اے ہم سخن وفا کا تقاضا ہے اب یہی تشریح

0

شاعر : ناصر کاظمی۔

تعارفِ غزل : 

یہ شعر ہماری درسی کتاب کی غزل سے لیا گیا ہے۔ اس غزل کے شاعر کا نام ناصر کاظمی ہے۔

تعارفِ شاعر :

اک ایسے دور میں جب غزل معتوب تھی، ناصر کاظمی ایسے منفرد غزل گو کے طور پر ابھرے، جنھوں نے نہ صرف اجڑی ہوئی غزل کو نئی زندگی دی، بلکہ فطرت اور کائنات کے حسن سے خود بھی حیران ہوے، اور اپنے تخلیقی جوہر سے دوسروں کو بھی حیران کیا۔ احساس تحّیر ہی ناصر کی شاعری کی وہ خوشبو تھی، جو فضاؤں میں پھیل کر اس میں سانس لینے والوں کے دلوں میں گھر کر لیتی ہے۔ 

غزل نمبر (2)

اے ہم سخن وفا کا تقاضا ہے اب یہی
میں اپنے ہاتھ کاٹ لوں، تو اپنے ہونٹ سی

تشریح : یہ غزل شاعر ناصر کاظمی نے لکھی ہے جس میں وہ قیام پاکستان کے وقت کے تناظر میں لکھتے ہیں کہ میرے ہم وطنوں اب شاید میں بھی جستجو چھوڑ دوں اور تم بھی شکایت سے باز آجاؤ۔ شاعر نہایت حساس ہیں انھوں نے آزادی کے جبر اور ہجرت کی تکالیف بہت قریب سے دیکھی ہیں۔ انھوں نے لوگوں کو اجڑتے دیکھا جس پر وہ لوگوں کو تسلی دیتے ہیں کہ ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ انقلاب برپا کیا جائے۔ وہ لوگوں کو احتجاج کرنے سے روکتے ہیں اور خود بھی شکایت نہیں کرتے۔

کن بے دلوں میں پھینک دیا حادثات نے
آنکھوں میں جن کے نور نہ باتوں میں تازگی

تشریح : یہ غزل شاعر ناصر کاظمی نے لکھی ہے جس میں وہ بتاتے ہیں کہ ہجرت کے واقعات نے ان پر گہری چھاپ چھوڑ دی ہے۔ پاکستان جن مقاصد کے لیے بنایا گیا تھا وہ مقصد ہرگز پورے نہیں ہوئے بلکہ لوگوں نے عدل و انصاف کرنا چھوڑ دیا۔ لوگ وہ اصول بھول گئے جن کےلیے پاکستان کی جدوجہد کی گئی۔ وہ لوگوں سے نالاں ہو کر کہتے ہیں کہ حالات نے مجھے کس نہج پر لاکھڑا کیا ہے یہ لوگ نہ تو حق گو ہیں نہ حق کے پیروکار ہیں۔ وہ موجودہ رہنماؤں کو دیکھ کر افسردہ ہیں کہ ان کو حق و باطل میں تمیز نہیں ان کے دل سخت ہو گئے ہیں۔

بول اے مرے دیار کی سوئی ہوئی زمیں
میں جن کو ڈھونڈتا ہوں، کہاں ہیں وہ آدمی

تشریح : یہ غزل شاعر ناصر کاظمی نے لکھی ہے جس میں وہ بتاتے ہیں کہ قیام پاکستان سے لوگوں کو بہت امیدیں تھیں کہ وہاں انصاف کا بول بالا ہوگا۔ اسلام کے مطابق زندگی گزاری جائے گی مگر یہاں تو صد افسوس کہ ملک اب ایسے حکمرانوں کے ہاتھ میں ہے جو اس کے قابل نہیں۔ وہ قیام پاکستان کے رہنماؤں کو یاد کرتے ہوئے دکھی دل سے کہتے ہیں کہ اب ان جیسے کردار و اوصاف کے لوگوں کو کہاں ڈھونڈوں۔ آج کل کے حکمرانوں میں ہمیں ان کی زرا جھلک نظر نہیں آتی۔ وہ قائداعظم محمد علی جناح جیسے بااصول شخص کو پاکستان کے لیے موزوں سمجھتے ہیں مگر افسوس کہ ان کو قدرت نے زیادہ وقت نہ دیا۔

میٹھے تھے جن کے پھل، وہ شجر کٹ کٹا گئے
ٹھنڈی تھی جس کی چھاؤں وہ دیوار گر گئی

تشریح : یہ غزل شاعر ناصر کاظمی نے لکھی ہے جس میں وہ بتاتے ہیں کہ مسلمانوں نے بڑے تناول درخت جیسے قائدین کی زیر نگرانی میں یہ ملک حاصل کیا۔ وہ ان بڑے رہنماؤں کو پھل دار شجر کہہ کر مخاطب کرتے ہیں کہ جیسے شجر دھوپ جھیل کر ہمیں سایہ اور پھل دیتا ہے ویسے ان لوگوں کی محنت سے پھل کی صورت ہمیں یہ ملک ملا مگر اب وہ قائدین دنیا سے رخصت ہو گئے ہیں اب وہ ٹھنڈی چھاؤں نہ رہی۔شاعر ایسے برے حالات اور برے حکمرانوں کی قیادت میں قائداعظیم محمد علی جناح جیسے لیڈر کو یاد کرتے ہیں۔

بازار بند، راستے سنسان، بے چراغ
وہ رات ہے کہ گھر سے نکلتا نہیں کوئی۔

تشریح : یہ غزل شاعر ناصر کاظمی نے لکھی ہے جس میں وہ بتاتے ہیں کہ آزادی کے بعد جب تک یہ ملک ان قائدین کے ہاتھوں میں تھا تو سب اچھا تھا ان کی بااصول حکومت میں عوام کو انصاف ملتا تھا۔ مگر جیسے ہی وہ سایہ دار درخت جیسے عظیم لوگ رخصت ہوئے ملک میں انتشار نے جنم لے لیا۔ چوری چکاری ، افراتفری اور ڈکیتیاں ہونے لگیں۔یہ ڈاکوؤں کا راج شاعر پر بہت گراں گزرتا ہے۔وہ اب دن کو چین نہیں پاتے نہ رات کو سکون کی نیند کر پاتے ہیں۔وہ ملک کو موجودہ قیادت کے ہاتھوں میں دیکھ کر مطمئن نہیں ہیں۔

ناصرؔ بہت سی خواہشیں دل میں ہیں بے قرار
لیکن کہاں سے لاؤں ، وہ بے فکر زندگی

تشریح : یہ غزل شاعر ناصر کاظمی نے لکھی ہے جس میں وہ بتاتے ہیں کہ موجودہ حالات ایسے نہیں ہیں کہ جن میں انسان بے فکری کی زندگی گزار سکے۔ اب پریشانیاں اور باقی مصائب نے جیسے اس ملک کا رستہ دیکھ لیا ہو۔ وہ ماضی کو یاد کرتے ہیں جب ہر کوئی بے فکری کی زندگی گزارتا تھا جب ہر روز عید اور ہر شب ، شب برات ہوا کرتی تھی مگر پھر وہ قیادت چھن گئی اور یہ ملک اندھے کنویں میں گر گیا۔ برائیوں نے اس ملک کو اپنے حصار میں لے لیا۔یہ لوگ اب پہلے والے حالات کو یاد کرتے ہیں لب پر شکوہ ہے کہ وہ پہلے جیسے حالات پھر لوٹ آئیں۔

سوال ۱ : چند جملوں میں وضاحت کیجیے :

(الف) دل میں اک لہر سی اٹھنے کا مفہوم کیا ہے؟

جواب : ناصر کاظمی کے اس مصرعے “دل میں اک لہر سی اٹھنی” سے مراد خوشی کا جذبہ ہے۔ ایک تازہ ہوا کے جھونکے کی طرح فرحت بخش ہے۔

(ب) خانۂ دل میں کیسا شور برپا ہے؟

جواب : دل میں کسی دیوار سایہ دار کے گرنےکی صدا کی گونج کا شور ہے۔ کسی بڑے حادثے اور صدمے سے دوچار ہونے کی صدائے بازگشت ہے۔

(ج) خامشی ہم سخن کیسے بنتی ہے؟

جواب : جب محبوب خاموش ہو جائے تو پھر خاموشی کا خیال ہی دمساز اور ہم سخن ہوتا ہے۔

(د) شاعر نے ماضی کی یادوں کو بے نشاں جزیرے کیوں کہا ہے؟

جواب : ماضی کی اقدار کو زوال آگیا اور مقاصد تشکیل پاکستان کو نظر انداز کر دیا گیا۔ اس لیے شاعر ماضی کی یادوں کو بے نشاں جزیر سے کہہ رہا ہے جو خود غرضیوں کے طوفانوں میں ڈوب رہےہیں۔

(ہ) زندگی شہر کی بے چراغ گلیوں میں ڈھونڈتی ہے؟

جواب : شاعر کا محبوب وہ عظیم قائد ہے جس کی قیادت میں آزادی کا سفر طے ہوا اور شاعر کو اب بھی اس قائد کی تلاش ہے جس کے جانے سے ویرانی بڑھی ہے۔

(و) شاعر کے نزدیک وفا کا تقاضا کیا ہے؟

جواب : یہ کہ میں زمانے کی ناانصافیوں کے خلاف تگ و دو بند کر دوں اور تو شکوہ شکایت کرنا بند کر دے۔

(ح) حادثات نے شاعر کو کیسے لوگوں کے درمیان لاپھینکا ہے؟

جواب : حادثات نے شاعر کو حقائق کو دیکھنے سے عاری اور حق بات کہنے سے معذور لوگوں کے درمیان لا پھینک دیا۔

سوال 2 : ناصر کاظمی کی دوسری غزلوں میں ردیف نہیں ہے محض قافیہ ہے۔ چنانچہ معلوم ہوا کہ شعر کے لیے ردیف ضروری نہیں البتہ قافیے کا ہونا ضروری ہے۔ آپ اپنی کتاب کے حصہ غزل میں کوئی اور ایسی غزل تلاش کیجیے جس میں ردیف نہ آئی ہو؟

جواب : اس کتاب میں علامہ محمد اقبالؒ کی پہلی غزل” جب عشق سکھاتا ہے آداب خود آگاہی” ہے جس میں قافیہ ہے مگر ردیف ہے۔

سوال 3 : ناصر کاظمی کے ہاں شجر اور دیوار کے الفاظ بطور استعارہ کس کے لیے استعمال ہوئے ہیں؟

جواب : ناصر کاظمی کے ہاں شجر اور دیوار کے الفاظ بطور استعارہ ان عظیم قائدین آزادی کے لیے استعمال ہوتے ہیں جنھوں نے قیام پاکستان میں اہم کردار ادا کیا۔

سوال 4 : ناصر کاظمی کی پہلی غزل کے پہلے دو شعروں میں جو تشبہات استعمال ہوئی ہیں ان کی وضاحت کیجیے۔

جواب : ناصر کاظمی کی پہلی غزل کے پہلے دو شعروں میں جو تشبیہات استعمال ہوئے ہیں ان میں دل میں لہر اٹھنے کو ہوا کے چلنے سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اور دوسرے شعر میں دل میں شور اٹھنے کو دیوار کے گرنے سے تشبیہہ دی گئی ہے۔