حفاظت و تدوین قرآن مجید، سوالات و جوابات

0
  • سبق نمبر 28

سوال۱:قرآن مجید کی صدری حفاظت پر نوٹ تحریر کریں۔

جواب: صدری حفاظت (سینوں کے ذریعے)
صدر سینے کو کہتے ہیں۔ یہ قرآن مجید کی امتیازی شان ہے کہ اسے کتابی شکل میں محفوظ کرنے سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم اور ان کے صحابہ کرام علیہم السلام کے سینوں میں محفوظ کر دیا گیا۔ اس مقصد کے لیے قرآن مجید کو تئیس سال کے عرصے میں تھوڑی تھوڑا موقع بموقع نازل کیا جاتا رہا جیسے ہی کوئی سورت یا آیات نازل ہوتیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک بڑی تعداد اسے حفظ کرنے میں لگ جاتی اور پھر وہ بار بار آپ صلی اللہ علیہ وعلی الہ و اصحابہ و سلم کے سامنے اعادہ کر کے یہ اطمینان حاصل کرتے کہ انھوں نے صحیح طریقہ سے اسے حفظ کر لیا ہے۔

اس کے علاوہ قرآن مجید کی تلاوت نماز میں لازمی قرار دی گئی۔ قرآن مجید کی تعلیم و تعلم کے فضائل موقع بموقع بیان کیے جاتے تھے۔ نیز حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ واصحابہ وسلّم نے تمام مساجد میں قرآن مجید کی تعلیم کا انتظام فرما دیا تھا۔ بعض مکانات کو بھی مدارس قرآن مجید کی حیثیت دے دی گئی تھی۔ علاوہ ازیں بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو معلم قرآن بنا کر دور دراز علاقوں میں بھیجا جاتا تھا۔

مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم کے قریب صفہ (چبوترہ) درس قرآن کا زبر دست مرکز تھا۔ جہاں سینکڑوں مسافر طلبہ روزوشب قرآن مجید کے حفظ اور درس و تدریس میں مشغول رہتے تھے۔ انہی اسباب کی بنا پر ابتدائے اسلام ہی سے ہر چھوٹے بڑے اور مردو عورت کی توجہات کا اولین مرکز حفظ قرآن بن گیا تھا۔ جس کی بدولت قرآن مجید ان کی رگ رگ میں رچ بس گیا۔ مومنین کی اسی صفت کا ذکر قرآن مجید میں اس طرح آیا ہے:
ترجمہ: بلکہ یہ (قرآن) تو آیتیں ہیں جو اہل علم کے سینوں میں محفوظ ہیں اور ہماری آیتوں کا انکار فقط ظالم لوگ ہی کرتے ہیں۔(سورة العنكبوت: ۴۹)

مختصر یہ کہ عہد رسالت میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو مکمل قرآن مجید یا اس کے اکثر حصے زبانی یاد ہو گئے تھے اور یہی طریقہ ہمیشہ سے مسلمانوں میں چلا آرہا ہے۔ مسلمان کسی جگہ بھی ہوں، اقلیت میں یا اکثریت میں، حفاظ قرآن کی ایک بڑی جماعت ان میں موجود رہتی ہے۔
اسی متواتر اور مکمل حفظ و تعلیم کی بناء پر قرآن مجید کا ایک ایک حرف آج تک تحریف و تبدل سے محفوظ ہے اور قیامت تک محفوظ رہے گا۔

سوال۲: قرآن مجید کی ترتیب پر نوٹ تحریر کریں۔

حفاظت و تدوین قرآن مجید:

قرآن مجید بندوں کے لیے اللہ تعالی کی طرف سے نازل ہونے والی آخری کتاب ہدایت ہے۔ حکمت الہی کا تقاضا یہ تھا کہ اس سے قبل نازل ہونے والے صحیفوں کا مقررہ زمانہ گزر جانے اور ان کے منسوخ ہو جانے کے بعد اللہ تعالی کی آخری کتاب قرآن مجید کو نازل کیا جائے۔ جو قیامت تک انسانوں کے لیے اللہ تعالی کا آخری مکمل اور ناقابل تنسیخ ہدایت نامہ ہو۔ قرآن مجید کی اس اہمیت اور امتیازی شان کے پیش نظر ضروری تھا کہ اس کی حفاظت اور بقاءکا پورا پورا انتظام کیا جائے۔ چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کی حفاظت کی ذمہ داری خود لی اور قیامت تک کے لیے اس کے ایک ایک حرف کی حفاظت کا انتظام کر دیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: بے شک ہم ہی نے قرآن کو اتارا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔(سورۃ الحجر:۹)
للہ تعالی کی جانب سے قرآن مجید کی حفاظت کے لیے جو انتظامات فرمائے گئے ان میں سے دو اہم طریقے صدری حفاظت اور کتابی حفاظت کے ہیں۔

سوال۳: قرآن مجید کی کتابی حفاظت پر نوٹ تحریر کریں۔

کتابی حفاظت:

عرب ظہور اسلام سے قبل اُمی تھے۔ ان میں لکھنے پڑھنے کا رواج بالکل نہ تھا۔ بلکہ ان کا سارا دارو مدار حافظہ اور روایت پر تھا۔ اس لیے ان میں نہ تو لکھنے والے موجود تھے، نہ لکھنے کے سامان کا کوئی انتظام تھا۔ یہ قرآن مجید کا اعجاز ہے کہ نزول قرآن سے کچھ عرصہ قبل عرب لکھنے لکھانے کی طرف متوجہ ہوئے۔ چنانچہ بعثت نبوی کے وقت مکہ مکرمہ میں صرف ۱۷ (سترہ) افراد ایسے تھے جو لکھنے کے فن سے واقف تھے۔ ان میں سے بعض ابتدائے اسلام ہی میں مشرف بہ اسلام ہو گئے تھے۔ جس کی وجہ سے شروع ہی سے قرآن مجید کی کتابت کا پورا انتظام وجود میں آچکا تھا۔ خود قرآن مجید کی اولین نازل شدہ آیات (سورۃ علق کی ابتدائی پانچ آیات) میں تعلیم بالقلم کو ایک بڑی نعمت قرار دیا گیا اور قرآن مجید کو ایک لکھی ہوئی کتاب کی حیثیت سے متعارف کرایا گیا۔ سورۃ طور کی ابتدائی آیات میں فرمایا گیا:
ترجمہ:قسم ہے طور (پہاڑ) کی اور اس کتاب کی جو لکھی ہوئی ہے کشادہ اوراق میں۔(سورۃ الطور: ۱،۲،۳)

چونکہ کاغذ کا رواج نہ تھا، اس لیے کتابت قرآن مجید کے لیے جو چیزیں استعمال کی گئیں ان میں اونٹ کے شانے کی چوڑی ہڈیاں تختیاں، کھجور کی شاخوں کے ڈنٹھل، باریک سفید پتھر کے کھڑے، کھال یا پتلی جھلی کے ٹکڑے اور چمڑے کے ٹکڑے وغیرہ شامل تھے۔ جو نہی کوئی سورة نازل ہوتی۔ حضور صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ و سلم کاتبین وحی میں سے کسی کو بلا کر حکم فرماتے کہ اس آیت کو اس سورت میں درج کرو جس میں فلاں بات کا ذکر ہے۔ اس طرح نازل شدہ آیات کے صحیح مقام سے آگاہ فرما کر ان کی کتابت کروالیتے تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حفظ کے علاوہ اس قسم کے صحیفے اپنے پاس رکھتے اور تلاوت کے لیے سفر میں ساتھ لے جایاکرتے۔

اگر چہ قرآن مجید کی تمام آیات کریمہ حضور صلی اللہ علیہ و علی آلہ واصحابہ وسلم نے اپنے کاتبوں سے لکھوائی تھیں۔ تاہم انھیں ایک مصحف میں جمع نہیں فرمایا تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قرآن مجید کی کئی سورتوں کا نزول بیک وقت جاری رہتا، نزول کی ترتیب اس طرح نہیں تھی جس طرح آج قرآن مجید ہمارے پاس لوح محفوظ کی ترتیب کے مطابق موجود ہے۔ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ واصحابہ و سلم نے نزول قرآن کے زمانے میں ایک مصحف میں کتابی شکل میں آیات مبارکہ کو جمع نہیں فرمایا۔ البتہ ہر سورت اور آیت کا صحیح مقام بنا کر اس کے مطابق حفظ اور مختلف اشیاء پر کتابت کروا کر امت کے حوالے کر دیا۔