ایک کوہستانی سفر کے دوران میں

0
  • نظم : ایک کوہستانی سفر کے دوران میں
  • شاعر : مجید امجد
  • ماخوذ از : لوحِ دل

تعارفِ نظم :

یہ شعر ہماری درسی کتاب کی نظم ”ایک کوہستانی سفر کے دوران میں“ سے لیا گیا ہے۔ اس نظم کے شاعر کا نام مجید امجد ہے۔ یہ نظم کتاب لوحِ دل سے ماخوذ کی گئی ہے۔

تعارف شاعر :

آپ کا اصل نام عبدالمجید ہے مگر ادبی دنیا میں مجید امجد کے نام سے شہرت پائی۔ آپ کا آبائی ضلع جھنگ تھا۔ آپ نے کچھ عرصہ جھنگ کے مقامی اخبار عروج کی ادارت کے فرائض انجام دیے، پھر ڈسٹرکٹ بورڈ کے دفتر میں ملازمت کی۔۱۹۴۴ء میں محکمہ خوراک سے وابستہ ہو گئے۔ عمر کا زیادہ حصہ ساہیوال میں گزرا اور یہیں ۱۹۷۴ء میں انتقال ہوا ،مگر جھنگ میں دفن کیے گئے۔

وضاحت : اس نظم کے کل گیارہ مصرع ہیں۔ بظاہر ۵ شعر اور ایک زائد مصرع _ پہلے دو شعر آپس میں ہم قافیہ و ردیف ہیں ، اسی طرح شعر ۳ اور باہم ہم قافیہ و ہم ردیف ہیں اور آخر میں تین مصرع الگ ہیں۔ یہ تینوں ہم قافیہ ہیں۔ گویا یہ روایتی نظم نہیں ہے۔ چنانچہ تشریح میں بھی پہلے پانچ مصرعوں کی ایک جاء، پھر چار مصرعوں کی اور آخر میں دو مصرعوں کی یک جا تشریح کی گئی ہے۔

تنگ پگڈنڈی، سر کہسار بل کھاتی ہوئی
نیچے، دونوں سمت، گہرے غار منہ کھولے ہوۓ
آگے، ڈھلوانوں کے پار، اک تیز موڑ، اور اس جگہ
اک فرشتے کی طرح نورانی پر تولے ہوۓ
جھک پڑا ہے آکے رستے پر کوئی نخل بلند

تشریح : شاعر ایک کو ہستانی سفر کے دوران پیدل چلتے ہوۓ ایک پگڈنڈی اور اس کے اردگرد پھیلے ہوئے مناظر کا تذکرہ کرتے ہوۓ لکھتا ہے کہ یہ پگڈنڈی ایک تنگ اور خطرناک راہ گز رہے۔ یہ پہاڑوں کے بیچوں بیچ بل کھا رہی ہے اور اس پہاڑی سلسلے کے نیچے، پگڈنڈی کی دونوں جانب، گہرے غار ہیں۔ اس راستے پر تھوڑا سا آگے بڑھیں تو ڈھلوان ہے اور اس کے آگے ایک انتہائی خطرناک موڑ ہے جس سے بحفاظت گزرنا مشکل ہے مگر وہاں ایک نورانی فرشتے کے پروں کی طرح ایک بلند درخت اور اس کی شاخیں جھکی ہوئی ہیں۔ شاعر نے یہاں ، درخت کی جھکی شاخوں کو نورانی فرشتے کے پروں سے تشبیہ دی ہے۔ نورانی فرشتہ اور اس کے پر انسان کی بہتری اور بھلائی کی علامت ہیں اور

اس طرح یہ درخت اور اس کی شاخیں ڈگمگاتے انسانوں کو سہارا دینے کے لیے ہیں جنھیں تھام کر پیدل چلنے والے مسافر لوگ آسانی سے گزر جاتے ہیں۔ فطرت نگاری مجید امجد کی شاعری کی ایک اضافی اور نمایاں خوبی ہے جس کا یہاں بھی نہایت خوب صورتی سے نقشہ کھینچا گیا ہے۔ شاعر کا کمال یہ ہے کہ وہ ہمیں صرف فطرت کی مختلف تصویر ہی نہیں دکھاتا بلکہ انسان اور فطرت کی ایک دوسرے پر اثر اندازی سے پیدا ہونے والے رویے بھی نہایت فن کاری سے قارئین کے سامنے پیش کرتا ہے۔

تھام کر جس کو، گزر جاتے ہیں آسانی کے ساتھ
موڑ پر ہیں ڈگمگاتے رہروؤں کے قافلے
ایک بوسیدہ، خمیدہ پیڑ کا کمزور ہاتھ
سیکڑوں گرتے ہوؤں کی دستگیری کا امیں

تشریح : اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ موڑ پر جو کمزور ، جھکا ہوا اور پرانا درخت اور اس کی شاخیں ہیں ، وہ یہاں سے گزرنے والے بے شمار لوگوں کو سہارا دے رہی ہیں اور ان کی مدد کر رہی ہیں۔ نظم کا ایک بہت اہم اور کلیدی مصرع یہ ہے کہ اگر یہ درخت اور اس کی نورانی فرشتے کے پروں جیسی جھکی ہوئی شاخیں نہ ہوتیں تو اس خطر ناک موڑ سے گذرنا آسان نہ تھا۔ سیکڑوں لوگ یہاں سے گر سکتے تھے مگر اس نازک اور خطرناک موڑ پر قدرت نے اس درخت اور اس کی شاخوں کو لوگوں کا ہاتھ تھامنے اور ان کی مدد کرنے کا کام سونپا ہے اور وہ درخت اس امانت میں خیانت نہیں کر رہا ہے۔

وہ اگر گرتے ہوۓ لوگوں کی دستگیری کا امین ہے تو وہ اپنے اس منصب کو نبھا رہا ہے جو اسے سونپا گیا ہے۔ وہ اس میں کسی قسم کی کوتاہی کا مرتکب نہیں ہورہا۔ دوسری جانب حضرت انسان کی خود پرستی کا اندازہ اس بات سے لگایئے کہ اسے اشرف المخلوق بنا کر کائنات کو تسخیر کرنے کے لیے دنیا میں بھیجا گیا لیکن وہ اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہو گیا۔ دوسری طرف جانور ہوں یا دیگر فطری مظاہر، وہ نہ صرف اپنے فرائض منصبی سے آگاہ ہوتے ہیں بلکہ عملا اپنے فرائض ادا کرنے میں بھی کسی قسم کے مسائل کا شکار نہیں ہو پاتے۔

آہ ان گردن فرازان جہاں کی زندگی
اک جھکی ٹہنی کا منصب بھی جنھیں حاصل نہیں!!

تشریح : اس شعر میں شاعر کہتے ہیں کہ اس پرانے ، جھکے ہوئے اور کمزور درخت کے اس عمل کو دیکھ کر ہی میرے دل میں خیال آتا ہے، اور میں اس انسانی رویے پر افسوس کا اظہار کرتا ہوں کہ اس کائنات میں کتنے ایسے لوگ ہیں جو دوسروں کی مدد کر سکتے ہیں۔ بے سہارا لوگوں کو سہارا دے سکتے ہیں مگر نہیں دے رہے۔ ان کی زندگی کیا ہے؟ ان کا طرز عمل کیا ہے؟ ان کا رویہ کیا ہے؟ شاعر کہتے ہیں کہ ان کی گردنیں اکڑی ہوئی ہیں۔ وہ مفرور اور متکبر ہو گئے ہیں۔ ان کے مقدر میں ایک بوسیدہ پیڑ کی کمزور جھکی ہوئی ٹہنی جیسا سلیقہ اور ذمہ داری بھی نہیں ہے۔ انھیں تو وہ مقام اور مرتبہ بھی نہیں مل سکا جو ایک جھکی ہوئی ٹہنی کو حاصل ہے۔

اس نظم میں مجید امجد نے ایک ٹہنی اور مغرور اور متکبر لوگوں کا تقابل کیا ہے۔ ایک خطرناک موڑ پر، جہاں مسافروں کے قدم ڈگمگار ہے ہیں اور ان کے گرنے کا خطرہ ہے، درخت اور اس کی شاخیں ان کی دستگیری کر رہی ہیں ، زندگی میں ایسے کئی خطرناک موڑ آتے ہیں، جہاں بے سہارا لوگوں کو دوسروں کی مدد درکار ہوتی ہے اور اس معاشرے میں ایسے لوگ بھی ہیں جو دوسروں کی مدد کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ ان کے پاس وسائل ہیں ، اقتدار ہے مگر وہ ان وسائل اور اقتدار کے سبب مغرور ہو گئے ہیں ، اور وہ دوسروں کی دستگیری نہیں کرتے۔ شاعر ان کے اس رویے پر افسوس کا اظہار کررہے ہیں۔

سوال نمبر ۱ : ایک کوہستانی سفر کے دوران جو تمثیل بیان ہوئی ہے اسے اپنے الفاظ میں بیان کیجیے۔

جواب : مجید امجد کی نظم ایک کوہستانی سفر کے دوران جو تمثیل بیان ہوئی ہے وہ کچھ یوں ہے کہ پہاڑ کی چوٹی پر ایک دشوار گزار راستہ ہے جس کے دونوں جانب ہزاروں فٹ گہرے گڑھے اژدھوں کی طرح منہ کھولے ہوئے ہیں۔ اسی راستے پر ڈھلوانوں کے بعد اچانک موڑ ہے، جہاں ذرا سی بے احتیاطی یا بے دھیانی کسی کو موت کے منہ میں دھکیل سکتی ہے۔ لیکن کمال قدرت یہ ہے کہ عین اس جگہ پر ایک بلند و بالا پیڑ اس انداز سے جھکا ہوا ہے جسے کوئی فرشتہ اپنے نورانی پر کھولے ہوئے گرنے پڑے والوں کو سہارا دینے کے لیے مستعد کھڑا ہے۔

اس خطر ناک موڑ سے گزرنے والے مسافر اس درخت کا سہارا لے کر یہ کٹھن مرحلہ نہایت آسانی کے ساتھ طے کر لیتے ہیں۔ اس جھکے ہوئے درخت کی نرم و نازک شاخیں سیکڑوں گرنے والوں کا ہاتھ تھامنے کے لیے تیار کھڑی ہیں۔افسوس ہے تو ان اکڑی ہوئی گردنوں والے صاحبان پر جو استطاعت و اقتدار پر ہونے کے باوجود بھی اپنی زندگی میں اس نازک اور جھکی ہوئی ٹہنی جیسی ذمہ داری نبھانے سے قاصر ہیں۔

سوال نمبر ۳ : الفاظ کے متضاد لکھیے۔

الفاظ : متضاد
تنگ : کھلا
پار : آر
فرشتہ : شیطان
آسان : مشکل
فراز : نشیب
زندگی : موت
بلند : پست
تیز : سست
آگے : پیچھے
نیچے : اوپر

سوال نمبر ۴ : درج ذیل الفاظ کا تلفظ اعراب کے ذریعے واضح کیجیے۔

سَمتُ، کُہُسَار، خَمِیده، مَنصَبْ، نَخْلِ بُلَندْ۔

سوال نمبر ۵ : درج ذیل محاورات کو اپنے جملوں میں اس طرح استعمال کیجیے کہ ان کا مفہوم واضح ہو جاۓ۔

بل کھانا : ندی پہاڑوں میں سے بل کھاتی ہوئی آرہی ہے۔
منہ کھولنا : سمندر کے کنارے سانپ منہ کھولے کھڑا تھا۔
پر تولنا : احمد دوڑ میں حصہ لینے کے لیے پر تول رہا ہے۔
جھک پڑنا : درخت کی شاخ نہ جانے کس جذبے کے تحت دیوار پر جھک پڑی ہے۔
ڈگمگا جانا : سچائی کے راستے پر بڑے بڑوں کے قدم ڈگمگا جاتے ہیں۔
دستگیری کرنا : اس معاشرے میں بے آسرا لوگوں کی دستگیری کرنے والوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔