اردو شاعری میں طنز و مزاح

0

ادب میں طنز و مزاح کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔بعض ناقدینِ ادب نے تو یہاں تک کہا ہے کہ کس زبان کا ادب ترقی یافتہ ہے یہ دیکھنا ہو تو اس کے طنز و مزاح کا جائزہ لینا چاہیے۔اعلیٰ درجے کا طنز و مزاح صرف بلند پایہ ادب میں ہی پایا جاتا ہے۔

طنز کے لغوی معنی رمز کے ساتھ بات کرنے کے ہیں جبکہ مزاح کے معنی خوشی طبعی کرنے کے ہیں۔ طنز رومانیت کی ضد ہے اور طنز کی ابتدائی شکل ہجو ہے۔ طنز و مزاح میں ایک گہرا تعلق ہوتا ہے۔مزاح کا مقصد حصولِ مسرت کے سوا کچھ نہیں۔ مزاح دراصل زندگی کے مضحک پہلوؤں کی نقاب کشائی کرنے کا ‌نام ہے۔اس کے برعکس طنز بامقصد ہوتا ہے اور اصلاح اسکا مقصد ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ خالص مزاح اعلیٰ درجے کی چیز ہے قاری اس سے لطف اور خوشی حاصل کرتا ہے۔لیکن خالص طنز جس میں مزاح کی آمیزش نہ ہو محض دشنام بن کے رہ جاتا ہے اس لیے طنز کے لئے ضروری ہے کہ یہ مزاح سے بیگانہ نہ ہو بلکہ کونین کو شکر میں ملا کر پیش کرے اور لطیف پیرائے میں بیان کرے۔

ہر ادبی سرمائے میں طنز و مزاح کے سرمائے کی اہمیت مسلم ہے۔ انگریزی اور فرانسیسی ادب میں طنز و مزاح دونوں کے اعلیٰ نمونے ملتے ہیں۔ اردو مغربی زبانوں کا مقابلہ تو نہیں کر سکتی مگر اس میں ہجو، طنز، ظرافت، لفظی شوخی اور مزاح کے اچھے نمونے ملتے ہیں۔چونکہ انیسویں صدی سے ساری دنیا میں اردو نثر کو بڑی ترقی حاصل ہوئی ہے اور یہ انسان کے بیشتر افکار و اقدار اور جزبات و خیالات کے اظہار کا آلہ بن گئ ہے۔ اس لیے آج اردو شاعری میں طنز و کے مقابلے میں اردو نثر میں طنز و مزاح کا سرمایہ بہت زیادہ ہے۔

اردو شاعری میں طنز و مزاح کا پہلا دور ہجو نگاری کا دور ہے۔ اردو شاعری میں سوداؔ سب سے بڑے ہجو نگار تھے۔ ان کے دور میں ہجو نگاری بہت مقبول تھی مگر سوداؔ کی ہجووں کا مقصد شخصی کمزوریوں کا مزاق اڑانا نہیں ہے بلکہ سماجی طنز بھی ہے۔ انکے مخمس،شہر آشوب، اور قصیدہ تضحیک روزگار، اور سیدی کوتوال،کی ہجو میں قہقہے اور بلند آہنگ شہنائی کے ساتھ ایک دردمند دل کے گداز کا بھی احساس ہوتا ہے۔انشاؔ کے یہاں ایک رعنائی خیال کے ساتھ زبان سے کھیل بھی ملتا ہے اور ایک چمک دمک بھی ہے۔نظیر اکبرآبادی کے یہاں ایک نشاط زیست ملتا ہے۔نظیر ایک مزاح نگار بھی ہیں مثلاً جو نماز پڑھتا ہے وہ بھی آدمی ہے اور جو نمازوں کے جوتے چراتا ہے وہ بھی آدمی ہے۔ لیکن مزاح کے اعلیٰ درجے کے نمونے مرزا غالبؔ کی شاعری میں ملتے ہیں۔ مرزا غالبؔ کی ظرافت کا بھرپور اظہار ان کی نثر میں ہوا ہے۔اردو شاعری میں طنزومزاح کے لحاظ سے اکبر الہ آبادی سب پر فوقیت لے گئے ہیں۔انکی شوخی، ظرافت اور طنز و مزاح کا قائل ہونا پڑتا ہے۔اکبرؔ کی طنز بھرپور اور لطیف ہے۔

اکبرؔ کے بعد ظریف لکھنوی کے یہاں لفظی ظرافت زیادہ ہے۔اقبالؔ کے یہاں ان سے بھی زیادہ طنز و ظرافت ہے۔اقبالؔ کے بعد مولانا ظفر علی خان کے یہاں بھی طنز و ظرافت کی چاشنی پائی جاتی ہے۔ان کے بعد سید محمد جعفری کی شاعری میں بھی ظرافت جابجا ملتی ہے۔ان کی شاعری ان کے حسنِ تخیل کی لازوال علامت ہے۔

سرسید نے اپنے مخالفوں کے جواب میں جابجا طنز سے کام لیا ہے۔نذیر احمد کی شخصیت میں طنزومزاح کی وجہ سے بڑی دلآویزی پیدا ہوگئی ہے۔ان کی زبان کی ساحری خصوصاً محاورے پر عبور ان کے ناولوں میں ہی نہیں بلکہ ان کی سنجیدہ تصانیف میں بھی جھلک جاتا ہے۔سرشار کا کارنامہ یہ ہے کہ وہ اپنی شوخی اور طنز کے سارے ہتھیار لکھنؤ کی زوال آمادہ تہذیب پر ضرب لگانے میں صرف کر دیتے ہیں۔سرشار نے جس تہذیب و معاشرت پر طنز کی ہے وہ اسی کے عاشق بھی ہیں۔اس لحاظ سے ان کی طنز میں گہرائی اور دلآویزی ہے۔

بیسویں صدی کے طنزنگاروں اور مزاح نگاروں میں سید محفوظ علی، مرزا فرحت اللہ بیگ، پطرس بخاری، رشید احمد صدیقی،عبدالمجید سالک، کنھیا لال کپور اور مشتاق یوسفی کے نام زیادہ اہم ہیں۔مرزا فرحت اللہ بیگ کے یہاں طنز سے زیادہ مزاح ہے۔”نذیر احمد کی کہانی کچھ ان کی کچھ میری زبانی”انہیں زندہ جاوید رکھنے کے لئے کافی ہے۔اس دور میں پطرس بخاری اور رشید احمد صدیقی نے بلندپایہ کارنامے انجام دیے ہیں۔دونوں کے یہاں طنز سے زیادہ مزاح ہے۔رشید احمد صدیقی کے یہاں ہمہ گیری ہے ان کا سرمایہ بھی پطرس سے زیادہ ہے۔کنھیا لال کپور نے “غالب ترقی پسندوں کی محفل میں” لکھ کر بڑی شہرت حاصل کی ہے۔ان کے یہاں بھی مزاح کی لطیف چاندنی ہے۔اب اردو میں طنزومزاح کا اچھا خاصا سرمایہ موجود ہے اور اس میں مزید اضافہ کیا جارہا ہے۔