مرکب کا بیان

0

کوئی بھی دو یا دو سے زیادہ پُرمعنی لفظوں کا مجموعہ، کلام یا مرکب ہوتا ہے۔ کلمات کے مجموعہ کو مرکب کہتے ہیں۔ جیسے بڑا گھر، چھوٹا برتن، صاف کپڑا وغیرہ۔

مرکب کی دو قسمیں ہوتی ہیں:

(1) مرکب ناقص (2) مرکب تام

(1) مرکب ناقص:

مرکب ناقص وہ مرکب ہے جس سے سننے والے کو پورا مطلب سمجھ میں نہ آئے۔

(2) مرکب تام:

مرکب تام یا جملہ وہ مرکب ہے جس کے سننے سے پورا مطلب سمجھ میں آجائے۔

آئیے ان دونوں کی مثالیں دیکھتے ہیں:

١-مقبول کا گدھا۔ سات روپے۔ سرخ ٹوپی۔ اسلام آباد۔ الماری اور میز۔
٢-مقبول کا گدھا تیز ہے۔ اس نے سات روپے لیے۔ سرخ ٹوپی خراب ہو گئی ہے۔ اسلام خان نے اسلام آباد بسایا ہے۔

نمبر ١ ،٢ کی مثالیں دو یا دو سے زیادہ کلمات سے بنی ہیں۔ان کلمات کے مجموعہ کو مرکب کہتے ہیں‌
ذرا غور سے دیکھیے نمبر ١ کی مثالیں پورا مفہوم ظاہر نہیں کرتی ہیں بلکہ ان مثالوں کے ساتھ اور لفظ ملانے کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔ ایسے مرکب کو مرکب ناقص کہتے ہیں۔
نمبر ٢ کی مثالیں پورا مطلب ظاہر کرتی ہیں۔اس لیے ایسے مرکب مرکب تام کہلاتے ہیں۔ اس کو جملہ بھی کہتے ہیں۔

مرکب ناقص کی متعدد قسمیں ہیں:

(1) مرکب اضافی:

مرکب اضافی وہ مرکب ہے جو مضاف اور مضاف الیہ سے مل کر بنے۔

آیئے مثالوں سے سمجھتے ہیں:

رحیم کی ٹوپی۔جاوید کا قلم۔ وجے کی کتاب۔شیشے کی دوات۔
اوپر کی مثالوں میں ٹوپی کو رحیم کے ساتھ ۔قلم کو جاوید کے ساتھ۔کتاب کو ویجے کے ساتھ اور دوات کو شیشے کے ساتھ ایک قسم کا تعلق ہے۔یاد رکھنا چاہیے کہ اس قسم کے تعلق اور لگاؤ کو اضافت کہتے ہیں۔اور جس اسم کا لگاؤ ہوتا ہے اسے مضاف اور جس کے ساتھ لگاؤ ہوتا ہے اس سے مضاف الہ کہتے ہیں۔
اُوپر کی مثالوں میں ٹوپی، قلم ، کتاب ، دوات، مضاف ہیں اور رحیم، جاوید، وجے، شیشے ،مضاف الیہ ہیں۔
(نوٹ) اردو میں اضافت کی علامتیں یہ ہیں: کا، کے، کی۔ اردو میں مضاف الیہ پہلے آتا ہے اور مضاف پیچھے جیسا کہ اوپر کی مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے۔فارسی کے مرکب اضافی بھی اردو میں عام مستعمل ہیں۔ ان میں مضاف پہلے ہوتا ہے اور مضاف الیہ پیچھے اور مضاف کے آخری حرف کے نیچے زیر ہوتی ہے۔مثلا کتابِ موہن، کنارِ دریا وغیرہ۔

(2) مرکب توصیفی:

ایسے مرکب جو صفت اور موصوف سے مل کر بنیں، مرکب توصیفی کہلاتے ہیں۔

آیئے مثالوں کو دیکھتے ہیں۔

  • سفید پھول، بہادر لڑکا، نیک استاد، ٹیڑہی تلوار۔
  • اوپر کی مثالوں میں سفید، بہادر،نیک،ٹیڑہی۔ایسے الفاظ ہیں جو صفت ہیں۔اور پھول،لڑکا،استاد،تلوار،ان کے موصوف ہیں۔ایسے الفاظ کے جوڑوں کو مرکب توصیفی کہا جاتا ہے۔کیونکہ یہ صفت اور موصوف سے بنے ہیں۔
  • پس جو مرکب صفت اور موصوف سے مل کر بنے مرکب توصیفی کہلاتا ہے۔
  • (نوٹ) یاد رکھنا چاہیے کہ اردو میں صفت پہلے آتی ہے اور موصوف پیچھے، مگر شعر میں یہ ترتیب بدل جاتی ہے۔فارسی میں موصوف پہلے آتا ہے اور صفت بعد میں۔جیسے:-مرد نیک،جاہلِ مطلق،خدائے بزرگ۔

(3) مرکب عددی:

مرکب عددی وہ مرکب ہے جو عدد اور معدود سے مل کر بنے۔یاد رکھنا چاہیے مرکب عددی میں عدد پہلے آتا ہے اور معدود پیچھے مگر نظم میں یہ ترتیب بدل بھی جاتی ہے۔

آیئے مثالوں کو دیکھتے ہیں۔

سو گھوڑے، چالیس سپاہی، بیس بندوقیں،34 لڑکے،پانچواں لڑکا۔
اوپر کی مثالوں میں سو، چالیس، بیس،٣٤، پانچواں ۔تو عدد ہیں اور گھوڑے ، سپاہی، بندوقیں اور لڑکے معدود ہیں۔پس ایسے مرکب مرکب مرکب عددی کہلاتے ہیں۔

(4) مرکب امتزاجی:

مرکب امتزاجی وہ اسم ہے جو دو یا دو سے زیادہ لفظ مل کر ایک اسم بن جائے۔

مثالوں کو دیکھتے ہیں۔

  • غلام محمد، کرتار سنگھ، آغا اشرف علی، رام چندر، لال چوک،اشوک نگر۔
  • اوپر کی مثالوں میں ایسے مرکبات ہیں جو دو یا دو سے زیادہ اسموں سے مل کر بنے ہیں اور پھر سب مل کر ایک اسم بن گئے ہیں۔دو یا دو سے زیادہ اسموں کو ملا کر ایک کرنے کو امتزاج کہتے ہیں۔

(5) مرکب عطفی:

ایسے مرکبات جو معطوف الیہ اور معطوف سے مل کر بنے مرکب عطفی کہلاتے ہیں۔

مثالوں سے سمجھتے ہیں۔

  • چاند اور ستارے، دریا اور غذا، گھوڑے اور گدھے،علی و دلی۔
  • اوپر کے مرکبات میں ‘اور’  ‘و’ حروف عطف ہیں۔اور یہ مرکبات معطوف الیہ اور معطوف سے مل کر بنے ہیں اس لیے مرکب عطفی کہلاتے ہیں۔مرکب عطفی میں جب ایک سے زیادہ اسم کو ملایا جائے تو ‘اور’ صرف آخری دو اسموں کے درمیان آتا ہے۔جیسے: رشید، رحیم، موہن اور کمال یہاں آتے ہیں۔

(6) مرکب حال و ذوالحال:

حال وہ اسم ہے جو فاعل یا مفعول کی حالت کو ظاہر کرے۔اور ذوالحال وہ فاعل یا مفعول ہے جس کی حالت ظاہر کی جائے۔

مثالوں کو دیکھتے ہیں۔

  • فرید ہستا ہوا آیا، افلاق نے روتا ہوا آدمی دیکھا۔
  • اوپر کی مثال میں ‘ہنستا ہوا’ اسم حالیہ ہے اور فرید کی جو فاعل ہے، حالت بیان کرتا ہے۔دوسری مثال میں ‘روتا ہوا’ اسم حالیہ ہے اور آدمی کی جو مفعول ہے، حالت کو بیان کرتا ہے۔پس ایسے مرکب کو حال کہتے ہیں اور جس کی حالت کو بیان کرتاہو خواہ وہ فاعل ہو یا مفعول اسے ذوالحال کہتے ہیں۔

(7) مرکب اشاری:

مرکب اشاری وہ مرکب ہے جو اشارہ اور مشار الیہ سے مل کر بنے۔

مثالوں کو دیکھتے ہیں:

  • یہ لڑکا، وہ جانور ، یہ کتاب،وہ پنسل،وہ قلم،یہ کرسی۔
  • اوپر کی مثالوں میں ‘یہ’ اور ‘وہ’ کلمات اشارہ ہیں ۔اور لڑکا، جانور، کتاب، غیرہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ان کو مشار الیہ کہتے ہیں۔اسلیے یہ ایسے مرکب ہیں جو اشارہ اور مشار الیہ سے بنے ہیں۔بس مرکب اشاری وہ مرکب ہے جو اشارہ اور مشار الیہ سے مل کر بنے۔

(8) مرکب تمیز و ممیز:

ایسے لفظ جو شک دور کریں تمیز کہلاتے ہیں اور جس کی نسبت شک دور کریں اس سے ممیز کہتے ہیں۔

مثالوں کو دیکھتے ہیں۔

  • ایک سیر گھی، چار من آٹا، تین بوتلیں عرق کی،نوگز لٹھا، گیارہ عدد کلمیں۔
  • اگر اوپر کی مثالوں میں صرف ایک سیر، چار من، تین بوتلیں،نو گز، گیارہ عدد کہا جاتا تو شک رہتا کہ کونسی چیز ایک سیر یا چار من یا نو گز اور گیارہ عدد ہے۔ جب اس کے ساتھ گھی، بوتلیں، آٹا، عرق، لٹھا اور قلمیں مل گے ہیں تو شک دور ہو گیا۔پس ایسے لفظ جو شک دور کریں تمیز کہلاتے ہیں اور جس کی نسبت شک دور کریں اسے ممیز کہتے ہیں۔
  • (نوٹ) یہاں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ تمیز اور ممیز اور عدد معدود میں فرق یہ ہے کہ تمیز اور ممیز میں وزن یا پیمانے یا گز یا فٹ یا عدد کا لفظ آتا ہے۔عدد معدود میں یہ لفظ نہیں آتے۔

(9) مرکب تابع مہمل و متبوع:

ایسے مہمل لفظ جو اسم کے بعد آئیں تابع مہمل کہلاتے ہیں اور جس لفظ کے بعد آئیں اسے متبوع کہتے ہیں۔

مثالوں کو دیکھتے ہیں۔

  • رشید اور مومن پانی وانی پئیں گے۔دھوم دھام سے یوم اقبال منایا گیا۔ادھر اتنی بھیڑ بھاڑ کیا ہے؟
  • اوپر کی مثالوں میں پانی وانی،دھوم دھام،بھیڑ بھاڑ ۔ایسے مرکب ہیں کہ ان میں ایک بامعنی لفظ کے ساتھ مہمل لفظ ہے۔ایسے مہمل لفظ جو اسم کے بعد آئیں تابع مہمل کہلاتے ہیں اور جس لفظ کے بعد آئیں اسے متبوع کہتے ہیں۔

(10) مرکب تابع موضوع متبوع:

ایسے لفظ جو بامعنی ہوں لیکن زائد ہوں۔انہیں تابع موضوع کہتے ہیں۔اور دوسرے کو متبوع کہتے ہیں۔

مثالوں کو دیکھتے ہیں۔

  • اب کیا فائدہ رونا دھونا فضول ہے، مجید کی چال ڈھال نرالی ہے،مارپیٹ اچھی نہیں۔
  • اوپغ کی مثالوں میں رونا دھونا، چال ڈھال، مارپیٹ۔ایسے مرکب ہیں کہ ان میں ایک بامعنی لفظ کے بعد محاورے کے مطابق دوسرا بامعنی لفظ بھی ہے گو یہاں اس کا استعمال زائد ہے۔ایسے لفظ جو بامعنی ہوں لیکن زائد ہوں ۔انہیں تابع موضوع کہتے ہیں۔اور دوسرے کو متبوع کہتے ہیں۔دھونا، ڈھال اور پیٹ تابع موضوع اور رونا، چال اور مار متبوع ہیں۔

(11) مرکب بدل و مبدل منہ:

اسے مثالوں کے ساتھ سمجھتے ہیں۔

  • ہمارا بھائی قدیر مدرسہ گیا ہے۔ آج اس کا نوکر فضل گم ہو گیا۔
  • دیکھو پہلے فقرے میں “ہمارا بھائی قدیر” سے ایک ہی شخص مراد ہے۔اسی طرح دوسرے فقرے میں “اس کا نوکر فضل”سے ایک ہی شخص مراد ہے۔اگر ہم کہیں “ہمارا بھائی مدرسہ گیا” یا “قدیر مدرسہ گیا” تو دونوں سے ایک ہی مطلب ہوتا ہے مگر اصل مقصد تو “ہمارا بھائی” اور “اس کا نوکر” ہے ۔قدیر اور فضل صرف وضاحت کے لئے ہیں۔پس جو اسم اصل مقصود ہو تو اسے بدل کہتے ہیں اور دوسرے کو بدل منہ کہتے ہیں جو وضاحت کے لئے آتا ہے۔۔

(12) مرکب عطف بیان ومبین

اسے مثالوں میں سمجھتے ہیں۔

  • ڈاکٹر سر محمد اقبال ہندوستان کے اعلی پائے کے شاعروں میں سے ہیں۔بہادر شاہ ظفر شاہان مغلیہ میں سے تھے۔
  • اوپر کی مثالوں میں سر محمد اقبال اور اقبال دونوں ایک ہی شاعر کے نام ہیں۔
  • اسی طرح بہادر شاہ اور ظفر دونوں ایک ہی بادشاہ کے نام ہیں۔
  • ان دونوں ناموں میں سے دوسرا نام پہلے نام کی نسبت زیادہ مشہور ہے۔دوسرے نام کے لانے سے پہلے نام کی اچھی طرح تشریح ہو گئی ہے۔اس قسم کے دوسرے نام کو عطف بیان اور پہلے نام کو جس کی وضاحت ہوتی ہے مبین کہتے ہیں۔

(13) مرکب تاکید و مؤکد!:

تاکید کے الفاظ کو مرکب تاکید کہتے ہیں اور جس اسم کی تاکید کریں اسے مؤکد کہتے ہیں ۔

آیئے مثالوں کو دیکھتے ہیں۔

  • سب کے سب آدمی آگے۔یہ مسئلہ سراسر غلط ہے۔فاروق اور فرہاد دونوں سونا مرگ گئے ہیں۔یہاں خطرہ ہے خطرہ۔
  • اوپر کی مثالوں میں “سب کے سب، سراسر، دونوں، خطرہ” ایسے الفاظ ہیں جو تاکید کے لیے آئے ہیں اور انہوں نے بالترتیب آدمی، مسلہ، فاروق اور فرہاد اور خطرہ کی تاکید کی ہے۔
  • پس تاکید کے الفاظ کو مرکب تاکید کہتے ہیں اور جس اسم کی تاکید کریں اسے مؤکد کہتے ہیں۔

(14) مرکب مستشنی و مستثنیٰ منہ:

یہ وہ مرکب ہے جو مستشنی اور مستثنیٰ منہ سے مل کر بنے۔
جیسے: سب رشید کے سوا آئے ہیں۔اس میں ‘رشید کے سوا’ مرکز مستثنیٰ اور ‘سب’ مستثنی منہ ہے۔

(15) مرکب جار مجرور:

وہ مرکب ہے جو حرف جار اور مجرور سے مل کر بنے۔
مثلاً:- کاغذ میز پر رکھ دو۔اس میں ‘میز پر’ مرکب جار مجرور ہے’ پر’ حرف جار ہے اور ‘میز’ مجرور ہے۔