عہدِ صدیقی و عہدِ عثمانی میں قرآن کی جمع و تدوین

0
  • سبق نمبر 29

سوال۱:عہدِ صدیقی میں قرآن کی جمع و تدوین پر نوٹ لکھیں۔

جمع و تدوین قرآن مجید حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد میں:

جس طرح قرآن مجید حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ واصحابہ وسلم کے بتائے ہوئے الفاظ اور ترتیب کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ واصحابہ وسلم کی حیات طیبہ میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سینوں میں محفوظ ہوا۔ اسی طرح نزول کی تکمیل اور آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ واصحابہ وسلم کی رحلت کے فوراً بعد کتابی صورت میں جمع ہونے کا انتظام بھی اللہ تعالیٰ نے فرما دیا۔ اس مہم کی طرف سب سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی توجہ اس وقت مبذول ہوئی جب جنگ یمامہ میں کئی سو حفاظ و قراء شہید ہو گئے۔ اس پر انھوں نے خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے درخواست کی کہ :

ترجمہ : میری رائے یہ ہے کہ آپ قرآن مجید کو کتابی صورت میں جمع کرنے کا حکم فرمائیں۔
شروع میں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ اس بار عظیم کا اٹھانے کے حق میں نہ تھے۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم نے خود ایسا نہیں کیا تو ہمارے لیے ایسا کام کرنا کب درست ہو سکتا ہے۔ مگر بعد میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بار بار توجہ دلانے سے ان پر یہ بات واضح ہو گئی کہ کتابت قرآن مجید تو عین سنت نبوی ہے اور یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ واصحابہ وسلم خود مختلف اشیاء پر قرآن مجید کی کتابت کروا چکے ہیں۔ اس لیے اس کاایک مصحف میں جمع کرنا عین منشاء نبوی کے مطابق ہے۔

جب اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم اس رائے پر متفق ہو گئے تو کاتب وحی حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو اس خدمت کے انجام دینے پر مامور کیا گیا۔ آپ رضی اللہ عنہ اگر چہ حافظ قرآن تھے اور ان کے پاس اپنا مصحف بھی موجود تھا۔ تاہم فقط یاداشت کی بنیا د پر قرآن مجید کو جمع کرنے کی بجائے طریقہ یہ مقرر کیا گیا کہ جن لوگوں کے پاس مختلف نوشتے تھے۔ ان سے منگوا کر دو گواہوں کے سامنے یہ شہادت کی جاتی کہ یہ نوشتہ حضور صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم کے روبر و لکھا گیا ہے۔

کتابت قرآن کے لیے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی سربراہی میں ۷۵ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مستقل کمیٹی بنائی گئی تھی جن میں ۲۵ مہاجر اور ۵۰ انصاری صحابہ شامل تھے۔ حضرت سعید بن العاص رضی اللہ عنہ کی فصاحت اور لہجہ حضور صلی اللہ علیہ وعلی الہ وا صحابہ و سلم سے مشابہ تھا۔ اس لیے املا کا کام ان کے ذمے ڈالا گیا۔ اس طرح اجماع صحابہ سے قرآن مجید کا نسخہ تیار کر کے اُم المومنین حضرت خفصہ رضی اللہ عنہا کے ہاں رکھ دیا گیا۔

سوال۲: عہدِ عثمانی میں قرآن کی جمع و تدوین پر نوٹ لکھیں۔

جمع و تدوین قرآن مجید حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد میں:

عرب کے مختلف قبائل، لہجے اور بعض لغات کے لحاظ سے ایک دوسرے سے قدرے مختلف تھے۔ ہجرت کے بعد جب مختلف عرب قبائل مشرف بہ اسلام ہونے لگے تو لغات اور لہجوں کے اختلاف کی وجہ سے ان کے لیے قریشی لہجے میں قرآن کی تلاوت کر نادشوار تھا۔ اس لیے اللہ تعالی کی جانب سے مختلف احرف( لہجوں) میں قرآن مجید پڑھنے کی اجازت دے دی گئی اور حضور صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ و سلم نے فرمایا:
ترجمہ: بے شک یہ قرآن سات احرف( لہجوں) سے نازل ہوا ہے۔ پس ان میں سے اس لہجہ سےپڑھوجو تمھارے لیے آسان ہو۔

اس طریقے پر نزول قرآن حضور صلی اللہ علیہ وعلی الہ واصحابہ وسلم کی مدنی زندگی کے اواخر تک ہوتا رہا۔ زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ جب اسلامی خلافت کی حدود وسیع تر ہو گئیں تو مختلف احرف سے قرآن مجید کی قرأت سے بعض اوقات الجھنیں اور غلط فہمیاں پیدا ہونے لگیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے کبار صحابہ کو جمع کر کے اس خطرے سے آگاہ کیا اور فرمایا “اے محمد رسول اللہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ و سلم کے ساتھیو! تم جمع ہو کر لوگوں کے لیے ایک رہنما اور امام مصحف لکھو”۔

حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ دوبارہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متفرق نوشتوں سے قرآن کریم کو جمع کریں اور جس جگہ لہجےکا اختلاف ہو وہاں لغت قریش کو معیار مانا جائے۔ کیونکہ قرآن لغت قریش پر ہی نازل ہوا۔ اس طریق پر جب مصحف کی کتاب ۲۴ھ کے اواخر اور ۲۵ھ کے اوائل کے زمانہ میں مکمل ہو گئی توحضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عہد کا جمع کردہ مصحف منگوایا اور اس سے لفظ بلفظ تقابل اور اطمینان حاصل کر لینے کے بعداس کی پشت پر یہ عبارت لکھی گئی۔
ترجمہ : یہ وہ نسخہ قرآن ہے جس پر حضور صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم کے صحابہ کی جماعت نے اجماع و اتفاق کیا ہے۔

اس مصحف کو ” مصحف امام ” کا نام دیا گیا اور اس کی سات نقلیں کر اکر مکہ مکرمہ ، شام، یمن، بحرین، بصرہ، کوفہ اور مدینہ منورہ جیسے مرکزی مقامات پر رکھوا دی گئیں۔ اس طرح حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی انتھک محنت کے باعث قرآن مجید ایک ہی لیجیے اور لغت پر ساری دنیا میں رائج ہوا۔