غزل کی تعریف، آغاز و ارتقاء

0

غزل کی تعریف

غزل اردو شاعری کی سب سے مقبول صنف سخن ہے۔ پروفیسر رشید احمد سدیقی نے اسے بجا طور پر اردو شاعری کی آبرو کہا ہے۔ اردو میں جب سے تنقید کا باقاعدہ آغاز ہوا اس وقت سے لے کر اب تک غزل طرح طرح کے اعتراضات کا نشانہ بنتی رہی ہے۔ لیکن اس کی مقبولیت کم ہونے کے بجاۓ ہر بار بڑھتی ہی گئی اور یہ ثابت ہو گیا کہ غزل میں زمانے کے ساتھ بدلنے ، ہر ضرورت کو پورا کرنے اور ہر طرح کے مضمون کو ادا کرنے کی صلاحیت موجود ہے اور اب تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس صنفِ سخن کو کھبی زوال نہ ہو گا۔

غزل عربی زبان کا لفظ ہے اور اس کے معنی ہیں عورتوں سے باتیں کرنا یا عورتوں کی باتیں کرنا۔ اس صنف کو غزل کا نام اس لیے دیا گیا کہ حسن و عشق ہی اس کا موضوع ہوتا تھا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کے موضوعات میں وسعت پیدا ہوتی گئی اور آج غزل میں ہر طرح کے مضمون کو پیش کرنے کی گنجائش ہے۔

غزل کی ابتدا عرب میں ہوئی۔ وہاں سے یہ ایران میں پہنچی اور فارسی میں اس نے بہت ترقی کی۔ فارسی ادب کے راستے یہ اردو ادب میں داخل ہوئی اور ہر خاص و عام میں مقبول ہو گئی۔

غزل کی خصوصیات

غزل کے تمام مصرعے ایک ہی وزن اور ایک ہی بحر میں ہوتے ہیں۔ غزل کا پہلا شعر مطلع کہلاتا ہے اور اس کے دونوں مصرعے ہم قافیہ یا ہم قافیہ اور ہم ردیف ہوتے ہیں۔ ردیف وہ لفظ یا الفاظ کا مجموعہ ہے جسے ہر شعر کے آخر میں دھرایا جاۓ۔

اس سے پہلے قافیہ ہوتا ہے جس کا آخری حرف یا آخر کے چند حرف یکساں ہوتے ہیں۔ جیسے : دوا، ذرا، یا میر، پیر وغیرہ۔ بعض غزلوں میں قافیے کے ساتھ ردیف بھی ہوتی ہے۔ بعض میں صرف قافیہ ہوتا ہے۔ غزل کا آخری شعر جس میں شاعر اپنا تخلص استعمال کرتا ہے “مقطع” کہلا تا ہے۔ ان کی مثالیں یہاں پیش کی جاتی ہیں۔

دل نادان تجھے ہوا کیا ہے
آخر اس درد کی دوا کیا ہے
ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار
یا الہی یہ ماجرا کیا ہے
ہم نے مانا کہ کچھ نہیں غالبؔ
مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے

پہلا شعر مطلع ہے اور تیسرا مقطع۔ “کیا ہے” ردیف ہے جو مطلع کے دونوں مصرعوں اور باقی اشعار کے دوسرے مصرعوں کے آخر میں دہرائی گئی ہے۔ “ہوا ،دوا ،ماجرا ،برا “قوافی ہیں۔ غزل کی دیگر اہم خصوصیات یہ ہیں کہ غزل کا ہر شعر اپنا الگ معانی دیتا ہے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ دو یا دو سے زیادہ شعر مل کر معنی دیتے ہیں تو انہیں “قطعہ بند” کہا جاتا ہے۔ عام طور پر غزل کے شاعر کو دو مصرعوں میں مکمل مضمون ادا کرنا پڑتا ہے اس لئے وہ اختصار اور رمز و کنایے سے کام لینے پر مجبور ہے۔

دوسری خاص بات یہ ہے کہ قصیدے اور مثنوی کی طرح غزل خارجی نہیں بلکہ داخلی صنفِ سخن ہے اور شاعر اس میں وہی بیان کرتا ہے جو اس کے دل پر گزرتی ہے۔ اس لئے غزل کے خاص موضوعات حسن و عشق ہیں۔ ایک اور بات کہ غزل کا شاعر عام طور پر نرم ،سبک اور شرین الفاظ کا استعمال کرتا ہے۔ حالانکہ اصل بات یہ ہے کہ شاعر ہر طرح کے الفاظ استعمال کر سکتا ہے بشرطیکہ اسے لفظوں کے استعمال کا سلیقہ ہو۔ بحر حال غزل ایک غنائی صنفِ شاعری ہے اور ترنم و موسیقی سے اس کا گہرا تعلق ہے۔ یہی سبب ہے کہ مشاعرے بہت مقبول رہے اور ان میں غزلوں کی فرمائیش کی جاتی رہی ہے۔

غزل کا ارتقاء

اردو شاعری کا بیشتر سرمایہ غزل پر مشتمل ہے اور تقریباً تمام شاعروں نے غزلیں کہی ہیں۔ لیکن یہاں صرف صف اوّل کے غزل گو شعراء کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ دکن کا پہلا صاحب دیوان شاعر قلی قطب شاہ غزل گو بھی تھا لیکن اس صنف میں جن دکنی شعراء نے خاص طور پر نام پیدا کیا ان میں سراجؔ اور ولیؔ قابل ذکر ہیں۔ شمالی ہند کے فارسی شعرا ولیؔ کا کلام دیکھ کر ہی اس طرف متوجہ ہوئے۔

ان میں شاہ حاتم، شاہ مبارک آبرو، مرزا مظہر جان جاناں کے نام اہم ہیں۔ اس کے بعد غزل کے سنہری دور کا آغاز ہوتا ہے۔ اس دور کے لافانی شاعر ہیں میرؔ، سوداؔ اور دردؔ ہیں۔ اس کے بعد دہلی کے اجڑنے پر لکھنؤ میں شاعری کی محفل جمتی ہے۔ یہاں کے شاعروں میں مصحفیؔ ،انشاءؔ اور جرأتؔ قابل ذکر ہیں۔ ان کی غزلوں کا انداز شعراے دہلی کی غزلوں سے مختلف ہے۔ اس کے بعد دہلی میں پھر سے شاعری کی محفلیں آراستہ ہوتی ہیں۔ غالبؔ ،ذوقؔ اور مومنؔ اسی دور سے تعلق رکھتے ہیں۔ غالبؔ نے غزل کے موضوعات کو وسعت دی اور اسے فکر سے آشنا کیا۔ ذوقؔ نے زبان پر زیادہ زور دیا۔ مومنؔ نے معاملاتِ عشق میں نام حاصل کیا۔

اقبالؔ نے غزل میں فلسفہ پیش کرکے ایک نۓ انداز کی بنیاد رکھی۔ ان کے بعد اصغرؔ ،فانیؔ ، شادؔ، حسرتؔ، آرزوؔ ،یگانہؔ اور جگرؔ نے غزل کو فروغ دیا۔ پھر فراقؔ، فیضؔ، روشؔ ،جذبیؔ ،خورشیدؔ، ناصر کاظمی، خلیل الرحمان اعظمی، ظفر اقبال، احمد مشتاق ،شکیبؔ جلالی، ساقی فاروقی ، عادل منصوری ، محمد علوی ، پرکاش فکری ، اطہر نفیس ، منظور ہاشمی وغیرہ ہیں۔

Mock Test 7

غزل کی تعریف، آغاز و ارتقاء 1