غالب کے خطوط کی خصوصیات

0

غالب جب اردو نثر کے میدان میں آئے تو فورٹ ولیم کالج، دلی کالج اور صحافت کی کوششوں سے اردو نثر ترقی کی کئی منزلیں طے کرچکی تھی۔غالب نے عملی موضوعات پر زندگی بھر فارسی میں لکھا اور خطوط بھی فارسی میں لکھے لیکن آخری عمر میں جسمانی کمزوری کی وجہ سے ذہنی مشقت کے قابل نہ رہے تو انھوں نے اردو میں خطوط لکھنا شروع کر دیے اور مادری زبان میں خطوط نویسی کے لطف سے جب آشنا ہوئے تو پھر انہوں نے فارسی میں خط لکھنا تقریباً ترک ہی کر دیا۔

غالب نے اردو میں ایسے خطوط لکھے جو اپنے بے مثال ہونے کا ثبوت خود فراہم کرتے ہیں۔دراصل غالب ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے۔اپنے زمانے میں مروجہ علوم پر انہیں مکمل عبور حاصل تھا۔انہوں نے دو زبانوں، فارسی اور اردو کو وسیلہ اظہار بنایا تھا اور نظم و نثر دونوں میں اپنے جوہر دکھائے۔

جہاں تک غالب کی مکتوب نگاری کا تعلق ہے اس کی ادبی اہمیت کسی بھی شک و شبہ سے بالاتر ہے اور نثری ادب کا ضمنی سرمایہ ہے جس پر ہم بجا طور پر فخر کر سکتے ہیں۔ان مکاتیب کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ وہ اکثر و بیشتر حالتوں میں بندھی ٹکی باتیں ہیں جو ان مکاتیب کی فارم میں کہی گئی ہیں۔مثلا ان مکاتیب میں غالب نے قدیم طریقہ القاب و آداب استعمال نہیں کیا،غالب نے مراسلہ کو مکالمہ بنا دیا اور مروجہ اسلوب کے بجائے سادہ
، عام، فہم اور سلیس اسلوب تحریر ایجاد کیا۔خطوط کی ان خصوصیات پر زور دیا جن کا تعلق خطوط کے موضوعات سے ہے مثلاً ان کے خطوط سے مرزا کی حالات زندگی کے متعلق بہت سی دلائل معلوم ہوتی ہیں۔یہ خطوط ان کی شخصیت کے ترجمان ہیں۔یہ ایک تاریخی دستاویز کی حیثیت بھی رکھتے ہیں اور ان سے 1857ء کے ہنگامے کی تاریخ مرتب کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ لیکن جہاں تک ادب کا تعلق ہے ان کا دائرہ عمل بالکل مختلف ہے۔ہمیں ان خطوط سے اس لیے دلچسپی ہے کہ ان خطوط کا نثری اسالیب کے ارتقاء میں ایک بڑا حصہ ہے۔

غالب سے قبل اردو میں دقیق اور مسجع و مقفٰی نثر کا رواج تھا۔”فسانہ عجائب” کی نثر نے پورا سکہ جما دیا تھا اور اردو نظم کی طرح اوزان مقرر تھے، عبارت میں قافیہ کا خیال رکھا جاتا تھا۔الفاظ دقیق تھے، فارسی اور عربی الفاظ کی بھرمار تھی لیکن جدید اردو نثر کی بنیاد اور ادب میں لطیف مزاح کی داغ بیل خطوط غالب سے ہی پڑی ہے۔غالب سے پہلے نثر کا قدیم انداز تھا اور نثر مسجع و مقفی عبارت آرائی اور مصنوعی حسن کی چار دیواری میں قید تھی جس میں نہ سادگی تھی نہ سلاست۔غالب نے اس ماحول اور ادب کی حالت کا اندازہ لگایا۔انہوں نے اردو نثر میں وہ شان پیدا کیں جو آج تک کسی کو نہ نصیب ہو سکی۔غالب کے بعد کئی لوگوں نے خطوط لکھے لیکن کسی کو غالب تک رسائی حاصل نہ ہو سکی۔غالب کے خطوط جدید اردو نثر کے روح بن چکے ہیں۔

غالب کے خطوط پڑھ کر یہ لگتا ہے کہ دو آدمی بیٹھے آپس میں گفتگو کر رہے ہوں۔غالب نے اپنے خطوط میں لمبے لمبے القاب کر کر کے مختصر القاب لکھنے کی بنیاد ڈالی۔مگر ایسا بھی نہیں ہے کہ غالب نے بغیر القاب کے خطوط لکھے ہوں۔ انھوں نے بھی القاب لکھے ہیں وہ چھوٹوں کو مہاراجہ، سید صاحب، میاں، صاحب، میری جان وغیرہ القاب لکھتے تھے اپنے ہم عمر لوگوں کو اکثر و بیشتر پیر و مرشد،بندہ پرور، جناب عالی، قبلہ و کعبہ وغیرہ لکھتے تھے۔اور کئی لوگوں کی سماجی حیثیت سے مرغوب ہوکر انہوں نے طویل اور پرتصنع القاب بھی لکھے ہیں۔

غالب کے مزاج میں شگفتگی اور زندہ دلی ہے۔ان کے خطوط میں لطیف مزاح کی چاشنی ہے۔خطوط غالب کی زبان نہایت صاف، سادہ اور رواں ہے۔فارسی و عربی کے الفاظ کی بھرمار نہیں حالانکہ وہ فارسی و عربی خوب جانتے تھے۔

خطوط غالب کے مجموعے “اردو معلی” اور “عود ہندی” اردو ادب کا بہترین سرمایہ ہیں۔اردو ادب غالب کا احسان مند اور مرہون منت ہے۔

غالب کے خطوط کی تاریخی اہمیت بھی مسلم ہے اس کے علاوہ ان میں نجی زندگی کی جھلک بھی موجود ہے۔یہ خطوط اس زمانے کے حالات اور خاص طور پر غدر کے واقعات پر روشنی ڈالتے ہیں۔غالب مبالغہ، تکلف اور جھوٹ سے پرہیز کرتے ہیں قافیہ دار اور وزن دار عبارت سے بھی دور رہتے ہیں۔فارسی تراکیب اور پیچیدہ بندشوں سے بھی انہیں نفرت تھی۔

طنز و مزاح کا عنصر بھی خطوط غالب کی اہم خصوصیت ہے۔ان کے خطوط میں تبسم زیر لب پیداکرنے کی حلاوت موجود ہے۔وہ اپنے آنسوؤں کو ہنسی میں چھپا لینا جانتے تھے۔

بقول رشید احمد صدیقی” اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ ہندوستان کو مغلیہ سلطنت نے کیا دیا تو بے تکلف کہوں گا غالب اور تاج محل” اس قول سے معلوم ہوتا ہے کہ غالب کا مقام کس قدر بلند ہے۔غالب کے خطوط نے اردو نثر میں اضافہ کرکے اس کو چار چاند لگا دیے۔جدید اردو نثر دراصل غالب کے خطوط کی مرہون منت ہے۔