نزولِ قرآن کے متعلق سوالات و جوابات

0
  • سبق نمبر 27

سوال۱: نزولِ قرآن کے متعلق لکھیں۔

جواب: قرآن کریم نزول سے پہلے بھی لوح محفوظ میں مکتوب تھا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ : یہ قرآن مجید ہے، لوح محفوظ میں لکھا ہوا۔(سورة البروج : ۲۱، ۲۲-)
پھر لیلتہ القدر میں جو رمضان المبارک میں ہے، یہ پورے کا پورا لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر نازل ہوا۔ ارشاد باری تعالی ہے۔
ترجمہ: رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا۔(سورۃ البقرۃ: ۱۵۸)
ایک اور جگہ ارشادہے:
ترجمہ: بے شک ہم نے اسے لیلتہ القدر میں اُتارا ہے۔ (سورة القدر : ١)

اس کے بعد اللہ تعالی کی حکمت اور فیصلے کے مطابق اس کا نزول حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے حضرت محمد رسول الله خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم پر شروع ہوا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم کی عمر مبارک چالیس سال کو پہنچی تو، آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم بکثرت سچے خواب دیکھا کرتے تھے۔ جو حرف بحرف پورے ہوتے تھے۔ ان دنوں آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم مکہ سے پانچ کلو میٹر کے فاصلے پر فاران نامی پہاڑ کے حرا نامی غار میں کئی کئی دن تنہائی میں گزارتے اور عبادت میں مصروف رہتے کہ اچانک ایک دن حضرت جبرائیل علیہ السّلام ظاہر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم سے فرمایا:

“اقراء” ( پڑھیے ) آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم فرمایا۔ ” ما انا بقارئ”( میں پڑھا ہوا نہیں ہوں) جبرائیل امین نے آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم کو سینے سے لگا کر بھینچا اور پھر چھوڑ کر کہا ” اقراء ” ( پڑھیے) آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم نے پھر وہی جواب دیا۔ تیسری مرتبہ پھر جبرائیل علیہ السّلام نے ایسا ہی کیا اور پھر سورۂ علق کی پہلی پانچ آیات پڑھیں۔
یہ کوئی معمولی واقعہ نہ تھا۔ بلکہ روز قیامت تک تمام انسانوں کی ہدایت اور ہنمائی کا عظیم بار امانت تھا۔ جو آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم پر ڈال دیا گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم کے قلب مبارک پر اس کا بڑا اثر تھا۔

واپس آکر آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم نے ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ مجھے کمبل اوڑھا دو، جب کچھ سکون ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم نے تمام واقعہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو سنایا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم کے اطمینان کی خاطر آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم کو اپنے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں۔ جو نہایت عمر رسیدہ اور تورات کے بہت بڑے عالم تھے۔ انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم کے حالات سُن کر کہا کہ یہ وہی فرشتہ ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی لاتا تھا۔

اس کے بعد کچھ عرصے تک کوئی وحی نہ آئی۔ اسے “فترة الوحی” کا زمانہ کہتے ہیں۔ اس کے بعد سورۃ مد شر کی ابتدائی آیات سے وحی کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس کے بعد مسلسل قرآن مجید موقع اور محل کے مطابق تقریباً بیس سال تک نازل ہو تا رہا۔ اس طرح نزول وحی کا کل زمانہ ۲۳ سال کے لگ بھگ ہے۔ عام طور پر تین تین، چار چار آیتیں ایک ساتھ اُترتیں۔ بعض اوقات زیادہ آیتیں یا پوری سورت آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم پر نازل ہو جاتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم کاتبان وحی کو بلا کر ہر وحی کو اس کی متعلقہ سورت میں لکھوا لیتے۔

سوال۲:مکی و مدنی سورتوں کا فرق واضح کریں۔

جواب:مکی اور مدنی سورتیں:

جمہور مفسرین کے نزدیک مکی سورتوں سے مراد وہ سورتیں ہیں جو ہجرت نبوی سے پہلے مکی دور میں نازل ہوئیں۔ خواہ وہ حدود مکہ سے باہر ہی نازل ہوئیں۔ جب کہ مدنی سورتوں سے مراد وہ سورتیں ہیں جو ہجرت کے بعد کے زمانے میں حضورصلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ و سلم کی رحلت کے زمانے تک نازل ہوئیں۔مکی سورتوں کی تعداد ۸۷ اور مدنی سورتوں کی تعداد ۲۷ ہے۔ اس طرح سورتوں کی مجموعی تعداد ۱۱۴ ہے۔

مکی اور مدنی سورتوں کا فرق :

مکی اور مدنی سورتوں میں طرز بیان، معانی اور مضامین وغیرہ کے لحاظ سے کافی فرق ہے۔ مثلاً مکہ مکرمہ میں جو آیات اور سورتیں نازل ہوئی ہیں ان میں زیادہ تر اصول اور کلیات دین کا بیان ہے۔ توحید، رسالت اور آخرت جیسے بنیادی عقائد پر زیادہ زور دیا گیا ہے۔

توحید باری تعالیٰ کے اثبات اور شرک کے ابطال کے لیے غور و فکر اور کائنات اور خود وجود انسانی میں تدبر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ بت پرستی اور شرک کی مذمت ایسے سادہ اور موثر انداز میں کی گئی ہے کہ معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والا بھی شرک سے متنفر ہو کر توحید کا پرستار بن جائے۔ سابقہ اقوام کے وہ قصے بار بار مختلف اسالیب میں بیان کئے گئے ہیں جس سے اہل عرب اچھی طرح واقف تھے اور ان اقوام کی زندگی میں عبرت و نصیحت کے واضح نشانات موجود تھے۔ آخرت اور موت کے بعد زندگی کو ذہن نشین کرانے کے لیے نہایت مؤثر انداز میں خطاب کیا گیا ہے۔ مکی سورتوں کے جملے چھوٹے چھوٹے اور نہایت دل نشین ہیں کہ سنتے ہی ذہن نشین ہو جائیں اور دل میں اتر جائیں۔
مدنی سورتوں کے مخا طب اہل کتاب اور مسلمان تھے ۔ اس لیے ان میں ان کا پور الحاظ رکھا گیا ہے۔ اکثر مقامات پر قرآن مجید کو سابقہ آسمانی کتابوں کا مؤید اور مصدق بتایا گیا ہے۔

سابقہ آسمانی کتابوں میں نبی آخر الزمان ﷺ کے بارے میں مذکورہ پیشین گوئیاں یاد دلائی گئی ہیں اور بتایا گیا ہے کہ تورات وانجیل پر ایمان رکھنے کا تقاضا یہ ہے کہ قرآن پر پورا پورا ایمان لایا جائے۔
مدنی آیات اور صورتوں کا دوسرا امتیاز یہ ہے کہ ان میں اکثر و بیشتر عبادات و معاملات سے متعلق احکام، حلال و حرام، فرائض و واجبات اور ممنوعات و منہیات کے مسائل بیان کیے گئے ہیں۔ غزوات و جہاد، مال غنیمت، خراج ، جزیہ،میراث اور حدود و قصاص کے تفسیلی احکام بھی مدنی سورتوں کے خاص مضامین ہیں۔