Back to: Urdu Literature Notes
سر سید کئی اعتبار سے اردوزبان کے نئے ادیب او رمضمون نگار تھے۔ سر سید سے پہلے نئی ادب نگاری اور نئے ادبی شعور کا چلن بہت کم تھا۔ اردو میں اخبارات و رسائل کا رواج ہوا۔ تو سوچ کے پیمانے بدلے اس لیے کہ اب ان دور علاقوں اور طبقوں تک اپنی بات پہنچانی تھی۔ دائرہ بہت وسیع ہوگیا تھا۔ ان طبقوں میں نئی تعلیم بھی آرہی تھی۔ اور نئی بیداری پیدا ہو رہی تھی۔
اس سے پہلے ہمارے یہا ں اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کا ذریعہ مشاعرے تھے۔ ہم ان کے وسیلے سے اپنے خیالات احساسات جذبات اورتصورات کو پیش کرتے تھے۔ تو اس بات کالحاظ رکھتے تھے۔ کہ مشاعرے میں موجود ایک یا ایک سے زیادہ گروہوں کو ہمیں اپنی طرف متوجہ کرنا ۔اور ان سے اپنی بات کہنا ہے۔ اس لیے جو بات بھی کہی جاتی تھی۔ وہ گروہوں کو اپیل کرنے کے لیے کہی جاتی تھی۔
سر سید نے قوم کو بیدار کرنے کے لیے بہت سے اقدامات کیے اس میں سے ایک اخبار جاری کرنا بھی تھا۔ اخبارات اور رسائل کے ذریعے خیالات کی ترسیل اور توسیع ذہنوں پر زیادہ اثر انداز ہوتی تھی۔ کیونکہ ان میں جو باتیں چھپتی تھیں وہ اپنے پڑھنے والوں کو متاثر کرتی تھیں ۔ ان پر مختلف لوگ تبادلہ خیال کرتے تھے۔ رائے دیتے تھے اور Comment کرتے تھے ۔ تو گفتگو عوام میں پڑھنے سے پہلے وہ اخبارات کے کالموں میں یا رسائل کے صفحات پر چھپ جاتی تھیں ۔ اور ان کے اثرات نیز ان میں موجود سوالات برابر ذہنوں کو متاثر کرتے رہتے تھے۔ اور زبانوں پر آتے رہتے تھے۔
سر سید نے عام تقریروں کے بجائے اپنے آپ کواخبارات اور رسائل کے ذریعے دوسروں تک پہنچایا۔ او ر اس طرح سے ان کے اثرات نسبتاً زیادہ گہرے ہوئے۔ اور لوگوں کے ذہن میں سر سید کے لیے یہ خیال ہوا کہ وہ قوم کے لیے نئے خطوط پر کام کر رہے ہیں ۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ سر سید نے اس زمانے میں قوم کے لیے ایک بہتر راستے کا انتخاب کیا۔ کہ ان کو نئی تعلیم کی طرف لائے۔ اور نئی تعلیم کے وسیلے سے نئے زمانے اورنئی انگریزی زبان تک لائے۔ اگر سر سید نئی طرح کے اسکول قائم کرنے کی بات نہ کرتے تو قوم میں نئی طرح کی تعلیم کا رواج ہی نہ ہوتا۔
سر سید نے قوم کی بہت خدمت انجام دی اورجو کچھ ان کے ذہن میں آیا۔ اسے اخبارات و رسائل کے ذریعے پیش کردیا۔ اور قوم کو ایک نئی سوچ اورنئے زاوےہ نگاہ تک لانے کی کوششیں کی۔ سر سید کی زندگی کا اصل مقصد مسلمانوں میں علمی بیداری کرنا تھا۔ اور ان کوجدید تعلیم سے آراستہ کرنا تھا۔ کیونکہ یہ وہ وقت تھا جب جدید تعلیم حاصل کرنے کو عام لوگ ایمان میں خلل خیال کرتے تھے۔ اور اسے عام خیال میں کفر سے تعبیر کیا جاتا تھا۔ اپنے اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے سر سید نے سب سے پہلے تہذیب الاخلاق کا سہارا لیا۔ اور اس میں تعلیم اور خاص کر نئی تعلیم کے بارے میں لکھا اور اس میں مدلل بحث کرکے یہ ثابت کیا کہ نئی تعلیم اور نئی روشنی آج ہمارے لیے کتنی ضروری ہے۔
سرسید نے مغربی تعلیم کو ترقی کا وہ راستہ بتایا جس کو حاصل کرکے انسان زندگی کے اعلیٰ مقام تک پہنچ سکتا ہے۔ اپنے رسائل اور اخباروں کے ذریعے سر سید نے اس خیال کو بھی فروغ دیا کہ مسلمان جب تک تعلیم کے میدان میں آگے نہیں بڑھیں گے وہ اس دنیا میں کوئی مقام بھی نہیں پاسکیں گے۔
سر سید نے خود کو ایک قوم پرست کی حیثیت سے پیش کیا اور انھوں نے ہندو اور مسلمانوں دونوں کی بہتری کی کوششیں کیں ۔ سر سید کی تحریروں میں ہمیں سیاسی نظریات کا بھی ارتقائ نظر آتا ہے۔ سر سید کا خیال تھا کہ مسلمانوں کے لیے کسی بھی طرح کی تعلیمی ترقی اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ وہ خود کو سیاست سے الگ نہ کر لیں کیونکہ تعلیم کے بغیر کوئی بھی کام بہتر طور پر نہیں کیاجاسکتا۔ اور غیر تعلیم یافتہ یا دبی کچلی قومیں سیاست میں حصہ لے کر کچھ نہیں کر پاتیں تو بہتر ہے۔ کہ پہلے تعلیم پر زور دیا جائے اور بعد میں بہتر طریقہ سے سیاست میں حصہ لیا جائے۔ تو اس کے خاطر خواہ نتائج بھی مل سکتے ہیں ۔
تہذیب الاخلاق اردو کا پہلا رسالہ تو نہیں تھا۔ یہ انیسویں صدی کے ربعہ ثانی میں نکلا۔ اس وقت تک اردو رسائل کی طرف کافی توجہ ہوگئی تھی۔ پرانا انداز رفتہ رفتہ نئے اسلوب میں بدلتا اور نئے سانچوں میں ڈھلتا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے۔ کہ ہمارے اردو رسائل نے انگریزی میگزین کو بھی اپنے سامنے رکھا۔ اور ایک سطح پر ایسا نکتہ نظر اپنایا ۔جس کو ہم بین الاقوامی فکرو نظر کہہ سکتے ہیں ۔ اس زمانے کے رسائل کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے ۔کہ ان میں ایک طرح سے ایسی خبریں اور مضامین بھی نکلتے تھے۔ جن کا تعلق عالمی ادب اوراخبار ناموں سے ہوتا تھا۔
سر سید نے دوسرے ملکوں کے اخباروں پر بھی یہ Comment کیا ہے کہ اخبار تو نکلناشروع ہو گئے تھےمگر پبلک اصلاح اور نیک خصلتوں کو ترقی دینے کا کسی ملک میں خیال نہیں پیدا ہوا تھا۔ اصل میں جب تک نئی تحریکات نہیں ابھرتیں اس وقت تک اخبار نویسوں کی زبان قلم پر بھی نئی باتیں نہیں آتیں ۔
سر سید نے اگرچہ اردو کو آگے بڑھانے میں ترقی دینے میں بہت کام کیا۔ لیکن ان کی زبان الجھی الجھی ہے۔ اور نئی ترقیوں کے ابتدائی مرحلوں اور تبدیلیوں کا پتہ دے رہی ہے ۔سر سید لکھتے ہیں ۔
’’لیکن کسی شخص کو یہ خیال نہ آیا تھا کہ کوئی ایسا پرچہ یا رسالہ نکلے جو جلد جلد ایک مناسب معیارپر چھپا کرے اور قومی برائیوں کو بتایا کرے اور لوگوں کو قومی بھلائی کی ترقی پر رغبت دلاتا رہے‘‘ ۔
سولھویں صدی میں مانٹین صاحب نے جو فرانس کے ایک مشہور عالم تھے۔ انسانی عادت و خصلت پرکچھ مضمون چھپوائے تھے۔ اور لابروے صاحب وہ بھی ایک فرانسیسی عالم تھے۔ اس طرف توجہ کی اور انسان کی اور وقت کی ضرورتوں کو محسوس کرتے ہوئے۔ اسی موضوع پر ایک کتاب لکھی ۔کتاب میں اس وقت کے بادشاہ فرانس کے دربار اور اس کے طریقوں سلیقوں پر طنزیہ گفتگو کی گئی تھی۔ مطلب یہ کہ عام انسانوں تک پہنچانے کے لیے اور انسان کو دنیااور اس کی تہذیب اور اس کی عام ترقیوں اور ضرورتوں سے روشناس کرانے کے لیے اس طرح کے رسالے اور اخبار بہت ضروری ہیں ۔ اس طرح رسالے اور اخبار سماجی طور پر ایک اہم فریضہ انجام دیتے ہیں ۔ اس سلسلے میں سر رچرڈ اسٹیل صاحب نے خود کہا ہے ۔ میرا یہ رسالہ نکالنے کا مقد یہ تھا کہ انسان اور سماج میں جو عیب ہیں ۔ جھوٹی اور بناوٹی زندگی ہے۔ مکاری اور جھوٹا پن ہے۔ اس سے سوسائٹی کو روشناس کرائیں ۔ اور اپنی قوم کی زندگی میں ایک طرح کی سادگی پیدا کریں ۔ لیکن یہ میگزین زیادہ دن نہیں چل سکا۔ اور صرف ١٧٢نمبر نکلنے کے بعد یہ بند ہو گیا۔
’’سر سید نے ادبی صحافت کو جس انداز نظر سے دیکھا تھا۔ اس کے نمونے ان مختلف رسالوں میں دیکھے جاسکتے ہیں ۔ اور دنیا کے مختلف ملکوں میں جو رسالے نکالے جارہے تھے ان کو پسند کیا۔اسپکٹیڑ یہ پرچہ اپنے زمانے میں بے نظیرتھا۔ اور صرف ٹٹلیر ہی کو اس نے نہیں بھلایادیا تھا۔ بلکہ اس زمانے میں جس قدر کتابیں اس قسم کی تصنیف ہوتی تھیں ۔ ان سب پر فضیلت رکھتا تھا۔ اس میں عمدہ عمدہ اخلاق و آداب کے مضامین لکھے جاتے تھے۔ اور عمدہ قاعدے بیان ہوتے تھے‘‘
یہ رسالے اس لیے بھی نکالے جارہے تھے۔ کہ لوگوں کی سوچ ان کی گفتگو، برے کلمات اورغلط محاوروں اوردوسرے لغویات سے خراب ہو رہی تھیں وہ درست ہوں ۔ ان کی سوچ بدلے۔ اور دنیا کو اپنے اپنے بارے میں جاننے کا شوق پیدا ہو۔
تہذیب الاخلاق وہ علمی ادبی اور تہذیبی رسالہ تھا۔ جسے سر سید نکالتے تھے۔ اور اس میں زیادہ تر مضامین خود سر سید اوران کے ساتھیوں کے ہوتے تھے۔ ایسے مضامین بھی اکثر اس رسالے کے صفحات میں سامنے آتے رہتے تھے۔ جو انگریزی سے ترجمہ کیے جاتے تھے۔
دہلی کالج قائم ہو چکا تھا۔ اور اس میں نئے سائنسی علوم اور خود انگریزی زبان پڑھانے کا سلسلہ جاری ہوا۔ اور اس کا اثر عام ذہنوں پر بھی مرتب ہوا۔ اس زمانے کا ایک شعر ہے۔
ہجر میں ابر بہاری کا برس کر کھلنا
بارورآیا ہمیں پانی کا ہوا ہو جانا
اس شعر سے اس زمانے کی شہر دہلی کی تعلیمی اور تہذیبی فضا کا اندازہ ہوتا ہے۔ کہ شروع شروع میں لوگ نئے سائنسی تجربوں اور علمی نظریات سے اختلاف کرتے بھی نظر آتے ہوں گے۔ رفتہ رفتہ ایک نئی علمی تہذیبی اور ذہنی فضا بنی، جس سے سوچ کاانداز بدلا۔ اوراس کا اثر ہماری شاعری نے بھی قبول کیا۔ قدیمانہ رنگ رکھنے والوں نے کم اور جدید تعلیم یافتہ طبقے نے کچھ زیادہ اثرلیا۔ وہ لوگ جن کی تعلیم قدیم دلی کالج میں ہوئی تھی۔ ان میں نئے خیالات اورنئے سوالات کا چرچا نسبتاً زیادہ تھا۔
سر سید جدید تعلیم یافتہ شخص نہیں تھے۔ لیکن نسبتاً بہت کم عمری سے انھوں نے نئے حالات اور نئے خیالات کا اثر قبول کرنا شروع کر دیا تھا۔ جس کا اندازہ ’’آثار الصنادید‘‘ کے ترجمے سے ہوتا ہے ۔ ترجمے کا انداز پرانے پن کی پرچھائیاں لیے ہوئے ہے پھر بھی یہ کچھ کم بات نہیں ہے۔ کہ ہمارے اس وقت کے بیدار نظر اہل علم اورعمومی سطح پر دلی جیسے قدیم شہر کے لوگ نئی تعلیم کی طرف متوجہ ہیں ۔
نئے علوم پرانے فنون کے ساتھ ان کی ذہنی زندگی کا ایک حصہ بنتے جارہے ہیں ۔ ذوق پرانے انداز کے آدمی ہیں ۔ لیکن ان کی معلومات کا دائرہ کافی وسیع اور رنگا رنگ ہے۔
تہذیب الاخلاق نکالنے کا مقصد اردو صحافت اور ادبی صحافت کے ذریعے پڑھنے والوں کو نئے ذہنی ماحول شہری ضرورتوں اورنئے عصری تقاضوں کو ذہن نشین کرانا تھا۔ آزاد نے اس کے لیے اپنی معروف تصنیف ’’آب حیات‘‘ میں شعوری طور پر مسئلے کو چھیڑنے کی کوشش بھی کی ہے ۔جبکہ آزاد ذوقؔ کے شاگرد بھی تھے۔ اور ذوق حافظ غلام رسول شوق کے۔ مگر اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ذہن نئی روشنی کی طرف مائل ہے۔ اور نئے افکارو اقدار سے حسب ضرورت و خواہش استفادہ کا سلسلہ چل رہا ہے۔
ذوق نے اپنی عمر کے آخری دور میں جو قصیدہ لکھا ہے ۔ ’’شب کو میں اپنے سر بستر خواب راحت ‘‘جس کا پہلا مصرعہ ہے۔ اس میں سترہ علوم و فنون کی اصطلاحیں استعمال کی گئی ہیں ۔ اس سے ہم اس نتیجے پر بھی پہنچ سکتے ہیں ۔ کہ ہمارے پرانے انداز سے پڑھنے والے بھی علم کی نئی روشنی سے آگاہ ہوتے جارہے تھے۔ غالب کی ذہانت اور ان کے ذہن کی نئی Approch ان کی شاعری اور نثر نگاری میں ظاہر ہوتی ہے۔ جبکہ ذوقؔ کے یہاں اس کا اظہار مختلف علوم و فنون پر نظر داری سے ہوا۔ اور مومنؔ کے یہاں ہم اسے خاص طرح کی جدیت پسندی میں دیکھتے ہیں ۔ نواب مصطفےٰ خاں شفیتہؔ سر سید کے ساتھیوں میں ہیں ،غالبؔ کے دوستو ں میں ہیں ، اور نئے ذہن کے آدمی ہیں ۔اگر ہم اس زمانے کے نمایاں اشخاص جیسے مفتی صدر الدین آزردہؔ ،یا حکیم محمود خان ،یا اس زمانے کے Intalectual لوگوں کو دیکھیں تو سمجھ میں آجائے گا کہ تبدیلیاں کیا آرہی ہیں ۔کس سطح پر اور کس دائرے میں آرہی ہےں ۔ اور ان کااثر اخبارات اور رسائل نیز خطوط ۔اور اظہار خیال کے دوسرے اسالیب کس طرح پر مرتب ہو رہا ہے۔
سر سید نے تہذیب الاخلاق کے لیے انگریزی جریدوں ٹٹلیر اور اسپکٹیٹرکو آئیڈیل مان کر مد نظر رکھا۔ ان دونوں رسالوں کے ادیب اپنی اپنی تحریروں کے ذریعے معاشرہ کی اصلاح چاہتے تھے۔ اور اپنی اپنی قوم کو پستی سے نکالنا چاہتے تھے۔ سر سید نے بھی اپنی قوم کو توہمات و عقائد کی پستی سے نکالنے کی کوشش کی ۔ مگر تہذیب الاخلاق میں مذہبی مباحث چھیڑنے سے سر سید مشن کو بہت نقصان پہنچا۔ کیونکہ ان کے بہت سے عقیدے و خیالات اسلام کے بنیادی عقائد سے میل نہیں کھاتے تھے۔
تہذیب الاخلاق کا مقصد مسلمانوں میں اصلاح پیدا کرنا تھا۔ سر سید نے صحافت کے ذریعے اردو ادب کو جدید خیالات اور نئے موضوعات دیئے اور اردونثر کو ایک ایسے اسلوب سے آشنا کرایا۔ جس میں مقصدیت کو کلیدی حیثیت حاصل ہے ۔ انھوں نے پُرتکلف اور مقفع و مسجع عبارتوں سے پرہیز کرتے ہوئے اس بات پر زوردیا کہ جو بات بھی کہی جائے وہ اس طرح کہی جائے کہ قاری یا پڑھنے والے کے دل میں اتر جائے۔
تہذیب الاخلاق جو سر سید نے ٠٧٨١ئ میں شروع کیا تھا صرف چھ ماہ کے مختصر سے عرصے میں اس میں ٦٢٢مضامین شائع ہوئے جن میں سے ٢١١مضامین خود سر سید کے تھے۔ مسلمانوں کی مذہبی اور فکری اصلاح کو پیش نظر رکھ کر ہی سر سید نے ان تمام مضامین کو اپنے اس میگزین میں لکھا۔
بہر حال سر سید نے جو کارنامے تنِ تنہا اپنی زندگی میں انجام دیئے وہ ان کے دنیا سے رخصت ہونے کے بعد پوری قوم مل کر بھی انجام نہ دے سکی۔ سر سید کی زندگی کے ایسے بہت سے گوشے آج بھی ہیں جو آج بھی ہمارے لیے تاریکیوں میں روشنی کا کام دے سکتے ہیں اور ہمارے لیے منارۂ نور بن سکتے ہیں ۔