسماعیل علیہ السلام رکھا گیا۔

کچھ عرصے بعد اس اکلوتے بیٹے کو اس کی ماں کے ساتھ ایک غیر آباد اور ویران وادی میں چھوڑ آنے کا حکم دیا گیا جس پر خود انھوں نے بھی بڑے صبر و حوصلہ سے عمل کیا اور حضرت ہاجرہ نے بھی اس سلسلے میں بڑی عزیمت کا مظاہرہ کیا۔ جب یہ بچہ کچھ بڑا ہوا اور دوڑ دھوپ کے قابل ہو گیاتو اسے قربان کرنے کا حکم دیا گیا۔ اللہ کے اس عظیم بندےابراہیم علیہ السلام نے اس پر بھی بڑی استقامت سے عمل کیا۔ اللہ تعالیٰ نے جہاں اس قربانی کو شرف قبولیت عطا فرمایا، وہیں حضرت اسماعیل علیہ السلام کو بھی بچا لیا۔ جنھوں نے تسلیم و رضا کی عظیم الشان مثال پیش فرمائی تھی۔

حج کے متعدد مناسک ہمیں انھیں عظیم اور بزرگ ہستیوں کے نقش قدم پر چلنے کی دعوت دیتے ہیں۔حج ایک جامع عبادت ہے اور اس کا سب سے بڑا فائدہ گناہوں کی بخشش ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا۔
ترجمہ: جو کوئی خالصاًاللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں حج کرتا ہے اور دوران حج فسق وفجور سے باز رہتا ہے وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو کو لوٹتا ہے گویا ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو۔
اپنے گناہ گار بندوں کوڈ نیا ہی میں پاک صاف کر دینے کا یہ انتظام اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کی دلیل ہے۔ لہٰذا اس سے فائدہ نہ اٹھانا حد درجہ کی ناشکری اور بدبختی ہے۔ حضرت محمد رسول اللہ خاتم النبین ﷺ کا ارشاد ہے:

ترجمہ: جس (صاحب استطاعت) شخص کو نہ کوئی ظاہری ضرورت، حج سے روک رہیہو، نہ کوئی ظالم بادشاہ اس کی راہ میں حائل ہو اور نہ کوئی روکنے والی بیماری اسے لاحق ہو اور پھر بھی وہ حج کیے بغیر مرجائے تو وہ خواہ کسی یہودی کی موت مرے یا نصرانی کی۔ (سنن دارمی ۱۸۲۳)

سوال۲:حج کے انفرادی و اجتماعی فوائد بیان کریں؟

جواب:حج کا اصل فائدہ یادالہیٰ اور قرب ربانی ہے لیکن دیگر ارکان دین کی طرح اس کے بھی متعدد معاشرتی و اخلاقی فوائد ہیں، اس موقع پر دنیا کے مختلف علاقوں سے آنے والے افراد فریضہ حج کی ادائیگی کی بدولت گناہوں سے پاک صاف ہو جاتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے ساتھ ایمان اور تقویٰ کی پاکیزگی کی جو دولت لے کر لوٹتے ہیں وہ ان کے ماحول کی بھی اصلاح کا سبب بن جاتی ہے۔

حج کا یہ عظیم الشان اجتماعی ملت اسلامیہ کی شان و شوکت کا آئینہ دار ہوتا ہے جب دنیا کے گوشے گوشت سے آئے ہوئے مسلمان رنگ و نسل ، قوم وطن کےامتیازات سے بلند و بالا ہو کر بیک زبان ایک ہی کلمہ ”لبیک اللھم لبیک“ دھراتے ہیں، ایک ہی کیفیت میں سرشار اپنے پروردگار کی پکار پر لپکے جا رہے ہوتے ہیں تو گویا وہ اللہ کے فداکار سپاہیوں کی ایک فوج معلوم ہوتے ہیں۔
حج کا ایک اہم تجارتی اور اقتصادی فائدہ بھی ہے کہ مختلف ممالک سے آنے والے حجاج خرید و فروخت کے ذریعے معاشی نفع حاصل کرتے ہیں۔

سوال۳:زائرین کعبہ کی کیفیت بیان کریں؟

جواب: اگر حج کے مناسک پر غور کیا جائے، تو معلوم ہوگا کہ ہر مرحلہ اپنے اندر اخلاقی و روحانی تربیت کا سامان رکھتا ہے۔ جب ایک شخص اپنے عزیز و اقارب کو چھوڑ کر اور دنیوی دلچسپیوں سے منہ موڑ کر، دوان سلی چادریں اوڑھ کر ”لبیک اللھم لبیک“ کی صدائیں بلند کرتے ہوئے بیت اللہ شریف میں حاضر ہوتا ہے تو اس کا یہ سفر ایک طرح سے سفر آخرت کا نمونہ بن جاتا ہے۔اس دینی ماحول اور پاکیزہ فضا میں جب وہ مناسک حج ادا کرتا ہے تو اس کی حالت ہی عجیب ہوتی ہے۔

میدان عرفات کے قیام میں اسے وہ بشارت یاد آتی ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہےکہ اللہ تعالیٰ نے دین اسلام کی صورت میں مسلمانوں پر اپنی نعمت تمام فرمائی ہے۔ اسے حضور اکرمﷺ کے مبارک خطبے کی بے مثال ہدایات یاد آتی ہیں۔ اسے یہ حکم یاد آتا ہے کہ ”میرے بعد گمراہی سے بچنے کے لیے قرآن اور حدیث کو مضبوطی سے تھامے رہنا۔“ قربانی کرتے وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بےنظیر قربانی یاد آتی ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ اس قربانی کے مقابلے میں میرے نفس کی چھوٹی موٹی خواہشات کی قربانی کی حقیقت ہی کیا ہے؟ میرا تو مرنا جینا بھی اللہ ہی کےلیے ہونا چاہیے۔ ایسے میں اس کے قلب و ذہن پر یہ کلمات بیساختہ جاری ہو جاتے ہیں۔

ترجمہ: کہ میرے نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور مرنا اللہ ہی کے لیے ہے جو پالنے والا سارے جہان کا ہے۔ کوئی نہیں اس کا شریک اور یہی مجھ کو حکم ہوا اور میں سب سے پہلےفرمانبردار ہوں۔ (سورۃ الانعام: ۱۶۲، ۱۶۳)

مقام منی میں وہ اس عزم کے ساتھ اپنی ازلی دشمن شیطان کو کنکریاں مارتا ہے کہ اب اگر یہ میرے اور میرے اللہ تعالیٰ کے درمیان حائل ہونے کی کوشش کرے گا تو اسے پہچاننے میں غلطی نہیں کروں گا۔ جب وہ بیت اللہ کے سامنے پہنچتا ہے تو اس کی روح اس خیال سے وجد میں آجاتی ہے کہ جس مقدس گھر کی زیارت کے لیے آنکھیں نمناک تھیں، دل مضطرب تھا وہ آج نظر کے سامنے ہے، اللہ سے لولگائے رکھنے کی یہ کیفیت حاجی کے لیے تسکین قلب اور روح کی مسرت کا باعث بنتی ہے۔ طواف کے بعد وہ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرتا ہے۔ تو گویا زبان حال سے کہتا ہے کہ اے اللہ! تیرے قرب سے حاصل ہونے والی اس قوت ایمانی کو میں تیرے دین کی سربلندی کے لیے وقف کردوں گا اور عمر بھر حضرت محمد رسول اللہ خاتم النبین ﷺ کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کروں گا۔ دل کی یہی تمنا دعا بن کر اس طرح لبوں تک آئی ہے۔

ترجمہ: اےمیرے اللہ! مجھے اپنے نبیﷺ کے طریقے پر کاربند رکھ اور اس پر عمل کرتے ہوئے مجھے اپنے پاس بلالے۔ اور نفسانی لغزشوں سے مجھے محفوظ فرمادے۔

سوال۴:حج کی جامعیت کو بیان کریں۔

جواب:حج جیسی جامع عبادت میں تمام عبادات کی روح شامل ہے۔ حج کے لیے روانگی سے واپسی تک دور ان سفر نماز کے ذریعے قرب الہیٰ میسر آتا ہے۔ حج کے لیے مال خرچ کرنا زکوۃ سے مشابہت رکھتا ہے۔ نفسانی خواہشات اور اخلاقی برائیوں سے پرہیز اپنے اندر روزے کی سی کیفیت رکھتا ہے۔ گھر سے دوری اور سفر کی صعوبت میں جہاد کا رنگ ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا ”سب سے افضل جہاد حج مبرور(مقبول) ہے“ (صحیح بخاری)۔ آپﷺ کے اسی ارشاد گرامی کے پیش نظر حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے۔ ”حج کا سامان تیار رکھو کہ یہ بھی ایک جہاد ہے۔“

سوال۵:حجِ مقبول کیا ہے؟

جواب: حج کے مذکورہ بالا اجتماعی و انفرادی فوائد سے ہم اسی صورت میں فیضاب ہو سکتے ہیں۔ جب ہمارا مقصد رضائے الہیٰ ہو۔ ہمارے سرگرمیوں کا مرکز و محور دین حق کی سر بلندی ہو اور حج کی روحانی مقاصد پر نظر جمی رہے۔ تب ہی ہمارے حج، حج مقبول و مبرور ہوسکتا ہے۔