ملائکہ اور آسمانی کتابوں کا بیان، سوالات و جوابات

0
  • سبق نمبر 07

سوال۱: ملائکہ سے کیا مراد ہے؟ نیز کراماً کاتبین کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟

جواب:ملائکہ کا لفظ جمع ہے، اس کا واحد ”ملک“ ہے جس کے لفظی معنی پیغام رساں کے ہیں چونکہ فرشتے اللہ تعالیٰ کے احکام بندوں تک لاتے اور نافذ کرتے ہیں اس لیے انھیں ملائکہ کہا جاتا ہے۔ فرشتےنورانی مخلوق ہیں اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے ہیں۔
ملائکہ یا فرشتوں پر ایمان لانا، دین کے بنیادی عقائد میں شامل ہے۔ ملائکہکے وجود اور ان کے ناموں کے بارے میں قرآن مجید میں متعدد آیات ملتی ہیں۔ جس سے معلوم ہوتا ہےکہ یہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی تابع مخلوق ہے اور ان سے گناہ یا خطا کا صددر ممکن نہیں۔ تخلیق انسانی کے وقت بھی فرشتے موجود تھے۔

اسی طرح ہر انسان کے اعمال کی نگرانی کےلیے اللہ تعالیٰ نے فرشتے مقرر کردیے ہیں۔ جو اس کے ہر چھوٹے بڑے عمل کو محفوظ کرتے جاتے ہیں۔ جو کہ قیامت کے دن اعمال ناموں کی شکل میں ہی ہر شخص کے سامنے پیش کر دیے جائیں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
ترجمہ: بے شک تم پر نگران (فرشتے) مقرر کیے گئے ہیں۔ بہت معزز اور تمہارے اعمال لکھنے والے۔ (سورۃ الانفطار: ۱۰،۱۱)

اسی طرح ارشاد ہے:
ترجمہ: جو لفظ بھی اس (انسان ) کے منہ سے نکلتا ہے اس کو محفوظ کرنے کے لیے ایک چست نگران(فرشتہ) موجود ہے۔(سورۃ ق: ۱۸)
اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے عرش کو اٹھانے،انسانوں کے اعمالنامے پیش کرنے، جہنم میں مجرموں کو سزادینے اور جنت میں نیکوکاروں کی خدمت کرنے کے جملہ امور مختلف فرشتوں کے سپرد ہیں۔

سوال۲: مشہور ملائکہ کے نام اور کام پر نوٹ لکھیں۔

جواب:ملائکہ میں چار فرشتے بہت مشہور ہیں۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے پاس وحی الہیٰ لانے کا کام کرتے رہے ہیں۔ حضرت میکائیل علیہ السلام کے ذمے بارشوں اور ہواؤں کے نظام کی نگرانی ہے۔ ملک الموت حضرت عزرائیل علیہ السلام کے ذمے جان دارمخلوقات کی ارواح قبض کرنا ہےجب کہ حضرت اسرافیل علیہ السلام کے ذمے قیامت برپا کرنے اور پھر مردوں کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے اللہ کے حکم سے صورپھونکنا ہے۔

سوال۳: کن قرآنی واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ فرشتے جسمانی شکل بھی اختیار کرسکتے ہیں؟

جواب: ترجمہ: ایسے پیغام رسواں(فرشتے) موجود ہیں جن کے دو دو تین تین اور چار چار بازو ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کی ساخت میں جیسا چاہے اضافہ کرتا ہے۔(سورۃ فاطر: ۱)
فرشتے نورانی مخلوق ہیں البتہ یہ حسب ضرورت مختلف جسمانی شکلیں اختیار کر سکتے ہیں۔ جیسا کہ قرآن مجید میں حضرت مریم علیہا السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کے واقعات سےمعلوم ہوتا ہے کہ فرشتے مختلف انسانی شکلوں میں ظاہر ہوئے۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام بعض اوقات حضور ﷺ کی مجلس میں انسانی شکل میں ظاہر ہوئے۔

سوال۴: فرشتوں پر ایمان لانے سے کیا ہوتا ہے؟

جواب: فرشتوں پر ایمان لانے سے اللہ تعالیٰ کی عظمت کا شعور بڑھتا ہے۔ اس کے قائم کردہ عظیم الشان نظام اور بے پایاں رحمتوں کا احساس ہوتا ہے۔فرشتوں کی موجودگی پر ایمان کی وجہ سے انسان کو یہ احساس رہتا ہے کہ میرے ہر چھوٹے بڑے عمل کی نگرانی کی جا رہی ہے۔ اسی طرح میدان جہاد اور دین کے مشکل کاموں میں فرشتوں کی تسلیاں ثابت قدمی کا باعث اور ان کی دعائیں انسانوں کی مغفرت کا ذریعہ بنتی ہیں۔

سوال۵: آسمانی کتابوں پر مفصل تبصرہ کریں۔

جواب: پہلے بتایا جا چکا ہے کہ مسلمان ہونے کے لیے ضروری ہے کہ تمام رسولوں پر ایمان لایا جائے۔ رسولوں پر ایمان لانے کا مفہوم یہ ہےکہ انھیں اللہ تعالیٰ کا سچا پیغمبرمانا جائے اور ان کی تعلیمات کو برحق تسلیم کیا جائے۔ رسولوں پر نازل ہونے والی کتابیں، ربانی تعلیمات کا مجموعہ ہوتی ہیں۔ لہٰذا رسولوں پر ایمان لانے کے لیے لازم ہے کہ ان پر نازل ہونے والی کتابوں پر بھی ایمان لایا جائے۔ ایمان والوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

  • ترجمہ: اور وہ لوگ جو ایمان لاتے ہیں اس پر جو نازل ہوا تیری طرف، اور اس پر جو نازل ہوا تجھ سے پہلے۔
  • کل آسمانی کتابیں بہت سی ہیں جن میں سے چار بہت مشہور ہیں۔
  • تورات جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی۔
  • زبورجو حضرت داؤد علیہ السلام پر نازل ہوئی۔
  • انجیل جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی
  • قرآن مجیدجو حضرت محمد رسولﷺ پر نازل ہوا۔
  • ان کے علاوہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت آدم علیہ السلام اور دوسرے انبیاء کرام علیہم السلام کے صحیفے بھی تھے ان تمام کتابوں میں دین کی بنیادی باتیں مشترک تھی۔

جیسے اللہ تعالیٰ کی توحید، اس کی صفات کاملہ، اللہ تعالیٰ کی عبادت، رسالت پر ایمان،یوم آخرت پر ایمان اور اعمال کی جزا و سزا، مگر چونکہ ہر دورمیں وقت کے تقاضے مختلف ہوتے ہیں اس لیے شریعت کے تفصیلی قوانین ان کتابوں میں جداجدا تھے۔ بعد میں آنے والی کتابوں نے پہلی کے تفصیلی قوانین کو منسوخ کر دیا۔ اور اب صرف قرآن کے بتائے ہوئےقوانین پر عمل کرنا لازم ہے،پہلی کتابوں کے بتائے ہوئے قوانین پر نہیں۔ پہلی کتابوں پر ایمان لانے کا اب مطلب یہہے کہ وہ بھی سچی کتابیں تھیں اور ان کے بیان کردہ قوانین پر ان کے زمانے میں عمل کرنا ضروری تھا۔ مگر اب صرف قرآنی ہدایات ہی پر عمل کیا جائے گا۔

سوال۶:چار مشہور آسمانی کتابوں کے نام بتائیں اور وہ کن پر نازل کی گئی تھیں؟

  • جواب: چار مشہور آسمانی کتابوں کے نام درج ذیل ہیں :
  • تورات جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی۔
  • زبور جو حضرت داؤد علیہ السلام پر نازل ہوئی۔
  • انجیل جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی
  • قرآن مجید جو حضرت محمد رسولﷺ پر نازل ہوئی۔

سوال۷: آخری آسمانی کتاب کی خصوصیات کو وضاحت کے ساتھ بیان کیجیے۔

آخری آسمانی کتاب:

قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی آخر کتاب ہے جو آخری پیغمبر حضرت محمد رسول اللہ خاتم النبینﷺ پر نازل ہوئی۔ اور قیامت تک کے تمام انسانوں کے لیے، یہ سرچشمہ ہدایت ہے۔ قرآن مجید کی چند اہم خصوصیات یہ ہیں:

محفوظ ہونا:

چونکہ قرآن مجید قیامت تک کے ہر دور اور ہر قوم کے انسانوں کے لیے رشد و ہدایت کاذریعہ ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا خاص وعدہ فرمایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ:”ہم نے خود اتاری ہے یہ نصیحت اور ہم خود اس کے نگہبان ہیں۔“ (سورۃ الحجر:۹)
یہی وجہ ہے کہ چودہ سو سال گزرنے کے باوجود قرآن مجیدکا ایک ایک لفظ محفوظ ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی حفاظت کا ایسا کر دیا گیا ہے، کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تحریف سےمحفوظ ہو گیا ہے۔ جس کہ دوسری آسمانی کتابوں میں بڑا رد و بدل ہوچکا ہے۔ ان کا بہت سا حصہ ضائع ہو چکا ہے اور جو باقی بچا اس میں بھی لوگوں نے اپنی طرف سے کئی باتیں شامل کردیں۔ اب یہ کتابیں کہیں بھی اصل شکل میں دستیاب جب کہ قرآن مجید اپنی خالص شکل میں اب تک موجود ہے اور ہمیشہ موجود رہے گا۔

قرآن مجید کی زندہ زبان:

قرآن مجید جس زبان میں نازل ہوا، وہ ایک زندہ زبان ہے۔ آج بھی دنیا کے بیس سے زیادہ ممالک کی قومی زبان عربی ہے اور یہ زبان دنیا کی چند بڑی زبانوں میں سے ایک ہے۔ جب کہ پہلی آسمانی کتابیں جن زبانوں میں نازل ہوئیں وہ مردہ ہو چکی ہیں۔ جن کو سمجھنے والے بہت کم لوگ ہیں۔

عالمگیر کتاب:

باقی آسمانی کتابوں کے مطالعے سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ صرف کسی ایک خاص ملک یا خاص قوم کے لوگوں کے لیے تھیں۔ مگر قرآن مجید سارے دنیائے انسانیت کے لیے پیغام ہدایت ہے۔یہ کلام پاک یایھاالناس (اےلوگو) کا خطابکرکےتمام انسانوں کو ہدایت کا پیغام دیتا ہے۔یہ ایک عالمگیر کتاب ہے، جس کی تعلیمات ہر دور اور ہر ملک میں قابل عمل ہیں۔
اس کتاب کی تعلیمات فطری ہیں۔ اس لیے کہ ہر دور کا انسان یوں محسوس کرتا ہے۔ جیسے یہ اسی کے دور کے لیےنازل ہوئی ہے۔ کیونکہ اس کی تعلیمات ہر قوم اور ہر طرح کے ماحول میں بسنے والے افراد کے لیے یکساں طور پر نفع بخش اور عقل کے عین مطابق ہیں۔

جامع کتاب:

پہلی آسمانی کتابوں میں سےکچھ کتابیں صرف اخلاقی تعلیمات پر مشتمل تھیں۔ بعض صرف مناجات اور دعاؤں کا مجموعہ تھیں۔ کچھ صرف فقہی مسائل کا مجموعہ تھیں۔ بعض میں صرف عقائد کا بیان تھا اور بعض صرف تاریخی واقعات کا مجموعہ تھیں مگر قرآن مجید ایسی جامع کتاب ہے جس میں ہر پہلو پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اس میں عقائد و اعمال کا بیان بھی ہے۔ اخلاق و روحانیت کا درس بھی، تاریخی واقعات بھی ہیں اور مناجات بھی۔ غرضیکہ یہ ایسی کتاب ہے جو زندگی کے ہر پہلو میں رہنمائی کرتی ہے۔

عقل و تہذیب کی تائید کرنے والی کتاب:

پہلی آسمانی کتابوں میں سے بعض کتابیں ایسی باتوں پر بھی مشتمل ہیں جو حقیقت کے خلاف ہیں بلکہ بعض کتابوں میں انتہائی ناشائستہ، غیر اخلاقی باتیں بھی پائی جاتی ہیں(ظاہر ہے یہ باتیں جعلی ہیں جو کسی نے اپنی طرف سے شامل کر دی ہیں) جب کہ قرآن مجید ایسی تمام باتوں سے پاک ہے۔ اس میں کوئی بات نہیں جو خلاف عقل ہو اور جسے تجربہ اور دلیل سے غلط ثابت کیا جاسکے۔ اس میں کوئی غیر اخلاقی بات نہیں۔اس نے تمام انبیاء کرام علیہم السلام کا ادب و احترام سکھایا ہے اور سب کے بارے میں بتایا ہے کہ وہ نیک کار اور پرہیزگار لوگ ہیں۔ ان کی شان کے خلاف جتنی بھی باتیں کہی گئی ہیں، سب جھوٹ اور خلاف واقعہ ہیں۔

قرآن مجید کا اعجاز:

قرآن مجید فصاحت و بلاغت کا وہ شاہکار ہے جس کا مقابلہ کرنے سے عرب و عجم کے تمام فصیح و بلیغ عاجز رہے۔ قرآن مجید میں سب مخالفوں کو دعوت دی گئی ہے کہ ایک چھوٹی سی قرآن سورت کے مقابلے میں کوئی سورت بنالائیں مگر کوئی بھی اس کی مثال پیش نہ کر سکا۔ کیونکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کا کلام ہے، کسی بندے کا بنایا ہوا کلام نہیں۔پھر کوئی بشر اس کا مقابلہ کیسے کر سکتا ہے۔