تدوین احادیث کے تین ادوار، سوالات و جوابات

0
  • سبق نمبر 32

سوال۱: تدوین احادیث کے تینوں ادوار کا تفصیلی ذکر کریں۔

تدوین حدیث:

ظہور اسلام کے وقت کتابت اور لکھنے پڑھنے کا رواج عربوں میں نہ ہونے کے برابر تھا۔ گنے چنے افراد فن کتابت سے واقف تھے، جن میں سے اسلام قبول کرنے والے حضرات سے قرآن مجید کی وقتاً فوقتاً نازل ہونے والی آیات کی کتابت کی خدمت لی جاتی تھی جب کہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ واصحابہ وسلم کے سلسلے میں عام طور پر زبانی روایت اور قوت حافظہ کو استعمال میں لایا جاتا تھا۔

پہلا دور:

جب ہم ذخیرہ احادیث پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں دو قسم کی احادیث ملتی ہیں۔ ایک تو وہ جن میں حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ واصحابہ وسلم نے کتابت حدیث سے منع کر دیا تھا اور دوسری قسم وہ ہے جس میں کتابت حدیث کی نہ صرف اجازت ہے بلکہ خود حضور صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم کے حکم سے لکھے گئے احکام و فرامین بھی ملتے ہیں۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ شروع میں حدیث کے سلسلے میں کتابت سے ممانعت کا حکم کئی مصالح اور حکمتوں پر مبنی تھا۔

پہلی وجہ یہ تھی کہ کتابت کا فن عام نہ تھا اس لیے حفظ حدیث پر زور دیا گیا تا کہ زیادہ لوگ اس سے مستفید ہو سکیں اور ان کی قوت حافظہ بھی ضائع ہونے کی بجائے مزید ترقی کرے۔ دوسرا مقصد یہ تھا کہ قرآن مجید کی طرف توجہ زیادہ رہے تا کہ یہ دلوں میں راسخ ہو جائے اور قرآن مجید کے ساتھ حدیث یکجا لکھنے کی اس لیے بھی مانعت کی گئی کہ قرآن اور حدیث کے الفاظ آپس میں خلط ملط نہ ہو جائیں چونکہ سامان کتابت زیادہ ترقی یافتہ نہ تھا۔اور دائرہ کتابت چند افراد تک محدود تھا۔ اس لیے قرآن و حدیث کے الفاظ کے التباس کا خدشہ ہو سکتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و علی الہ واصحابہ وسلّم نے فرمایا:
قرآن کے سوا مجھ سے سن کر کچھ نہ لکھو، جس نے قرآن کے سوا کوئی چیز مجھ سے لکھی ہو اسے مٹادے۔ ( صحیح مسلم پر وایت ابو سعید خدری)
تا ہم یہ احکام درج بالا مصالح کے تحت وقتی طور پر دیے گئے تھے۔

دوسرا دور:

جب حالات بہتر ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم نے کتابت حدیث کی اجازت دے دی۔ جس کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔ مثلاً حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ شروع میں صرف حفظ حدیث کے قائل تھے مگر بعد میں انھوں نے اپنی تمام مرویات کو تحریری طور پر محفوظ کر لیا تھا۔ جب کسی قسم کا شک وشبہ پیدا ہو تا تو اس مجموعے سے اس کی تصدیق کرتے۔

عمرو بن امیہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک حدیث پر گفتگو ہوئی تو وہ میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے گھر لے گئے اور اہمیں احادیث کی کتابیں دکھائیں اور کہا دیکھو وہ حدیث میرے پاس لکھی ہوئی ہے۔ بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ذاتی مجموعہ ہائے احادیث کے علاوہ حضور صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ واصحابہ و سلم کے بہت سے معاہدات، صلح نامے، احکامات اور خطوط وغیرہ بھی ضبط تحریر میں لائے گئے۔

مثلاً صلح حدیبیہ کا معاہدہ، شاہان مصر، روم و ایران کے نام خطوط یا فتح مکہ کے بعد جو خطبہ آپ صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ واصحابہ و سلم نے دیا تھا۔ ابوشاہ یمنی کی درخواست پر انھیں لکھوا دیا تھا۔ حاکم یمن عمرو بن حزام کو تقرری کے وقت ایک تحریر لکھائی تھی جس میں فرائض، صدقات، طلاق، صلوۃ وغیرہ کے متعلق ضروری احکام تھے۔

تیسرا دور:

عہد صحابہ رضی اللہ عنہم کے بعد تابعین کے دور میں بھی عام طور پر زیادہ توجہ حفظ حدیث کی جانب رہی۔ تاہم چونکہ لکھنے کا فن عام ہو رہا تھا اس لیے اکثر لوگ اپنی ذاتی سعی سے بعض نوشتے لکھنے لگے تھے۔ یہ دور پہلی صدی ہجری کے اواخر تک جاری رہا۔

یہ صحابہ اور اکابر تابعین کا دور تھا۔ اس کے بعد دوسرا دور اس وقت شروع ہوتا ہے جب ۹۹ھ میں حضرت عمر بن عبد العزیز خلیفہ بنے۔ اس وقت تقریباً تمام صحابہ رضی اللہ عنہم دنیا سے کوچ کر چکے تھے۔ بزرگ تابعین بھی اُٹھتے جارہے تھے اس لیے آپ رضی اللہ عنہ نے حفاظت حدیث کی نیت سے تمام کے نام فرامین بھیجے کہ احادیث نبویہ کو تلاش کرکے جمع کر دیا جائے۔ یہ حکم بھی دیا کہ احادیث کے ساتھ خلفاء راشدین کے آثار کو بھی جمع کر لیا جائے۔ تاکہ احکام شریعت پر علمد ر آمد کی مثالیں بھی محفوظ ہو جائیں۔

آپ کے ان فرامین کا بہت اچھا نتیجہ نکلا اور جن لوگوں نے اس کا اثر قبول کیا ان میں حجاز و شام کے مشہور عالم محمد بن مسلم بن شہاب زہری (متوفی ۱۲۴ھ ) بھی تھے۔ انھوں نے دن رات محنت کر کے احادیث کی ایک کتاب مرتب کی جس کی نقلیں کروا کر حضرت عمر بن عبد العزیز نے مختلف بلاد میں بھجوائیں۔ ان کے علاوہ مدینہ میں سعید بن المسیب، کوفہ میں امام شعبہ اور شام میں مکحول جیسے علماء موجود تھے۔

انھوں نے حدیث کی تدوین و اشاعت میں زبر دست حصہ لیا۔ ان کے بعد ان کے شاگردوں نے اس کام کو مزید وسیع کر دیا۔ اس کے بعد احادیث کی چھان پھٹک، فقہی ترتیب اور تدوین و ترتیب کے کام پر پورے عالم اسلامی میں توجہ دی گئی اور کئی ایک ضخیم و مستند اور منظم و مرتب کتب حدیث وجود میں آئیں جن میں صحاح ستہ زیادہ مشہور ہو ئیں جو مدتوں سے درسی کتابوں کے طور پر عالم اسلامی میں مستعمل ہیں اور اس کی شرح وحواشی اور تنقیح و تشریح کے سلسلے میں ہر دور میں گراں قدر خدمات انجام دی گئی ہیں۔

سوال۲:صحاح ستہ اور ان کے مصنفین کے نام مع ان کے سن وفات لکھیں۔

  • جواب: صحاح ستہ (حدیث کی چھ مشہور کتابوں) اور اُصول اربعہ اور ان کے مصنفین کی فہرست درج ذیل ہے:۔
  • ۱:صحیح بخاری: امام ابو عبد اللہ حمد بن اسمعٰیل بخاریؒ (۱۹۴ تا ۲۵۶ ہجری)
  • ۲: صحیح مسلم : امام مسلم بن حجاج بن مسلم قشیریؒ۔ (ف ۲۶۱ ہجری)
  • ۳: جامع الترمذی: امام ابو عیسیٰ، محمد بن عیسیٰ الترمذیؒ (ف ۲۷۹ ہجری)
  • ۴: سنن ابی داؤد: امام ابو داؤد سلیمان بن اشعثؒ (ف ۲۷۵ ہجری)
  • ۵:سنن النسائی: امام ابو عبد الرحمٰن احمد بن علی النسائیؒ۔ (ف۳۰۳ ہجری)
  • ۶: سنن ابن ماجہ: امام ابو عبد الله محمد بن یزید ابن ماجہ القزدینیؒ (ف ۲۷۳ ہجری)
  • سوال۳:اصول اربعہ اور ان کے مصنفین کے نام مع ان کے سن وفات لکھیں۔
  • جواب: اصولِ اربعہ :
  • مندرجہ چار کتابیں فقہ جعفریہؒ کی مستند ترین زخائر حدیث ہیں۔
  • ۱: الکافی: ابو جعفر محمد بن یعقوب الکلینیؒ (ف۳۳۹ ہجری)
  • ۲:من لا یحضره الفقیہ: ابو جعفر محمد علی بن بابویہ قمیؒ (ف ۳۸۱ ہجری)
  • ۳: الاستبصار: ابو جعفر محمد بن الحسن الطوسیؒ (ف ۴۶۰ ہجری)
  • ۴: تہذیب الاحکام : ابو جعفر محمد بن الحسن الطوسیؒ (ف ۴۶۰ ہجری)