حدیث کی تعریف اور اقسام

0
  • سبق نمبر 31

سوال۱: حدیث کے معنی بیان کریں۔ نیز اس کی اقسام درج کریں۔

جواب: حدیث کے لغوی معنی خبر یا بات چیت کے ہیں۔ شریعت اسلامی کی رو سے حدیث اس خبر کا نام ہے جس کے ذریعے ہمیں حضور صلی اللہ علیہ و علی آلہ واصحابہ وسلم کا کوئی قول، فعل یاتقریر معلوم ہو۔ اس طرح حدیث کی تین قسمیں بنتی ہیں جو درج ذیل ہیں:

حدیث قولی:

حدیث قولی وہ ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وعلی الہ واصحابہ وسلم نے کسی بات کے کرنے یا نہ کرنے کے بارے میں کچھ فرمایا ہو یا اس میں کسی معاملے میں آپ صلی اللہ علیہ وعلیٰ الہ واصحابہ و سلم کی دی ہوئی زبانی ہدایات کا تذکرہ ہو۔

حدیث فعلی :

حدیث فعلی وہ ہے جس میں راوی نے حضور صلی اللہ علیہ وعلی الہ و اصحابہ و سلم کا اختیار کردہ کوئی عمل اور طریقہ بیان کیا ہو۔

حدیث تقریری:

حدیث تقریری سے مراد وہ احادیث ہیں جن میں ایسے امور کا تذکرہ ملے جو حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ واصحابہ و سلم کے سامنے واقع ہوئے ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ و سلم نے ان پر خاموشی اختیار فرمائی ہو، اس لیے کہ اگر اس معاملے میں کوئی بات ممنوع یا قابل وضاحت ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم ضرور اس بارے میں رہنمائی فرماتے۔ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ واصحابہ وسلم کا ان اُمور پر خاموش رہنا اس کی تصدیق کے مترادف ہے.

سوال۲:سنت کے معنی بیان کریں۔

جواب: سنت کے لفظی معنی طریقے اور راستے کے ہیں خواہ اچھا ہو یا برا۔ اصطلاح شریعت میں سنت رسول کے معنی حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ واصحابہ وسلم کے اختیار کردہ اور ہدایت کردہ طریقے کے ہیں۔ جمہور محدثین کے نزدیک نبی اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم کے جملہ اقوال، افعال، تقریرات آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ واصحابہ و سلم کے اخلاق جلیلہ ، مغازی حتی کہ بخت سے قبل کے احوال بھی سنت کے ضمن میں آتے ہیں۔

سوال۳:حدیث وسنت کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

جواب:حدیث یا سنت کی شرعی حیثیت
شریعت اسلامی کی چار بنیادی ماخذ کتاب اللہ ،سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی الہ و اصحابہ وسلم ، اجماع اور قیاس ہیں۔ ان میں سنت رسول صلی اللہ علیہ وعلی الہ و اصحابہ و سلم کو دوسرا بنیادی مقام حاصل ہے۔ حدیث ” وحی ” کی وہ قسم ہے جو اللہ تعالی نے الفاظ وعبارات کے بغیر رسول صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ واصحابہ وسلم کے قلب مبارک پر نازل فرمائی۔ اس امر پر سب مسلمانوں کا اجماع ہے کہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وعلی الہ و اصحابہ و سلم کی پیروی واجب اور خلاف ورزی حرام ہے۔ اس سلسلے میں بے شمار نصوص و آیات وار ہوئی ہیں۔ یہاں اختصار کی غرض سے چند مثالیں پیش کی جاتی ہیں۔

ارشاد باری تعالی ہے:
ترجمہ: اور ہمارے رسول تمھیں جو کچھ دیں وہ لے لو اور جس چیز سے روکیں اس سے باز رہو۔(سورة الحشر:۷)
اس آیت مبارک میں حضور صلّی اللہ علیہ و علیٰ آلہ واصحابہ وسلم کے جملہ احکام و ہدایات کو قبول کرنے اور منہیات سے رک جانے کا واضح حکم دیا گیا ہے۔ گویا حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ واصحابہ و سلم کے جملہ احکام عین رضاء الہی کے مترادف ہیں۔

اس کی مزید توضیح ایک دوسری آیت مبارک سے ہوتی ہے۔ ارشاد ہے:
ترجمہ : جس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وعلی الہ واصحابہ وسلم ) کی اطاعت کی گویا اس نے اللہ کی اطاعت کی۔(سورة النساء : ٨٦)
اس کی وجہ یہ ہے کہ پیغمبر ہر قسم کی لغزش اور خطا ءسے معصوم ہوتا ہے۔ تشریعی امور میں پیغمبر کا ہر قول، عمل اور اشارہ من جانب اللہ ہوتا ہے۔ اس میں اس کی ذاتی خواہش یا وسوسہ کا احتمال نہیں ہوتا اور اسے پوری طرح تائید ربانی اور تصدیق الہی حاصل ہوتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ : وہ (ہمارا رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم ) اپنی مرضی و خواہش سے کچھ نہیں بولتا۔ وہ تو صرف وہی کچھ کہتا ہے جو انھیں ” وحی ” کے طور پر دیا جاتا ہے۔(سورۃ النجم: ۳،۲)

حدیث شریعت کا دوسرا ماخذ اور قرآن مجید کی تفسیر اور عملی تعبیر ہے۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ و علی آلہ واصحابہ و سلّم کا کام فقط آیات قرآنیہ کا سنا کر یاد کر وا دینا ہی نہیں، بلکہ پیغمبر کے فرائض منصبی میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ آیات الہٰیہ کی موقع محل کے مطابق توضیح و تشریح کرے، مختلف استعداد کے لوگوں کو ان کی ذہنی و علمی سطح کے مطابق اس کے اسرارورموز سے آگاہ کرے۔

پھر ان کو اس کے مطابق عمل کی تربیت دے اور ان کو اس راہ پر چلنے کے لیے خود عملی نمونہ دکھلائے تا کہ وہ احکام الہی کی تعمیل کے سلسلے میں افراط و تفریط میں نہ پڑ جائیں۔ نیز ان کے نفوس کا اس طرح تزکیہ کرے کہ اتباع شریعت ان کی فطرت ثانیہ بن جائے اور اس کے ہدایت یافتہ شاگرد خود دوسروں کے لیے ہدایت کے ستارے بن جائیں۔ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ واصحابہ وسلم کے انہی فرائض کا تذکرہ مندرجہ ذیل آیات میں کیا گیا ہے:
ترجمہ : اللہ وہی ہے جس نے آن پڑھ لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول مبعوث فرمایا جو ان پر اللہ کی آیتیں پڑھتا ہے اور ان (کے نفوس) کو سنوارتا ہے اور انھیں کتاب اور حکمت سکھاتا ہے۔ اگر چہ وہ اس سے پہلے صریح گمراہی میں تھے۔(سورۃ الجمعہ: ۲)

قرآن کریم میں بہت سے امور مثلاً عبادات، حلال و حرام اور معاملات وغیرہ میں مجمل اصول و قواعد بتادیے گئے ہیں اور ان کی تفصیل اور توضیح کا کام پیغمبر کے ذمے ڈال دیا گیا ہے۔ارشاد ہے:
ترجمہ: ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وعلیٰ آلہ واصحابہ وسلم پر قرآن نازل کیا تا کہ آپ صلی اللہ علیہ وعلی الہ واصحابہ و سلم لوگوں کے لیے اس چیز کی وضاحت کریں جو ان کی طرف نازل کی گئی ہے۔(سورۃ النحل:۴۲)
اسی طرح بعض بڑے جرائم اور حدود کے بارے میں تو قرآن مجید نے سزائیں بتلا دیں تاہم بقیہ جرائم کی تعزیرات کے سلسلے میں حضور صلی اللہ علیہ و علی آلہ واصحابہ وسلم کی طرف رجوع کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ارشاد ہے:
ترجمہ: نہ اگر تمھارا کسی معاملہ میں آپس میں تنازع ہو تو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وعلی الہ واصحابہ وسلم کی طرف رجوع کرو۔ ( سورة النساء: ٥٩)

اسی طرح مختلف متنازعہ امور میں حضور صلی اللہ علیہ وعلی الہ واصحابہ وسلم کو قاضی و حکم بنانے اور ان کا فیصلہ دل و جان سے تسلیم کرنے کو ایمان کا بنیاد تقاضا بتایا گیا ہے۔
سورۃ النساء آیت ۶۵ میں ارشاد ہے:
ترجمہ: تیرے رب کی قسم یہ لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک اپنے تنازعات میں آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم کو حکم اور فیصلہ کنندہ نہ بنائیں اور پھر جو فیصلہ آپ کر دیں۔ اس کے بارے میں اپنے دلوں میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں اور پوری طرح سر تسلیم خم کردیں۔

خلاصہ یہ کہ احادثت نبویہ شریعت کے بنیادی ماخذ اور قرآن مجید کی تفسیر و تشریح کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس کے بغیر قرآن مجید اور احکام الہیہ کا تفصیلی علم نا ممکن ہے اس لیے حدیث پر عمل واجب اور موجب فلاح داریں ہے اور اس کا انکار کفر کے مترادف ہے۔