اردو نثر میں طنز و مزاح

0

اردو نثر میں طنز و مزاح کا سرمایہ مختصر ہونے کے باوجود نہایت قابل قدر ہے۔طنز اور ظرافت کے جتنے روپ ممکن ہیں وہ سب، خواہ وہ کتنے ہی کم کیوں نہ ہوں،ہماری نثر میں ضرور مل جاتے ہیں۔اسی طرح پست اور بلند ہر سطح کے نمونے ہمارے ادب میں موجود ہیں۔چناچہ عوام اور خواص دونوں کی دلبستگی کے سامان کی یہاں کمی نہیں۔مزاح کا مقصد محض لطف اندوزی ہے تو طنز میں اصلاح کا جذبہ کارفرما ہوتا ہے۔پست درجے کا طنز کسی کو نیچا دکھانے کی غرض سے بھی وجود میں آسکتا ہے۔ایک اور اہم بات ذہن میں رکھنے کی ہے کہ خالص مزاح اعلی درجے کی چیز ہے اور قاری اس سے لطف و انبساط حاصل کرتا ہے لیکن خالص طنز یعنی وہ طنز جس میں مزاح کی آمیزش نہ ہو محض دشنام بن کے رہ جاتا ہے۔

دراصل انسان ایک ہنسنے والا جانور ہے۔خدا نے انسان کو کئی نعمتوں سے نوازا ہے۔ان میں سے ایک قیمتی نعمت ہنسی بھی ہے۔ہنسی احساس برتری کا نتیجہ ہوتی ہے دوسروں کی کمزوریوں یا اپنی پچھلی کوتاہیوں کے سبب وجود میں آتی ہے۔مگر شرط یہ ہے کہ وہ کمزوریاں اور کوتاہیاں درد انگیز نہ ہوں۔

دراصل ہنسنا اور ہنسانا انسان کی فطرت ہے۔ چونکہ ہنسی کے ذریعے خوشی پھیلتی ہے اس لیے اس کی ضرورت ہر زمانے میں محسوس کی گئی۔اور ہنسانے کے نئے نئے طریقے ایجاد ہوئے۔ادب کے ذریعے ہنسانے کا فن ظرافت کہلایا۔اعلی درجے کی ظرافت اسے ٹھہرایا گیا جو نہ ہنساۓ، نہ ہی قاری کو مسکرانے پر مجبور کرے بلکہ اس کے ذہن کو گدگدائے اور ایک فرحت عطا کرے۔ظرافت سے سرور و انبساط تو حاصل ہوتا ہی ہے اس کے علاوہ سماجی خرابیاں بھی منظرعام پر آتی ہیں۔اور طنز و مزاح نگار کا ہنسی کے پردے میں یہ مقصد ہوتا ہے کہ ہر قاری کے دل میں بدی سے نفرت پیدا ہو اور اسے دور کرنے کا جذبہ ابھرے۔اور یہ بات اٹل ہے کہ ظرافت کے پیرائے میں کہی گئی بات سنجیدہ نصیحت سے زیادہ اثر کرتی ہے۔

مزاح اور طنز میں فرق یہ ہے کہ مزاح کا مقصد حصول مسرت کے سوا کچھ نہیں۔مزاح در اصل زندگی کے مضحک پہلوؤں کی نقاب کشائی کرنے کا نام ہے۔اس کے برعکس طنز با مقصد ہوتا ہے اور اصلاح اس کا مقصد ہوتا ہے۔یاد رہے کہ خالص مزاح اعلی درجے کی چیز ہے قاری اس سے لطف اور خوشی حاصل کرتا ہے لیکن خالص طنز جس میں مزاح کی آمیزش نہ ہو محض دشنام بن کے رہ جاتا ہے اس لیے طنز کے لئے ضروری ہے کہ یہ مزاح سے بیگانہ نہ ہو بلکہ کونین کو شکر میں ملا کر پیش کرے اور لطیف پیرائے میں بیان کرے۔

طنزومزاح کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ادب میں اس کی عمر بہت زیادہ نہیں خود ہمارے ادب کی عمر زیادہ لمبی نہیں لیکن اس کی مقدار اور اس کے معیار کو تنقید کی کڑی سے کڑی کسوٹی پر پرکھا جائے تو یہ اس پر پورا اترتا ہے اور طنز و ظرافت کے جتنے بھی روپ ممکن ہیں وہ سب خواہ کتنے ہی کم کیوں نہ ہوں ہماری اردو نثر میں ضرور میں جاتے ہیں۔جہاں تک اردو نثر میں طنز و مزاح کا تعلق ہے تو اس کے دھندلے نقوش ہمای اردو کی ابتدائی داستانوں سے ملنا شروع ہو جاتے ہیں۔اس سلسلے میں جس داستان کی طرف سب سے پہلے ہمارا ذہن منتقل ہوتا ہے وہ میر امن دہلوی کی ,باغ و بہار، ہے۔لیکن چونکہ قصے کی سنجیدگی فضا پر غالب آ گئی ہے لہٰذا ظرافت کے نقوش دب کر رہ گئے ہیں۔اس کے بعد اس سلسلے کی دوسری داستان لکھنوی طرز کی حسین نچوڑ سرور کی ,فسانہ عجائب، ہے۔اس دور کی بعض دوسری داستانوں مثلاً حیدر بخش حیدری کی, طوطا کہانی، اور حاتم کی, الیف لیلا، کے تراجم میں مزاح کی ہلکے پھلکے نقوش ضرور ملتے ہیں لیکن ان کا رنگ زیادہ شوخ نہیں۔

اگر اردو نثر کا بطور غور جائزہ لیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ اردو نثر میں طنز و مزاح کا آغاز اصل میں اردو ادب کی عظیم ہستی مرزا اسد اللہ خان غالب کے خطوط سے ہی ہوا۔ان کے خطوط کی تحریر سے یوں لگتا ہے جیسے کوئی آنسوؤں میں مسکرا رہا ہے۔اردو نثر میں ظرافت کے بہترین نمونے غالب کے خطوط میں ملتے ہیں۔ایک نقاد کے الفاظ میں”انہوں نے پہلی بار  ہلکے ہلکے مزاح کی آمیزش سے وہ دل افروز کیفیت پیدا کر دی جو انگریزی نثر میں ایڈیسن اور اسٹیل کی تحریروں کی رہین منت ہے۔لیکن جس کا اردو نثر میں اس سے قبل کوئی نشان نہیں ملتا” خوش مزاجی غالب کی شخصیت کا بنیادی وصف ہے۔دل آسائی اور دلجوئی ساری زندگی ان کا شیوا رہا۔نجی زندگی ہو، شاعری ہو یا مکتوب نگاری ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ ان کے قلم یا زبان سے جوکچھ نکلے وہ لوگوں کو خوشی فراہم کرے۔

غالب کو ساری زندگی مصائب کا سامنا رہا۔تنگدستی، ناقدری، بیماری، دوستوں کی جدائی، غدر کی تباہکاری۔۔۔ان سب کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے مزاح میں افسردگی پیدا ہوگئی لیکن اس افسردگی کو انھوں نے اپنی عالی حوصلگی،خوش مزاجی اور ضبط و تحمل سے آمیز کردیا۔چناچہ ان کا تصور کیجئے تو ایک ایسی تصویر ابھرتی ہے جس کی آنکھوں میں آنسو ہیں اور ہونٹوں پر مسکراہٹ۔ان کے خطوط کے کچھ جملے سنیے۔ایک خط میں لکھتے ہیں”لوگ روٹی کھاتے ہیں میں کپڑا کھاتا ہوں”دیکھا آپ نے غربت کی کیسی تصویر کھینچی ہے۔سخت علالت کے دوران جسمانی کمزوری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں” اگر اٹھتا ہوں تو بتکلف اتنی دیر میں، جتنی دیر میں قدِ آدم دیوار اٹھتی ہے” ایک خط میں فرماتے ہیں کہ” میرا حال مجھ سے کیا پوچھتے ہو، دو چار دن میں پڑوسیوں سے پوچھ لینا” ثاقب کو بیرنگ خط بھیجتے ہوئے لکھتے ہیں” آج میرے پاس نہ ٹکٹ ہے نہ دام، معاف رکھنا والسلام۔”

ان مثالوں سے یہ بات بھی واضح ہوگئی ہوگی کہ وہ طنز و تمسخر کا نشانہ دوسروں کو نہیں بناتے۔اپنے اوپر آپ ہنستے ہیں۔اس کے لیے بڑا جگر چاہیے ۔غالب کی ظرافت تندوتیز نہیں انکی تحریریں ہنساتی نہیں صرف مسکرانے پر مجبور کردیتی ہیں۔اور کبھی کبھی تو ذہن میں ایک گد گدی سی ہوتی ہے اور بس یہ ظرافت کی سب سے اعلی قسم ہے۔
١٨٧٧ء میں “اودھ پنج” اخبار جاری ہونے کے ساتھ ہی اردو میں طنز و مزاح کی ایک نئے اور بھرپور دور کا آغاز ہوتا ہے۔اس اخبار کے ذریعہ ملک میں ظرافت کا ذوق عام ہوا۔اس کے لکھنے والوں میں رتن ناتھ سرشار، سجاد حسین، تربھون ناتھ ہجر،مرزا مچھو بیگ ستم ظریف،جوالا پرشاد برق،احمد علی شوق،منشی احمد علی کسمنڈوی،اور نواب سید محمد آزاد قابل ذکر ہیں۔

سرشار کی تحریروں میں مضحکہ خیز واقعات بھی قدم قدم پر نظر آتے ہیں۔لکھنؤ کی تہذیب اور لکھنؤ کی معاشرت سرشار کے رگ و پے میں سرایت کیے ہوئے ہے۔زبان وبیان سے انھوں نے کامیاب طور پر ظرافت کی ہے۔لفظی الٹ پھیر، اردو فارسی کے بے محل الفاظ کا مضحکہ خیز استعمال،لطافت،حاضر جوابی،بذلہ سنجی اور ضلع جگت بیتی تدبیروں سے کام لینا انہیں خوب آتا ہے۔
اودھ پنچ کے ایڈیٹر سجاد حسین تھے۔اس اخبار کی کامیابی انہی کی رہین منت ہے۔ان کا اپنا قلم بھی بہت جاندار ہے ثبوت یہ ہے کہ ان کی تصانیف حاجی بغلول،طرحدار لونڈی اور احمق آج بھی مقبول ہیں۔انہوں نے طنزیہ انداز میں ہندوستانی رائسوں کے نام بھی خطوط لکھے۔سجاد حسین نے اپنے اخبار کے پرچم تلے اہل قلم کی ایک پوری جماعت کھڑی کردی،جس نے اپنی طنزیہ اور ظریفانہ تحریروں سے ملک میں دھوم مچا دی۔اس اخبار نے کم و بیش 36 برس تک اردو ظرافت کی خدمت کی اور اتنی طویل مدت تک اس کی مقبولیت اور ہر دلعزیزی میں کمی نہیں آئی۔

اردو نثر کے چند مشہور مزاح نگاروں میں مرزا فرحت اللہ بیگ، عظیم بیگ چغتائی،ملا رموزی،پطرس بخاری،رشید احمد صدیقی،شوکت تھانوی،کنہیا لال کپور،کرشن چندر وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں۔ان مصنفین نے اپنے اپنے مضامین میں طنزومزاح کے بہترین نمونے پیش کیے ہیں جن کی آج اردو نثر رہین منت ہے۔