روزے کا مفہوم، فضیلت اور فوائد، سوالات و جوابات

0
  • سبق نمبر 11

سوال۱: عملی زندگی میں روزے کے فوائد بیان کریں۔

جواب:یوں تو روزہ انفرادی عبادت ہے لیکن اس کے درج ذیل اجتماعی فوائد بھی ہیں:
مہینہ بھر بھوکا پیاسا رہ کر انسان کو دوسرے کی بھوک پیاس کا احساس ہوتا ہے اور دل میں ناداروں کےلیے ہمدردی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔

کم سے کم غذا پر اکتفاء کی عادت، انسان میں قناعت و ایثار کی صفات پیدا کرتی ہے۔
ایک ہی وقت میں پوری ملت اسلامیہ کا ایک عبادت میں مصروف رہنا، باہمی یگانگت کے فروغ کا سبب بنتا ہے۔ اس اعتبار سے نبی کریمﷺ نے ماہ رمضان کو مواسات اور غمگساری کا مہینہ قرار دیا ہے۔ ایک ماہ تک دن کے بڑے حصے میں معدے کا خالی رہنا صحت جسمانی کے لیے مفید ہوتا ہے۔

سوال۲: روزے کے کیا معنی ہیں ؟

جواب: روزہ اسلام کا بنیادی ارکان میں سے ہے۔ روزہ کےلیے قرآن و حدیث میں صوم کا لفظ استعمال ہوا ہے۔جس کے معنی اپنے آپ کو روکنا ہے۔ اصطلاح شریعت میں روزے سے مراد ”صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے بعض مخصوص امور کی سر انجام دہی اور کھانے پینے سے اپنے آپ کو روکے رکھنا“ ہے جو روزے کے علاوہ دوسرے ایام میں جائز ہے۔

سوال۳: ضبطِ نفس کے متعلق لکھیں؟

جواب: انسان کو نیکی کے راستے، اور برائی کے راستے پر ڈالنے والی اہم چیز خواہش نفس ہے۔خواہشات اگر اللہ تعالیٰ کے تابع رہیں تو انسان کی انفرادی اور اجتماعی خوبیوں کے فروغ کا سبب بنتی ہے۔لیکن جب خواہشات نفسانی ہدایت زبانی کے تابع نہیں رہتیں، تو انسان کا حیوانی سطح سے بھی گرادیتی ہیں۔ روزے کا اصل مقصد انسان کی خواہشات کو احکام الہیٰ کے تابع کرکے اسے متقی بنانا ہے۔جو شخص ہر سال، اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی خاطر پورا مہینہ اپنی بنیادی خواہشات پر قابو پانے کی مشق کامیابی سے مکمل کرلے تو اسے ضبط نفس کی وہ قوت حاصل ہو جاتی ہے جس سے وہ شیطان کی ہر ترغیب کا آسانی سے مقابلہ کر سکتا ہے۔

جب ایک انسان رمضان المبارک کے پورے مہینے میں کھانے، پینے اور نفسانی خواہشات پر قابو رکھتا ہے۔ نیز دیگر اخلاقی برائیوں سے اجتناب کرتے ہوئے اپنا اکثر وقت عبادات ورنیک کاموں میں گزارتا ہے تو اس کی طبیعت میں نیکی کا ذوق پیدا ہو جاتا ہے اور اسے بدی سے نفرت ہو جاتی ہے۔ روزہ خواہشات نفسانی پر قابو پانے کی تربیت کے ساتھ ساتھ انسان کی انانیت(خود پسندی) کا بھی مؤثر علاج ہے۔

جب انسنا روزے میں بھوک اور پیاس کی شدت کے باوجود، کھانے پینے کی اشیاء پاس ہوتے ہوئے بھی، کچھ کھاپی نہیں سکتا، تو اسے اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی بے چارگی کا احساس ہوتا ہے اور یہ احساس جب دائمی کیفیت بن جائے، تو انسان میں ہر خلاف شریعت عمل سے رک جانے کی صلاحیت پیدا کردیتا ہے۔ نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا ہے: ”ایمان اور احتساب کے ساتھ رکھے گئے روزوں سے پچھلے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔“ اور یہ بھی فرمایا کہ ”بہت سے روزے دار ایسے ہیں کہ جن کو اپنے روزوں سے بھوک اور پیاس کی اذیت کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔“آپﷺ نے مزید فرمایا ہے کہ:
ترجمہ: اگر کوئی شخص روزہ رکھ کر بھی جھوٹ اور غلط کاریوں سے نہیں بچتا تو اس کا کھانا پینا چھڑانے سے اللہ کو کوئی دلچسپی نہیں۔ (بخاری)

سوال۴:قرآن کی روشنی میں روزوں کے متعلق بیاں کریں؟

جواب:ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: مہینہ رمضان کا ہے جس میں نازل ہوا قرآن،ہدایت ہے واسطے لوگوں کے اور دلیلیں روشن، جس میں ہدایت کی اور حق و باطل کے درمیان تمیز کی نشانیاں ہیں سو تم میں سے جو شخص اس مہینے کو پائے اس کو چاہئے کہ وہ روزہ رکھے۔ (سورۃ البقرۃ: ۱۸۵)
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ قرآن اور رمضان کا آپس میں بڑا گہرا تعلق ہے۔ قرآن کے مضامین انسان کی ہدایت و رہنمائی حاصل کرنے کی اولین شرط تقویٰ ہے جو انسان میں روزے کے ذریعے نشوونماپاتی ہے۔ اس لیے رمضان میں قرآن کی شب و روز تلاوت پر بڑا زور دیا گیا ہے اور اس کا بے انتہا اجرو ثواب بیان کیا گیا ہے اور نماز تراویح کی بھی یہی غرض اور مصلحت ہے۔

سوال۵ : بے اثر روزوں کے متعلق لکھیں۔

جواب: آج ہمارے روزوں کے وہ فیوض و برکات ظاہر نہیں ہوتے جن کا ہم اوپر کی سطور میں تذکرہ کرچکے ہیں۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہم روزے کے اصل مقصد تقویٰ (ضبط نفس) سے بے خبر ہیں، اس کی اہم شرائط، ایمان اور احتساب، دونوں سے غافل ہیں۔ جس طرح عام طور پر ہماری نمازیں دکھا وے کی ہیں، ویسے ہی ہمارے روزے بھی بالعموم نمائشی ہوگئے ہیں۔