نشانِ حیدر پر ایک مضمون

0

تاریخ

3 مئی ۱۹۵۶ء کو صدرِ پاکستان نے نمایاں شہری اور فوجی خدمات کے اعتراف کے لئے مختلف تمغے قائم کرنے کا اعلان کیا۔ اس اعلان میں کہا گیا کہ ملک کا سب سے بڑا انعام فوج کا جنگی تمغہ ہوگا جس کا نام نشانِ حیدر ہوگا۔ یہ تمغہ مسلح افواج کے اس فرد کو دیا جائے گا جس نے ملک کی حفاظت اور سلامتی کے لئے زبردست خطرات کا سامنا کرتے ہوئے بے حد بہادری اور زبردست ہمت کا مظاہرہ کیا ہو۔ اسی اعلان میں پاکستان کے شہریوں کے لئے قومی اعزازات کے پانچ آرڈرز کے قیام کا اعلان بھی کیا گیا تھا۔

اہمیت

دین اسلام میں رسالتِ مآبﷺ جو کہ آخری نبی ہیں ان کے بعد کسی نبی نے نہیں آنا۔ ان کے دور میں آقاﷺ سے اگر کسی شخص کی  سب سے فضیلت ملتی ہے تو وہ مولا علی علیہ سلام ہیں۔ رسالتِ مآب ﷺ نے خیبر کے قلعے کو فتح کرنے کے لئے مولا علی علیہ سلام کو جھنڈا دیا تھا۔ وہی فاتح خیبر بنے جو کہ ایک دشوار کُن مرحلہ تھا۔ مولا کی شجاعت و بہادری کی لاثانی مثال تاریخ میں ملتی ہے جس کی وجہ سے ان کو حیدر قرار دیا گیا تھا۔ انھیں ان کی جرت و بہادری کی وجہ سے لقب دیا گیا تھا۔ نشانِ حیدر بھی مولا علی علیہ سلام کی بہادری و شجاعت کی نسبت سے پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز شہدا کو دیا جاتا ہے۔ “ہلال جرات” کا مقام فوجی تمغوں میں “نشانِ حیدر” کے بعد اور مجموعی تمغوں میں “ہلال پاکستان” کے بعد ہوگا۔

خدمات


وطن کے وہ محافظ جو اپنے فرض سرانجام دیتے ہوئے شہید ہو جائیں ایسی پُراسرار ہستیوں کو نشانِ حیدر سے نوازا جاتا ہے۔ جنگ میں کسی طور بہادری کا مظاہرہ کرنا اور دشمن کو اپنی سالمیت کو پار کرنے سے روکنا اور انھیں بھاری نقصان سے دوچار کرنے والے بہادر دلیر فوجی جوانوں کو نشانِ حیدر دیا جاتا ہے۔ یہ تمغہ ان کو دیا جاتا ہے جو ملک پر قربان ہو جائیں ، غازیوں کو یہ اعزاز نہیں دیا جاتا ہے۔

نشان حیدر پانے والے شہداء


نشان حیدر اب تک صرف گیارہ لوگوں کو ملا ہے۔
ان دس پُراسرار ہستیوں کے نام درجہ ذیل ہیں :

  • ۱) کیپٹن محمد سرور شہید
  • ۲) میجر طفیل محمد شہید
  • ۳) میجر راجہ عزیز بھٹی شہید
  • ۴) میجر محمد اکرم شہید
  • ۵) پائیلٹ آفیسر راشد منہاس شہید
  • ۶) میجر شبیر شریف شہید
  • ۷) جوان سوار محمد حسین شہید
  • ۸) لانس نائیک محمد محفوظ شہید
  • ۹) کیپٹن کرنل شیر خان شہید
  • ۱۰) حوالدار لالک جان شہید
  • ایک شخصیت ان کے علاوہ گیارہوین شخصیت اُن کی ہے جن کو نشانِ حیدر تو نہیں ملا لیکن “ہلالِ کشمیر” ملا جسے نشانِ حیدر کے برابر درجہ دیا گیا ہے۔
  • ۱۱) نائیک سیف علی جنجوعہ شہید

ان شہیدوں میں “میجر طفیل” نے سب سے بڑی عمر یعنی ۴۴ سال میں شہادت پانے کے بعد نشانِ حیدر حاصل کیا، باقی فوجی جنہوں نے نشان حیدر حاصل کیا ان کی عمریں ۴۰ سال تھے جنہوں نے اپنی فوجی تربیت میں ۲۰ سال ۶ ماہ کی عمر میں شہادت پر نشانِ حیدر اپنے نام کیا۔
میڈل کی پشت پر اس خوش بخت فوجی کے بارے میں مختصر تفصیلات درج ہوتی ہیں جسے یہ اعزاز دیا جاتا ہے۔ اس مختصر کوائن میں درج ذیل معلومات فراہم کی گئی ہوتی ہیں۔

شہید کا نام، آرمی نمبر، جائے شہادت، تاریخِ شہادت، تاریخِ ولادت۔
ان تمغوں کا مقصد اپنی فوج کی حوصلہ افزائی کرنی ہے۔ ہر جوان ان تمغوں کو اپنے نام کرنے کے لئے ملک پر نثار ہونے کے لئے ہر وقت تیار رہتا ہے۔