مقدمہ شعروشاعری کا تنقیدی جائزہ

0

حالی کو جدید اردو تنقید کا معمارِ اول اور “مقدمہ شعر و شاعری” کو تنقید کا صحیفہ اوّل سمجھا جاتا ہے

حالی نے پہلی بار اس کتاب میں اپنے تنقیدی نظریات کو ایک منظم اور مربوط شکل میں پیش کیا ڈاکٹر عبد القیوم کہتے ہیں؛ کہ “حالی نے قدیم و جدید نظریات کو آپس میں سمو کر اردو تنقید میں اس فن کی با ضابطہ بنیاد ڈالی جس پر نئی عمارت کا کام جاری ہے اور جدید تنقید اس کے سہارے چل رہی ہے”

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا کتابیں مؤلف کا آئینہ دار ہوتی ہیں یا ہو سکتی ہیں؟

جواب میں اتنا کہنا کافی ہوگا کہ ہرکتاب اپنے مؤلف کا آئینہ اس لیے ہوتی ہے کیونکہ مؤلف اس میں اپنے نظریات اپنا شعور اور اپنے تخیل و ذوق فہمی کو اپنے اعتبار نظر سے پیش کرتا ہے تو گویا آپ کتاب کو صرف پڑھتے ہی نہیں بلکہ سیدھے مصنف سے ہم کلام بھی ہوتے ہیں۔

تو چلیے پھر حالی سے ہم کلام ہوتے ہیں……

حالی کی کتاب “مقدمہ شعر و شاعری” ان کے تنقیدی ذہن کا آئینہ ہے جس میں حالی نے شعر و شاعری کو لے کر سیر حاصل بحث کی ہے شعر و شاعری کیسی ہونی چاہیے ، شاعر کو کیسا انداز اپنانا چاہیے، شاعرکو اپنی شاعری میں غلو و اغراق سے کام نہ لینا ، شاعری کا مزاج کیسا ہو ، اپنے کلام کو کیسے بہتر بنایا جائے اور شاعری میں کن کن چیزوں کے پائے جانے سے شاعری ،شاعری ہوتی ہے ورنہ شاعری ، شاعری نہیں بلکہ لفاظی اور وقت خراب و برباد کرنا ہے یہ تمام خیالات حالی نے اس کتاب میں صراحتاً تو کہیں اشارتاً بیان کیے ہیں کلیم الدین احمد ، حالی کی تنقید کے بارے میں کہتے ہیں کہ “حالی نے پرانی تنقید سے الگ ہو کر نئی تنقید کی ابتدا کی جب کہ شبلی نئی اور پرانی تنقید کے بیچ معلق نظر آتے ہیں ۔”

حالی کے تنقیدی نظریات میں قدیم و جدید دونوں ہی طرح کے تنقیدی نظریات کی جھلک ملتی ہے۔ ایک طرف وہ عربی شعر و ادب اور محمد حسین آزاد اور سر سید کے تنقیدی خیالات سے متاثر نظر آتے ہیں تو دوسری طرف مغربی شاعروں اور نقادوں کے اثر سے دامن نہیں بچا پاتے۔ لارڈ میکالے اور ملٹن سے خاصا متاثر دکھائی دیتے ہیں۔

حالی نے یہ کتاب پہلے “شعر و شاعری” نام سے لکھی تھی جو ١٨٩٣ء میں شائع ہوئی۔ اس کے فوراً بعد اس پر ایک مفصل مقدمہ لکھا جس میں فن شاعری کی افادیت کو مکمل طور پر ملحوظ خاطر رکھا گیا اور پھر اس مقدمہ کو جلدی ہی اتنی شہرت ہوئی کہ یہ “مقدمہ” پھر “مقدمہ شعر و شاعری” کے نام سے ہی جانا پہچانےلگا۔ اس کتاب کی اشاعت پر کافی شور وغل ہوا تو دوسری طرف اس کو کافی سراہا بھی گیا اور پھر با قاعدہ تنقید نگاری کا سہرا حالی کے سر ہی باندھ دیا گیا۔ مولوی عبد الحق اس کتاب کے متعلق لکھتے ہیں کہ ”مقدمہ شعر و شاعری اردو تنقید کا پہلا نمونہ ہے“ عبد الحق کا یہ بیان کس حد تک درست ہے اس کا فیصلہ قارئین پہ چھوڑتا ہوں اور آل احمد سرور نے اسے اردو شاعری کا پہلا مینی فیسٹو قرار دے کر حالی کی ہمت افزائی کی پر یہ بات بلکل واضح ہے کہ حالی سے پہلے تنقید نگاری کا با قاعدہ آغاز نہیں ہوا تھا جب کہ تنقید کے خال خال نقوش ہمیں اردو شاعری کے ابتدائی تذکروں میں ضرور ملتے ہیں جیسے میر تقی میر کا “نکات الشعرا ١١۶۵ھ ١٧۵١ء” میں میر نے بہت سے شعرا کو لے کر ان پر بحث و تنقید کی ہے۔ اسی تذکرے میں ‘شاہ حاتم’ پر تنقید کرتے ہوئے ان کو “مردیست جاہل” تو انعام اللہ خاں یقین کے بارے میں “ذوق شعر فہمی مطلق ندارد” کہا ہے اور بھی دیگر تذکرے اردو تنقید کے ابتدائی نقوش کو واضح کرتے ہیں پر پہلی بار با قاعدہ تنقید کو حالی کے ذریعے ہی فروغ ملا۔ احسن فاروقی حالی کی تنقید نگاری پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ “حالی کی اہمیت کسی طرح کم نہیں ہوتی کہ انہوں نے اس موضوع (یعنی ادب اور زندگی کا رشتہ) پر غور کرنے والوں کے لیے راہ کے پہلے نقوش بنائے۔”

حالی نے اس کتاب میں شاعری پر جو تنقیدی بحث کی ہے وہ ایک تجزیہ کی حیثیت رکھتی ہے جب کہ ان کے مقالات ، خطوط اور دیگر تصانیف مثلاً یادگار غالب، حیات سعدی اور حیات جاوید بھی ان کے تنقیدی نظریات پر روشنی ڈالتی ہیں۔

حالی نے شاعری کے لیے مقصدیت اور افادیت کو ضروری قرار دیا ہے کیونکہ وہ شاعری کو بیکاری اور وقت گزاری کا مشغلہ نہیں مانتے بلکہ اسے زندگی خوشگوار بنانے اور زندگی سنوارنے کا بہترین ذریعہ سمجھتے ہیں اور اسی پہلو پہ زور بھی دیتے ہیں۔ حالی کہتے ہیں کہ شاعری سے بڑے بڑے کام لیے جا سکتے ہیں اور لیے جاتے رہے ہیں۔

حالی نے پہلے پہل “شعر کی تاثیر مسلم ہے” عنوان پہ بحث کی، لکھتے ہیں: کہ “شعر کی تاثیر کا کوئی شخص انکار نہیں کر سکتا۔ سامعین کو اکثر حزن یا نشاط یا جوش یا افسردگی کم زیادہ ضرور پیدا ہوتی ہے” جب کہ شبلی نے ‘شعرالعجم کی جلد سوم’ میں شعر کی تعریف یہ کی ہے کہ “جو جذبات الفاظ کے ذریعے سے ادا ہوں وہ شعر ہے ” اور اسی جلد میں آگے لکھتے ہیں:کہ “جو کلام انسانی جذبات کو بر انگیختہ کردے اور ان کو تحریک میں لائے وہ شعر ہے” دونوں کی تعریفیں ایک جیسی ہیں پر فرق ان دونوں کے نظریات میں ہے جس کی کلیم الدین احمد نے وضاحت بھی کی ہے کہ حالی نے نئی تنقید کی بنیاد ڈالی اور شبلی نئی اور پرانی تنقید کے بیچ نظر آتے ہیں۔دوسری بات یہ کہ حالی شاعری کو وقت بربادی اور بیکار مشغلہ بازی کے لیے شمار نہیں کرتے جب کہ شبلی اسے صرف مسرت و شادمانی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔

اسی کے ضمن میں “زمانہ جاہلیت کے اشعار کی تاثیر، پولیٹیکل معاملات میں شعر سے بڑے بڑے کام لیے گیے ہیں” اس عنوان سے بحث کرتے ہوئے ایران کی طرف رخ کرتے ہوئے رودکی سمرقندی کا ایک قصہ بھی نقل کرتے ہیں جس کی تفصیل یہاں ممکن نہیں۔

حالی نے اپنی اس کتاب میں شاعری کے لیے تین شرطیں مقرر کی ہیں اگر یہ تینوں شرطیں پائی جاتیں ہیں تو شاعری بہت ہی دلکش اور عمدہ ہوگی۔ وہ یہ ہیں: “(۱) بلند تخیل ” تخیل نام ہے خیال کی پرواز کا۔ یعنی شاعر ایک چیز کی طرف دیکھتا ہے تو اسے بہت سی چیزوں کا خیال آ جاتا ہے۔ مثلاً پھول میں کبھی اسے خدا کا جلوہ نظر آتا ہے، تو کبھی مجازی محبوب کا خیال در پیش ہوتا ہے بقول حالی : “تخیل کی قوت خدا داد ہوتی ہے۔ شاعر اسے اپنے ساتھ لے کر پیدا ہوتا ہے۔“

حالی نے یہ نظریہ اس لیے پیش کیا کہ اگر شاعر کا تخیل اور اس کی فکر اعلی نہ ہو تو یہ سطحی شاعری ہوگی جس کا عمدہ شاعری میں کوئی شمار نہیں اور پھر تخیل کارفرما تو ہو مگر اب اتنا بلند بھی نہ ہو کہ قاری الجھ کر رہ جائے اور مطلب و مفہوم اوجھل ہو جائے میانہ تخیل بہت ضروری ہے۔ (٢) مطالعہ کائنات۔ شاعر قدرتی اشیاء کو اپنی شاعری کا محور بنائے یعنی نیچرل شاعری ہو ورنہ شعر بے مزہ ہو جائے گا اور پھر ان قدرتی اشیاء کو مختلف تشبیہات اور نادر استعارات کا عمدہ جامہ پہنائے۔ (٣) تفحص الفاظ۔ یعنی الفاظ کی تلاش پر شاعر خاص توجہ دے۔ اس کے پاس اتنے وافر الفاظ موجود ہوں کہ کسی ایک لفظ کی جگہ اس کا مترادف لفظ بھی استعمال کر سکے اور مناسب الفاظ چن سکے اور پھر ان سب کو ایک نئی ترتیب کے لبادہ میں ایسے لپیٹے جو اس کے کلام کو چار چاند لگا دے ورنہ شاعر اپنے کلام کے ذریعے اپنے ما فی الضمیر کو ادا کرنے سے قاصر رہے گا۔

حالی نے شاعری کے لیے تین شرطیں قرار دی ہیں اسی طرح انہوں نے شاعری کے لیے تین خوبیاں بھی ذکر کی ہیں اور یہ خوبیاں بھی شاعری کے لیے بے حد ضروری ہیں۔ (١) سادگی۔ کلام میں آسان تخیل کو آسان الفاظ کے ذریعے ادا کرنا تاکہ قاری پش و پیش میں نہ پڑجائے اور شاعر کے مقصدِ کلام تک پہنچنے میں کسی دشواری کا سامنا نہ ہو۔ (٢) جوش۔ یعنی اشعار میں بے ساختگی اور جذباتیت کا احساس پایا جائے جو قاری کے دل میں سوز و گداز اور کلیجے کو گرما دے مزید یہ کہ وہ اشعار کو بے ساختہ کہنے پر قادر ہو۔ (٣) اصلیت۔ کلام کو مبالغہ آرائی سے محفوظ رکھے جب کہ ایسا نہیں ہے کیونکہ شاعری سے یہ عنصر جائے فرار حاصل نہیں کر سکتا اس کی مثالیں ہزارہا اشعار ہیں مگر حالی کی اس رائے سے شاید ہی کوئی متفق ہو کیونکہ کلام کو مجازیت ہی اچھوتا و انوکھا بنا سکتی ہے جب کہ اصلیت ہر جگہ کلام کی دلکشی کا سبب نہیں بن سکتی۔ پر ہاں یہ خوبیاں حالی نے ملٹن سے اخذ کی ہیں جیسا کہ ملٹن نے اپنی کتاب میں خطابت کے مقابلے میں شاعری کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے لکھا تھا:

Simple, Sensuous and Passionate

اس کتاب میں لفظ ومعنی کی بحث بھی ملتی ہے کہ لفظ کیا ہے اس کی حقیقت کیا ہے اور اس کا معنی کیا حیثیت رکھتا ہے یعنی لفظ و معنی کا اپنا اپنا ایک الگ مقام ہے۔ جتنا بہتر اور عمدہ لفظ ہوگا اس کا معنی بھی ویسا ہی عمدہ ہوگا گویا یہ کہا جا سکتا ہے کہ لفظ پیالہ اور معنی پانی کی مانند ہے جتنا عمدہ پیالہ ہوگا پانی کی اہمیت اتنی ہی زیادہ ہوگی لیکن معنی کی طرف حالی نے اپنی توجہ مرکوز رکھی ہے۔

“محاورہ” پر بھی اچھی خاصی بحث کی ہے اور اشعار سے محاورات کے استعمال کو واضح کیا ہے کہ محاورے کا استعمال کتنا مفید و غیر مفید ہوتا ہے جو پست کلام کو بلند اور بلند کلام کو بلند تر کر دیتا ہے۔

یہ بحث “مقدمہ شعر و شاعری” کے پہلے حصے سے تعلق رکھتی ہے جب کہ دوسرا حصہ عملی تنقید کا ہے جس میں غزل ، قصیدہ ، مرثیہ اور مثنوی پر اظہار خیال کیا ہے۔

حالی نے غزل کے متعلق کافی کچھ لکھا ہے اور اس کی اصلاح کی کوشش بھی کی ہے۔ انہیں خود یہ احساس تھا کہ غزل کتنی ارتقائی منزلیں طے کر چکی ہے پراس میں جو خامیاں پائی جاتی ہیں ان کی نشان دھی کرکے انہیں دور کرنا بھی ضروری ہے۔ ایک جگہ غزل کے متعلق کہتے ہیں کہ “غزل کی اصلاح تمام اصنف سخن میں سب سے ضروری ہے” کہتے ہیں غزل کو صرف عشق و عاشقی کے دائرے تک محدود رکھنا صحیح نہیں جبکہ غالب غزل کے دائرے کو وسعت دے چکے تھے ایک جگہ لکھتے ہیں غزل بے وقت کی راگنی ہے کیونکہ غزل تصنع، تکلف ، عشقیہ مضامین اور مبالغہ سے لبریز نظر آتی ہے اس لیے حالی غزل کی اصلاح پہ زیادہ توجہ دیتے ہیں اور حالی چاہتے ہیں کہ غزل ان سب سے پاک ہو جب کہ یہ ممکن نہیں اسی کے پیشِ نظر کسی ادیب نے کہا تھا: کہ “کاش حالی میں وہ جھوٹ ہوتا جو ادب عالیہ کا جوہر ہے” غزل پر ایک اعتراض یہ کرتے ہیں کہ یہاں تکرار بہت ہے شاعر ایک ہی بات کو بدل بدل کر پیش کرتا ہے جب کہ مفہوم ایک ہی ہوتا ہے۔

حالی نے اپنے مقدمہ میں غزل پر کافی لمبی چوڑی گفتگو کی ہے، متعدد صفحات غزل کی اصلاح سے لبریز ہیں اور ہر طرح سے اس کے لئے اصلاح کی راہیں ہموار کرنے کی کوشش کی ہے لکھتے ہیں کہ “غزل کو محض عشقیات میں اور عشقیات کو محض ہوا و ہوس کے مضامین میں محدود رکھنا ٹھیک نہیں بلکہ اس کو ہر قسم کے جذبات کا آرگن بنانا چاہیے” مضامین کی کمی محسوس کرتے ہوئے ایک جگہ لکھتے ہیں کہ “جس طرح ہماری غزل کے مضامین محدود ہیں اسی طرح اس کی زبان بھی ایک خاص دائرے سے باہر نہیں نکل سکتی۔“

حالی ہر طرح سے غزل کو وسعت دینا چاہتے ہیں جیسا کہ مندرجہ بالا اقوال دلالت کرتے ہیں۔ غزل میں محبوبہ یا معشوقہ کا ذکر شاعر کا مقصد ہوتا ہے پر کسی بھی شاعر نے بلکلیہ اپنی محبوبہ کے لیے مؤنث کا صیغہ استعمال نہیں کیا جیسے ‘وہ ایسی تھی ویسی تھی ‘حالی اس کا اعتراف کرتے ہیں : کہ “کسی بھی غزل گو نے معشوق کے لیے جہاں تک ہم کو معلوم ہے فعل یا صفت مؤنث استعمال نہیں کی”اور تائیداً ذوق کا یہ شعر نقل کرتے ہیں :

جھانکتے تھے وہ ہمیں جس روزنِ دیور سے

وائے قسمت ہو اسی روزن میں گھر زنبور کا

مثنوی کے تعلق سے بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ “مثنوی تمام اصنافِ سخن میں سب سے زیادہ مفید اور کار آمد صنف ہے” اور پھر شوق، میر حسن، نسیم، وغیرہ کی مثنیوں کے اشعار پیش کرکے ان پہ اپنی رائے دیتے ہیں۔

اب ہم کلیم الدین احمد کے اس قول کا جائزہ لیتے ہیں جس کے ذریعے انہوں نے حالی پر سخت تنقید کی تھی: کہ

“خیالات ماخوذ، واقفیت محدود، نظر سطحی، فہم و ادراک معمولی، غور و فکر نا کافی، تمیز ادنیٰ، دماغ و شخصیت اوسط ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تھی حالی کی کل کائنات!” لیکن میں چاہتا ہوں کہ قاری خود اس کا اندازہ لگائے اوپر جتنا کچھ بیان کیا گیا، کیا وہ سب ماخوذ ہے؟ کیا ادبی تنقید اوسط ذہن کے لوگ کرتے ہیں؟ کیا ہمیں کسی کی عقل خرد پہ قدغن لگانے کی ضرورت ہوتی ہے؟ اس سب کا جواب قاری کو دینا چاہیے لیکن اس سب کے باوجود کلیم الدین احمد کہنے پر مجبور ہیں :کہ “آج جب لکھنے والوں کا مطمح نظر حالی کی طرح محدود نہیں، وہ بہترین مغربی ادب اور تنقید سے واقفیت رکھتے ہیں۔ اس کے با وجود کسی نے بھی ‘مقدمہ شعر و شاعری’ سے بہترین تنقیدی کارنامہ پیش نہیں کیا’۔

حالی کی تنقید کو یکسر مسترد تو کبھی کیا ہی نہیں جا سکتا پر ہاں ان کے تنقیدی منظم خیالات کو سب باقاعدہ تنقید نگاری کا نام نہیں دے سکتے جب کہ اکثر و بیشتر نقاد کے زمرے انہیں با قاعدہ تنقید نگاری کا آغاز کرنے والا سمجھتے ہیں۔ آخر میں ہم پروفیسر آل احمد سرور کے اس قول پر بات ختم کریں گے کہ “حالی سے پہلے ہماری شاعری دل والوں کی دنیا تھی، حالی نے مقدمہ شعر و شاعری کے ذریعے اسے ذہن دیا۔ بیسوی صدی کی تنقید حالی کی اسی ذہنی قیادت کے سہارے ابھی تک چل رہی ہے”۔

از تحریر: محمد عارف ( ریسرچ اسکالر جواہر لعل نہرو یونیورسٹی دہلی)