افسانہ کے اجزاۓ ترکیبی

0

افسانے کی دنیا میں بہت انقلاب آتا رہا ہے پلاٹ، کردار، نقطہ نظر، اور وحدت تاثر کے بغیر کچھ دن پہلے تک افسانے کا تصور ممکن ہی نہ تھا مگر ایسا زمانہ بھی آیا کہ بغیر پلاٹ کے کہانیاں لکھی جانے لگیں ،بغیر کسی مرکزی کردارکے کہانیاں لکھی گئیں،نقطہ نظر کو تو افسانہ ہی کیا سارے ادب کے لیے مضر اور مہلک ٹھہرایا گیا۔وحدت تاثر کے بارے میں کہا گیا کہ اس کا تو وجود سرے سے ہی نہیں ہے۔جدید افسانہ پڑھنے والے کے ذہن میں مختلف بلکہ متضاد تاثرات پیدا ہوتے ہیں۔آخر علامتی اور تجریدی افسانے نے جنم لیا جس کے لیے روایتی اجزائے ترکیبی فضول اور بے معنی ہوکر رہ گئے۔لیکن ہم ادب کے طالب علموں کو بہرحال ان سے بخوبی واقف ہونا چاہیے۔

افسانہ کے اجزاے ترکیبی مندرجہ ذیل ہیں۔‌

• پلاٹ

مختصر افسانے کے اجزائے ترکیبی میں پلاٹ سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے مختصر افسانے میں جو کچھ پیش کیا جاتا ہے اس میں ترتیب کا خاص خیال رکھنا چاہئے اسی سے افسانہ آگے بڑھتا ہے اور اسی کا نام پلاٹ ہے۔واقعات میں پہلے سے ترتیب قائم کرلی جائے تو افسانہ نگار ادھر ادھر بھٹکنے سے بچا رہتا ہے، مرکزی خیال پر جمی رہتی ہے۔غیر ضروری تفصیلات افسانے کے ارتقا میں رکاوٹ نہیں بنتیں اور افسانہ منطقی ترتیب سے آگے بڑھتے بڑھتے نقطۂ عروج تک پہنچ جاتا ہے۔پلاٹ سادہ اور غیر پیچیدہ ہو تو قاری کا ذہن الجھنے سے بچا رہتا ہے اور آسانی سے فنکار کا ہمسفر بنا رہتا ہے۔

افسانے کی تشکیل میں پلاٹ کو بنیادی اہمیت حاصل ہے پلاٹ وہ کینوس ہے جس پر واقعات مختلف نقوش کی مانند ابھرتے ہیں اور ان نقوش کو جوڑ کر کہانی مکمل ہوتی ہے۔پلاٹ سے ہی کہانی کے شروع، درمیان، اور اس کے اختتام میں ایک رشتہ قائم رہتا ہے پلاٹ میں اس بات کا خاص خیال رکھنا پڑتا ہے کہ واقعات کی ترتیب میں کہانی کا تسلسل ٹوٹنے نہ پائے۔کیونکہ ایسی کہانی جو واقعات کے ربط و تسلسل کو قائم کرۓ قاری کے ذہن پر گہرا اثر چھوڑتی ہے۔پلاٹ کو افسانے کی ریڈ کی ھڈی کہا جاتا ہے کیونکہ اگر افسانے سے پلاٹ کو خارج کردیا جائے تو وہ افسانہ نہیں کہلایا جائے گا۔

افسانے کے پلاٹ یا تو سادہ ہوتے ہیں یا پیچیدہ۔سادہ پلاٹ میں واقعات کے ابتداء، وسط، اور انتہا کا خیال رکھتے ھوئے منطقی تسلسل کو قائم کیا جاتا ہے،جب کہ پیچیدہ پلاٹ والے افسانوں میں واقعات اور کردار خارجی اور داخلی تصادم سے گزرتے ہیں اور کہانی میں الجھن پیدا ہوتا ہے اور کہانی قاری کی توقع کے مطابق ختم نہیں ہوتی۔

کچھ عرصہ پہلے جدید افسانہ نگاروں کا ایک گروہ پلاٹ سے بیزار ہوگیا تھا اس کا کہنا تھا کہ جب زندگی میں نظم و ترتیب نہیں تو افسانے میں لازمی طور پر پلاٹ کا ہونا ایک غیر فطری بات ہے اس لیے بغیر پلاٹ کے کہانیاں بھی لکھیں گئیں مگر وہ قاری کی گرفت سے باہر ہی رہی اور اب یہ خیال عام ہے کہ افسانے میں کہانی پن کا ہونا ضروری ہے ۔کہانی پن واقعات سے پیدا ہوتاہے اور واقعات میں ظاہری طور پر نہ سہی تو پوشیدہ طور پر ربط ضرور ہوتا ہے۔یہی ربط ‘پلاٹ’ ہے اور افسانے میں اسکی اہمیت مسلم ہے۔

• کردار

افسانے میں پیش آنے والے حالات و واقعات کی معنویت ان افراد سے قائم ہوجاتی ہے جو کہانی میں کرداروں کے روپ میں سامنے آتے ہیں ان افراد کی حرکات و سکنات، خیالات و نظریات کی مدد سے افسانہ نگار کے بیانیہ سے ابھر کر سامنے آتے ہیں۔جو کردار افسانے میں ابھرتے ہیں وہ ہمارے روزمرہ زندگی میں پیش آنے والے افراد سے مشابہت رکھتے ہیں۔
افسانے میں کردار پلاٹ سے کم اہم نہیں۔ افسانے میں جو واقعات پیش آتے ہیں وہ کسی نہ کسی کردار کے سہارے ہی پیش آتے ہیں اسلیے افسانے میں کردار نگاری کو ایک اہم مقام حاصل ہے۔ناول نگار کو یہ سہولیت ہوتی ہے کہ کردار پر مختلف زاویوں سے روشنی ڈالی جا سکے اور اسے ہر روپ میں دیکھا جا سکے لیکن افسانے کا پیمانہ محدود ہوتا ہے اسلئے افسانہ نگار کردار کا ہر رخ پیش نہیں کرسکتا وہ کسی ایک زاویے سے روشنی ڈال کر اس کا کوئی اہم پہلو نمایاں کرتا ہے۔

کردار دو طرح کے ہوتے ہیں جامد۔ یعنیی ٹھہرے ہوئے کردار جو شروع سے آخر تک یکساں رہتے ہیں یہ بہت فطرت انسانی کے خلاف ہے۔اچھا اور سچا کردار وہی ہوتا ہے جو حالات کے ساتھ تبدیل ہوتا رہے اس کا ارتقاء جاری رہے۔اسی طرح یہ بھی نہ ہو کے کردار صرف خوبیوں اور خرابیوں کا مجموعہ ہو اسی کردار کو کمیاب کہا جاسکتا ہے جو دنیا کے حقیقی اور اصلی انسانوں جیسا ہو۔

غرض کردار نگاری افسانے کی جان ہے افسانہ نگار جتنا کامیاب کردار نگار ہوگا، نفسیات انسانی کا جتنا ماہر ہوگا، اتنا ہی اچھا افسانہ پیش کرسکے گا۔

• نقطۂ نظر

ہر فنکار کوئی خاص نقطۂ نظر رکھتا ہے اور اس نقطۂ نظر کی پیشکش کے لئے فنکار اپنی تخلیق کو جنم دیتا ہے۔مثلا پچھڑے ہوئے طبقے کی خراب و خستہ مالی حالت نے پریم چند کو رنج پہنچایا ان کی خستہ حالی سے ملک کو روشناس کرانے کے لیے انہوں نے ایک لازوال افسانہ ‘کفن’ پیش کردیا۔مولوی نذیر احمد نے محسوس کیا کہ ہندوستانیوں کو انگریزوں کی نقل نہیں کرنی چاہیے اپنا یہ نقطۂ پیش کرنے کے لئے انہوں نے ایک ناول ‘ابن الوقت’ تصنیف کیا۔
ہر انسان ہر معاملے میں اپنا نقطہ نظر رکھتاہے مصنف حساس ہونے کے ساتھ ساتھ بالعموم مطالعے اور مشاہدے کی دولت سے بھی مالا مال ہوتا ہے اس لیے ممکن نہیں کہ کسی معاملے میں اس کا اپنا کوئی نقطہ نظر نہ ہو۔لیکن فنکار کا کمال اس میں ہے کہ وہ اپنے نقطہ نظر کو زیادہ نمایاں نہ ہونے دے چنانچہ ‘کفن’ میں پریم چند اپنے نقطہ نظر کو بہت واضح نہیں ہونے دیتے۔

• مکالمہ

مکالمہ اس گفتگو کو کہا جاتا ہے جو کرداروں کے درمیان ہوتی ہے اور اس گفتگو سے ہی کرداروں کے ظاہر وباطن پر نظر پڑتی ہے۔مکالمہ بھی افسانے کے اجزائے ترکیبی میں ایک اہم جزو تصور کیا جاتا ہے۔کیونکہ یہ کرداروں کی تخلیق و تعبیر میں خاص اہمیت کا حامل ہے۔ مکالمے کے وسیلے سے ہی کرداروں کے صحیح احساسات و جذبات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
مکالمہ نگار کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ جس عہد و تہذیب کی بات کر رہا ہوں اس عہد یا تہذیب کی خصوصیت، رہن سہن، تہذیب وتمدن، بول چال، تمام باتوں کا خیال رکھے تاکہ افسانہ پڑھنے والوں کے سامنے اس عہد یا تہذیب کا پورا نقشہ آجائے۔اس سے کرداروں میں جان پڑ جاتی ہے۔ اردو میں پریم چند، علی عباس حسینی، کرشن چندر، عصمت چغتائی، منٹو، اور بیدی کے مکالمے کامیاب تصور کیے جاتے ہیں۔

• آغاز و اختتام

کہانی کا آغاز ایسا ہونا چاہئے کہ پڑھنے والا فوراً متوجہ ہوجائے اور اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوجائے کہ آگے کیا ہونے والا ہے یہ خواہش آخرتک باقی رہے اور جب افسانہ ختم ہو تو پڑھنے والے کے دل پر ایک گہرا نقش چھوڑ جائے۔بعض روسی افسانہ نگاروں نے تو ایسی کہانیاں لکھی ہیں جو کاغذ پر ختم ہونے کے ساتھ ہی قاری کے ذہن میں شروع ہوجاتی ہیں ۔مطلب یہ کہ قاری کے دماغ میں ایک ایسا سوالیہ نشان ابھرتا ہے جس کا جواب وہ آئندہ زندگی میں ڈھونڈتا رہتا ہے یہی فن کا کمال ہے۔

• اسلوب بیان

کہانی کا اسلوب یا طرز نگارش کہانی کی مقبولیت یا عدم مقبولیت کا بڑی حد تک ذمہ دار ہے۔افسانے کا کینوس بہت چھوٹا ہوتا ہے اسلئے ضروری ہوا کہ کم سے کم لفظوں میں زیادہ سے زیادہ بات کہہ دی جائے۔یہ اسی وقت ممکن ہے جب کہانی کا ایک ایک لفظ آگے بڑھانے میں مددگار ہو گویا کہا جاسکتا ہے کہ کہانی کا فن غزل کے فن سے ملتا جلتا ہے۔