مثنوی کی تعریف، آغاز و ارتقاء

0

مثنوی اس طویل نظم کو کہتے ہیں جس میں کوئی قصّہ یا کوئی واقعہ تسلسل کے ساتھ بیان کیا گیا ہو۔ چونکہ مثنوی میں لمبی سے لمبی بات کو تفصیل سے بیان کرنے اور ہر طرح کا مضمون ادا کرنے کی گنجائش ہے اس لیے حالیؔ نے اس صنف کو سب سے زیادہ کار آمد بتایا ہے اور اس بات پر اظہارِ افسوس کیا ہے کہ اردو شاعری میں مثنوی کی طرف اتنی توجہ نہیں دی گئی جتنی توجہ کی یہ مستحق تھی۔

مثنوی ایک بیانیہ صنف ہے۔ اس میں خیال مربوط رہتا ہے۔ بات سے بات نکلتی ہے اور قصّہ بتدریج آگے بڑھتا ہے گویا مثنوی ایک ایسی صنفِ شاعری ہے جس میں ایک طویل ،مربوط اور مکمل شعری کارنامہ وجود میں آنے کے امکانات موجود ہیں۔ یہاں ایک بات کا واضح کر دینا ضروری ہے کہ غزل کا شعر کم فرصتی میں بھی کہا جا سکتا ہے لیکن مثنوی کا معاملہ مختلف ہے۔ اس کے لیے کئی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

پہلی تو یہ کہ قلم اٹھانے سے پہلے مکمل مثنوی کا خاکہ ذہن میں تیار کر لیا جاۓ۔ اس کے بعد مستقل مزاجی کے ساتھ اسے تکمیل کو پہنچایا جاۓ۔ واقعات کی ترتیب و تعمیر ایسی ہو کہ قصّہ مربوط رہے۔ زبان ایسی ہو کہ پڑھنے والا اس میں الجھ کر نہ رہ جاۓ بلکہ اس کی توجہ واقعات پر مرکوز رہے۔ اگر مثنوی میں کچھ ایسے اشعار موجود ہوں جو قاری کو اپنی طرف متوجہ کر لیں تو اسے مثنوی کا عیب سمجھنا چاہیے۔

واقعہ نگاری مثنوی کی سب سے اہم خصوصیت ہے۔ یہ واقعات فطری بھی ہو سکتے ہیں اور فوق فطری بھی۔ مثنوی میں رزم و بزم ، اخلاق و فلسفہ ، ہر موضوع کی گنجائش ہے۔ عشقیہ قصّے بھی مثنوی کا خاص موضوع رہے ہیں۔ اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مثنوی کا دائرہ بہت وسیع ہے۔

مثنوی کا فن توضیحی فن ہے۔ یہاں غزل کی طرح رمز و کنایے میں بات نہیں کی جا سکتی۔ واقعات کا بیان ہوتا ہے اس لیے بات کو صراحت کے ساتھ کہا جاتا ہے تا کہ واقعات آسانی کے ساتھ ذہن نشین ہوتے جائیں۔

مثنوی میں چوں کہ واقعات کا بیان ہوتا ہے اس لیے کردار نگاری بھی اسکا ایک لازمی جزو ہے اور کردار نگاری کے لیے ضروری ہے کہ فن کار انسانی نفسیات اور اس کی پیچیدگیوں سے پوری طرح واقف ہو۔ مختلف کرداروں کی زبان بھی الگ الگ ہوتی ہے اس لیے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ کس موقع پر کس کردار کی زبان سے کس طرح کے الفاظ ادا ہونے چاہیے۔ گویا لازمی ہے کہ مثنوی نگار ایک اچھا مکالمہ نویس بھی ہو۔

مثنوی میں عموماً ایسے موقعے بھی آتے ہیں جہاں ڈرامائی عنصر ناگریز ہوتا ہے۔ غرض یہ کہ مثنوی کا فن خاصا پیچیدہ فن ہے۔ اس کے لیے صرف محنت اور منصوبہ بندی ہی کافی نہیں بلکہ وسیع مطالعہ اور گہرا مشاہدہ بھی بے حد ضروری ہے۔

مثنوی میں ردیف و قافیے کی پابندی اس طرح نہیں ہوتی جس طرح غزل اور قصیدے میں ہوتی ہے بلکہ مثنوی کے ہر شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں اور کبھی کبھی ردیف کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔

ابتدا میں رزمیہ اور بزمیہ مثنوی کے لیے الگ الگ بحریں مقرر تھیں لیکن آگے چل کر یہ پابندی باقی نہ رہی اور مثنوی نگار کو واقعات کے بیان کے لیے آزادی حاصل ہو گئی اور یہ ضروری بھی تھا، کیوں کہ مثنوی میں واقعات ہی کو اہمیت حاصل ہے۔

تقریباً ہر زبان کے ابتدائی ادب کی ایک خصوصیت مشترک رہی ہے اور بولیاں بھی اس سے مستشنیٰ نہیں ہیں کہ اہم واقعات، قابل ذکر مہمات اور قومی بہادروں کے کارنامے سادہ زبان میں طویل نظموں کی شکل میں پیش کیے گئے۔اس طرح صنفِ مثنوی کی داغ بیل پڑی۔ ہماری زبان کا معاملہ اس سے ذرا مختلف ہے۔

ہمارے ابتدائی ادب کا بیشتر حصّہ مذہبی نوعیت کا ہے ۔ ہمارے صوفیا اور بزرگانِ دیں کی زبان فارسی تھی لیکن اشاعت اسلام کے لیے انھیں عام بول چال کی زبان کا استعمال ضروری معلوم ہوا اور بزرگوں نے اس عوامی بولی کا سہارا لیا جو ترقی کر کے اردو زبان کہلائی۔ انہوں نے پندونصائح اور متصوفانہ خیالات کو مثنویوں کی شکل میں پیش کیا۔

آغاز و ارتقاء

اردو مثنوی کے جو قدیم ترین نمونے دستیاب ہیں وہ حضرت بابا فرید گنج شکر اور دیگر صوفیا سے منسوب ہیں۔ کبیر داس کی ایک نظم بھی مثنوی کے پیراۓ میں ملتی ہے ۔ اسی سلسلے میں قطبنؔ اور شیخ عبدالقدوس گنگوہی کے نام بھی قابل ذکر ہیں۔

جدید اردو مثنوی کی بنیاد دکن اور گجرات میں پڑی۔ وہاں اس صنف کو جن بزرگوں کی سرپرستی حاصل رہی وہ ہیں : شاہ علی محمد جیو گام دھنی، میاں خوب محمد چستی ،حضرت گیسو دراز ، شاہ میراں جی شمس العشاق اور شاہ برہان الدین جانمؔ وغیرہ۔

بیجا پور میں لکھی گئی مثنویوں میں مقیمی کی ”چندر بدن و مہیار “اہم ہے ۔ یہ ایک عشقیہ قصّہ ہے جس میں فوق فطری باتیں بھی شامل ہیں۔ امینؔ مقیمیؔ کا ہم عصر تھا ، اس نے ایک مثنوی ”بہرام و حسن بانو“ لکھی۔ ملک خشنود نے ”ہشت بہشت “ اور” یوسف زلیخا“ دو مثنویاں لکھیں۔ نصرتی اس عہد کا بلند پایا شاعر تھا ، اس نے قصائد کے علاوہ مثنویاں بھی لکھیں۔ ان میں ”علی نامہ“بہت مشہور ہوئی۔ یہ ایک رزمیہ مثنوی ہے ۔ ہاشمی نے ایک مثنوی ”یوسف زلیخا“ لکھی۔

گولکنڈہ میں اردو ادب کو بہت فروغ ہو رہا تھا اور وہاں مثنویاں بھی لکھی جا رہی تھیں۔ ان مثنویوں میں وجہی کی ”قطب مشتری“، ابن نشاطی کی ”پھول بن“، غواصی کی ”سیف الملوک و بدیع الجمال  و طوطی نامہ“، طبعی کی ”بہرام و گل اندام “ نے بہت شہرت پائی۔ سراج دکنی نے بھی کئی مختصر مثنویاں لکھیں۔

شعراۓ دہلی نے بھی مثنوی کی طرف توجہ کی۔ یوں تو تقریباً سبھی شاعروں نے مثنویاں لکھیں۔ میر و مصحفی کی مثنویوں کو خصوصیت سے مقبولیت حاصل ہوئی لیکن میر حسن کی مثنوی “سحر البیان” کے رتبے کو کوئی مثنوی نہیں پہنچتی ۔یہ مثنوی فن کاری کا عمدہ نمونہ ہے ۔ بے نظیر و بدر منیر کا عشقیہ قصّہ اس کا موضوع ہے ۔ اس کے بعد ایک اور لا فانی مثنوی وجود میں آئی ، یہ پنڈت دیا شنکر نسیم کی “گلزار نسیم” ہے۔ اس کا موضوع بھی ایک عشقیہ داستان ہے ۔ اس کا انداز بیان پرکشش ہے ۔

اس کے بعد قلقؔ اور نواب واجد علی شاہ اخترؔ نے بھی مثنویاں لکھیں۔ پھر شوقؔ نے تین عشقیہ مثنویاں : بہار ِعشق، زہر ِعشق اور فریبِ عشق لکھیں ،جنہیں کافی مقبولیت حاصل ہوئی ۔

حالیؔ نے مقدمہ شعر و شاعری میں مثنوی کی اہمیت واضح کی۔ انگریزی حکومت کے قیام اور طرزِ معاشرت میں تبدیلیوں کے بعد ادب میں جو انقلاب رونما ہوا اس کو خوش آمدید کہنے والوں میں آزاد اور حالی بہت نماياں ہیں۔ ان دونوں بزرگوں نے مثنویاں بھی لکھیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ بدلے ہوئے حالات میں کس قسم کی نظموں کی ضرورت تھی۔

ان کے زیرِ اثر بعض اور شعرا بھی اس طرف متوجہ ہوئے ۔اسمعیلؔ مراٹھی نے بچوں کے نام سے مثنویاں لکھیں ، علامہ اقبال نے اپنے فلسفے کو پیش کرنے کے لیے مثنوی سے کام لیا ، عصر حاضر میں حفیظ جالندہری نے ایک طویل مثنوی “شاہ نامہ اسلام” پیش کی ۔ اس میں شک نہیں کہ اس صنف میں اب بھی بہت امکانات پوشیدہ ہیں لیکن اس کی طرف جتنی توجہ کی ضرورت ہے وہ ابھی نہیں کی گئی ۔