رذائل اخلاق در قرآن ، سوالات و جوابات

0
  • سبق نمبر 18

سوال۱: رذائل اخلاق سے کیا مراد ہے؟

جواب: اخلاقی رذائل

جس طرح اخلاق حسنہ کی ایک طویل فہرست ہے، جن کو اپنا کر آدمی دنیا اور آخرت میں سرخرو ہو سکتا ہے۔ اس طرح کچھ ایسے اخلاق رذیلہ ہیں جن کو اختیار کر کے انسان حیوانی درجے میں جا گرتا ہے، اور آخرت میں اللہ تعالی کی رحمت سے محروم ہو جاتا ہے۔ مسلمانوں کو یہ تعلیم دی گئی ہے کہ وہ اخلاق فاضلہ سے آراستہ ہوں اور اخلاق رذیلہ سے بچیں، جو انسان کی شخصیت کو داغ دار کر دیتے ہیں اور اُسے ہر قسم کی نیکی اور بھلائی سے محروم کر دیتے ہیں۔

سوال۲:پانچ رذائل کا ذکر کریں اور بتائیں کہ ان سے معاشرے میں کیسے بگاڑ پیدا ہوتا ہے؟

جواب: چنداخلاق رذیلہ کا بیان ذیل میں درج کیا ہے:

۱)جھوٹ:

جھوٹ نہ صرف یہ کہ بجائے خود ایک برائی ہے، بلکہ بہت سی دوسری اخلاق برائیوں کاسبب بھی بنتا ہے۔ اسلام میں جھوٹ بولنے کی سختی سے مذمت کی گئی ہے۔ جھوٹ بولنے والوں کواللہ تعالی کی لعنت کا مستحق ٹھہرایا گیا ہے۔ اس طرح ارشاد باری تعالی ہے کہ جھوٹے آدمی کوہدایت نصیب نہیں ہوتی:
ترجمہ :البتہ اللہ راہ نہیں دیتا اس کو جو جھوٹا حق نہ ماننے والا ہو ( سورة الزمر :۳)
اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلّم نے فرمایا: مومن کی فطرت میں ہر خصلت ہو سکتی ہے ، مگر خیانت اور جھوٹ کی خصلت مومن میں ہر گز ممکن نہیں۔ (رواہ البیہقی عن سعد بن ابی وقاص )

مسند احمد میں عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: نبی اکرم صلی اللہ علیہ آلہ و سلم سے کسی شخص نے دریافت کیا۔ ” یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ و سلم ) جنت میں لے جانے والا کون سا عمل ہے ؟” آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔ سچ بولنا۔ جب بندہ سچ بولتا ہے۔ اس سے اس کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور ایمان میں یہ اضافہ جنت میں داخلے کا سبب بنتا ہے “۔ اس شخص نے دریافت کیا۔ ” یار سول اللہ (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ و سلم) دوزخ میں لے جانے والا کام کیا ہے ” ۔ فرمایا۔ ” جھوٹ بولنا۔ جب بندہ جھوٹ بولے گا تو گناہ کے کام کرے گا۔ جب گناہ کے کام کرے گا تو گویا کفر کرے گا اور یہ کفر اسے جہنم میں لے جائے گا”۔ جھوٹ کا تعلق محض زبان سے نہیں بلکہ بہت سے دوسرے ناپسندیدہ اعمال بھی جھوٹ کی تعریف میں آتے ہیں۔ مثلاً غلط طریقے سے کسی کا مال ہتھیا نا، کم تولنا، غرور کرنا، منافقت سے کام لینا وغیرہ۔

۲) غیبت:

اخلاقی بیماریوں میں غیبت جس قدر بڑی بیماری ہے بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں اس قدر عام ہے۔ بہت کم لوگ ہوں گے جو اس بیماری سے محفوظ ہوں گے۔ اللہ تعالی نےمسلمانوں کو اس گناہ سے بچنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا ہے:۔
ترجمہ: اور برا نہ کہو پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کو ، بھلا خوش لگتا ہے۔ تم میں کسی کو کہ کھائے گوشت اپنے بھائی کا جو مردہ ہو، تو گھن آتی ہے تم کو اس سے۔(سورة الحجرات:۱۳)

غیبت کے لیے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کی تمثیل انتہائی بلیغ ہے۔ کیونکہ جس شخص کی غیبت کی جاتی ہے، وہ اپنی مدافعت نہیں کر سکتا۔ اس طرح غیبت سے باہمی نفرت کو ہو املتی ہے اور دشمنی کے جذبات بھڑکتے ہیں۔ غیبت کے مرض میں مبتلا شخص خود کو عموماً عیبوں سے پاک تصور کرنے لگتا ہے، اور جس کی غیبت کی جائے وہ اپنے عیب کی تشہیر ہو جانے کے باعث اور ڈھیٹ ہو جاتا ہے۔ غرض غیبت ہر لحاظ سے معاشرتی سکون کو برباد کرتی ہے۔

حدیث میں آیا ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ واصحابہ وسلم نے معراج کے واقعات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ میں نے ایک گروہ کو دیکھا کہ ان کے ناخن تانبے کے تھے، اور وہ لوگ اس سے اپنے سینوں کو نوچ رہے تھے۔ میں نے جبریل علیہ السّلام سے دریافت کیا۔ یہ کون لوگ ہیں؟ فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے ہیں اور ان کی عزت و آبر و بگاڑتے ہیں (یعنی غیبت کرتے ہیں)

۳) تکبر

تکبر کے معنی خود کو بڑا اور برتر سمجھنے اور ظاہر کرنے کے ہیں۔ قرآن مجید کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ مخلوقات میں سب سے پہلے شیطان نے تکبر کیا اور کہا کہ میں آدم علیہ اسلام سے افضل ہوں۔ اس لیے ان کو سجدہ نہیں کروں گا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا :
ترجمہ : تواتر یہاں سے۔ تو اس لائق نہیں کہ تکبر کرے یہاں۔ پیس باہر نکل تو ذلیل ہے۔(سورۃ الاعراف:۱۳)

وہ دن اور آج کا دن ، غرور کا سر ہمیشہ نیچا ہوتا چلا آیا ہے اور فرمان الہی کے مطابق، آخرت میں بھی متکبر انسانوں کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔
ترجمہ : کیا نہیں دوزخ میں ٹھکانہ غرور کرنے والوں کا۔(سورة الزمر :۶۰)
تکبر کی مذمت فرماتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ واصحابہ وسلّم نے ارشاد فرمایا۔ ” جس کے دل میں رائی برابر بھی غرور اور تکبر ہو گا اور وہ انسان جنت میں داخل نہیں ہو گا”۔ مغرور و متکبر انسان دوسروں کو حقیر سمجھ کر ظلم و زیادتی کرتا ہے اور گناہوں پر بے باک ہو جاتا ہے اور یہ خیال کرتا ہے کہ مجھے میرے گناہوں کی سزا کون دے سکتا ہے۔ اس لیے وہ مروت، اخوت، ایثاراور اس قسم کی بھی بھلائیوں سے محروم ہو جاتا ہے۔

۴)حسد:

انسان دوستی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے کسی بھائی کو اچھی حالت میں دیکھیں تو خوش ہوں کہ اللہ تعالی نے اسے اپنی نعمتوں سے نوازا ہے لیکن حسد وہ بری خصلت ہے۔ جو کسی کو خوش حال اور پر سکون دیکھ کر انسان کو بے چین کر دیتی ہے، اور وہ اپنے بھائی کی خوشحالی دیکھ کر خوش ہونے کی بجائے دل ہی دل میں جلتا اور گڑھتا ہے۔ ایسا کرنے سے وہ دوسروں کا تو کچھ نہیں بگاڑ سکتا، خود اپنے لیے پریشانی مول لے لیتا ہے۔ یوں تو حسد ایک اخلاقی بیماری ہے لیکن اس کے نتیجے میں انسان کئی دوسری اخلاقی بیماریوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ مثلاً جب وہ دوسروں کو بہتر حالت میں دیکھنے کا روادار نہیں ہو تا تو اپنے بہت سے عزیزوں سے ترک تعلق کر لیتا ہے جو ایک نا پسندیدہ بات ہے۔

اسی طرح جس شخص کی طبیعت میں حسد پیدا ہو جائے، وہ کبھی قانع نہیں ہو سکتا۔ وہ ہمیشہ اپنے سے برتر کو دیکھ کر اپنی حالت زار پر کف افسوس ملتا رہتا ہے۔ اس کی وہ صلاحیتیں جو اپنی حالت بہتر بنانے پر صرف ہو سکتی ہیں، ہمیشہ دوسروں کی حالت کو بگاڑنے ہی کی فکر میں ضائع ہوتی رہتی ہیں۔ حاسد اپنی بھڑکائی ہوئی آگ میں خود ہی جلتا رہتا ہے۔ گو اسلام اپنے پیروکاروں کو باہمی محبت اور احسان کی تلقین کرتا ہے، تاکہ معاشرتی اعتبار سے اجتماعی فلاح حاصل ہو سکے لیکن حاسد کے دل میں سوائے نفرت اور جلن کے کوئی شریفانہ جذبہ جگہ نہیں پاسکتا۔

اگر انسان حسد اور اس جیسے دوسرے اخلاق رذیلہ سے بچنا چاہتا ہے تو اسے رسول پاک صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ و سلم ، صحابہ رضی اللہ عنہم اور بزرگان دین کی سادگی و قناعت کی تاریخی مثالوں سے نصیحت حاصل کرنی چاہیے، اور اس کے ساتھ اسے یہ بھی چاہیے کہ دولت واقتدار سے پیدا ہونے والی برائیوں اور مفاسد پر نظر رکھے۔

سوال۳:جھوٹ کے متعلق تفصیل سے لکھیں۔

جھوٹ:

جھوٹ نہ صرف یہ کہ بجائے خود ایک برائی ہے، بلکہ بہت سی دوسری اخلاق برائیوں کاسبب بھی بنتا ہے۔ اسلام میں جھوٹ بولنے کی سختی سے مذمت کی گئی ہے۔ جھوٹ بولنے والوں کواللہ تعالی کی لعنت کا مستحق ٹھہرایا گیا ہے۔ اس طرح ارشاد باری تعالی ہے کہ جھوٹے آدمی کوہدایت نصیب نہیں ہوتی:
ترجمہ :البتہ اللہ راہ نہیں دیتا اس کو جو جھوٹا حق نہ ماننے والا ہو ( سورة الزمر :۳)
اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلّم نے فرمایا: مومن کی فطرت میں ہر خصلت ہو سکتی ہے ، مگر خیانت اور جھوٹ کی خصلت مومن میں ہر گز ممکن نہیں۔ (رواہ البیہقی عن سعد بن ابی وقاص )

مسند احمد میں عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: نبی اکرم صلی اللہ علیہ آلہ و سلم سے کسی شخص نے دریافت کیا۔ ” یارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ و سلم ) جنت میں لے جانے والا کون سا عمل ہے ؟” آپ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ و سلم نے ارشاد فرمایا۔ سچ بولنا۔ جب بندہ سچ بولتا ہے۔ اس سے اس کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور ایمان میں یہ اضافہ جنت میں داخلے کا سبب بنتا ہے “۔ اس شخص نے دریافت کیا۔ ” یار سول اللہ (صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ و سلم) دوزخ میں لے جانے والا کام کیا ہے ” ۔ فرمایا۔ ” جھوٹ بولنا۔ جب بندہ جھوٹ بولے گا تو گناہ کے کام کرے گا۔ جب گناہ کے کام کرے گا تو گویا کفر کرے گا اور یہ کفر اسے جہنم میں لے جائے گا”۔ جھوٹ کا تعلق محض زبان سے نہیں بلکہ بہت سے دوسرے ناپسندیدہ اعمال بھی جھوٹ کی تعریف میں آتے ہیں۔ مثلاً غلط طریقے سے کسی کا مال ہتھیا نا، کم تولنا، غرور کرنا، منافقت سے کام لینا وغیرہ۔

سوال۴:غیبت کے متعلق لکھیں۔

غیبت:

اخلاقی بیماریوں میں غیبت جس قدر بڑی بیماری ہے بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں اس قدر عام ہے۔ بہت کم لوگ ہوں گے جو اس بیماری سے محفوظ ہوں گے۔ اللہ تعالی نےمسلمانوں کو اس گناہ سے بچنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا ہے:۔
ترجمہ: اور برا نہ کہو پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کو ، بھلا خوش لگتا ہے۔ تم میں کسی کو کہ کھائے گوشت اپنے بھائی کا جو مردہ ہو، تو گھن آتی ہے تم کو اس سے۔(سورة الحجرات:۱۳)

غیبت کے لیے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کی تمثیل انتہائی بلیغ ہے۔ کیونکہ جس شخص کی غیبت کی جاتی ہے، وہ اپنی مدافعت نہیں کر سکتا۔ اس طرح غیبت سے باہمی نفرت کو ہو املتی ہے اور دشمنی کے جذبات بھڑکتے ہیں۔ غیبت کے مرض میں مبتلا شخص خود کو عموماً عیبوں سے پاک تصور کرنے لگتا ہے، اور جس کی غیبت کی جائے وہ اپنے عیب کی تشہیر ہو جانے کے باعث اور ڈھیٹ ہو جاتا ہے۔ غرض غیبت ہر لحاظ سے معاشرتی سکون کو برباد کرتی ہے۔

حدیث میں آیا ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و علیٰ آلہ واصحابہ وسلم نے معراج کے واقعات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ میں نے ایک گروہ کو دیکھا کہ ان کے ناخن تانبے کے تھے، اور وہ لوگ اس سے اپنے سینوں کو نوچ رہے تھے۔ میں نے جبریل علیہ السّلام سے دریافت کیا۔ یہ کون لوگ ہیں؟ فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھاتے ہیں اور ان کی عزت و آبر و بگاڑتے ہیں (یعنی غیبت کرتے ہیں)