ناصر کاظمی ناقدین کی نظر میں

0

ناصر کاظمی 1925ء میں پیدا ہوئے اور 1972ء میں وفات پائی۔ ان کا شمار ہمارے  ایسے لکھاریوں میں ہونا چاہیے کہ جنہوں نے زندگی کی بہت کم بہاریں دیکھیں ،لیکن بہت تھوڑے وقت میں بڑے پیمانے پر لکھا اور مرنے سے پہلے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بلندی تک پہنچا دیا۔ ناصر کاظمی کی وفات کے فوری بعد احمد مشتاق نے ان کی شاعری اور شخصیت پر لکھی گئی تحریروں کو اکٹھا / مرتب کیا اور ایک مجموعہ بنام “ہجر کی رات کا ستارہ” منظر عام پر لائے۔ اور اب 40 سال بعد مشتاق احمد نے باصر کاظمی کے اشتراک و تعاون سے اس کتاب کا نظر ثانی شدہ ایڈیشن ترتیب دیا ہے۔

ناصر کاظمی نے شاعری میں جو کامیابیاں حاصل کیں، اس حوالے سے ان سالوں میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ ان تحریروں کی اچھی طرح چھان پھٹک کر کے ان میں سے قابل قبول مواد کو نظر ثانی شدہ ایڈیشن “ہجر کی رات کا ستارہ” میں شامل کیا گیا ہے۔ اس ایڈیشن کی بدولت کتاب کے حجم اورمعیار میں گراں قدر اضافہ ہوا۔

اب تک یہ تاثر دیا جاتا رہا ہے کہ ناصر کاظمی کے پہلے مجموعہ”برگ ِنے” کی اشاعت کے بعد ناصر کاظمی نے جو کچھ بھی لکھا، اس تک نقادوں کی رسائی ہوئی ہے اور نا قدین ناصر کاظمی کے کام کے معیار اور قابلیت کو ماپنے کے حوالے سے بہتر ماحول میں ہیں۔ پہلے ایڈیشن کے مضامین سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ناصر کاظمی کی شاعری کے ناقدین اب تک ناصر کاظمی کے پہلے زمانے کے سحر میں مبتلا تھے، جس زمانے کا انہوں نے “برگِ نے” میں ذکرکیا۔ بلاشبہ وہ زمانہ دلکشی اورعظمت و اہمیت میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔

کاظمی اردو شاعری میں اپنی زندگی/ زمانے کے لاثانی تجربات کی عکاسی کرتے ہوئے ایک نئی آواز بن کر ابھرے تھے۔ تقسیم کے بوجھ تلے دبے لوگوں کے لیے ایک ایسا زمانہ تھا کہ سرحد کےدونوں طرف لوگوں کو اس کے دور رس نتائج سے دوچار ہونا پڑا۔ بعد میں محمد حسن عسکری نے یہ ثابت کیا کہ ناصر کاظمی ہی وہ واحد شاعر تھے کہ جنہوں نے اس تجربے کو اپنی غزل میں شامل کیا۔

دلکشی اور عمدگی کی خوبی سے مالا مال یہ مشاہدات و تجربات قارئین میں بے حد مقبول ہوئے۔ سہیل احمد خان نے اپنے ایک مضمون میں اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ کاظمی کے پرستار اس سے بے پناہ محبت کی بنیاد پر یہ بات بھول گئے کہ ایک فطری شاعر کبھی بھی کسی ایک لہجے یا طریقہ کار کا پابند نہیں ہوتا چاہے وہ کتنا ہی مشہور کیوں نہ ہو۔وہ ہمیشہ کچھ مختلف اور نیا کرنے کا جذبہ رکھتا ہے۔

ناصر کاظمی کے دوسرے مجموعہ “دیوان”میں شامل غزلیں  اس بنا پر مختلف ہیں کہ ان میں رومانیت کی بجائے پختگی نظر آتی ہے۔ بس اتنا ہی نہیں، ناصر کاظمی کی شاعری میں ایک موڑ یہ بھی آیا کہ جب وہ غزل کو چھوڑ کر نظم کی طرف آئے، ان کی نظموں کا مجموعہ “نشاطِ خواب” ایک مختلف چیز ہے۔

احمد صاحب ناصر کاظمی کی نظم گوئی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ناصر کاظمی کی شاعری میں روایتی حکایات یا مجازی قصوں کی جھلک ہے۔ یہ تجربات ان کے بچپن کے تجربات اور اس علاقائی تہذیب و تمدن کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ جس میں عجمی اور ہندی مزاج باہم ایک ہو گئے تھے۔ ان دو مختلف تہذیبوں کے ملاپ پر بات کرتے ہوئے احمد صاحب نے کاظمی کے  دوہا، بھا جن، روایتی داستانوں اور شاعر کبیر اور میرا بائی میں گہرے شغف کی طرف اشارہ کیا ہے۔ یہاں پر وہ ناصر کاظمی کے منظوم ڈرامہ “سر کی چھایا” کا حوالہ دیتے ہیں۔ اس ڈرامے میں ناصر کاظمی کی ہندی کے بارے میں سمجھ بوجھ نظر آتی ہے۔

ایک اور نقاد (ساجد علی) نے بھی اس ڈرامے پر تنقید کی ہے۔ دوسرے نقاد کاظمی کی منظوم ڈرامہ لکھنے کی کوششوں سے بے خبر نظر آتے ہیں۔ پورے مجموعے میں سہیل احمد اور شمیم نے اس بات پر روشنی ڈالی ہے کہ جس طرح غالب نےغزل کو  تنگ گلی کہا تھا ناصر کاظمی نے اپنے شاعرانہ لہجے کےاظہار کے لئے غزل کو ایک وسیع میدان عطا کیا۔  باقی سب ناقدین  ناصر کاظمی کو عام غزل گو ثابت کرنے کی کوشش میں لگے رہے۔

صرف شمیم حنفی نے ہی ان کی تمام تحریروں پر غور کیا ہے۔ انہوں نے ناصر کاظمی کے نظموں کے مجموعہ “نشاطِ خواب” میں شامل تمام نظموں پر توجہ دی، خاص طور پر ان کی سب سے لمبی نظم پر جس کا عنوان بھی مجموعے کے نام پر ہے۔  حنفی کے مطابق یہ ان کی شاہکار شاعری ہے۔ حنفی کی وضاحت کے مطابق نظم اس ثقافتی ماحول کو جو کہ حالات کی وجہ سے دھندلا ہو چکا تھا،زندگی میں اس طرح اجاگر کرتی ہے کہ دو جمالیاتی روایات باہم ایک ہو جاتی ہیں۔ انہوں نے “پہلی بارش” میں موجود غزلوں پر بہت تفصیل سے بات کی ہے۔ ان کے مطابق غزلوں کا یہ مجموعہ اردو روایت میں سب سے منفرد اور جداگانہ کام ہے۔

حنفی کے مطابق  کوئی بھی یہ کہہ سکتا ہے کہ شاعر کے اندر کی دنیا میں ماضی کو سانس لیتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ سب کی سب غزلوں میں زمانہ ماضی کی جھلک ہے۔ اس سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ محبت کی داستان کو غزل میں ایک نئے انداز میں پیش کیا گیا ہے۔اس سے پہلے غزل  اس انداز سے واقف نہیں تھی۔یہاں حنفی یہ کہتے ہیں کہ شاعری اور داستان گوئی غزل کی روایت میں ایک نئی چیز ہیں۔

تحریر امتیاز احمد، کالم نویس، افسانہ نگار
[email protected]
ناصر کاظمی ناقدین کی نظر میں 1