ترقی پسند تحریک کی خدمات

0

علی گڑھ تحریک کے بعد ترقی پسند تحریک دوسری شعوری تحریک تھی جسکے زیر اثر ہمارے ادب کو بعض اہم تبدیلیوں سے دوچار ہونا پڑا۔جن لوگوں نے اردو ادب کے مختلف شعبوں کا توجہ سے مطالع کیا ہے ان سے یہ حقیقت پوشیدہ نہیں کہ ہماری زبان میں شعر و ادب کا ایک بڑا ذخیرہ اس تحریک کی پیداوار ہے۔

ترقی پسند مصنفین کے نام سے ہمارے ملک میں جو تحریک ١٩٣٥ء میں شروع ہوئی اس کی یہ خصوصیت نظر میں رکھنے کی ہے کہ یہ پہلی ادبی تحریک تھی جس نے نہ صرف پورے ملک کے ادیبوں کو ایک نظریاتی رشتے میں منسلک کرنے کی کوشش کی بلکہ ہندوستان کی دوسری زبانوں میں بھی اعتماد کا وسیلہ بن گئی۔

ہندوستان میں قومی بیداری کی جو لہر اٹھی تھی اس میں بنیادی طور پر یہاں کے سیاسی و اقتصادی حالات کو زیادہ دخل تھا۔ ١٩٠٥ء کے انقلاب روس سے ساری دنیا میں عوامی تحریکوں کا دھارا پھوٹ پڑا اور ایشیا کے محکوم ممالک اپنی گہری نیند سے چونک اٹھے۔پھر ١٩٣٣ء میں جرمنی میں ہٹلر کی سرکردگی میں فاشزم نے سر اٹھایا اور پورے یورپ کو ایک سیاسی بحران اور دوسری جنگ عظیم کے آثار سے پورے مغرب میں جو ہلچل پیدا ہوگئی اسکا اثر مغربی ہندوستانی طلباء پر خاص طور سے پڑا جو یورپ کی یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے تھے۔

ان طلباء میں سجاد ظہیر بھی تھے جو ‘انگارے’ کے مصنفین میں سے تھے۔ان بیدار اور حساس نوجوانوں کو اس زمانے کے سیاسی مسائل نے جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔نوجوانوں کے اسں گروہ نے آہستہ آہستہ ١٩٣٥ء میں ایک ادبی حلقے کی شکل اختیار کرلی۔اس حلقے میں سجاد ظہیر کے علاوہ انگریزی زبان کے ادیب اور ناول نگار ملک راج آنند،بنگال کے ادیب ڈاکٹر جوتی گوش،اور اردو کے ایک ادیب و شاعر محمد دین تاثیر شامل تھے۔

اس ادبی حلقے کی شکل بعد میں مستقل تحریک کی شکل اختیار کر گئی۔١٩٣٥ء میں سجاد ظہیر ہندوستان آئے اور انہوں نے اپنی اس اسکیم کو عملی جامہ پہنایا۔آہستہ آہستہ ہر زبان کے ادیب و شاعر نے اس منصوبے کی تائید کی اور ہمت افزائی کی۔چنانچہ ترقی پسند ادیبوں کا ایک وسیع حلقہ بن گیا جس میں مولوی عبدالحق، پریم چند اور جوش ملیح آبادی جیسے ادیب اور شاعر شامل ہوئے۔

ترقی پسند مصنفین کی تحریک نے تین چار مہینوں میں اس قدر مقبولیت حاصل کرلی کہ ملک میں ہر طرف سے اس رحجان کی تائید ہونے لگی۔یہ ہندوستان میں پہلی ادبی تحریک تھی جس میں نہ صرف اردو کے ادیب شامل تھے بلکہ دوسری زبانوں کے ادیب بھی مشترکہ پلیٹ فارم پر جمع ہو رہے تھے۔

ترقی پسند تحریک اٹھ مختلف کانفرنسوں پر مشتمل تھی جس کی پہلی کانفرنس اپریل ١٩٣٦ء میں لکھنؤ میں ہوئی جس کی صدارت منشی پریم چند نے کی۔پریم چند کی حیثیت ہماری زبان کے ایک بلند پایہ اور مستند ادیب کی تھی۔اس لیے ان کی رہنمائی سے نوجوانوں کو ایک روشنی ملی اور اس تحریک کے اصول واضح طور پر سامنے آئے۔اپنے خطبے کے آخر میں پریم چند کے الفاظ یہ تھے:

“ہماری کسوٹی پر وہ ادب کھرا اترے گا جس میں تفکر ہو،آزادی کا جذبہ ہو،حسن کا جوہر ہو،تعمیر کی روح ہو،زندگی کی حقیقتوں کی روشنی ہو۔جو ہم میں حرکت، ہنگامہ اور بے چینی پیدا کرے،سلاۓ نہیں۔کیونکہ اب زیادہ سونا موت کی علامت ہوگی”

  • ترقی پسند مصنفین کی دوسری کل ہند کانفرنس کلکتہ میں ہوئی اور اس کی صدارت ملک راج آنند نے کی۔
  • تیسری کل ہند کانفرنس١٩٤٢ء میں دہلی میں ہوئی اور اس کی صدارت ڈاکٹر عبدالعلیم نے کی۔
  • ١٩٤٥ء میں چوتھی کانفرنس حیدرآباد میں ہوئی اور اس کی صدارت حسرت موہانی نے کی۔
  • ١٩٤٧ء میں پانچویں کانفرنس لکھنؤ میں ہوئی اور اس کی صدارت رشید احمد صدیقی نے کی۔
  • ١٩٤٩ء میں ترقی پسند ادیبوں کی چھٹی کانفرنس بھمیڑی میں ہوئی اور اس کی صدارت مشہور نقاد رام بلاس شرمانے کی۔
  • ١٩٥٢ء میں ترقی پسند ادیبوں کی ساتویں کانفرنس دہلی میں ہوئی اور اس کی صدارت کرشن چندر نے کی۔
  • ١٩٥٦ء میں ترقی پسند مصنفین کی آٹھویں اور آخری کل ہند کانفرنس حیدرآباد میں منعقد ہوئی۔

کچھ عرصے میں ترقی پسندانہ ادیبوں کی اس تحریک کو ہندوستان کی تمام زبانوں میں جو مقبولیت حاصل ہوئی اس کی مثال مشکل سے ملے گی۔ٹیگور، اقبال، پریم چند، عبدالحق، جواہر لال نہرو، جے پرکاش نرائن، جیسے ادیبوں اور سیاستدانوں نے اس تحریک کے مقصد کو لبیک کہا اور ہر طرح سے ان کی ہمت افزائی کی۔

ہر جگہ نوجوان اس رحجان سے متاثر ہورہے تھے اور ان کی تحریک میں ایک نیا منشور جنم لے رہا تھا۔بہت سے رسالے، ہفتہ وار اخبار ترقی پسند تحریک کے ترجمان بن گئے۔ پھر کچھ ہی دنوں بعد ترقی پسند ادیبوں کا اپنا رسالہ “نیا ادب” لکھنؤ سے جاری ہوا۔جس میں سردار جعفری اور مجاز نے کام کرنا شروع کیا اور تمام زبانوں کے ادیبوں کے نوفن پارے اس میں شائع ہوئے جو ترقی پسند تحریک کے بعض پہلوؤں کی وضاحت کرتے تھے۔

اس تحریک نے یوں تو تمام ادبی اصناف کو متاثر کیا لیکن افسانہ، شاعری اور تنقید کو خاص طور سے متاثر کیا۔ترقی پسند افسانے کی روایت براہ راست پریم چند کی حقیقت نگاری سے جڑی ہوئی ہے۔پریم چند نے سب سے پہلے اردو افسانے کو زندگی کی حقیقتوں سے براہ راست روشناس کرایا۔اور اسے قومی جذبات، ذہنی کشمکش اور سماجی تبدیلیوں کا ترجمان بنایا۔

ترقی پسند افسانہ نگاروں میں سب سے قد آور شخصیت کرشن چندر کی ہے۔انہوں نے سماج کے ستائے ہوئے طبقات کے مسائل بڑے عمدہ انداز میں بیان کئے ہیں۔“زندگی کے موڑ پر” نظارے” ٹوٹے ہوئے تارے” انداتا” تین غنڈے اجنتا سے آگے” وغیرہ ان کے افسانوں کے قابل ذکر مجموعے ہیں۔

راجندر سنگھ بیدی کا شمار ترقی پسند افسانہ نگاروں کی صف اول میں ہوتا ہے۔ انہوں نے انسانی دکھوں، پریشانیوں اور محرومیوں کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا۔

ترقی پسند تحریک نے شاعری اور افسانہ نگاری کے علاوہ اردو زبان کے جس شعبے کو سب سے زیادہ متاثرکیاوہ ادبی تنقید ہے۔اس تحریک کی بدولت اردو تنقید کو ایک نیا ذہن، نیا مزاج اور ایک منفرد کردار نصیب ہوا ہے جو ترقی پسند تحریک کا مرہون منت ہے۔

ترقی پسند تحریک کے زیر اثر ١٩٣٨ء میں لکھا گیا سجاد ظہیر کا ایک ناول “لندن کی ایک رات” بہت مشہور ہے۔اس میں اونچے طبقے کے ہندوستانی لوگوں کی ذہنی کیفیت اور سامراجیت کے خلاف شدید نفرت اور اندر ہی اندر رکھنے والی آگ کے اثرات بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔

اسکے بعد کرشن چندر کا نام سر فہرست ہے۔انہوں نے٤٧  ناول لکھے۔جن میں “شکست” جب کھیت جا گے” الٹا درخت” غدار” میری یادوں کے چنار” آسمان روشن ہے” وغیرہ ناول قابل ذکر ہیں۔عصمت چغتائی کا نام بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔”ٹیڑھی لکیر” ان کا شاہکار ناول ہے۔ اس کے علاوہ “ضدی” “معصومہ” “دل کی دنیا” اور “ایک قطرہ خون” بھی ان کے قابل ذکر ناول ہیں۔

ترقی پسند افسانے کا آغاز “انگارے” سے ہوتا ہے۔ انگارے میں شامل افسانہ نگاروں میں سجاد ظہیر، احمد علی، رشید جہاں اور محمودالظفر قابل ذکر ہیں۔کرشن چندر کا “طلسم خیال” دو فرنگ لمبی سڑک” ان کے مقبول افسانے ہیں۔حیات اللہ انصاری کا افسانوی مجموعہ “انوکھی مصیبت” بھی قابل ذکر ہے۔

ترقی پسند تحریک کے زیر اثر جو ڈرامے لکھے گئے ان میں سب سے پہلے سجاد ظہیر کا ڈرامہ “بیمار ہے” بہت مشہور ہے۔ اس کے علاوہ رشید جہاں اور محمود ظفر نے بھی ڈرامے لکھے۔”عورت “اور “امیر کا محل” ان کے زیادہ کامیاب ڈرامے ہیں۔

ترقی پسند تحریک کے زیر اثر کنیا لال کپود کے مضا مین کا پہلا مجموعہ “سنگ وحشت” کے نام سے شائع ہوا۔کرشن چندر نے “ہوائی قلعے”کے نام سے مضامین کا مجموعہ شائع کیا۔

اس طرح ترقی پسند تحریک کے زیر اثر اردو ادب نے بہت ترقی کی اور خاص کر نثری ادب کو چار چاند لگا دیئے۔